ٹرمپ کا معاشی بحران اور ہندوستان حیران و پریشان
مسلسل کمزور ہوتی بھارتی معیشت اور آئی ایم ایف کی پیشیِن گوئی تشویشناک
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
حصص بازار میں زبردست مندی: سرمایہ کاروں کے 7 لاکھ کروڑ روپے غائب
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار کی غیر یقینی صورتحال ہندوستانی معیشت پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔ اس کی ایک مثال سونے کی قیمتوں میں مسلسل آٹھویں دن اضافہ درج کیا جانا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی روپیہ کی قدر جیسے جیسے گرتی جارہی ہے اسی رفتار سے سونے کی قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور پہلی بار 83,000 روپے فی 10 گرام سے تجاوز کرچکا ہے۔ آل انڈیا صرافہ ایسوسی ایشن کے مطابق 99.9 فیصد خالصیت کا سونا 24جنوری کو 83,100 روپے فی 10 گرام کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ایک دن قبل یہ قیمت 82,900 روپے تھی۔ عالمی سطح پر بھی سونے کی قیمتیں تین ماہ کی بلند ترین سطح 2780 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئیں جو مسلسل چوتھے ہفتے کا اضافہ تھا یعنی اسے ٹرمپ کی کامیابی سے بآسانی جوڑا جاسکتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات میں سے کچھ عالمی سطح پر سونے کی طلب میں اضافہ کو مثبت معاشی اشارہ مانتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو اسے صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں میں غیر یقینیت کے سبب شیئر بازار کے بجائے سونے کو محفوظ سرمایہ کاری کی علامت سمجھتے ہیں۔
امریکہ کے اس نزلہ سے پریشان ہوکر ہندوستانی حصص بازار چھینکنے لگا ہےاورسینسیکس ونفٹی میں اتھل پتھل ہونے لگی ہے،کیونکہ نومنتخب امریکی صدر نے کینیڈا اور میکسیکو کے بعدبرکس ممالک اور یورپی ممالک کے لیے بھی ٹیکس میں اضافہ کی وارننگ دے دی ہے ۔ ٹرمپ کے ان عزائم کے باعث ہندوستانی شیئر بازار میں بامبے اسٹاک ایکسچینج کاحساس انڈیکس سینسیکس 1235 پوائنٹس یا1.6 فیصد گر کر75838 پوائنٹس پر آگیا ہے۔ ماہرین 76 ہزار پوائنٹس سے نیچے آنے کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں ۔ یہ پچھلے ساڑھے سات ماہ کی کم ترین سطح ہے۔ اس سے پہلےانتخابی نتائج کے بعد 6 جون کو یہ 75074 پوائنٹس پر تھا۔ اس کے علاوہ نیشنل اسٹاک ایکسچینج کا نفٹی320 پوائنٹس یا 1.37 فیصد گر کر23024 پوائنٹس پر بند ہوا۔اس گراوٹ کی بنیادی وجہ بی ایس ای کی بڑی کمپنیوں کی طرح درمیانی اور چھوٹی کمپنیوں کے حصص میں بھی زبردست فروخت تھی۔ بی ایس ای کے تمام21 گروپوں کا رجحان منفی تھا اس لیے سینسیکس اور نفٹی میں لگ بھگ 2فیصد کی گراوٹ درج کی گئی اور ہندوستانی سرمایہ کاروں کے 7لاکھ کروڑ روپےکافور ہوگئے۔
اس عالمی معاشی زلزلےکے جھٹکے چین سے جاپان اور برطانیہ و جرمنی سمیت ہر ملک میں محسوس کیے گئے۔ ہندوستان میں اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں مثلاً تیسری سہ ماہی میں جاری ہونے والے کمپنیوں کے نتائج سرمایہ کاروں کے لیے اطمینان بخش نہیں تھے ۔ پہلی اور دوسری سہ ماہی کے کمزور نتائج کے بعد لگاتار تیسری سہ ماہی کے نتائج بھی مایوس کن ہوں تو اس کا بازار پر منفی اثر لازم ہے ۔ کارپوریٹ کی آمدنی میں کمزوری سے معاشی سرگرمیوں میں نرمی بھی فطری ہے۔ امریکی ڈالر میں مضبوطی اور بانڈ یِیلڈ بڑھنے کے سبب ایف پی آئی (غیرملکی سرمایہ کار) ہندوستانی بازار میں مسلسل فروخت کررہے ہیں، جنوری 20 تک ایف پی آئی 51 ہزار کروڑ روپے کے ایکویٹی فروخت کرچکے تھے ۔اس نے بھی بازار کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ان سارے عوامل کے مجموعی اثر سے ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ کی چمک دمک ماند پڑ گئی ہے ۔
بی این پی پریباس سیکوریٹیز ایک معروف معاشی ادارہ ہے۔ اس نے توقع ظاہر کی ہے کہ 2025ء ہندوستانی ایکویٹی مارکیٹ کے لیے ایک ٹھنڈا سال ثابت ہوگا۔ بی این پی کی پیشن گوئی کے مطابق اگلے ایک سال میں ہندوستانی مارکیٹ کا منافع ایک ہندسےتک محدود رہے گا بلکہ بازار کے بھاؤ نیچے آنے کے آثار ہیں۔ بی این پی پریباس سیکوریٹیز کے تجزیہ کاروں کے مطابق خوراک کی افراط زر، اعلیٰ امریکی بونڈ کی پیداوار، ڈالر کا بڑھتا ہوا انڈیکس اور اشیاء کی قیمتوں میں مضبوطی وغیرہ سال کے بیشتر حصے میں مارکیٹ پر اثر انداز ہوں گے۔اس مؤقر ادارے میں انڈیا ایکویٹی ریسرچ کے سربراہ کنال وورا کی رائے ہے کہ ترقی میں مضبوط بحالی کے بغیر ابھرتے ہوئے بازاروں میں مہنگی ایکویٹی خریدنے کی طلب کم رہے گی۔انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مضبوط گھریلو خریدو فروخت ہندوستانی ایکویٹی مارکیٹس کو سہارا دے رہی ہے اور فی الحال کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے تاہم 2025ء میں قدر کے کئی گنا منافع کی دوبارہ درجہ بندی کے امکانات کم ہیں یعنی کام تو چلے گا مگر کوئی بڑا کمال نہیں ہوگا۔
بی او ایف اے (بوفا)سیکوریٹیز نامی بروکریج ہاؤس کی تحقیق اور سروے کے مطابق 10 فیصد فنڈ منیجرز نے12 ماہ کے تناظر میں ہندوستانی ایکویٹی کے وزن کو ڈھلان پر پایا ہے ۔ اس کے برعکس بوفا سیکوریٹیز کے سروے میں جاپان کو ایشیائی منڈیوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ مارکیٹ قرار دیا گیا۔ اس سے کل53 فیصد شرکاء/فنڈ منیجرس زیادہ پرامید تھے۔ ان کے بعد تائیوان اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔بی او ایف اے سیکوریٹیز نامی ادارے کے ایک سروے میں ہندوستان کو 3 سب سے کم پسندیدہ ایشیائی اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیاگیا۔ اس نے اپنی فہرست میں صرف چین (خالص 23 فیصد فنڈ منیجرس کے ساتھ) اور تھائی لینڈ (13 فیصد) کو ہندوستان سے بدتر بتایا ۔ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس سے قبل ڈاؤس میں جاری کی گئی ایک تحقیق میں یہ جو درجہ بندی جاری کی گئی اس میں ہندوستان ماضی کی بہ نسبت ایک پائیدان نیچے آگیا ہے ۔اس رپورٹ میں مختلف زمروں اور آمدنی والے طبقات کے لوگوں کا حکومتوں ، کاروباری اداروں ، میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں پر بھروسے کا اندازہ لگا کردرجہ بندی کی گئی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم نے پایا کہ اعتماد کے معاملے میں ہندوستانی کمپنیاں عالمی سطح پر13ویں پوزیشن پر ہیں۔ روس کے علاوہ برکس کے سارے بنیادی ارکان ہم سے بہترحالت میں ہیں۔ اس جائزے نے عالمی سطح پر کچھ نہایت پریشان کن رجحانات کا انکشاف کیا مثلاً تشدد اور غلط معلومات کے پھیلاؤ یعنی بہتان طرازی کو اب تبدیلی کے لیے جائز ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر ممالک میں انتخابات یا حکومت کی تبدیلیوں کا بہت کم اثر ہوتا ہے۔ یعنی لوگ چکنی چپڑی باتیں کرکے اقتدار میں تو آجاتے ہیں مگر عوام کے حصے میں دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں آتا۔ عالمی کمیونیکیشن فرم ایڈل مین نے جملہ 28 ممالک کے 33 ہزار جواب دہند گان کے سروے سے یہ نتیجہ نکالا کہ 10 میں سے6 کے نزدیک معاشی خوف بڑھ کر اب شکایت میں بدل گیا ہے۔ آزادی و جمہوریت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امتیازی سلوک کا اندیشہ 10 پوائنٹس بڑھ کر 63 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جو تمام اصناف، عمروں اور آمدنی کی سطحوں پر محیط ہے۔ امریکہ کے سفید فام لوگوں میں بھید بھاؤ کے سلوک نے سب سے بڑی (14 پوائنٹس) کی چھلانگ لگائی اور اسی نے ٹرمپ کو کامیاب کردیا۔
ایڈلمین کے سربراہ رچرڈ ایڈلمین کے مطابق ’’گزشتہ دہائی کے دوران، معاشرہ خوف سے پولرائزیشن اور پھر معاشی طورپر شکایتی مزاج کی طرف بڑھ گیا ہے‘‘ یعنی یہ مسئلہ صرف ہندوستان کی حد تک محدود نہیں ہے۔ یہ سروے ادارہ جاتی رہنماؤں میں عالمی سطح پر بے مثال اعتماد کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے – اوسطاً69 فیصد جواب دہندگان کو خدشہ ہے کہ سرکاری اہلکار، کاروباری رہنما اور صحافی جان بوجھ کر انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ 2021ء سے اس کی اوسط شرح میں 11 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ قابل اعتماد معلومات کے بارے میں بھی لوگوں میں کنفیوژن ہے۔ 63 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ بتانا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ خبریں کسی معتبر ذریعے نے تیار کی ہیں یا ذرائع من گھڑت اورفرضی ہیں! دیگر اہم نتائج نے بڑی معیشتوں میں اعتماد کی کمی کو ظاہر کیا۔ 10 بڑی عالمی معیشتوں میں سے 5 ممالک ٹرسٹ انڈیکس میں سب سے کم قابل اعتماد ممالک میں شامل تھے۔ ان میں جاپان( صرف37 فیصد لوگوں نے اعتماد کیا ) جرمنی (41) برطانیہ(43) امریکہ(47) اور فرانس(48) شامل ہیں۔
اس معاملے میں ترقی پذیر ممالک زیادہ قابل اعتماد بن کر ابھرے ہیں۔ چین(77 فیصد لوگوں کا اعتماد حاصل ہوا) انڈونیشیا(76) ہندوستان(75) اور متحدہ عرب امارات(72) ایک بار پھر ٹرسٹ انڈیکس میں سرفہرست رہے۔ان اعدادو شمار کے حوالے سے ہندوستان کی حد تک تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ اندھی تقلید کے سبب معروضی طرزِ فکر کا فقدان اور جذباتیت ہے ورنہ جھوٹ پھیلاکر گمراہ کرنے میں ہندوستانی گودی میڈیا کے سامنے ساری دنیا پانی بھرتی ہے۔ سروے کے مطابق 67 فیصدلوگوں کے نزدیک اصل مسئلہ امیر طبقہ ہے کیونکہ وہ ٹھیک سے ٹیکس نہیں بھرتاجبکہ 65 فیصد کا خیال ہےکہ عام لوگ بذاتِ خود اپنےمسائل کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ورلڈ بینک کی گلوبل اکنامک پراسپیکٹس (جی ای پی) رپورٹ کے جنوری 2025 ایڈیشن میں ہندوستان کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ مالی سال 26 اور مالی سال 27 میں بھارت کی معیشت 6.7 فیصد کی مستحکم شرح سے ترقی کرے گی جبکہ 2025-26 میں عالمی ترقی 2.7 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف نے پیشنگوئی کی ہے کہ 2025 اور 2026 دونوں میں بھارت کی ترقی 6.5 فیصد پر مستحکم رہے گی۔
مرکزی حکومت کے وزراء ان اعدادو شمار کی بنیاد پر معیشت کے حجم پر فخر کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں وزیر خارجہ جئے شنکر نے دعویٰ کیا کہ ’’اگر آپ ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو دیکھیں توآج ہم 800 بلین کی تجارت کے ساتھ4 ٹریلین کی معیشت بن چکے ہیں …‘‘ لیکن سابق وزیر خزانہ چدمبرم کے مطابق حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ہم ابھی4ٹریلین ڈالر کی معیشت نہیں ہیں ہم5 ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت کے ہدف کی طرف بڑھنے کے لیے ہچکولے کھا رہے ہیں ۔ ہندوستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2021-22ء میں 84.84 بلین ڈالر سے کم ہوکر2023-24ءمیں 70.95 بلین ڈالر رہ گئی تھی یعنی ترقی کے بجائے تنزلی دکھائی دے رہی ہے۔ تجارت کے محاذ پرجائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ 2023-24ء کے آخر تک ہماری تجارتی مصنوعات کی برآمدات 437 بلین امریکی ڈالر اور درآمدات 677 بلین امریکی ڈالر تھیں ۔ تجارتی خسارہ 240 بلین امریکی ڈالر ہوگیا جو تشویشناک ہے۔
وزیر ریلوے اشوینی وشنو ملک نے معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری، مینوفیکچرنگ، جامع ترقی اورسہولتوں کی تعریف کی ہے ۔ تاہم مرکزی حکومت اور سرکاری اداروں کی طرف سے 2019-20میں کیپٹل اخراجات جی ڈی پی کے 4.7 فیصد تھے جو اب کم ہو کر2023-24میں 3.8 فیصد رہ گئے ہیں۔ 2014ء میں مینوفیکچرنگ کا بھی جی ڈی پی فیصد کے طورپرتعاون 15.07 فیصد تھا ۔ 2019ء میں وہ کم ہوکر 13.46فیصد اور2023ء میں 12.84فیصد پرآگیا ہے۔یہی شعبہ عوام کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔ اس میں کمی کا لازمی نتیجہ بیروزگاری میں اضافے کی شکل اختیار کرتا ہے اور وہی ہورہا ہے۔ ملکی معیشت پانچ سے بڑھ کر دس ٹریلین ہوجائے اور بیروزگاری بڑھتی رہے تو غریبی اور امیری کا تفاوت بھی بڑھتا چلاجائے گا اور وہ ترقی قوم کے لیے مفید نہیں ہوگی ۔ اس لیے سکے کا ایک پہلو دِکھا کر دوسرے کو چھپا لینا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے ہندوستان کی ترقی 9 سے گھٹ کر8اور 7 سے ہوتے ہوئے 6.7 فیصد پر آگئی ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ گراف اوپر جارہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اقتصادی ادارہ آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے مطابق ایک طرف مالی سال 2025 میں جہاں دنیا کی معیشت مستحکم رہ سکتی ہے، وہیں ہندوستان کی ترقی کے کمزور ہونے کی توقع ہے۔ دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہندوستانی معیشت کی رفتار میں کمی والا کرسٹالینا کا یہ بیان باعث تشویش ہے۔کرسٹالینا نے اپنی سالانہ میڈیا گول میز میٹنگ میں عالمی درجہ بندی اس طرح کی کہ امریکہ ان کی توقع سے کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یورپی یونین (ای یو) کچھ حد تک رکا ہوا ہے اور ہندوستان تھوڑا کمزور پڑرہا ہے۔ برکس کے دیگر ممالک مثلاً برازیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہاں لوگوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےاس کے برعکس دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین میں مہنگائی کے کم ہونے سے دباؤ بڑھنے لگا ۔انہوں نے اس کی وجہ گھریلو طلب میں کمی کو بتایا ہے۔ کم آمدنی والے ممالک کے بارے میں وہ بولیں کوئی بھی نیا معاشی جھٹکا ان پر تمام تر کوششوں کے باوجود انتہائی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
کرسٹالینا کے مطابق یہ غیر متوقع جھٹکے امریکی انتظامیہ کے پالیسی اقدامات، خاص طور پر ٹیرف، ٹیکس، ریگولیشن اور حکومت کی کارکردگی کے سبب لگیں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے آخرکار چین، کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک پر اضافی چارج عائد کرنے کے منصوبے کا اعلان کر ہی دیا ہے۔ وہ ٹیرف کو ایک اہم پالیسی آلہ کار کے طور پر استعمال کرناچاہتے ہیں جس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال عالمی معیشت کو درپیش چیلنجوں میں مزید اضافہ کرے گی۔ مودی سرکار یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ ہندوستان کی معاشی ترقی کے لیے صرف اور صرف وہ ذمہ دار ہے حالانکہ اس کی بنیاد 1991ء میں لبرلائزیشن کے ذریعہ کانگریس نے رکھی تھی ۔ موبائل انقلاب کی شروعات بھی 31؍ جولائی 1995ء کو ہوئی ۔ ’کووی شیلڈ‘ کا ڈھول بجانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کا قیام 1996ء میں ہوا جو کووڈ بحران کے وقت ایسٹرا زینکاکی ٹیکنالوجی استعمال کرنےکے قابل بن کر ویکسین تیار کرنے والے دنیا کے بڑے اداروں میں شمار کیا گیا ۔
ملک کی معیشت کے اندرجو ڈیجیٹل انقلاب فی الحال چہار جانب دکھائی دیتا ہے اس میں جن دھن اکاؤنٹس، آدھار اور موبائل کا مخفف (جام) ہو یا ’زیرو بیلنس اکاؤنٹ‘ جیسی اسکیموں کا بہت بڑا کردار ہے ۔ ان سرکاری منصوبوں کی بنیاد رکھنے والے آربی آئی کے گورنرز ڈاکٹر ایس رنگاراجن (1992ءتا1997ء) اور ڈاکٹر بمل جالان(1997ءتا2003ء)تھے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پہلا آدھار نمبر29؍ستمبر2010ء کو ہندوستان کی منفرد شناختی اتھاریٹی(یو آئی ڈی اے آئی)نے جاری کیا تھا۔ مودی سرکار نے معیشت کی عمارت تعمیر تو کی مگر بنیاد کی اہمیت کا انکار تنگ دلی اور احسان فراموشی ہے۔ اس سفر کے دوران 1997ء میں جب ایشیائی مالیاتی بحران آیا اور 2008ء میں بین الاقوامی مالیاتی بحران نے ہندوستان سمیت ساری دنیا کی معیشت کو جکڑ لیا تو ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک کو اس کے شکنجے سے چھڑایا۔ اب دیکھنا یہ ہے ٹرمپ کے زیر سایہ آنے والے حالیہ معاشی بحران سے مودی سرکار کیسے نمٹتی ہے؟
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025