مہاتما گاندھی کو حکومت نے ویلن اورگوڈسے کو ہیرو بنادیا ہے

مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی کے ساتھ دعوت کی خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

2 اکتوبر کو پوری دنیا گاندھی جی کے نام پر عدم تشدد کا عالمی دن مناتی ہے۔ لیکن اپنے ملک کی آزادی کے 75 سالہ جشن ’امرت مہوتسو‘ منا رہے ہندوستان کے لوگ اب گاندھی جی کو بھول رہے ہیں اور ان کی جگہ قاتل ناتھورام گوڈسے کو یاد رہے ہیں۔

گاندھی جی کی یوم پیدائش کے خصوصی موقع پر ہفت روزہ دعوت نے گاندھی جی کے پڑ پوتے تشار گاندھی سے خاص بات چیت کی۔

اس گفتگو میں تشار گاندھی نے کہا کہ موجودہ حکومت جس نظریے سے تعلق رکھتی ہے، اس کا آزادی کی جنگ میں کوئی حصہ نہیں ہے، وہاں انہوں نے کوئی بھی کردار نہیں نبھایا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ملک اپنی آزادی کا 75 سالہ جشن منا رہا ہے تو یہ حکومت گاندھی جی کے ساتھ رہنے والے ان چہروں کو بھی درکنار کر رہی ہے جو اس ملک کو آزاد کرانے والے اصلی ستیہ گرہی ہیں۔ اگر یہ ان مجاہدین آزادی کو پروجیکٹ کرنا شروع کریں گے تو خود ان پر سوال کھڑا ہو گا کہ انہوں نے آزادی کے لیے کیا کیا ہے۔ یہ لوگ اس ’امرت مہوتسو‘ کو اس مقصد سے منارہے ہیں تاکہ حقیقی تاریخ کو غائب کردیں اور ان کی خود ساختہ تاریخ ہم پر تھوپ دیں۔

آپ آج کے دور کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں سچائی کا دور دورہ تھا، اب ہم لوگ جھوٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اب جھوٹ کو ہی لوگ سچ ماننے لگے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سارے جھوٹ سچ مانے جائیں۔ اسی لیے خواب جھوٹے ہیں، وعدے بھی جھوٹے ہیں، کام بھی جھوٹا اور نیت بھی جھوٹی ہے۔

گاندھی جی اگر آج کے دور میں ہوتے تو کیا کرتے؟

اس سوال پر تشار گاندھی کہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر باپو زندہ ہوتے تو کسی کے کچھ کرنے کا انتظار نہ کرتے، وہ حالات کا اندازہ لگا چکے ہوتے، وہ ملک کے بگڑتے حالات کو روکنے کے لیے سرگرم رہتے تاکہ یہ بگڑتے حالات بڑھ کر ایک ’مہا روگ‘ نہ بن جائیں۔ ملک میں پھیلنے والی نفرت کی علامات کو وہ بہت پہلے ہی پہچان چکے ہوتے اور پھر اپنے طریقے سے کام شروع کر دیتے۔

جیلوں میں بند نوجوانوں کے لیے جنگ ہونی چاہیے

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ہم کتنے خود غرض سماج کا حصہ بن گئے ہیں کہ سی اے اے معاملہ کو ہندو مسلمان میں بانٹ دیا۔ کسانوں کی تحریک کو خالصتانیوں کی تحریک بنا دیا اور اپنے آپ کو محدود کر دیا کہ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے یہ مان لیا کہ سی اے اے تحریک والے مسلمان ہیں اور مسلمان تو غدار ہوتے ہیں۔ ہم نے یہ تسلیم کر لیا کہ کسان تحریک والے خالصتانی ہیں اور وہ غدار ہوتے ہیں۔ ہم جب تک حقیقت کو قبول نہیں کریں گے، تب تک حالات میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں تشار گاندھی نے کہا کہ سی اے اے تحریک کے بعد جن نوجوانوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے حکومت کے اس ظلم کے خلاف بہت بڑی جنگ ہونی چاہیے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کسی شخص کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور چارج شیٹ بھی داخل نہیں ہوئی۔ جرم بھی نہیں بتایا گیا۔ پولیس جو چاہتی ہے کہانی بنا دیتی ہے اور ہمیں اس کی بالکل فکر نہیں ہے، کیونکہ ہم نے ان کو غدار مان لیا ہے، ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ ایک تو وہ مسلمان ہیں دوسرا جے این یو اور جامعہ سے ان کا تعلق ہے۔ جب تک ہم اس سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے تب تک نفرت پھیلانے والوں کے حوصلے بلند رہیں گے۔ دراصل ہمارے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہی ان کو طاقت مل رہی ہے۔

آج کی حکومت گاندھی جی کے نام کا صرف استعمال کر رہی ہے

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ طویل گفتگو میں تشار گاندھی بتاتے ہیں کہ آج کی حکومتیں گاندھی جی کے نام کا استعمال تو کر رہی ہیں لیکن گاندھی جی کے ورثہ یا ان سے منسوب مقامات کو بچانے کا کام نہیں کر رہی ہے۔ یہ لوگ اپنے مفاد کے موقع پر تو گاندھی جی کو خوب یاد کرتے ہیں اور مفاد حاصل ہوتے ہی بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ گاندھی جی کو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں ہے اگر کچھ سمجھتے تو ایسا نہیں ہوتا کہ آج یاد کرلیا اور کل بھول گئے؟ آپ کو ’سوچھتا ابھیان‘ یاد ہو گا جب لال قلعہ سے اس کا اعلان ہوا تھا، اس کے ایک سال تک ہر لیڈر جھاڑو کے ساتھ تصویر کھچوا کر صفائی کرتا ہوا نظر آیا لیکن کیا آپ نے کسی فائیو اسٹار لیڈر کو جھاڑو لگاتے دیکھا ہے؟ یہ محض موقع کی مناسبت سے گاندھی جی کا استعمال کرتے ہیں۔

کیا وزیراعظم نریندر مودی کی آستھا گاندھی جی میں نہیں ہے؟

نہیں بالکل نہیں! ان کی آستھا تو گوڈسے میں ہے، ساورکر اور گولوالکر میں ہے۔ ان کی رگ وپے میں ناتھورام گوڈسے بسا ہوا ہے۔ وہ اسی قبیل سے نکلے ہیں، وہ اسی نظریے کی پیداوار ہیں ان کی پرورش اور پوری پہچان اسی نظریے سے ہے وہ کیسے بدل سکتے ہیں؟ وہ صرف اور صرف دکھاوا کرسکتے ہیں۔ ان کی نظر میں گاندھی ایک ویلن ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ گاندھی کو ہندوستان کے لیے ابھیشاپ (لعنت) ہی سمجھا ہے۔ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ چونکہ گاندھی جی کی دنیا بھر میں شہرت ہے اس لیے دل پر جبر کرتے ہوئے انہیں دکھاوا کرنا پڑتا ہے ورنہ لوگ ان پر سوال اٹھائیں گے۔

اگر یہ گاندھی کو ویلن مانتے ہیں تو پھر ہیرو کون ہے؟

یہ ہیرو ناتھورام گوڈسے کو مانتے ہیں۔ یہی ان کا اصلی ہیرو ہے۔ اسی لیے یہ اس کو دیش بھکت پنڈت ناتھورام گوڈسے کہہ کر بلاتے ہیں۔ اس کی مالا جپتے ہیں۔ اس کی سالگرہ اور پھانسی کی یادگار مناتے ہیں۔ اس کا مندر بناتے ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن انہیں میری گاندھی بھکتی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔میں تو چاہتا ہوں کہ وہ کھلے عام گوڈسے کی بھکتی کریں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ کون گاندھی کا پیروکار ہے اور کون ناتھورام گوڈسے کا؟ یہ چوری چھپے گوڈسے کی بھکتی کرتے ہیں اور کھلے عام گاندھی جی کی، اس لیے ہمیں ان کی بھکتی اور آستھا پر شک ہوتا ہے۔

رام پر آستھا کے ساتھ بے وفائی

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے من میں پربھو رام کی آستھا ہے، تو یہ آستھا مریادا پروشوتم رام کی نہیں دکھائی دیتی۔ جو لوگ اپنی آستھا یعنی مریادہ پروشوتم رام کےساتھ بے وفائی کر سکتے ہیں، تو پھر جس کے ان کی کوئی آستھا نہیں ہے، اس کے ساتھ وفاداری کیسے نبھا سکتے ہیں؟ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ باپو نے جس رام راجیہ کا تخیل دیا تھا وہ صحیح معنوں میں سبھی طبقوں کا راج تھا جس میں سماج کے سب سے غریب، کمزور طبقوں کی آواز بلند ہو اور انہیں پورے پورے حقوق ملیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میرے رام راجیہ میں راجا اور عوام میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ان دونوں کی حیثیت اور ان دونوں کی طاقت ایک جیسی ہوگی۔ آج ایک خاص مذہب اور ایک تنگ نظر حکومتی نظام کو تھوپنے کی کوشش جاری ہے، اس میں ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کی شمولیت نہیں ہے۔ ان کے اس ’ہندو راشٹر‘ میں ورنا سسٹم کے مطابق راج کرنا ہے۔ ابھی جس کو موجودہ حکومت رام راجیہ بتاکر پیش کر رہی ہے، اس میں اور باپو کے رام راج میں کہیں بھی کوئی مماثلت اور یکسانیت نہیں ہے۔

کیا کانگریس کے لوگ بھی گاندھی کو بھول چکے ہیں؟

اس سوال پر تشار گاندھی واضح طور پر کہتے ہیں کہ کانگریس نے بھی گاندھی کے نام کا بہت غلط طریقے سے استعمال کیا ہے۔ گاندھی جی کے معاملے میں تمام سیاسی پارٹیاں برابر کی گناہ گار ہیں۔

گاندھی سے جڑے ورثہ کی حالت

تشار گاندھی کہتے ہیں، ملک میں جس ورثہ کو قومی ورثہ یا میموریل کی شکل میں پہچان ملی ہے، ان کی بھی حالت خراب ہے۔ آپ پوربندر جا کر دیکھیے جو کہ باپو کی جائے پیدائش ہے، اس کو قومی ورثہ کی شکل میں رکھا جانا ہے لیکن اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ بس بلڈنگ کا محض ایک ڈھانچہ ہے۔ کسی نے بھی اس کے تحفظ کی فکر نہیں کی۔ ہمارے پاس ہیریٹیج ایکسپرٹس ہیں، ان کو اس وقت کی تہذیب، رہنے کا ڈھنگ، رسم و رواج کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو گا وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے قوت ارادی یا خواہش چاہیے جو کہ نہیں ہے۔ بس ایک تختی لگا دی گئی کہ یہ قومی ورثہ ہے اور کام ختم۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ گاندھی کے اسی گھر کے پیچھے کستوربا کا گھر ہے، جہاں ان کا جنم ہوا۔ اس کو بھی ریاستی ورثہ کا درجہ حاصل ہے، لیکن اس کی بھی حالت کافی خستہ ہے۔ کئی لوگوں کو تو یہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ باپو کے گھر کے پیچھے ہی کستوربا کا گھر بھی ہے۔ راجکوٹ میں جہاں باپو کا گھر ہے وہ بھی ایک قومی ورثہ ہے۔ ایک نجی تنظیم اس کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ باپو کا جو الفریڈ ہائی اسکول تھا اس کو کچھ سال قبل نریندر مودی نے بند کروا دیا۔ اور اب وہاں باپو کے نام پر ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ اگر یہ اسکول چلتا رہتا تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی اور یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ فخر محسوس کرتے۔

اس میں ایک سازش ہے۔۔۔

وہ کہتے ہیں، سابرمتی آشرم کو دیکھیے۔ وزیر اعظم مودی کو اس کی بہت فکر رہتی ہے، لیکن اس آشرم کی سادگی ختم کر دی گئی۔ اگر اسے اسی حالت میں رکھا جاتا، جس حالت میں وہ باپو کے وقت تھا تو لوگوں کو معلوم ہوتا کہ گاندھی جی کس سادگی سے زندگی گزارتے تھے۔ اگر آپ اسے پانچ ستارہ بنا دیں گے، تو لوگوں کو غلط فہمی ہو گی کہ گاندھی تو شان وشوکت کا جینا جیتے تھے لیکن بات سادگی کی کرتے تھے۔ اس میں ایک سازش ہے کہ گاندھی جی کے وجود پر ہی ایک سوالیہ نشان لگا دیا جائے۔

جلیان والا باغ کو دیکھیے اسے پرانی حالت میں رکھا گیا۔ ہم وہاں جاتے تو پتہ چلتا تھا کہ کیسے گولیاں چلی تھیں، لوگ کیسے دوڑے تھے، کیسے کنویں میں کودے تھے، ان پر کیا گزری تھی۔ کئی سالوں تک کنویں کی دیواروں پر خون کے دھبے دکھائی دیتے تھے گولیوں نشان نظر آتے تھے۔ دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اس وقت کتنا بھیانک منظر رہا ہو گا۔ لیکن اب یہاں شاندار لان بنا دیا گیا، دیواروں میں پتھر لگا دیے گئے، کنویں کے آس پاس گھر بنا دیے گئے۔ جلیان والا باغ کے احساس کو ختم کر دیا گیا۔ یہ حکومت جنگ آزادی کی تمام یادوں اور ورثہ کو برباد کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اصل تاریخ کو ختم کرکے ایک نئی تاریخ گھڑی جائے، تاکہ لوگوں کو یہ بتا سکے کہ 70 سالوں سے آپ کو غلط باتیں بتائی گئیں ہم آپ کو صحیح معلومات دے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ملک کے تمام تاریخی مقامات کو برباد کر دیں گے اور اپنی مرضی کی نئی تاریخ گھڑ کر پیش کریں گے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے تئیں ذمہ داری نبھانی ہو گی۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت میں سانس لے رہے ہیں لیکن جمہوری ملک کے شہری ہونے کے ناطے اپنے فرائض اور حقوق کو بھول جاتے ہیں۔ اگر ملک میں غلط ہو رہا ہے تو اس میں غلطی ہماری بھی ہے۔ اب یہاں انگریز نہیں ہیں کہ تمام چیزوں کے لیے انہی کو ذمہ دار قرار دیں۔ یہ کام تو ہم پچاس سالوں سے کر رہے ہیں۔ دراصل ہم خود بہت مکار ہو گئے ہیں۔ ہمیں مکاری ترک کرنی ہو گی اور جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنا سیکھنا ہو گا۔

 

***

 سی اے اے تحریک کے بعد جن نوجوانوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے حکومت کے اس ظلم کے خلاف بہت بڑی جنگ ہونی چاہیے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کسی شخص کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور چارج شیٹ بھی داخل نہیں ہوئی۔ جرم بھی نہیں بتایا گیا۔ پولیس جو چاہتی ہے کہانی بنا دیتی ہے اور ہمیں اس کی بالکل فکر نہیں ہے، کیونکہ ہم نے ان کو غدار مان لیا ہے، ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ ایک تو وہ مسلمان ہیں دوسرا جے این یو اور جامعہ سے ان کا تعلق ہے۔ جب تک ہم اس سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے تب تک نفرت پھیلانے والوں کے حوصلے بلند رہیں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021