یاد الٰہی سے غافل کرنے والے مشاغل

محمد عزیز صائب المظاہری

حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے جہاں والوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہےاور مجھے میرے عزت و جلال والے رب نے حسب ذیل چیزوں کو مٹا دینے اور ختم کر دینے کا حکم دیا ہے۔
۔ تمام لہو ولعب کے آلات اور محرکات واسباب کو مٹانے کا۔
راگ و رنگ اور باجوں گاجوں یعنی انسان کو عظیم مقاصد حیات سے غافل کردینے والے مشاغل کو مٹانے کا۔
اور اپنی عزت کی قسم کھا کر میرے عزت و جلال والے رب نے فرمایا ہے اگر کوئی بھی میرا بندہ ایک گھونٹ شراب پیے گا تو میں اسے اتنا ہی (صدید) جہنم کا خون و پیپ پلاوں گا۔
اور میرے جس بندے نے صرف میری خاطر میرے خوف سے شراب کو چھوڑ دیا تو میں اسے جنت کے پاکیزوں حوضوں سے شراب طہور پلاوں گا‘‘۔
کائنات کے پیدا کرنے والے اور سارے سنسار کو پالنے والے رب نے اس کو پیدا کر کے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کے بناو اور بگاڑ صلاح اور فساد پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بناو، بگاڑ، صلاح وفساد کے ضابطے اور قاعدے بھی مقرر فرما دیے ہیں۔
چونکہ اس ساری کائنات میں اشرف ترین مخلوق انسان ہے۔ اس کو عقل وہوش اور سمع وبصر اور دل ودماغ کی بے پناہ طاقتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان طاقتوں کے صحیح استعمال کا طریقہ بتلانے کے لیے وحی و رسالت کا شروع ہی سے انتظام فرمایا ہے۔ چونکہ آدمی کو اختیار اور اراداہ کی آزادی دی گئی ہے اور خیر وشر، فجور وتقویٰ کی دونوں راہیں اس کے سامنے کھول دی گئی ہیں۔
چنانچہ زمین و زمان کی تاریخ گواہ ہے کہ آدمی نے جب بھی اپنے خالق ومالک سے آزاد ہو کر اپنی ان طاقتوں اور صلاحیتوں کا بطور خود استعمال کیا ہے، زمین ظلم وزیادتی سے بھر گئی ہے اور آدمی امن اور عدل کے لیے ترس گیا ہے۔ آدمی ہی آدمی کے لیے سنگ دل درندہ ثابت ہوا ہے اور اپنے شرف اور حیثیت کو بھول کر اپنے ہی جیسے انسانوں بلکہ پتھروں تک کے سامنے اپنی پیشانی رگڑنے لگا ہے۔
جب زمین پر آدمی ذلت وسنگدلی کی اس حد پر پہنچا ہے تو رب نے فساد کو صلاح سے اور بگاڑ کو بناو سے تبدیل کرنے کے لیے پیغمبروں کو کتاب دے کر بھیجاہے۔ آخر کار اسی سلسلہ کی آخری کڑی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اب آپ سارے عالم والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا پیام لے کر تشریف لائے ہیں۔ آپؐ مامور ہیں کہ نظام شرک وجاہلیت کے ہر ابھرے نشان کو مٹادیں اور آدمی کو اس کے عظیم شرف اور بلند ترین مقصد حیات تک پہنچنے اور امن وعدل کی ابدی کامیابی پالینے کا شوق اور حوصلہ پیدا فرمائیں اور ہر وہ چیز اور مشغلہ جس سے اللہ کے عظیم تر عطیہ یعنی عقل وہوش کی توہین ہوتی ہے اس سے آدمی کو بچا کر اس کی صلاحیتوں میں خوف وشوق کے ایسے بال وپر نشو نما دیں کہ وہ ہر شر اور انجام بد سے اپنے آپ کو بچا سکے اور ہر خیر اور انجام خیر کو حاصل کرنے کے لیے بطور خود پرواز کرسکے۔
اس تفصیلی گفتگو کے پس منظر میں اس ارشاد گرامی کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ شراب جسے عربی میں خمر کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ڈھانپنے اور چھپانے والی چیز‘‘۔ تمام پیغمبروں کے یہاں حرام رہی ہے۔ دین اسلام میں اسے ’’ام الخبائث‘‘ کہا گیا ہے۔ اس کے ایک گھونٹ کو حلق سے اتارنے والے کے لیے جہنم کے صدید کی جو وعید ہے بظاہر جرم اور سزا میں مناسبت نظر نہیں آرہی مگر خالق کائنات کو وہ انسان کی امتیازی صلاحیت جس کی بنا پر اسے اشرف مخلوق بنایا گیا ہے یعنی عقل وہوش اور انسانی حواس کی عظیم ترین نعمت۔ چونکہ شراب اللہ کے اس عظیم عطیہ پر براہ راست ضرب لگاتی ہے اور آدمی کو آدمیت کے مقام سے محروم کر دیتی ہے اور غفلت وخباثت کے پردے میں چھپا کر سفلی جذبات اور بطن وفرج کے ہاتھ میں اس کی صلاحیتوں کی باگ ڈور دے دیتی ہے اس منعم کو اپنی اس عظیم نعمت کی توہین گوارا نہیں، اس لیے اس کی سزا شدید ہی ہونی چاہیے۔ پھر چونکہ شراب انسانی معاشرہ اور سماجی سکون ونظم کو درہم برہم کردیتی ہے اس لیے بلا امتیاز مذہب وملت ہر دور میں ہر انسانی گروہ اس تلخابہ کو دشمن اخلاق وکردار تسلیم کرتا چلا آ رہا ہے۔
***

 

***

 زمین و زمان کی تاریخ گواہ ہے کہ آدمی نے جب بھی اپنے خالق ومالک سے آزاد ہو کر اپنی ان طاقتوں اور صلاحیتوں کا بطور خود استعمال کیا ہے، زمین ظلم وزیادتی سے بھر گئی ہے اور آدمی امن اور عدل کے لیے ترس گیا ہے۔ آدمی ہی آدمی کے لیے سنگ دل درندہ ثابت ہوا ہے اور اپنے شرف اور حیثیت کو بھول کر اپنے ہی جیسے انسانوں بلکہ پتھروں تک کے سامنے اپنی پیشانی رگڑنے لگا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021