امریکی فوج نے کابل میں فضائی حملے میں شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا، مہلوکین میں بچے بھی شامل

نئی دہلی، ستمبر 18: امریکہ کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر نے جمعہ کو اعتراف کیا کہ 29 اگست کو کابل میں مشتبہ آئی ایس آئی ایس (خراسان) کے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا فضائی حملہ ایک ’’افسوسناک غلطی‘‘ تھی۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ میک کینزی نے یہ بیان ایک تحقیقات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے دیا جو کہ اس رپورٹ کے بعد کیے گئے تھے کہ اس فضائی حملے میں جلدبازی کے سبب عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔

یہ فضائی حملہ ایک ایسی گاڑی کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا جو کچھ لوگوں کو لے جا رہی تھی جسے امریکی عہدیداروں نے اس وقت دہشت گرد گروہ کے ’’ایک سے زیادہ خودکش حملہ آور‘‘ قرار دیا تھا۔

یہ فضائی حملہ کابل ایئرپورٹ کے باہر بم دھماکے کے تین دن بعد کیا گیا تھا جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت کم از کم 170 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ دھماکہ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد افغانستان سے لوگوں کو نکالنے کی کوششوں کے درمیان ہوا۔

اس وقت امریکی بحریہ کے کیپٹن بل اربن نے کہا تھا کہ حکام کو یقین ہے کہ انھوں نے کامیابی سے ہدف کو نشانہ بنایا ہے، لیکن یہ بھی کہا تھا کہ وہاں شہری ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔

جنرل میک کینزی نے جمعہ کو کہا کہ اس حملے میں سات بچوں سمیت 10 شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ گاڑی اور مرنے والوں کا تعلق آئی ایس آئی ایس-کے سے تھا یا وہ امریکی فورسز کے لیے براہ راست خطرہ تھے۔

جنرل نے جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ اور دوستوں سے تعزیت کا اظہار کیا، لیکن کہا کہ یہ فضائی حملہ اس یقین کے ساتھ کیا گیا تھا کہ اس سے ہماری افواج اور ائیر پورٹ پر انخلاء کے خطرات سے بچا جا سکے گا۔

جنرل میک کینزی نے مزید کہا کہ کابل ایئر پورٹ پر حملے کے بعد کے زمینی حالات کے تناظر میں اس واقعے پر غور کیا جانا چاہیے۔ عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ’’انٹیلیجنس کا ایک اہم ادارہ موجود ہے جو کسی دوسرے حملے کے امکان کو ظاہر کرتا تھا۔‘‘

جنرل نے کہا کہ 29 اگست کو امریکی افواج نے ایک سفید ٹویوٹا کرولا کار کو آٹھ گھنٹے تک ایک ایسی جگہ پر دیکھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہاں اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گرد کابل ایئرپورٹ پر حملوں کی تیاری کر رہے تھے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ تین افراد نے گاڑی کو اس جگہ سے نکلنے سے پہلے ’’مبینہ دھماکا خیز مواد‘‘ لوڈ کرتے ہوئے دیکھا۔

انھوں نے بعد میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ واضح طور پر اس خاص سفید ٹویوٹا کرولا کے بارے میں ہماری انٹیلیجنس غلط تھی۔

ایک اور سوال کے جواب میں جنرل نے کہا کہ کوئی بھی انٹیلیجنس طالبان کی طرف سے نہیں آئی۔