سنبھل شاہی جامع مسجد اوراجمیر  درگاہ سمیت تمام مذہبی مقامات کے خلاف مقدمات بند کرنے کا مطالبہ 

سپریم کورٹ میں عرضی دائر ، عرضی آلوک شرما اور پریا مشرا نے دائر کی ہے ، مرکزی حکومت، اتر پردیش اور پانچ ریاستوں کو فریق بنایا ہے

نئی دہلی، 30 نومبر :

سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے بعد اجمیر درگاہ پر بھی مندر کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ نہ جانے کہاں  جا کر ختم ہوگا ۔ آئے دن مساجد کے خلاف اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور شدت پسند تنظیموں کے ذریعہ ملک کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ملک کا انصاف پسند اور امن پسند طبقہ تشویش میں ہے۔ چنانچہ ان روز روز کے فتنوں پر قدغن لگانے کی کوششیں مختلف تنظیموں کی جانب سے  جاری ہیں۔  اسی طرح کے ایک تازہ معاملہ میں اجمیر شریف درگاہ، بھوج شالہ، سنبھل جامع مسجد، متھرا شری کرشنا جنم بھومی اور گیانواپی سمیت ملک بھر میں مذہبی مقامات کے خلاف دائر مقدمات کی کارروائی پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔

یہ عرضی آلوک شرما اور پریا مشرا نے دائر کی ہے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈوکیٹ نریندر مشرا نے عرضی داخل کی ہے اور مرکزی حکومت، اتر پردیش اور پانچ ریاستوں کو فریق بنایا ہے۔ عرضی میں یہ ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے کہ عبادت گاہوں کے قانون پر عمل کیا جائے اور ریاستوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتوں کے ذریعہ دیے گئے سروے کے احکامات پر عمل نہ کریں۔

واضح رہے کہ اس سلسلے میں مسلم ملی جماعتوں نے بھی عبادت گاہوں کے تحفظ ایکٹ1991 کا حوالہ دے کر تمام اس طرح کے مقدمات کو بند کرنے اور نچلی عدالتوں کو خصوصی ہدایت کا مطالبہ کیا ہے۔ در اصل آئے دن کسی  نہ کسی مسجد کو مندر ہونے کا دعویٰ کر  کے نچلی عدالتوں میں عرضی داخل کی جاتی ہے اور پھر ہنگامہ اور کشیدگی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ورشپ ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔