جموں و کشمیر: مسلح افواج کے ٹربیونل نے فرضی انکاؤنٹر میں تین افراد کے قتل کے ملزم کیپٹن کی سزا معطل کی
نئی دہلی، نومبر 14: آرمڈ فورسز ٹربیونل نے اس فوجی کیپٹن کی عمر قید کی سزا معطل کر دی ہے جو مارچ میں کشمیر میں تین افراد کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کا قصوروار پایا گیا تھا۔
ٹربیونل نے بھوپیندر سنگھ کے نام سے شناخت شدہ افسر کو مشروط ضمانت بھی دے دی۔ تاہم اس نے واضح کیا کہ ٹربیونل اس کی سزا پر روک نہیں لگا رہی۔
18 جولائی 2020 کو کشمیر میں سیکورٹی فورسز نے کشمیر کے شوپیاں ضلع کے امشی پورہ گاؤں میں ایک انکاؤنٹر میں تین ’’نامعلوم کٹر دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان تمام افراد کا ایک دوسرے سے تعلق تھا۔ بعد میں ان کی شناخت 16 سالہ ابرار احمد، 20 سالہ امتیاز احمد اور 25 سالہ محمد ابرار کے نام سے ہوئی۔
ان کے اہل خانہ نے 10 اگست 2022 کو لاپتہ افراد کی شکایت درج کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد مزدور تھے عسکریت پسند نہیں۔
جموں و کشمیر پولیس نے اس کے بعد ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی، جس نے ایک چارج شیٹ داخل کی جس میں سنگھ سمیت تین افراد پر فرضی انکاؤنٹر کا الزام لگایا گیا۔
اس کے بعد فوج نے ایک کورٹ آف انکوائری قائم کی، جس میں ابتدائی شواہد ملے کہ سیکورٹی فورسز نے مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ کے تحت انھیں دیے گئے اختیارات سے تجاوز کیا۔ مارچ میں ایک فوجی عدالت نے سنگھ کو قتل سمیت چھ الزامات میں قصوروار پایا۔ اس نے افسر کو عمر قید کی سزا سنانے کی سفارش کی، جس کی توثیق اعلیٰ فوجی حکام کو کرنی تھی۔
پھر سنگھ نے آرمڈ فورسز ٹریبونل کے سامنے اپیل دائر کی، جس نے 9 نومبر کو سزا پر روک لگانے کا حکم دیا۔
ٹریبونل نے کہا کہ مارچ میں حکم صادر کرنے والی فوجی عدالت نے ریکارڈ شواہد لیے جو ’’ناقابل قبول‘‘ تھے اور ’’قائل کرنے والے نہیں تھے۔‘‘
اس میں کہا گیا ہے کہ دستاویزی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شوپیاں میں آپریشن کرنے والی ٹیم پر فائرنگ ہوئی تھی۔
دریں اثنا اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد ابرار کے والد محمد یوسف خان نے کہا کہ اس سے پرانے زخم دوبارہ کھل گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج بھی محمد ابرار کا چار سالہ بیٹا حنیس مجھ سے پوچھتا رہتا ہے کہ اس کا باپ کہاں ہے۔