اتر پردیش: گائے ذبح کرنے کے الزام میں گرفتار شخص کے مبینہ قتل کے لیے 12 پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج
نئی دہلی، جنوری 23: ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق اتر پردیش پولیس نے اتوار کو گائے ذبح کرنے کے الزام میں گرفتار ایک شخص کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے لیے 12 افسران کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
متوفی کی شناخت 42 سالہ ذیشان حیدر کے نام سے ہوئی ہے، جسے 5 ستمبر 2021 کو دیوبند میں مبینہ مویشیوں کے اسمگلروں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران گولی مار دی گئی تھی۔ حیدر کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ اسے پولیس نے گائے ذبح کرنے کے معاملے میں جھوٹے طور پر پھنسایا ہے۔
پولیس افسران کے خلاف مقدمہ حیدر کی بیوی افروز کے ذریعے نومبر 2021 میں سہارنپور کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جانے کے بعد درج کیا گیا۔
افروز نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس وقت اپنے شوہر کے ساتھ گھر پر تھی جب پولیس نے انھیں تفتیش کے لیے بلایا۔ پی ٹی آئی کے مطابق اس نے الزام لگایا کہ اس کے خاندان کو بعد میں اطلاع دی گئی کہ حیدر کے پاؤں میں گولی لگی ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تو اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔
وہیں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھیں گائے کے ذبیحہ کے بارے میں خفیہ اطلاع ملی تھی اور انھوں نے ایک جگہ پر چھاپہ مارا جہاں انھیں حیدر اور چند دیگر افراد کے پاس دیسی ساختہ پستول ملے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ ’’انھوں نے [مویشیوں کے مبینہ اسمگلروں نے] پولیس ٹیم پر فائرنگ کی اور حیدر کو ان کے ہتھیاروں میں سے ایک سے گولی لگی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اس نے دم توڑ دیا۔‘‘
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مسلح تصادم کے بعد تقریباً 300 کلو گرام گوشت اور کچھ سامان برآمد کیا گیا تھا۔ چھ افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا تھا۔
تاہم حیدر کے اہل خانہ نے پولیس کے بیان کی تردید کی ہے۔
افروز نے کہا کہ میرے شوہر کے پاس 40 بیگھہ زمین اور دو لائسنس یافتہ ہتھیار تھے۔ انھوں نے پوچھا ’’وہ غیر قانونی ہتھیار کیوں رکھے گا؟‘‘
اپنے حکم میں عدالت نے اتر پولیس کو ہدایت دی کہ وہ سب انسپکٹر اوم ویر، یشپال سنگھ، اصغر علی، ہیڈ کانسٹیبل سکھ پال سنگھ، کنور بھارت، پرمود کمار، وپن اور کانسٹیبل راجویر سنگھ، دیویندر، نیتو یادو، انکت کمار اور برجیش کمار کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرے۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ سورج رائے نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بعد مزید قانونی کارروائی کی جائے گی۔