مسلم منافرت پر مبنی بیان دینے والے ہائی کورٹ کے جج ا پنے بیان پر قائم

جج شیکھر کمار یادو نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر   اپنے طرز عمل کے کسی اصول کی خلاف ورزی  سے انکار کیا

نئی دہلی،17 جنوری :۔

 وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے  انتہائی نفرت انگیز تبصرہ  کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعےطلب کیے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادواپنے متنازعہ بیان پر قائم ہیں ۔انہوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ اپنے تبصرے پر قائم ہیں ، جو ان کے مطابق عدالتی طرز عمل کے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

  رپورٹ کے مطابق، جسٹس یادو نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ارون بھنسالی کو لکھے اپنے خط میں کہا ہے کہ ان کی تقریر آئین میں درج اقدار کے مطابق سماجی مسائل پر خیالات کا اظہار ہے،اور کسی کمیونٹی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے نہیں تھی۔

چیف جسٹس بھنسالی نے 17 دسمبر کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے ملاقات کے بعد جسٹس یادو سے جواب طلب کیا تھا۔یادو سے جواب طلب کرنے والے خط میں ان کی تقریر کے خلاف ایک لاء اسٹوڈنٹ اور ایک سابق آئی پی ایس افسر کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں گئو رکشاسے متعلق ان  کے ایک فیصلے اور کارکنوں کے ذریعے اٹھائے گئے سوالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔یادو نے اپنے جواب میں کہا کہ گئو رکشا سماج کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے اور اسے قانون کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ جسٹس یادو نے  گزشتہ ماہ 8 دسمبر  کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان اکثریتی برادری کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔اس دوران انہوں نے مسلمانوں کے لیے ‘کٹھ ملا’ جیسے قابل اعتراض  لفظ کا استعمال کرتے ہوئےفرقہ وارانہ تقریر کی تھی ۔ یادو نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان بچے تشدد اور جانوروں کے ذبیحہ کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں ،  اس لیے ان میں رواداری  اور فراخدلی نہیں ہے۔یادو نے کہا تھا کہ اس کے مقابلے میں ہندوؤں کو بچپن سے ہی رحمدلی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے بچے عدم تشدد اور رواداری کے جذبے سے بھرے ہوتے ہیں۔  اس تبصرہ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے اس کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا۔