پہلگام حملہ : خاتون ڈاکٹر نے حاملہ مسلم خاتون کے علاج سے انکار کر دیا
پہلگام حملہ کا حوالہ دے کر قابل اعتراض تبصرہ،میں اب کسی مسلمان مریض کا علاج نہیں کروں گی

نئی دہلی ،26 اپریل :۔
پہلگام جموں کشمیر میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بی جے پی اور ہندوتو تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کی مہم چلائی ہے اس کا نتیجہ اب نظر آنے لگا ہے۔اگر چہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے مسلمانوں نے اس حملے کی مذمت کی اور بے قصوروں کی ہلاکت کے خلاف جمعہ کی نماز کے بعد زبر دست مظاہرہ کیا اور طرح سے اس کی مذمت کی مگر نفرت کے سوداگروں نے جو بیانیہ سیٹ کیا وہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہوتے نظر آ رہےہیں ۔ ملک کے متعدد حصوں سے ایسی خبریں آ رہی ہیں جہاں مسلمانوں کو ملازمت سے نکالا جا رہا ہے اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہےاب تو حیران کن طریقے سےمسلمان مریضوں کا علاج کرنے سے نکار کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کولکاتہ میں جہاں مسلمانوں کی ہمدرد ممتا بنر جی برسر اقتدار ہیں حاملہ مسلم خاتون کا ایک ڈاکٹر نے پہلگام حملے کا حوالہ دے کر علاج سے انکار کر دیا۔ کستوری داس میموریل سپر اسپیشلٹی ہسپتال کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سی کے سرکار نے مبینہ طور پر ایک حاملہ خاتون کے علاج سے انکار کرتے ہوئے کہا، "کشمیر کے واقعے کے بعد، میں کسی مسلمان مریض کا علاج نہیں کرو ں گی۔
جنوبی کشمیر کے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات میں اضافہ ہوا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کے مطابق، بندوق برداروں نے ہندو مردوں کو نشانہ بنایا، فائرنگ کرنے سے پہلے ان کی مذہبی شناخت کی تصدیق کی۔
رپورٹ کے مطابق خاتون ڈاکٹر نے انتہائی قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہندوؤں کو آپ کے شوہر کو مار دینا چاہیے، پھر آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں تمام مسلمانوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، حالانکہ مسلم حملہ خاتون گزشتہ سات ماہ سے اس ڈاکٹر کے زیر علاج تھی۔
خاتون کی ایک رشتہ دار ایڈووکیٹ محفوظہ خاتون نے فیس بک پر لکھاکہ”ہم اس واقعے کو بتاتے ہوئے بہت پریشان اور دل شکستہ ہیں۔ میری حاملہ بھابھی، جو گزشتہ سات ماہ سے ڈاکٹر سی کے سرکار کی دیکھ بھال میں ہیں، ان کے علاج سے صرف اس لیے انکار کر دیا گیا کہ ہم مسلمان ہیں۔اسے "امتیازی سلوک کا ایک صریح فعل” قرار دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے بلکہ طبی اخلاقیات اور انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس نفرت انگیز اور امتیازی بیان نے ان کی بھابھی کو جذباتی طور پر جھنجھوڑ دیا ہے: "وہ تب سے رو رہی ہے، پریشان اور خوفزدہ ہیں— نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے اندر بڑھتی ہوئی زندگی کے لیے۔ ایک ایسے وقت میں جب سہارے، ہمدردی اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی، وہ صریح تعصب اور ظلم کا شکار ہو گئیں۔