آئی آئی ٹی دہلی میں درج فہرست ذات کے طلباء کی موت پر سپریم کورٹ سخت
سپریم کورٹ نے طلباء کی موت کی آزادانہ تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر نوٹس جاری کیا،والدین نے درخواست دائر کی تھی
نئی دہلی،23 ستمبر :۔
رواں سال انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، دہلی (آئی آئی ٹی دہلی) میں درج فہرست ذات کے زمرے کے دو طالب علموں کی موت پر سپریم کورٹ نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔متوفی کے والدین نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں بچوں کی موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے درج فہرست ذات کے زمرے سے تعلق رکھنے والے دو طالب علموں کے والدین کی جانب سے دائر درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، دہلی (آئی آئی ٹی دہلی) میں موت کے معاملے میں دائر کی گئی درخواست میں والدین نے ایف آئی آر کے اندراج اور مرکزی ایجنسی کے ذریعہ موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ حکم جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی ڈویژن بنچ نے دیا۔
یہ عرضی دہلی ہائی کورٹ کے 30.01.2024 کے حکم کو چیلنج کرتی ہے، جس کے تحت عرضی گزاروں کی طرف سے دائر کی گئی رٹ درخواست کو خارج کر دیا گیا تھا، جس میں آئی آئی ٹی دہلی میں ان کے بیٹوں کی موت کی ایف آئی آر درج کرنے اور سی بی آئی کی تحقیقات کی ہدایت کی گئی تھی۔ دعوے کے مطابق درخواست گزار نمبر 2 اور 3 کے بیٹے آئی آئی ٹی دہلی میں بی ٹیک کے طالب علم تھے اور ان کی موت آئی آئی ٹی کیمپس میں ہوئی تھی۔ درخواست گزار نمبر 2 کے بیٹے کی موت 01.09.2023 کی رات ہوئی، جبکہ درخواست گزار نمبر 3 کے بیٹے کی موت 08.07.2023 کی رات ہوئی تھی۔
عرضی گزاروں کا الزام ہے کہ دونوں طلبہ کا تعلق درج فہرست ذات برادری سے ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں جبر اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ متوفی طالب علم کی موت سے متعلق حقائق بتاتے ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ تاہم درخواست گزاروں کی جانب سے بارہا شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔درخواست گزاروں کی شکایت یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کی طرف سے نشاندہی کی گئی مختلف تضادات پر غور کیے بغیر "صرف پولیس اسٹیٹس رپورٹ پر انحصار کرتے ہوئے” رٹ پٹیشن کو خارج کر دیا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ “معزز ہائی کورٹ نے مقتولین کی تحقیقاتی رپورٹ بھی نہیں مانگی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ درخواست گزار نمبر 2 اور 3 کے بیٹوں کی موت خودکشی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تاہم، اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے معزز ہائی کورٹ کے سامنے کوئی شواہد موجود نہیں تھا۔