وقف املاک پر بُری نظر ‘ سچ پر جھوٹ کا پردہ

دفعہ40 کے تعلق سے گمراہ کن پروپیگنڈا۔ ہندوؤں کو اکسانے کی کوشش

افروز عالم ساحل

نفرت کے اس دور میں سچ کو جھوٹ ثابت کرنے میں کوئی کسر اس لیے باقی نہیں رکھی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو جھوٹ ہی سچ نظر آنے لگے۔ ’جھوٹ کے علمبرداروں‘ کے نشانے پر اس مرتبہ مسلمانوں کی وقف املاک ہیں جن کے ارد گرد ملک میں اب جھوٹ کا ایک مکر جال بُنا جانے لگا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں باضابطہ طور پر ایک مہم چھیڑدی گئی ہے جسے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں سنگھی سوچ رکھنے والے نام نہاد صحافی پشپیندر کلشریستھا ہیں۔

پشپیندر کا ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ وقف ایکٹ کے دفعہ 40 کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ اس کو ختم کیا جانا بہت ضروری ہے ورنہ وقف بورڈ ہندوؤں کے تمام تاریخی ورثوں پر قبضہ کر لے گا۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے پشپیندر کے ویڈیوز کو بھی دیکھا اور ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے ان کے پروگراموں کی خبروں کو بھی کھنگالا تاکہ ان کے پھیلائے جانے والے جھوٹ کی سچائی معلوم کی جائے۔

ایک صحافی نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ہفت روزہ دعوت کو بتایا ہے کہ ہندوؤں میں مسلمانوں کے وقف کے تعلق سے یہ مہم چلائی جارہی ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں یا وقف کی زمین ملے متحد ہو کر قبضہ کر لو، باقی حکومت جلد ہی وقف ایکٹ کو ختم کر دے گی جس کے بعد وقف بورڈ یا مسلمان کچھ نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقف جائیدادوں کے بارے میں پشپیندر کا پروگرام زیادہ تر اتر پردیش کے مختلف شہروں میں ہورہا ہے جہاں وہ وقف کے ساتھ اس ملک کو ’ہندو راشٹر‘ بنائے جانے کی بھی وکالت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بڑھے۔ ان کا انداز ایسا ہوتا ہے لوگ ان کی تمام باتوں کو سچ ماننے لگتے ہیں۔ شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ ان کی باتوں کو سننے کے بعد ہندوؤں میں مسلمانوں سے ڈر پیدا ہو، وہی ڈر جو مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے برسوں سے پھیلایا رہا ہے۔ یا ان کا مقصد یہ ہو کہ کچھ ہندو جذبات میں آکر مسلمانوں کے قبرستانوں یا وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں، جس کے نتیجے میں فساد برپا ہو جس کا فائدہ الیکشن میں مل سکے۔

کیا بتا رہے ہیں پشپیندر کلشریستھا؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیو میں پشپیندر کھلے طور پر کہہ رہے ہیں: ’’ 2013 میں سب سے بڑا جرم ہوا ہے جس پر سب نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں اگر اب بھی نہیں بولیں گے تو یقین رکھیے کہ آپ کی خاموشی پر آپ کے بچے بھی آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ قبر میں سے اٹھا لائیں گے، چوراہے چوراہے آپ کا پُتلا جلائیں گے کہ میرے باپ نے مجھکو دھوکہ دیا ہے۔ میں اس قطار میں اپنا نام نہیں لکھوانا چاہتا اس لیے سڑک سڑک جا کر بول رہا ہوں۔ 2013 میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں دن دہاڑے ڈاکہ ڈالا گیا۔ آپ کے مرنے کا کفن تیار کر دیا گیا، سب کے سامنے کیا گیا، سال 2013 میں ٹیلی ویژن تھا، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی لائیو ہوتی تھی، تب بھی آپ نے نہیں دیکھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو پتہ نہیں چلا، اخبار میں اس کی خبر نہیں پڑھی، لیکن آج آپ کے ہاتھ میں موبائل فون ہے، اس کے بعد بھی نہیں جاننا چاہتے تو اس میں قصور کسی اور کا نہیں آپ کا ہے۔ 2013 میں ملک کے دونوں ایوانوں سے وقف قانون پاس کرکے اس کو قائم کردیا گیا۔۔۔ یہ بڑے بڑے مٹھ، یہ بڑے بڑے اکھاڑے، یہ بڑے بڑے ٹرسٹ اور مندر، یہ کوٹھیاں، چار بیگہے میں مکان، بیس بیگہے میں فارم ہاؤس، آپ کا نہیں ہے۔ اپنی اپنی دکانیں چلائیے، یہ میرا آشرم ہے، یہ میرا مٹھ ہے، میں یہاں کا ٹھیکیدار ہوں، میں وہاں کا ٹھیکیدار ہوں، آپ کہیں کے نہیں ہیں، آپ کو پتہ ہی نہیں ہے۔ آپ صرف وقت برباد کررہے ہیں۔ کیونکہ سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے، جب سچ بولوگے تو اپنا بہت کچھ چھوڑنا پڑے گا۔ اس وقف ایکٹ کی دفعہ 40 کے ذریعے ملک کے پارلیمنٹ نے یہ طاقت دی ہے کہ وقف بورڈ کے دو جاہل مولانا اسی ڈی ایس کالج کے ہال کے باہر اس کا معائنہ کریں، آپ کو بتائیں یا نہ بتائیں لیکن یہ قانون ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ہال وقف کی جائیداد پر بنا ہوا ہے تو وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو آرڈر کریں گے کہ اس ہال کو خالی کروائیے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ان کا آرڈر ماننا ہے، اس کو نافذ کرنا ہے اور 24 گھنٹے میں آپ کو باہر پھینک کر چابی وقف بورڈ کے حوالے کر دی جائے گی۔ آپ اپنا کاغذ دکھائیے گا، کچھ نہیں ہوگا۔۔۔آپ کے پاس کوئی قانونی طریقہ نہیں ہے۔۔‘‘

ایک ویڈیو میں پشپیندر لوگوں کو بتا رہے ہیں، ’’۔۔۔ مکیش امبانی کے مکان کے آدھے حصے پر وقف بورڈ نے دعویٰ کر دیا ہے لیکن وہ کورٹ میں لڑ نہیں سکتا۔ جو پردھان منتری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھوم سکتا ہے وہ قانون نہیں بدلوا پارہا ہے، اگر چہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ پچیس پچاس کروڑ روپے دے دیتا ہے جسے بورڈ والے لے کر چھ مہینے کے لیے غائب ہوجاتے ہیں لیکن وہ بیماری کو ختم نہیں کر پا رہا ہے۔ وہ بیماری کو تھوڑے دن کے لیے ٹال رہا ہے تو میری اور تمہاری کیا اوقات ہے؟ ۔۔۔‘‘

اس طرح کے کئی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں، جس میں مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کے بارے میں اشتعال انگیز باتیں کی گئی ہیں۔ ایک ویڈیو ایسا بھی ہے جس میں کچھ ہندو بتا رہے ہیں کہ دلی میں جب سے امانت اللہ خان وقف بورڈ میں آیا ہے ہمارے گھروں پر قبضہ ہورہا ہے حالاں کہ یہ ہمارے باپ دادا کے گھر ہیں لیکن ہمیں وقف بورڈ کے لوگ نوٹس دے کر گئے ہیں۔ اس ویڈیو میں رپورٹر اسے ’زمین جہاد‘ کا نام دے رہا ہے اور ساتھ ہی غلط اعداد و شمار کے حوالے سے یہ بھی بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ وقف بورڈ کی زمینیں دوگنی ہو گئی ہیں، جبکہ ملک میں زمین بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ ان ویڈیوز کے علاوہ کئی آن لائن خبریں بھی موجود ہیں جس میں پشپیندر کے وقف سے متعلق پروگراموں کی رپورٹنگ کی گئی ہے۔

17 اکتوبر 2021 کو ایک پریس کانفرنس میں وقف املاک ایکٹ 2013 پر گفتگو کرتے ہوئے پشپیندر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’وقف ایکٹ کی دفعات میں سے ایک دفعہ 40 بہت خطرناک ہے۔ یہ دفعہ بورڈ کو حق دیتا ہے کہ بورڈ کے دو ممبروں کو ملک میں اگر کہیں یہ معلوم ہو جائے کہ کوئی جائیداد پہلے وقف کی تھی تو وہ اسے اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں اس قانون کی وجہ سے ملک میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ اس ایکٹ کے بعد سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے کا سلسلہ پورے ملک میں چل رہا ہے۔ کیونکہ وقف ایکٹ کی دفعہ 40 بہت خطرناک ہے اس کے مطابق بورڈ کے کوئی دو ممبر بھی چاہیں تو ملک بھر میں کسی کی بھی جائیداد کو وقف کی جائیداد بتا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ دونوں ممبران ضلع مجسٹریٹ یا کسی بھی ذمہ دار افسر کو 24 سے 72 گھنٹے میں خالی کروانے کا حکم دے سکتے ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ میں ایسے معاملوں کی کوئی سماعت نہیں ہو سکتی۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ متاثرین کو اس کے خلاف عرضی لے کر وقف بورڈ ہی کے ٹریبونل میں جانا پڑے گا۔

انہوں نے اس پریس کانفرنس میں آندھرا پردیش کے ایک جج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جج کے مطابق اس ملک میں ریلوے اور ڈیفنس کے بعد سب سے زیادہ اراضی وقف بورڈ کے پاس ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے سامنے آئے دن ایسے معاملے آتے ہیں جب اچانک مزاریں وجود میں آرہی ہیں۔ دہلی کے سنجے گاندھی پارک میں بھی ایک مزار کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ وہیں الٰہ آباد میں چندر شیکھر آزاد الفریڈ پارک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورونا کے دور میں پارک میں مسجد، مزار اور دیگر کئی تعمیرات ہوگئیں۔ جب یہ معاملہ منظر عام پر آیا تو ہماری ٹیم کے ایک رکن وشنو شنکر جین نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی۔ اب ہائی کورٹ نے یوپی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اس معاملے میں وقف بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین انہی کی ہے۔

بتادیں کہ ایک پریس کانفرنس میں پشپیندر کا دیا گیا یہ بیان 20 اکتوبر 2021 کو ’سناتن سماچار‘ نامی ایک ویب سائٹ نے شائع کیا ہے۔ حالاں کہ اس ویب سائٹ نے اپنی پوری خبر میں کہیں یہ نہیں بتایا ہے کہ ان کی پریس کانفرنس کب اور کس شہر میں ہوئی تھی۔

حال ہی میں سورت میں منعقدہ ایک پروگرام میں پشپیندر نے کہا کہ حکومتیں ووٹ بینک بنانے کی آڑ میں ملک کا قبضہ دینے کی سازشیں رچ رہی ہیں اور ہم غیر ضروری چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ آرٹیکل 35A کے بعد اب ملک کے لوگوں کو وقف ایکٹ 2013 کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے وقف ایکٹ کی دفعہ 40 کے نکات کو دہرایا اور بتایا کہ یہ دفعہ کس طرح ملک کے لیے خطرناک ہے۔

اس سے قبل بھی پشپیندر نے وارانسی کی ایک ہوٹل میں اپنے ایک پروگرام کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ پچھلی حکومتوں نے ملک کی زمین ہتھیانے کے لیے وقف بورڈ قائم کیا اور پھر دفعہ 40 کے حوالے سے اپنی پرانی باتوں کو دہرایا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وقف بورڈ کا اختیار محدود ہونا چاہیے۔ اس پروگرام میں انہوں نے کہا ’ہم وزیر اعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جائے۔‘

یہی نہیں، اس سے قبل پشپیندر نے ستمبر میں علی گڑھ کے دھرم سماج مہاودھیالیہ کے رمیش چندر بھگت آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک پروگرام میں وقف ایکٹ 2013 کی دفعہ 40 سے سب کو خبردار کرتے ہوئے کہا ’’آپ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ نے انہیں پیاز اور پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے لیے نہیں بھیجا ہے، یہ گھٹتی بڑھتی رہیں گی۔ آپ نے حکومت کو جس کام کےلیے بھیجا ہے اس کے لیے دباؤ ڈالیے۔ ہندوستان میں تیس ہزار مندر ’آکرانتا‘ نے توڑے۔ ہمیں ان کی شناخت کو عام کرنا ہے تاکہ ہمارا سماج بیدار ہو سکے۔‘‘

اس پروگرام میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ملک اور ’راشٹر‘ کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ملک کو وہاں کی حکومتیں چلاتی ہیں۔ وہاں آئین اور قانون کام کرتا ہے۔ لیکن ’راشٹر‘ سماج اور ان کی ثقافت سے چلتا ہے۔ صرف کائر سماج ہی اپنی آستھا اور سنسکرتی کو بچانے کے لیے حکومتوں کی طرف دیکھتا ہے۔

سپریم کورٹ میں بھی وقف ایکٹ کو چیلنج کیا گیا

وقف ایکٹ 1995 کے آئینی جواز پر سوال اٹھانے والی ایک عرضی سال 2021 میں کرناٹک ہائی کورٹ میں بھی داخل کی گئی ہے۔ اس عرضی پر 8 مارچ 2021 کو ہائی کورٹ کے جسٹس اروند کمار اور جسٹس پردیپ سنگھ یرورو پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ یہ عرضی بنگلورو کے ایک ماہر تعلیم کے ایس سبرامنین نے دائر کی ہے۔

اس عرضی میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وقف ایکٹ کی دفعات ہندوستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے استدلال کیا کہ ’وقف ایکٹ کو ایک مذہب کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے آئین کو توڑ مروڑ کر نافذ کیا گیا ہے۔ وقف ایکٹ کا نفاذ آئین کے آرٹیکل 13(2) کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو بنیادی حقوق کے تحت دیے گئے حقوق کو چھین لے یا اس میں تخفیف کرے۔‘

اس سے قبل اسی طرح کی ایک عرضی سال 2020 اگست میں سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی جس میں دیگر مذاہب سے امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے وقف ایکٹ 1995 کی کئی دفعات کو چیلنج کیا گیا۔ اس عرضی میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ عدالت یہ اعلان کرے کہ پارلیمنٹ کو وقف اور وقف املاک کے لیے وقف ایکٹ 1995 بنانے کا حق نہیں ہے۔ عدالت سے یہ حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وقف ایکٹ کے تحت جاری کردہ کوئی قاعدہ، نوٹیفکیشن، حکم یا ہدایت ہندو یا دیگر غیر اسلامی برادریوں کی جائیدادوں پر نافذ نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت یہ اعلان کرے کہ وقف ٹریبونل دو مذہبی برادریوں کے درمیان جائیداد کے تنازع کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ ایسے تنازعات کا تصفیہ عدالت ہی کرے گی۔

اس عرضی میں وقف ایکٹ کی دفعہ 4، 5، 8، 9 (1) (2) (a)، 28، 29، 36، 40، 52، 54، 55، 89، 90، 101 اور 107 کو غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ دفعہ آئین کے آرٹیکل 14، 15، 25، 26، 27 اور 300 اے کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وقف ایکٹ کی دفعہ 6، 7، 83 کو بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ وقف ایکٹ کے تحت وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد کو وقف جائیداد کے طور پر رجسٹر کرنے کا لامحدود اختیار دیا گیا ہے۔ اس میں ہندو اور غیر اسلامی برادری کو ان کی ذاتی اور مذہبی جائیدادوں کو حکومت یا وقف بورڈ کی طرف سے جاری کردہ وقف فہرست میں شامل کرنے سے بچانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ہندو اور دیگر غیر اسلامی برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔

عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں وقف بورڈ نے تیزی سے دوسروں کی جائیدادوں پر قبضہ کرکے انہیں وقف جائیداد قرار دیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اس وقت وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، جولائی 2020 تک کل 6,59,877 جائیدادیں وقف جائیدادوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں، جن میں ملک بھر میں تقریباً آٹھ لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ یہ عرضی جتیندر سنگھ سمیت چھ لوگوں نے ایڈووکیٹ ہری شنکر جین کے ذریعے دائر کی ہے۔

اس سے قبل سال 2018 کے ستمبر مہینے میں بھی ایک عرضی سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ وشنو شنکر جین کے ذریعہ دائر کی گئی تھی، جس میں آرٹیکل 14، 15، 25، 26 اور 27 کی خلاف ورزی کا دعوی کرتے ہوئے وقف ایکٹ 1995 کی آئینی جواز پر سوال کھڑا کیا گیا تھا۔ اس عرضی میں یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اتر پردیش سنی وقف بورڈ وقف ایکٹ 1995 کے تحت حاصل اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد سرکاری املاک بشمول ہندو مذہبی املاک پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جب یہ معاملہ جسٹس مدن بی لوکر کی سربراہی والی بنچ کے سامنے آیا تو اس بنچ نے عرضی گزاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ اس کے بعد درخواست گزاروں نے اپنی عرضی واپس لے لی۔

وقف ایکٹ 2013 کی دفعہ 40 اصل میں کیا ہے؟

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اس بات کی چھان بین کی کہ جو باتیں پشپیندر اپنی خاص مہم کے تحت اکثریتی طبقہ کے لوگوں میں پھیلا رہے ہیں ان میں کتنی سچائی ہے؟ سب سے پہلے یہ کہ وقف ایکٹ 2013 کی دفعہ 40 اصل میں کیا ہے اور اس میں کیا باتیں کہی گئی ہیں۔

وقف ایکٹ 2013 کا دفعہ 40 کہتا ہے کہ اگر کوئی جائیداد وقف ہے:

(1) بورڈ کسی ایسی جائیداد کے بارے میں جس کے بارے میں اس کے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے کہ یہ وقف کی ہوئی جائیداد ہے، خود معلومات اکٹھا کر سکے گا اور اگر اس سے متعلق کوئی سوال اٹھتا ہے کہ آیا کوئی خاص جائیداد وقف ہے یا نہیں، یا سنی وقف ہے یا شیعہ وقف، تو ایسی جانچ کرنے کے بعد جو وہ مناسب سمجھے اس کا فیصلہ کر سکے گا۔

(2) ذیلی دفعہ (1) کے تحت کسی سوال پر بورڈ کا فیصلہ جب تک کہ اس کو ٹریبونل کے ذریعے منسوخ یا ترمیم نہ کیا جائے، حتمی ہوگا۔

(3) جہاں بورڈ کے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ انڈین ٹرسٹ ایکٹ، 1882 (1882 کا 2) یا سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ، 1860 (1860 کا 21) کے تحت یا کسی دیگر ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کسی ٹرسٹ یا سوسائٹی کی کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے، وہاں بورڈ ایسے ایکٹ میں کسی بات کے ہوتے ہوئے بھی ایسی جائیداد کے بارے میں انکوائری کر سکے گا اور اگر ایسی انکوائری کے بعد بورڈ مطمئن ہو جائے کہ یہ جائیداد وقف کی ہوئی ہے تو ٹرسٹ یا سوسائٹی سے مطالبہ کر سکے گا کہ وہ ایسی جائیداد کو اس ایکٹ کے تحت وقف جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ کرائے یا اس بات کی وجہ بتائے کہ ایسی جائیداد کو رجسٹر کیوں نہیں کیا جائے۔ بشرطیکہ ایسے تمام معاملات میں اس ذیلی دفعہ کے تحت رجسٹر کرنے کے لیے تجویز کردہ کارروائی کی نوٹس اس اتھارٹی کو دی جائے جس کے ذریعہ ٹرسٹ یا سوسائٹی رجسٹرڈ کی گئی ہے۔

(4) بورڈ، ذیلی دفعہ (3) کے تحت جاری کردہ نوٹس کی تعمیل میں ظاہر کی جانے والی وجہ پر غور کرنے کے بعد ایسے احکامات جاری کرے گا جنہیں وہ مناسب سمجھے اور بورڈ کے ذریعہ اس طرح کیا گیا حکم حتمی ہو گا جب تک کہ وہ کسی ٹربیونل کے ذریعے منسوخ یا ترمیم نہ کیا جائے۔

اس طرح سے وقف ایکٹ کی دفعہ 40 بورڈ کو وقف املاک کی درستگی اور صداقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے اور یہ وقف کے لحاظ سے کافی اہم ہے اور اس سے بھی اہم یہ ہے کہ یہ دفعہ صرف وقف جائیدادوں پر ہی نافذ ہوتی ہے، لیکن ایکٹ کی قانونی زبان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پشپیندر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں تاکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر وقف ایکٹ سے اس اہم دفعہ کو ہٹایا جاسکے اور ہندوؤں کے لیے مسلمانوں کے وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے۔

وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں میں اضافہ

ان جھوٹے دعوؤں کے درمیان اصل سچائی یہ ہے کہ وقف املاک پر ناجائز قبضوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں سے متعلق خود حکومت کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔

بتا دیں کہ 12 دسمبر 2019 کو رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کا لوک سبھا میں ایک سوال وقف جائیدادوں پر نا جائز قبضوں سے متعلق تھا۔ اس سوال کے تحریری جواب میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے سنٹرل وقف کونسل سے حاصل کردہ ایک فہرست سونپی۔ اس فہرست میں 24 اسٹیٹ وقف بورڈوں کے ناجائز قبضوں کے مسائل سے وابستہ وقف جائیدادوں کے اعداد وشمار ہیں۔لوک سبھا میں پیش کردہ یہ فہرست بتاتی ہے کہ 24 وقف اسٹیٹ بورڈوں میں کل 16,931 جائیدادیں ناجائز قبضوں کے مسائل سے دوچار ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ جس سنٹرل وقف کونسل کی حاصل کردہ اطلاعات سے اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ناجائز قبضوں والی وقف جائیدادوں کے اعداد وشمار بتائے ہیں ان میں بڑی چالاکی سے سرکاری قبضوں والی وقف جائیدادوں کے اعداد وشمار کو غائب کر دیا گیا ہے۔ وہیں آندھرا پردیش کی چونکا دینے والی معلومات بھی اس فہرست سے غائب ہے۔

واضح رہے کہ نومبر 2016 میں پٹنہ کے سماجی کارکن علی عابد کو سنٹرل وقف کونسل سے حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت ملی معلومات کے مطابق ملک میں 18,193 وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضے بھی ہیں۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے کرنے والوں میں حکومت اور اس کی ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ وقف کونسل کے اعداد وشمار کے مطابق 1062جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضے حکومت اور ان سے وابستہ ایجنسیوں کے ہیں۔

20 جولائی 2020 کو سنٹرل وقف کونسل سے ہفت روزہ دعوت کو آر ٹی آئی کے تحت ملی اطلاعات کے مطابق ملک میں 18,259 وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضے ہیں۔ 2016 کے بعد وقف جائیدادوں پر حکومتوں کے ناجائز قبضوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ جہاں سال 2016 میں حکومت یا اس سے منسلک ایجنسیوں کا 1062جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ تھا وہیں آج سنٹرل وقف کونسل کے مطابق سال 2020 کے جولائی تک 1342 جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین بھی سرکاری محکموں یا ایجنسیوں کے قبضے میں ہے۔غور طلب امر ہے کہ ان اعداد وشمار میں گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں۔ اس پورے معاملے پر ہفت روزہ دعوت اگست 2020 میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کر چکا ہے۔

صحافی پشپیندر کلشریستھاکے ذریعہ جو پروپگنڈہ کیا جارہا ہے اسے دیکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی فرد واحد کاہنی خبط نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے فرقہ وارانہ صف بندی کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے محرکات کارفرما ہیں۔

ہفت روزہ دعوت بہت پہلے ہی اپنے قارئین کو اس خطرہ کی آہٹ محسوس کرواچکا ہے۔ چنانچہ ان ہی کالموں میں وقف املاک کو درپیش خطرات اور ملت کے ان بیش قیمتی اثاثوں کے تحفظ اور اس تعلق سے عوامی شعور پیدا کرنے کی ضرورت پر لکھا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں ملت کے بعض حلقوں میں فکر مندی ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن خطرہ کی شدت کے مد نظر اتنا کافی نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ مقامی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک مختلف ملی اداروں و تنظیموں کے قائدین اور جہد کار ، وقف جائیدادوں کے متولیان اور وقف بورڈس کے منتظمین اس ضمن میں ایک موثر لائحہ عمل کو زمین پر اتاریں۔

***

 صحافی پشپیندر کلشریستھاکے ذریعہ جو پروپگنڈہ کیا جارہا ہے اسے دیکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی فرد واحد کا ذہنی خبط نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے فرقہ وارانہ صف بندی کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے محرکات کارفرما ہیں۔ ہفت روزہ دعوت بہت پہلے ہی اپنے قارئین کو اس خطرہ کی آہٹ محسوس کرواچکا ہے۔ چنانچہ ان ہی کالموں میں وقف املاک کو درپیش خطرات اور ملت کے ان بیش قیمتی اثاثوں کے تحفظ اور اس تعلق سے عوامی شعور پیدا کرنے کی ضرورت پر لکھا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں ملت کے بعض حلقوں میں فکر مندی ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن خطرہ کی شدت کے مد نظر اتنا کافی نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ مقامی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک مختلف ملی اداروں و تنظیموں کے قائدین اور جہد کار ، وقف جائیدادوں کے متولیان اور وقف بورڈس کے منتظمین اس ضمن میں ایک موثر لائحہ عمل کو زمین پر اتاریں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021