زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے والی کتاب

مسلمان قرآن مجید کے حقوق ادا کریں

ہاشمی ادیبہ

قرآن کریم عظیم الشان، حیرت انگیز، انقلاب آفریں اور تاریخ ساز کلام ہے جس کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں اور جس کے مقام ومرتبہ کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس آخری اور عظیم کلام کو اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔ مقدس ترین کلام کو افضل ترین ہستی پر مبارک ترین مہینہ میں عظمتوں والی رات میں برکتوں والی سرزمین پر جبرئیل امین کے ذریعہ نازل فرمایا۔
دنیا و اخرت کی تمام تر بھلائیوں اور کامیابیوں کو اللہ تعالی نے قرآن میں جمع کر دیا ہے۔ علوم ومعارف، اسرار وحکم کی تمام باتیں اس میں موجود ہیں۔ قرآن کریم ہی نے دنیا میں انقلاب برپا کیا اور جنہوں نے قرآن کو تھاما اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے وہی دنیا میں انسانوں کے امام اور قائد، رہبر و رہنما بنے۔ اس عظیم کلام اور کتاب کے حقوق کو ادا کرکے ہی انسان تمام خوبیوں سے متصف ہوسکتا ہے اور اپنے اندر انقلابی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔
قرآن کریم کے جو حقوق نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ان کی مختصر سی تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے۔
-1 قرآن کریم پر ایمان لانا جیسا کہ اس کا حق ہے، اس کو خدا کا آخری کلام ہونے کی دل سے تصدیق کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت دینا کیوں کہ اللہ تعالی نے باضابطہ قرآن کریم پر ایمان لانے اور اس کے حلال کو حلال جاننے اور حرام کو حرام سمجھنے کا حکم دیا۔
اللہ فرماتے ہیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا.
اے ایمان والو! اللہ پر اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں، ایمان لاؤ۔ جو شخص اللہ تعالٰی سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (سورہ النساء 136)
2 -قرآن مجید کو پڑھنا اور سیکھنا:
قرآن کریم کو سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کرنا،اس کو سیکھ کر ہی ہم قرآن سے مستفید ہوسکتے ہیں اور اس کی تلاوت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا مقصد بعثت جو قرآن میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے یہ ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وِاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُبِیْن۔( اٰل عمران:164)’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ تعالی کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک وصاف بناتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘ رسول اللہﷺ نے امت میں تلاوتِ قرآن کی عظمت واہمیت کو عام فرمایا اور اس کے فوائد وبرکات سے آگاہ کیا اور انسانوں کے ہاتھ میں خدا کا یہ عظیم کلام سونپا جس کی وجہ سے انسانیت قعرِ مذمت سے نکلی اور تلاوت قرآن کا ایسا ذوق ان کو عطا کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابہ کرام کو سیر حاصل نہیں ہوتی تھی اور خود آپ جب قرآن کریم کی تلاوت فرماتے کتنے ہی پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑ جاتے تھے اور قرآن کی حقانیت و عظمت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہتے تھے اور بہت سے لوگ اسی قرآن کی سماعت سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آج دنیا میں جو کچھ انقلاب نظر آرہا ہے بلاشبہ یہ اس عظیم کتاب کی بدولت ہے۔
قرآن کا نزول عرب کی سرزمین پر پوا لیکن وہ پوری دنیا کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معجزہ بن کر آیا اور اس کی کرنیں سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرآن کا نور پہنچا وہاں تاریکیوں کا خاتمہ ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑ دیا۔ حضرات صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں انقلابی اثرات اسی کلام نے پیدا کیے۔ قرآن نے ہر شعبہ زندگی میں مثالی انقلاب برپا کیا۔ تلاوت قرآن کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو قرآن کریم پڑھنے میں اس قدر مستغرق ہو کہ اس سے دعا مانگنے کا موقع ملے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ مانگنے والوں سے زیادہ اسے عطا کروں گا۔ اور فرمایا کہ: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ لہٰذا ہر بڑے چھوٹے اور مرد اور عورت کو قرآن کو اُسی انداز اور اصول کے مطابق سیکھنا ضروری ہے جو کہ صحیح ہو۔
3 -قرآن مجید کو سمجھنا:
قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی اور مضامین میں تدبر کرنا ،اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا قرآن مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کوشش کرنا بھی ضروری ہے کیوں کہ جب تک مطلوب قرآن کو نہیں سمجھا جائے گا عمل آوری کا جذبہ بھی نہیں ابھرے گا اور اللہ تعالی کے احکام سے آگہی بھی حاصل نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی نے نہایت چونکا دینے والے انداز میں سوال کیا کہ:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا
کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں؟ (محمد 24)
اس لیے قرآن کریم کو سمجھنا اس کا حق ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کا شوق صحابہ کرام میں اس درجہ موجود تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں :اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ کتاب اللہ کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی؟ اور اگر مجھے کسی ایسے شخص کا پتہ چلے جو کتاب اللہ کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہو اور سواریاں اس کے پاس پہنچا سکتی ہوں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔
-4 قرآن مجید پر عمل کرنا:
قرآن مجید کا ایک اور اہم حق یہ بھی ہے کہ اس کی احکام پر عمل کیا جائے۔ قرآن صرف پڑھ کر یا سمجھ کر رکھ دینے کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے کی ضرورت ہے ۔قرآن نے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے لیے اصول بتائے اور اس کی تشریخ نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ :وھذا کتاب أنزلناہ مبارک فاتبعوہ ۔( الانعام :155) یہ مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔اور ایک جگہ فرمایا کہ :اتبعوا ماأانزل الیکم من ربکم۔( الاعراف:3) جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا اس کی اتباع کرو۔ قرآن کریم کی تعلیمات سے روگردانی اختیار کرنا دنیا وآخرت میں انتہائی خطرناک ہو گا ۔قرآن کریم میں خود اللہ تعالی نے فرمایا: اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ :یارب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ اللہ کہے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں مگر تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا۔
صحابہ کرام کی حالت یہ تھی کہ قرآن کریم کا جتنا حصہ بھی پڑھتے تھے اس پر فورا عمل شروع کردیتے تھے۔امام ابوعبد الرحمن سلمی تابعی فرماتے ہیں :صحابہ کرام میں جو قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے مثلا حضرت عثمان اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ، انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جب آپ ﷺ سے دس آیتیں سیکھتے تو ان سے اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک کہ ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کا علم حاصل نہ کر لیں۔ ہم نے قرآن اور عمل دونوں ایک ساتھ سیکھا۔
-5قرآن سے محبت واحترام کرنا:
قرآن مجید کا ایک حق یہ ہے کہ اس سے کلام الہی ہونے کی بنیاد پر محبت کی جائے۔عربی کا ایک محاورہ ہے ’’کَلاَمُ الْمُلُوْکِ مُلُوْکُ الْکَلَامِ‘‘کہ بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم تو احکم الحاکمین اور رب العالمین کا کلام ہے تو سوچیے کہ اس کا کتنا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے اور اس کی کتنی محبت دلوں میں ہونی چاہیے؟ شیخ عبد اللہ بن جار اللہ نے حکیم ترمذی کے حوالہ سے قرآن کریم کے آداب واحترام کے تحت لکھا ہے: قرآن کا احترام یہ ہے کہ با وضو ہو کر ہی اسے ہاتھ لگائے، مسواک کرکے اپنے منہ کو پاک وصاف بنالے کیوں کہ یہی نبی کریم ﷺ طریقہ تھا۔ قرأت کے وقت قبلہ رخ بیٹھے اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور قرأت شروع کرنے سے پہلے تعوذ و تسمیہ پڑھے۔ بلاضرورت لوگوں کی باتوں کی طرف متوجہ ہو کر تلاوت قطع نہ کرے۔ قرأت ٹھہر ٹھہر کر کرے۔ اپنے ذہن اور فہم کو اس میں مصروف رکھے تاکہ جو خطاب ہو رہا ہے اس کو سمجھ سکے۔ وعدے کی ہر آیت پر ٹھہر جائے۔ اللہ تعالی کی طرف رغبت کرے اور اس سے اس کا فضل طلب کرے اور جب کوئی وعید کی آیت آئے تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے۔ اس کی امثال پر ٹھہرے تو عبرت حاصل کرے۔ ہر حرف کا پورا حق ادا کرے تاکہ الفاظ پوری طرح واضح ہو جائیں کیوں کہ اس کے لیے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں۔ جس درجہ قرآن کریم کا ادب احترام اور دل میں عظمت و محبت ہو گی اسی طرح اعضاء و جوارح سے ادب قرآن کا ظہور ہو گا اور محبت قرآن میں انسان اس سے رشتے کو مضبوط رکھے گا اور اس کے مطالبات پر عمل پیرا ہو گا۔
-6 پیغامِ قرآن کو عام کیا جائے:
قرآن مجید کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کو عطا کیا جانے والا معجزہ قرآن بھی آخری کلام ہے اور قرآن تو’’ ھُدًی ِللنَّاسِ‘‘ ہے، اسے سارے انسانوں کو راہِ مستقیم دکھانے کے لیے اور بھٹکے ہوؤں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے نازل کیا گیا ہے، اس پر خود عمل کرتے ہوئے اس کی تعلیمات کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنا اور ہدایت کے اس بے بہا نسخہ سے بہرہ ور ہونے کی ترغیب دینا بھی اس حقوق میں داخل ہے۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اہم وجہ اور انحطاط کا اہم سبب قرآن کریم سے دوری ہے۔ مسلمانوں نے آج قرآن کریم کو پس پشت ڈال دیا، اس کو پڑھنا، سمجھنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ختم کر دیا جس کی وجہ سے ذلت وادبار ان پر چھائی ہوئی ہے۔نبی کریم ﷺ نے امت کے عروج وزوال کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: یقینا اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعہ کسی قوم کو سر بلندی عطا فرماتے ہیں اور اسی کتاب کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو ذلت و رسوائی سے نیچے گرادیتے ہیں ۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علماء وطلباء کے ایک مجمع کثیر میں امت کے زوال کی بہت بڑی اور اہم وجہ جوانہوں نے اسارت کے دور میں غور کی تھی اس کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو مجھے اس کے دو سبب معلوم ہوئے ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم کے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کو لفظاً اور معنًا عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے‘‘
قرآن کریم سے وابستگی کی صورت میں مسلمانوں کی قیادت و سیادت ،کامیابی وکامرانی، عزت وعروج کا تذکرہ کرنے کے بعد مولانا سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں: جب سے دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر ان کو قرآن حکیم سے بُعد ہونا شروع ہوا ان کی روح قومیت بھی درماندہ ہونے لگی اور آج اس کے جو نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کے ماتم میں دیدہ ودل سے جتنا بھی دجلۂ خون بہے کم ہے اور جس قدر بھی آہ وفغاں کے شرارے لب ودہن سے بلند ہوں تھوڑے ہیں۔
آخری بات:
یقیناً مسلمانوں کی شان وشوکت،عظمت ورفعت،فتح وکامیابی،عزت وہیبت،ترقی وسربلندی،قیادت وسیادت قرآن کریم سے وابستگی ہی میں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو قرآن سے جوڑا اور اس کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرمائی۔اس لیے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کریم سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں، اس کے حقوق ادا کرنے کی فکر کریں، اس کی تعظیم وتکریم بجا لانے کی کوشش کریں اور اس کو صرف جزدانوں کی زینت اور طاقچوں کی رونق بنائے نہ رکھیں بلکہ تلاوت وتعلیم کے ذریعہ اپنی زندگی میں انقلاب لانے کا عزم وارادہ کریں اور سارے جہاں میں اس کے پیغام اور اس کی عظیم فکر ودعوت کو عام کرنے کا آغاز کریں اور کسی بھی قیمت پر تعلیم قرآن کے مدارس ومکاتب کو ہلکا نہ سمجھیں اور دروس قرآن کی محافل ومجالس سے بے اعتنائی نہ برتیں۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022