تریپورہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے وی ایچ پی کی ریلی کے بعد ہوئے مسلم مخالف تشدد پر تفصیلی رپورٹ طلب کی
نئی دہلی، اکتوبر 30: تریپورہ ہائی کورٹ نے جمعہ 29 اکتوبر کو ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ 26 اکتوبر سے خبروں میں سامنے آنے والے مذہبی اقلیتوں پر تشدد اور ان کی املاک میں توڑ پھوڑ اور منصوبہ بند حملوں کے واقعات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔
چیف جسٹس اندراجیت مہانتے اور جسٹس سبھاشیش تلاپترا کی بنچ نے ریاست سے کہا کہ وہ حلف نامہ داخل کرے جس میں ’’فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اٹھائے گئے روک تھام کے اقدامات‘‘ کی وضاحت کی جائے۔
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق ریاست نے جمعہ کو عدالت کو مطلع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی مقامات پر سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیے ہیں اور اشتعال انگیز اور غلط معلومات پر مبنی سوشل میڈیا پوسٹس کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی ہے کہ منگل کو تریپورہ کے چمٹیلا میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی ریلی کے دوران ایک مسجد میں مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی گئی اور مسلمانوں کی دو دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ بھانوپا چکرورتی نے اشارہ دیا تھا کہ مسلم اکثریتی روا بازار میں تین رہائش گاہوں اور چند دکانوں کو بھی لوٹ لیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق یہ حملے بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے پنڈال میں توڑ پھوڑ کے بعد ہوئے۔ تشدد کے سلسلے میں پولیس میں شکایت بھی درج کرائی گئی ہے۔
بنچ نے کہا ’’ہم ریاست کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ایسے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف مناسب کارروائی شروع کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس طرح کے جھوٹے، فرضی اور من گھڑت خبریں یا بصری فوٹیجز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نہ آئیں اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو انھیں جلد از جلد ہٹا دیا جائے۔‘‘
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کو کھینچتے ہوئے عدالت نے آن لائن پلیٹ فارمز پر زور دیا کہ وہ ’’ذمہ داری سے کام کریں۔‘‘
ہائی کورٹ نے کہا ’’اسے (سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو) جھوٹ پھیلانے اور فرقہ وارانہ جذبہ پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
اس سے پہلے تریپورہ کے پولیس انسپکٹر جنرل (لاء اینڈ آرڈر) سوربھ ترپاٹھی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’’پانیساگر میں کل کے واقعہ کے حوالے سے جعلی خبریں اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، کسی مسجد میں آتشزدگی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ وائرل جعلی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔‘‘
تاہم مقامی لوگوں نے پولیس کے اس دعوے کی تردید کی ہے اور مساجد میں توڑ پھوڑ کی اطلاع دی ہے۔