آئین کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے اس فیصلے کو قبول کرنا مشکل ہے: جسٹس گانگولی
سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک کمار گانگولی نے 9 نومبر ہفتے کے روز کہا کہ ایودھیا کے فیصلے نے ان کے ذہن میں شکوک پیدا کردیے ہیں اور وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک کمار گانگولی نے ہفتے کے روز 9 نومبر کو کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے نے ان کے ذہن میں شکوک پیدا کیے ہیں اور وہ اس سے غیر مطمئن ہیں۔ ٹیلی گراف کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ "زیادہ تر لوگ ان باتوں کو واضح طور پر نہیں کہیں گے۔”
72 سالہ جسٹس گانگولی نے کہا ‘‘اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی۔ اسے مسمار کردیا گیا۔ اس کے اوپر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایک مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس سے میرے ذہن میں ایک شک پیدا ہوا ہے…. آئین کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے اس کو قبول کرنا تھوڑا مشکل ہے۔”
گانگولی نے یہ بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جب کسی جگہ پر نماز پڑھی جاتی ہے تو نمازی کے اس عقیدہ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسجد ہے۔
اگرچہ 1856-57 میں نہیں، لیکن 1949 کے بعد سے وہاں نماز پڑھی گئی، اس بات کا ثبوت ہے۔ چنانچہ جب ہمارا آئین وجود میں آیا، وہاں نماز پڑھی جارہی تھی۔ گانگولی نے کہا کہ ایسی جگہ جہاں نماز ادا کی جاتی ہے اگر اس جگہ کو مسجد کے طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے تو اقلیتی برادری کو حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کی آزادی کا دفاع کرے – جو آئین کے ذریعہ ضمانت فراہم کردہ بنیادی حق ہے۔
سابق سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ ‘‘پھر ایک مسلمان آج کیا دیکھ رہا ہے؟ کہ اتنے سالوں سے ایک مسجد کھڑی تھی، جسے منہدم کر دیا گیا ہے۔ اب عدالت اس جگہ پر دوسری عمارت بنانے کی اجازت دے رہی ہے صرف اس ایک مبینہ خیال پر کہ یہ زمین رامللا کی ہے۔ کیا سپریم کورٹ صدیوں پرانی زمین کی ملکیت کے بارے میں فیصلہ دے گی؟ کیا سپریم کورٹ یہ بھول جائے گی کہ اتنے عرصے سے وہاں ایک مسجد موجود تھی جو آئین کے آنے کے بعد وہاں موجود تھی؟ اور آئین اور اس کی دفعات کے ساتھ اس کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔’’
گانگولی نے مزید کہا ‘‘آئین کے منظور ہونے سے پہلے جو کچھ تھا وہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہندوستان میں جمہوری حکومت نہیں تھی۔ پھر کہاں ایک مسجد تھی، کہاں مندر تھا، کہاں بودھ ستوپ تھا، کہاں چرچ تھا… اگر ہم ایسے فیصلے کرنے بیٹھتے ہیں تو بہت سارے مندر اور مسجدیں اور دیگر ڈھانچے مسمار کرنے پڑیں گے۔ ہم افسانوی حقائق میں نہیں جا سکتے۔ رام کون ہے؟ کیا کوئی تاریخی طور پر ثابت شدہ صورتحال ہے؟ یہ صرف عقیدے اور یقین کی بات ہے”
“سپریم کورٹ نے کہا کہ عقیدے کی بنیاد پر آپ کو کوئی ترجیح نہیں مل سکتی۔ اور وہ کہہ رہے ہیں کہ مسجد کے نیچے ڈھانچے تھے۔ لیکن ڈھانچہ کوئی مندر نہیں تھا۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی۔ پھر اب ایک مسجد کو منہدم کرکے ایک مندر تعمیر کیا جارہا ہے؟’’
"500 سال پہلے اس زمین کی ملکیت کس کے پاس تھی ، کیا کسی کو پتہ ہے؟ ہم تاریخ کو دوبارہ بنا نہیں سکتے۔ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ ہے اسے محفوظ رکھنا۔ جو کچھ بھی ہے اس کے حقوق کا تحفظ کرنا۔ تاریخ کو دوبارہ بناناعدالت کا فرض نہیں ہے۔ پانچ صدیوں پہلے وہاں کیا تھا یہ عدالت کو معلوم نہیں۔ عدالت کو یہ کہنا چاہیے کہ مسجد وہاں تھی- ایک حقیقت۔ کوئی تاریخی حقیقت نہیں، (لیکن) ایک ایسی حقیقت جو ہر شخص نے دیکھا ہے۔ اس کے انہدام کو ہر ایک نے دیکھا ہے۔ اسے بحال کیا جانا چاہیے۔ اگر انہیں مسجد رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے، تو پھر آپ حکومت کو یہ ہدایت کس طرح دے رہے ہیں کہ مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی دیں؟ کیوں؟ آپ قبول کر رہے ہیں کہ مسجد کا انہدام مناسب نہیں تھا۔’’
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کسی منصفانہ فیصلے پر کس چیز پر غور کریں گے تو انہوں نے کہا "ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی۔ یا تو میں اس علاقے میں مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ہدایت کرتا۔ یا اگر یہ علاقہ متنازعہ ہے تو میں نے کہا ہوتا کہ اس علاقے میں کوئی مسجد نہیں، کوئی مندر نہیں بلکہ آپ ہسپتال یا اسکول یا اس طرح کی کوئی چیز یا کالج بنا سکتے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں مسجد یا مندر بنائیں۔ جو ہندوؤں کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہ وشوا ہندو پریشد یا بجرنگ دل کا دعوی ہے۔ اس کے بعد وہ کسی بھی مسجد، کسی بھی چیز کو توڑ سکتے ہیں۔ انہیں حکومت کی طرف سے حمایت مل رہی تھی۔ اب انہیں عدلیہ کا تعاون بھی حاصل ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ زیادہ تر لوگ یہ باتیں واضح طور پر نہیں کہیں گے۔”