ہماچل پردیش : سنجولی مسجد تنازعہ پر عدالت کا فیصلہ، بالائی تین منزل منہدم کرنے کا حکم
کارپوریشن کورٹ نے دو ماہ کے اندر مسجد کمیٹی کو اپنے خرچ پر تین منزل منہدم کرنے کا حکم دیا،اگلی سماعت
نئی دہلی ،شملہ، 05 اکتوبر
۔ہماچل پردیش کے شملہ واقع سنجولی مسجد تنازعہ پر آج عدالت کا فیصلہ آیا ہے ۔عدالت کا یہ فیصلہ واضح طور پر ہندو تنظیموں کے دباو سے متاثر معلوم ہوتا ہے ۔عدالت نے مسلم فریق کو مسجد کی غیر قانونی تین منزلیں منہدم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کچھ دنوں قبل ہندتو تنظیم نے پوری ریاست میں احتجاج کے دوران انتظامیہ کو خبر دار کیا تھا کہ فیصلہ ہندوؤں کے مواقف ہونا چاہئے ۔ رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو میونسپل کارپوریشن کورٹ میں اس متنازعہ چار منزلہ مسجد کی غیر قانونی تعمیر کو لے کر سماعت ہوئی جو گزشتہ کئی ماہ سے ہندو شدت پسندوں کے نشانے پر تھی ۔ میونسپل کارپوریشن کمشنر بھوپیندر اتری نے مسجد کی تعمیر کی سماعت کرتے ہوئے مسجد کمیٹی کو اہم احکامات دیے ہیں۔ بتایا گیا کہ مسجد کی بالائی تین منزلیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔ عدالت نے حکم جاری کیا کہ مسجد کی دوسری، تیسری اور چوتھی منزل کو گرانا پڑے گا، گزشتہ 14 سال سے مسجد میں غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے سماعت جاری ہے۔ میونسپل کارپوریشن کمشنر نے آج 46 ویں سماعت پر یہ بڑا فیصلہ سنایا ہے۔
مسلم فریق کو دو ماہ کے اندر مسجد کی تین منزلیں گرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی کو اپنے خرچ پر تین منزلیں منہدم کرنے کو کہا گیا ہے۔ عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 21 دسمبر 2024 کو مقرر کی ہے۔ وقف بورڈ کے وکیل بھوپ سنگھ ٹھاکر نے سماعت کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے مقامی لوگوں کو اس معاملے میں فریق بنانے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے مسجد کی بالائی تین منزلیں گرانے کا حکم دے دیا۔ مسجد کمیٹی اور وقف بورڈ کو اپنے خرچ پر ان منزلوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کمیٹی نے خود ان فرشوں کو گرانے کے لیے عدالت میں تحریری درخواست دی تھی۔ میونسپل کارپوریشن کورٹ نے انہیں منہدم کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا ہے۔واضح رہے کہ سنجولی مسجد تنازع پر پوری ریاست میں ہندو شدت پسندوں کے احتجاج کے بعد سرخیوں میں آئی تھی ۔ یہی نہیں بلکہ سنجولی مسجد کے خلاف شروع کی گئی ہندو شدت پسندوں کی تحریک نے پورے ہماچل میں جڑ پکڑ لی تھی اور ہندو شدت پسندوں نے کلو،منالی اور منڈی کی مساجد کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا ۔اس سے قبل 11 ستمبر کو سنجولی میں ہندوو ں نے پرتشدد احتجاج کیا اور مسجد کی جگہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے رکاوٹیں لگا کر انہیں روکنے کی کوشش کی جسے لوگ توڑ کر آگے بڑھنے لگے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ اس میں کئی مظاہرین زخمی ہو گئے۔ نصف درجن پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 28ستمبر کو بھی دھرم بھومی بچاو شدت پسند تنظیم نے مساجد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انتظامیہ کو خبر دار کیا تھا کہ پانچ اکتوبر کو آنے والا فیصلہ ہندوو ں کے موافق ہونا چاہئے ورنہ تنظیم کے ارکان بڑے پیمانے پر حکومت کے خلاف احتجاج شروع کریں گے۔ واضح رہے کہ سنجلی مسجد کے خلاف ہندوتوتنظیموں کے ساتھ کانگریس کے ارکان اور رہنماوں نے بھی شدت پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے مسجد کے انہدام کا مطالبہ کیا تھا جس پر کانگریس کی سکھو حکومت کو ہماچل میں بی جے پی کا ایجنڈہ چلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔