آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی عمیر الیاسی سے ملاقات
عمیر الیاسی کی قیادت میں مختلف ریاستوں سے 50 سے زائد مساجد کے اماموں نے ہریانہ بھون میں ملاقات کی

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی، 24 جولائی :۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے جمعرات کو نئی دہلی کے ہریانہ بھون میں تنظیم ائمہ مساجد کےسر براہ عمیر الیاسی کی قیادت میں 50 سے زیادہ مساجد کے اماموں سے ملاقات کی ۔
آر ایس ایس ذرائع کے مطابق اس کا بنیادی مقصد سماج میں فرقہ وارانہ خلیج کو پر کرنا اور امن اور اتحاد کی فضا پیدا کرنا ہے۔ ڈاکٹر بھاگوت کے علاوہ آر ایس ایس کے سینئر عہدیدار بھی اس اہم میٹنگ میں شریک ہوئے جن میں جوائنٹ جنرل سکریٹری کرشنا گوپال اور اندریش کمار کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اندریش کمار مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے سربراہ ہیں، جو کہ آر ایس ایس سے ملحق ہے جو ملک بھر میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب جھکاؤ رکھنے والیے مسلم طبقے کے رہنماؤں سے بات چیت کا پلیٹ فارم تیار کرتی ہے۔ ذرائع کے مطابق آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ عمیر احمد الیاسی کی ایما پر یہ میٹنگ ہوئی ہے۔ اس میں مولانا الیاسی کے علاوہ دیگر مختلف ریاستوں کے مساجد سے وابستہ اماموں نے شرکت کی ۔اس ملاقات کے دوران کن امور پر آر ایس ایس سر براہ سے بات چیت ہوئی اور کیا موضوع گفتگو کا مرکز رہا تفصیلی معلومات سامنے نہیں آ سکی ہے مگر آر ایس ایس سے وابستہ ذرائع نے سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہند و مسلم کے درمیان پر امن فضا کے قیام کیلئے ملاقات کا مقصد قرار دیا ہے ۔
خیال رہے کہ امام عمیر الیاسی بی جے پی کے حامی اور آر ایس ایس نواز کے طورر پر مسلم حلقوں میں معروف ہیں ۔ ان کی شخصیت عام مسلمانوں کے بر خلاف نظریات کے حامل کے طور پر جانی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس سر براہ اکثر امام عمیر الیاسی سے ملاقات کرنے آتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آر ایس ایس مسلم لیڈروں کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہی ہو۔ 2022 میں، جب گیانواپی مسجد، حجاب تنازعہ، اور آبادی پر کنٹرول کا مسئلہ متنازعہ بن گیا، ڈاکٹر بھاگوت نے کئی سینئر مسلم وفود سے ملاقات کی، جن میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی، اور دیگر شامل تھے۔
اس کے علاوہ، ڈاکٹر بھاگوت نے گزشتہ سال دسمبر میں، مندر-مسجد تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’کوئی بھی فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دے کر ہندوؤں کا لیڈر نہیں بنے گا۔‘‘اس وقت ان کے بیان کو اتحاد قائم کرنے اور ہندو مسلم کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔