یوپی حکومت کا تبدیلئ مذہب قانون، آئین ہند سے متصادم
متنازعہ قوانین کی تدوین کا مقصد سماج میں افرا تفری پھیلانا یا اپنے عیوب کی پردہ پوشی ہے!
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد،حیدرآباد
مسلمانوں کو نشانے پر رکھنے کی مذموم سازش۔جمہوری تانے بانے کے لیے خسارہ
موجودہ حکومتوں کا یہ مزاج بنتا جا رہا ہے کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے اور وہ حکم رانوں سے کوئی سوال نہ کر سکیں۔ اس وقت ملک اور قوم جن سنگین مسائل سے دوچار ہے اس پر کوئی واضح پالیسی اختیار کرکے عوامی فلاح و بہبود کے کچھ ٹھوس کام کرنے کے بجائے حکومتیں ایسے قوانین بنانے میں لگی ہوئی ہیں جن سے نہ عوام کا کوئی فائدہ ہونے والا ہے اور نہ اس سے حکومت کی کوئی مثبت ساکھ بننے والی ہے۔ حالیہ دنوں میں اترپردیش کی حکومت کی جانب سے پھر سے ریاست میں فرقہ وارانہ فضاء کو بڑھا کر اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد کے تحت ایک متنازعہ قانون کو منظور کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے تبدیلی مذہب اور لو جہاد کے خلاف قانون منظور کرلیا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعدغیر قانونی طور پرمذہب تبدیل کرنے اور مذہب کا بے جا استعمال کرکے شادی کرنے والوں کے خلاف سخت سزا دینے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ دستورہند کے تحت مذہبی آزادی شہریوں کا ایک بنیادی حق ہے۔ دستور کی دفعہ 25کے تحت ملک کے تمام شہریوں کو بلالحاظِ مذہب، ذات، رنگ، علاقہ و جنس اس بات کی آزادی فراہم کی گئی کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے، اس کی پیروی کرنے اور اپنے مذہب کی پرا من انداز میں تبلیغ و اشاعت کا حق رکھ سکتے ہیں۔ مذہبی آزادی کا یہ حق دستور کے بنیادی حقوق کی فہرست میں شامل کیا گیاتاکہ کوئی بھی حکومت شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کر سکے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ عام حالات میں مملکت شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل نہیں کر سکتی۔ اگرچہ کہ ہندوستان ایک سیکولر مملکت ہے لیکن دستور سازوں نے مذہبی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے تحفظ کی بھی ضمانت دی ہے۔ ملک کے دستور نے کسی بھی حکومت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ شہریوں کی مذہبی آزادی میں کسی تاویل کی بنیاد پر دخل اندازی کرے۔ طرفہ تماشا یہ کہ دستورِ ہند کی ان واضح ہدایات کے باوجود اس ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کو مذہبی آزادی کا یہ حق ہمیشہ ایک خطرہ محسوس ہوتا رہا۔ ان کا دعویٰ یہ رہا کہ اس ملک کے مسلمان اور عیسائی مذہبی آزادی کا بے جا استعمال کرتے ہوئے ملک کے دیگر طبقوں کو اپنے مذہب میں شامل کر رہے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ دستور میں ’کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے ‘کی جو بات کہی گئی ہے اس سے جبری تبدیلی مذہب کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے مختلف سطحوں پر کوششیں کی گئیں، جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین منظور کیے گئے۔ کرناٹک میں جب بی جے پی بر سر اقتدار آئی تو وہاں بھی جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون لاگو کرنے کی کوشش کی گئی۔ تمل ناڈو میں جس وقت اے آئی ڈی ایم کے، کی حکومت تھی اس وقت کی چیف منسٹر جئے للیتا نے بھی اسمبلی میں جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون منظور کیا تھا۔ 2014میں جب سے بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے تب سے فرقہ پرست طاقتیں لگا تار جبری تبدیلی مذہب کا گمراہ کن پروپیگنڈا کرکے یہ چاہتی ہیں کہ شہریوں کی مذہبی آزادی پرقدغن لگا کر انہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیا جائے۔ یوپی اسمبلی میں منظور کیا گیا یہ قانون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
دستور ہند کی جانب سے عطا کردہ ایک اہم اور لازمی حق کو حکومتیں اپنے من گھڑت دعوؤں کے ذریعہ ختم نہیں کر سکتیں۔ یہ بات نا قابل قبول ہے کہ ملک میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی شہری اگر کسی مذہب کی خوبیوں سے متاثر ہوکر اپنا مذہب تبدیل کرتاہے تو یہ اس کا فطری اور دستوری حق ہے۔ حکومت کسی کو مجبور نہیں کر سکتی کہ کوئی شخص کسی مذہب میں پیدا ہوا ہے تو مرتے دم تک وہ اسی کے مطابق وہ زندگی گزارے۔ وہ اپنے علم، تجربہ اور خدائی ہدایات کے ملنے کے بعد اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تواس سے ملک یا سماج کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ طاقت ، پیسہ یا کسی لالچ کی بنیاد پرلوگوں کا مذہب جبری طور پرتبدیل کیا جا رہا ہے تو حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کا حق ہے اور ایسے افراد کو سزا بھی تجویز کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسے واقعات کا کوئی ریکارڈ حکومت پیش نہیں کر سکی کہ ہر سال کتنے لوگ جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہوتے ہیں۔ محض جھوٹ کی بنیاد پر یہ بیانیہ کھڑا کر دیا گیا کہ مسلمان اور عیسائی جبری تبدیلی مذہب کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے دلت، آدی واسی اور دیگر پسماندہ طبقات اپنے دھرم سے اس لیے بیزار ہو گئے کہ وہاں ان کے ساتھ صدیوں سے بدترین سلوک کیا جاتا رہا ہے۔اس دھرم کے ٹھیکیدار سماج کے ان محروم طبقوں کو وہ مقام و مرتبہ دینے کے لیے تیار نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ ظلم و بربریت کا جو سلوک روا رکھا گیا اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ آج کے مہذب سماج میں بھی وہ سماجی انصاف سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ سیاسی مراعات کے نام پر کچھ خیرات ان کو دے دی جاتی ہے لیکن آج بھی انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔صدیوں سے جاری ان ناانصافیوں نے ان طبقوں میں اپنے مذہب سے اگر نفرت پیدا کر دی ہے اور وہ مسلمان یا عیسائی ہوگئے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟ اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے اور اس کا تدارک کرنے کے بجائے من مانی قانون سازی کرکے کسی طبقے کو اپنا غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ اس ملک کی ستّر تا اسّی فیصد آبادی کا تعلق پسماندہ اور کمزور طبقات سے ہے۔ ان کی سماجی اور معاشی حالت اب بھی ناقابل بیان ہے۔ ان کو اپنی پسند کی مندر میں جاکر پوجا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ان کے بچے کسی اعلیٰ ذات کے اسکول میں نہیں پڑھ سکتے۔ ان کی لڑکیاں کسی اعلیٰ ذات کے خاندان میں بیاہی نہیں جا سکتیں۔ یہی وہ احساس محرومی ہے جس کی وجہ سے یہ طبقے اپنے مذہب سے بغاوت کرکے دوسرا مذہب قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر اس کا حل نکالنے کے بجائے ان کو اسی دلدل میں پھنسے رہنے پر مجبور کرے تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ہندو سماج کے یہ نام نہاد مسیحا جو آج جبری تبدیلی مذہب کا راگ الاپ کر ملک کے سماجی تانے بانے کو توڑنا چاہتے ہیں وہ اگر اپنی انا کے خول سے باہر آتے اور ان محروم طبقوں کو بھی انسان سمجھ کر ان کے ساتھ احترام اور مؤدت کا سلوک اپناتے تو یہ ملک جنت نشان بن جاتا۔ اس کے بر عکس انہوں نے اس سماجی تبدیلی کو قانون سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کے لیے جان بوجھ کر ملک کے بعض طبقوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ لوگ جبری تبدیلی مذہب کے ذمہ دار ہیں۔ اسی لیے اس ضمن میں قانون کی تدوین ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت، جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنانے میں کامیاب ہوجائے لیکن اگر کوئی شخص اپنے ضمیر کی بنیاد پر اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلے تو حکومت اسے کیسے روک سکے گی؟ فسطائی طاقتیں جانتی ہیں کہ ملک میں مذہبی تبدیلی کے پیچھے کوئی مالی منفعت نہیں ہے بلکہ ہندو سماج میں جو ورنا سسٹم ہے اس سے تنگ آکر بہت سارے طبقے اپنے دھرم کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ یہ ظالمانہ نظام انسانوں کو کئی خانوں میں بانٹ دیتاہے۔
یوگی حکومت کی جانب سے اتر پردیش میں تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے خلاف وضع کردہ مجوزہ قانون بی جے پی کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے سماج میں انتشار پیدا ہوگا۔ یہ قانون منفی سیاست کی عکاسی کرتا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا دعویٰ کرنے والی یہ حکومتیں ان قوانین کے ذریعہ مخصوص فرقوں کو اپنا نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔ ان قوانین کا بے جا استعمال کر تے ہوئے مسلمانوں کو قانونی طور پر ماخوذ کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں مسلمانوں کی باوقار شخصیات کو اس الزام کے تحت پابند سلاسل کیا گیا کہ وہ جبری طورپر لوگوں کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں، حالانکہ حکومت اس کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ لیکن اب ہراسانی کے واقعات اور بڑھتے جائیں گے۔ اس ضمن میں اپوزیشن پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کے غیر جمہوری قوانین کے خلاف آواز اٹھائیں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ غیر ضروری قوانین کو لا کر عوام کو الجھن میں نہ ڈالے۔ کوئی فرد یا گروہ غیر قانونی طور پر کسی کے مذہب کو تبدیل کرتا ہے تو اسے سزا دی جائے ۔اس کے لیے پہلے سے قوانین بھی موجود ہیں۔یوپی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سابق قوانین سے مجرموں سے نمٹنے میں دشواری ہو رہی تھی اس لیے نئے قوانین لائے گئے۔ ترمیم شدہ قانون کے تحت دھوکہ دہی سے کسی لڑکی کا مذہب تبدیل کرنے اور اس سے غیر قانونی انداز میں شادی کرنے پر عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے کے قانون میں زیادہ سے زیادہ دس سال کی سزا تھی۔ مجوزہ قانون کے تحت اگر کوئی شخص کسی کو مذہب تبدیل کرنے کی نیت سے دھمکی دیتا ہے یا حملہ کرتا ہے یا کوئی سازش کرتا ہے تو اس میں عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے فنڈنگ دینا بھی اب جرم ہو گیا ہے۔ یہ غیر قانونی سرگرمی کہلائی جائےگی۔ صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنا دھوکہ دہی ہوگی۔ اس پر سزا دی جائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی شخص رضاکارانہ طور پر بغیر کسی جبر یا تشدد کے مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے اسے دو ماہ قبل مجسٹریٹ کو آگاہ کرنا پڑے گا کہ وہ کن وجوہات کی بناء پر اپنا مذہب تبدیل کر رہا ہے۔ قانون کی یہ شق ہی بڑی خطرناک ہے۔ اس لیے کہ اب کوئی فرد اپنی مرضی سے کسی مذہب کو تبدیل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کی اطلاع قبل از وقت مجسٹریٹ کو نہ دے چکا ہو۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جرائم کی حسّاسیت، خواتین کے وقار اور سماجی حیثیت سے محروم طبقات جیسے ایس سی، ایس ٹی، وغیرہ کے مفاد کے لیے ایسے سخت قوانین کی ضرورت تھی کہ یہی طبقے زیادہ جبری مذہبی تبدیلی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خواتین، پسماندہ طبقات اور دلتوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی رہی اسی لیے یہ طبقے دوسرے مذہب کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ ان کی سماجی حیثیت کا اگر حکومت کوادراک ہوتا تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔حکومت یہ فرض انجام نہ دے کر اس قانون کے ذریعہ انہیں مزید گھٹن کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہی ہے۔
جہاں تک اسلام کی بات ہے، اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بزور طاقت یا لالچ کسی کو اسلام میں داخل کرایا جائے۔ اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا کہ "لا اکراہ فی الدین” لہٰذا فرقہ پرست طاقتوں کا یہ الزام سراسر غلط ہے کہ مسلمان جبری تبدیلی مذہب کے ذمہ دار ہیں۔ ملک کے جو طبقے اسلام قبول کر رہے ہیں اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ان میں وحدت آدم کا تصور، احترام آدمیت اور مساوات انسانی جیسے نظریات شامل ہیں۔ اسی لیے اسلام کی طرف لوگ راغب ہو رہے ہیں اور یہی چیز ملک کی فرقہ پر ست طاقتوں کے لیے حیرانی اور پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ حالات کے اس تناظر میں اہل اسلام باد سموم کے ان جھونکوں میں بھی اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے فرض منصبی سے ہرگز دستبردار نہ ہوں، اس لیے کہ اس فریضہ کو انجام دینا ان کے دین کا تقاضا ہے۔
***
***
یوگی حکومت کی جانب سے اتر پردیش میں تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے خلاف وضع کردہ مجوزہ قانون بی جے پی کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے سماج میں انتشار پیدا ہوگا۔ یہ قانون منفی سیاست کی عکاسی کرتا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا دعویٰ کرنے والی یہ حکومتیں ان قوانین کے ذریعہ مخصوص فرقوں کو اپنا نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔ ان قوانین کا بے جا استعمال کر تے ہوئے مسلمانوں کو قانونی طور پر ماخوذ کیا جا سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024