آئین جمہوریت کی بنیادکا پہلاپتھر، آئین کی بالادستی ختم ہوئی توجمہوریت بھی زندہ نہیں رہ سکے گی
دہلی کے اندراگاندھی انڈوراسٹیڈیم میں منعقد تحفظ آئین ہند کنونشن سے مولانا ارشدمدنی اوردیگر ملی قائدین کا خطاب،ملک میں فرقہ پرستی،مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت اور وقف ترمیمی بل پر اظہار تشویش
نئی دہلی، 3نومبر:۔
ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی ،مسلمانوں کے خلاف نفرت ،غیر قانونی طریقےسے آئے دن مساجد اور درگاہوں پر چلنے والے بلڈوزر جیسی کارروائیوں نے ملک میں آئین کے تئیں عدم اطمینان کی فضا پیدا کر دی ہے۔ملک میں آئین کی بالا دستی کیلئے آج یہاں اندراگاندھی انڈوراسٹیڈیم میں جمعیۃ علمائے ہند کی قیادت میں تحفظ آئین ہند کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی ۔ اس موقع پر جم غفیر سے خطاب کرتےہوئےجمعیةعلماءہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں علماء، مدارس اورجمعیةعلماءہند کے تاریخی اورمثالی کردارکو اجاگرکرتے ہوئے ایک بارپھر کہا کہ ملک کی آزادی مسلمانوں کی طویل جدوجہد اورقربانیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی تشکیل ملک کو غلامی زنجیروں سے آزادکرانے کے لئے نہیں ہوئی تھی بلکہ 1832اور1857میں علماءکے ذریعہ کئے گئے جہادکے بعدبرطانیہ اورہندوستان کے درمیان رشتوں میں جو کشیدگی آگئی تھی اس کو دورکرنے کے لئے ہوئی تھی۔یہ جمعیةعلماءہند ہی تھی کہ جس نے ملک کی جدوجہد آزادی کے لئے کانگریس کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبورکیا ۔
ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں کو ملک میں آگ لگانے کی پوری جھوٹ ملی ہوئی ہے مذہب کی بنیادپر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہورہی ہے طرح طرح کے مذہبی ایشوزکوہوادیکر فرقہ ورانہ کشیدگی اوراشتعال پیداکرنے کی منظم کوشش ہورہی ہے، جمعیةعلماءہند ان حالات میں اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چل رہی ہے، جمعیةعلماءہند اپنے قیام سے اب تک ان اصولوں پر گامزن ہیں جو ان کے اکابرین کا اصول رہاتھا اوریہ اصول پیارومحبت، اتحاداوریکجہتی کا اصول ہے کیونکہ ان کایہ مانناتھا کہ ہم خواہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں ملک کااتحاداورسالمیت ہماری اولیت ہونی چاہئے اوریہ اتحادوسالمیت تبھی برقراررہ سکتی ہے جب ہندومسلم سکھ اورعیسائی کاندھے سے کاندھاملاکرایک ساتھ کھڑے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج سب سے بڑاخطرہ اس سیکولردستورکو لاحق ہے جس نے ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق اوراختیارات دیئے ہیں اس دستورمیں ملک کی اقلیتوں کو خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں مگر اب ان اختیارات کو چھین لینے کی کوشش ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سیکولردستورنے ہی ہر شہری کو مذہبی آزادی بھی اوراپنی پسند کا مذہب اپنانے اوراس کی تبلیغ کرنے کا اختیاردیاہے اسی دستورنے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اورانہیں چلانے کی مکمل آزادی دی ہے، مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی کہاہے؟ کبھی ان مدارس کو بندکرنے کی سازش ہورہی ہے توکبھی یکساں سول کوڈلانے کا سوشہ چھوڑاجاتاہے ۔
انہوں نے وقف ترمیمی بل کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ ہماری وقف املاک کو ہڑپ لینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس طرح کے اعتماداورکوششیں دستورکے رہنمااصولوں کی صریحاخلاف ورزی ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ آئین کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران ملک میں جو یک رخی سیاست کی جارہی ہے اس نے آئین کے وجودپر سوالیہ نشان لگادیاہے بظاہر آئین کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اس کا قصیدہ پڑھاجاتاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ آئینی احکامات کی صریحاخلاف ورزی کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نت نئے حربوں سے پریشان کیا جارہاہے۔
آسام شہریت معاملہ، بلڈوزرکارروائی،مدارس کے خلاف کارروائی اور ہلدوانی فسادجیسے ایشوزکا ذکرکرتے ہوئے مولانا مدنی نے ان پر سپریم کورٹ کے ذریعہ دیئے گئے حالیہ فیصلوں کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ لاچاراور بے بس انسانوں کی پناہ گاہ بن رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست جمعیۃ علما ئےہند پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے، یہ سراسرلغواوربے بنیادالزام ہے۔
مولانامدنی نے وقف ترمیمی بل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اوقاف ہمارے آباواجدادکا ورثہ ہے اوراللہ کی ملکیت ہے مگر اب جوترمیمی بل لایاجارہاہے ہم اس کو پوری طرح مستردکرتے ہیں ہم ایسے کسی قانون کو تسلیم نہیں کرسکتے جس سے وقف کی صورت حال اورواقف کی منشاہی بدل جائے ۔
انہوں نے سوال کیا کہ آخرایک مخصوص فرقہ کے خلاف ہی ایسا کیوں ہورہاہے؟ کیا مذہب کی بنیادپر انہیں جینے کا حق نہیں؟ انہوں نے انتباہ کیا کہ مذہب کی بنیادپر عوام کو تقسیم کرنا ملک کو کمزورکرنا ہے،یہ جوکچھ ہورہاہے اس کو دیکھتے ہوئے ہمیں مجبورہوکر کہناپڑرہاہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اسلام اورمسلمان دونوں کو مٹادینے کے درپے ہیں مگر انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ اسلام کا یہ چراغ کبھی نہیں بجھے گااورجن لوگوں نے اسے بجھانے کی کوشش کی وہ خودبجھ گئے۔ مولانا مدنی نے ان بیساکھیوں کا خاص طورپر ذکر کیا جن پر موجودہ حکومت ٹکی ہوئی ہے، اورکہا کہ اگر خدانخواستہ وقف ترمیمی بل منظورہوجاتاہے تو اس کی ذمہ داری سے وہ پارٹیاں بھی نہیں بچ سکتیں جن کی حمایت سے یہ سرکارچل رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست نظریہ کی پالیسی ملک کے اتحاداوریکجہتی کے لئے ایک بڑاخطرہ ہے اور جو لوگ اس پالیسی کے حامی ہیں انہیں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ اخوت وہمدردی اورپیارومحبت سے ہی یہ ملک زندہ رہ سکتاہے۔ نفرت اورمذہب کی بنیادپر کی جانے والی تقسیم ملک کو تباہ وبربادکردیگی۔
اپنے خطاب کے دوران مولانا مدنی نے فلسطین میں جارحیت ظلم وبربریت پر اپنی گہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل امریکہ کی مددسے غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے اورپوری دنیاخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے انسانی حقوق کی وکالت کرنے والے بھی چپ ہیں اوراقوام متحدہ کا جنرل سکریٹری ایک بیان جاری کرکے چپ ہوجاتاہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک غاصب ہے جس نے فلسطین پر قبضہ کررکھاہے اورفلسطینی اس قبضہ سے اپنے ملک کوآزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں۔
اسٹیڈیم میں موجودلوگوں کو مولانا مدنی نے تلقین کی کہ وہ محبت کے پیغام کو عام کریں کیونکہ ایسا کرکے ہی فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈکے صدرمولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے وقف ترمیمی بل پر مرکوزاپنی تقریرمیں ترمیمی نکات کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت خطرناک ترمیم ہے اوراگر یہ بل منظورہوگیا توہماری مساجد، مقابر، درگاہ اورقبرستانوں کا وجودخطرہ میں پڑجائے گا۔ سپریم کورٹ کے وکیل فضیل ایوبی نے ان ترمیمات کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی جو مجوزہ بل میں کی گئی ہیں، چندرابابوڈائیڈوکے قریبی اورتلگودیشم پارٹی کے نائب صدرنواب جان عرف امیربابونے کہا کہ وقف کو ہڑپنے کے لئے جوکوشش ہورہی ہے اس کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں متحدہوکر آگے بڑھناہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نائیڈوجی ایک سیکولرذہن کے لیڈرہیں اورہمیں پورایقین ہے کہ وہ اس بل کو منظورہونے سے روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے۔
قابل ذکرہے کہ کنونشن میں بہت اہم پانچ تجاویز بھی پیش کی گئیں جس میں سب سے پہلی تجویزمیں فلسطین میں امریکہ کی پشت پناہی میں جاری اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کی مذمت کی گئی اورعالمی برادری سے ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل بھی کی گئی ۔اس تجویزکے متن کو تلنگانہ جمعیةعلماءکے ناظم اعلیٰ مفتی زبیرنے پیش کیا، دوسری تجویز مدارس اسلامیہ اوراس کے تشخص سے متعلق تھی جسے مفتی اشفاق اعظمی نائب صدرجمعیةعلماءاترپردیش نے پیش کیا تیسری تجویز یکساں سول کوڈسے متعلق مولانا محمد مسلم قاسمی صدرجمعیةعلماءدہلی چوتھی تجویز آئین ہند کی تحفظ سے متعلق پروفیسر نصراللہ مدراس نے پیش کیا اورپانچویں تجویز ایڈوکیٹ فضیل ایوبی نے پیش کیا اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیراورجمعیةاہل حدیث ہند کے مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے بھی شرکت کی۔