یوپی: 100 سالہ قدیم مسجد منہدم، سنی وقف بورڈ نے انہدام کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے مسجد کی بحالی اور اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا

اترپردیش، مئی 19: منگل کو دی ہندو کی خبر کے مطابق اتر پردیش میں بارہ بنکی انتظامیہ نے ضلع کی یہ کہتے ہوئے ایک مسجد کو مسمار کردیا کہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی رہائش گاہ کے سامنے ایک ’’غیر قانونی رہائشی کمپلیکس‘‘ پایا گیا ہے۔ انتظامیہ نے بتایا کہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی عدالت کے جاری کردہ احکامات پر پیر کو اس کمپلیکس کو مسمار کردیا گیا۔

منگل کو اتر پردیش کے سنی سنٹرل وقف بورڈ نے اس انہدام کی مذمت کی ہے اور اسے ’’صریح غیر قانونی کارروائی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس مسجد کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بورڈ نے کہا کہ یہ کارروائی تجاوزات ہٹانے کے ’’بہانے‘‘ سے کی گئی۔

ایک بیان میں بورڈ نے کہا ہے کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ میں مسجد کی بحالی، اعلی سطحی عدالتی تحقیقات اور ’’مجرم افسران‘‘ کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دائر کرے گی۔

سنی وقف بورڈ کے چیئرپرسن ظفر فاروقی نے بتایا کہ مسجد 100 سال قدیم ہے۔ فاروقی نے کہا ’’یہ عمل قانون کے خلاف اور اختیارات کا ناجائ استعمال ہے اور [الہ آباد] ہائی کورٹ کے 24 اپریل کو منظور کیے گئے واضح احکامات کی سراسر خلاف ورزی ہے۔‘‘

بورڈ کے سربراہ الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ 24 اپریل کو ریاست میں 31 مئی تک انہدام کے عمل کو روکنے کے حکم کا حوالہ دے رہے تھے۔ کورونا وائرس کے معاملات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت کے ذریعے حکم دیے گئے ایسے کسی بھی قسم کے بے دخلی، تلفی یا انہدام کو معطل سمجھا جائے گا جس پر ابھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آدرش سنگھ نے کہا کہ مسجد کے متولیان کو 15 مارچ کو ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا اور انھیں ملکیت کے حوالے سے گذارشات پیش کرنے کو کہا گیا تھا، جس کے بعد کمپلیکس کے رہائشی فرار ہوگئے تھے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ انتظامیہ نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر 18 مارچ کو اس احاطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی اطلاع کے مطابق وقف بورڈ نے کہا کہ اس کے بعد مزید کوئی مواصلات نہیں ارسال کیے گئے ہیں۔ اس نوٹس کے اجرا کے وقت ہی مسجد کو نماز کے لیے بند کردیا گیا تھا اور عوام کو احاطے میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔

مسجد کی منیجنگ کمیٹی نے ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن کے ذریعہ 15 مارچ کے نوٹس کی توثیق کو چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ انھیں مسجد کے انہدام کے شدید خطرے کا سامنا ہے۔

تاہم ہائی کورٹ نے 18 مارچ کو یہ کہتے ہوئے درخواست خارج کردی تھی کہ درخواست گزاروں کو جو نوٹس دیا گیا ہے وہ دستاویزی ثبوت طلب کرنے کے لیے تھا، مسمار کرنے کے لیے نہیں۔ اس نے مینجنگ کمیٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 دن کے اندر نوٹس کا جواب داخل کرے۔

جسٹس دیویندر کمار اپادھیاے اور جسٹس منیش کمار کے بنچ نے مزید کہا تھا کہ جواب داخل ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ اس معاملے پر نیا فیصلہ لے گی۔

ضلعی مجسٹریٹ نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزاروں کے ذریعے 2 اپریل کو اپنے جوابات پیش کرنے کے بعد یہ ثابت ہو گیا تھا کہ عمارت ’’غیر قانونی‘‘ ہے۔