ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب

قرآن سے اپنی زندگی کیسے بدلیں ؟

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو پڑھے اور پڑھائے، اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے‘‘
سورۃ الحشر آیت 21 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ اگر ہم نے قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں’’ یہ آیت قرآن مجید کی عظمت کو بیان کرتی ہے کہ اگر یہ قرآن یعنی اللہ کا کلام کسی پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ اللہ کے خوف و خشیت سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ قرآن مجید کا یہ مضمون انتہائی لطیف مضمون ہے جس کا ادراک انسانی عقل سے ماورا ہے، ایسے مضامین کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں تمثیلیں بیان کرتا ہے، ایسے مضامین جنہیں انسانی عقل سمجھ نہیں پاتی ان مضامین کو اللہ تعالیٰ واقعات کے ذریعے سمجھاتا ہے لیکن انہیں سمجھنے کے لیے بھی غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ بار بار غور وفکر، تدبر وتفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہے کہ قرآن مجید کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر کرتا ہے۔ اس اصول کے تحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ جب وہ کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو وہاں انہوں نے اللہ سے ایک خواہش کا اظہار کیا اور درخواست کی کہ ائے اللہ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں کیوں کہ کلام تو ہوتا رہا ہے، پردے کے پیچھے سے بات تو ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے لیکن دیدار نہیں ہوا تھا، اسی خواہش کا حضرت موسیٰ نے اظہار کیا تھا۔ اس واقعہ کو سورۃ الاعراف میں بیان کیا گیا وَلَمَّا جَاءَمُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ، جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ اے رب! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں۔ ارشاد ہوا: تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا۔ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا پاک ہے تیری ذات۔ میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں۔ واقعہ یہاں بیان ہوا اور اس کی تمثیل سورۃ الحشر میں بیان ہوئی ہے جو اثر اللہ تعالیٰ کی ذات کی تجلی کا ہے وہی اثر اللہ کلام الہی کا بھی ہے۔
ایک بات یہاں قابل غور ہے وہ یہ کہ ایک چیز جو بہت عظمت والی ہے، بہت عظیم ہے، اگر اس عظیم چیز سے مجھے یا کسی انسان کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہو تو اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہو گی، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب میں تمہارے لیے فائدے ہی فائدے ہیں۔ وہ فائدے کیا ہیں اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں یوں بیان فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ۔ لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ پس اے نبی، کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی ہے، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔
اس آیت میں چار باتیں بیان کی گئی ہیں اور ان چار باتوں میں ربط بھی ہے: پہلی یہ ہے کہ وہ موعظت یعنی نصیحت ہے، دوسری یہ ہے کہ یہ شفا صدور یعنی دلوں کا علاج ہے۔ تیسری انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور چوتھی مومنین کے لیے رحمت ہے۔ اس میں صرف موعظت ہی نہیں ہے بلکہ تمہارے سینوں میں جو روگ ہے اس کی شفا بھی اس میں موجود ہے، تمہارے سینوں میں جو امراض ہیں ان کا علاج بھی اس میں ہے اور وہ ہدایت بھی ہے۔ وہ رہنمائی کرتی ہے کہ ہم کو کدھر جانا ہے اور کدھر نہیں جانا ہے۔ یہ ہمیں ہدایت کرتی ہے کہ ہمیں کس راہ پر چلنا ہے اور کس راہ پر چلنے میں نجات ہے۔ اور یہی کتاب آخرت میں باعث رحمت بھی ہے۔ ان الفاظ میں جو ربط ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کسی ایسی زمین پر بارش برستی ہے جو اوپر سے سخت ہے تو اس کا لازمی نیتجہ یہ ہو گا کہ پانی بہہ جائے گا زمین میں پانی جذب نہیں ہو گا اس میں کوئی روئیدگی پیدا نہیں ہو گی۔ اس بارش کے پانی کا زمین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، جب وہ خود فائدہ حاصل نہیں کر سکتی تو وہ دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، ٹھیک اسی طرح انسانی دلوں کا بھی حال ہے۔ انسانی دل اگر سخت ہوں گے تو قرآن مجید کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انسانی دل جب سخت ہوتے ہیں تو ان کی سختی چٹانوں سے زیادہ سخت ہوتی ہے، سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے متعلق فرماتا ہے:
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔ مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیوں کہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ (سورۃ البقر ۷۴)
یہاں خطاب یہودیوں سے ہے کہ تمہارے طرز عمل کی وجہ سے تمہارے دل سخت ہو گئے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت، تو اس دل کی سختی کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے دل کی زمین کو ہموار کرنا ہو گا، دل کی زمین پر ہل چلایا جائے اور یہ کام ہے موعظت کا، دلوں کی سختی کو دور کرنے کے لیے سب سے پہلے موعظت اور نصیحت کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ دل نرم پڑ جائیں، وعظ و نصیحت سے دلوں میں رقت پیدا ہوتی ہے، دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے، قرآن مجید ہی سب سے بڑی موعظت ہے، سب سے بڑی نصیحت ہے، جب دلوں میں نرمی پیدا ہو گی تو نصیحت اس میں جذب ہو گی، یہ دوسرا درجہ ہے یعنی موعظت سے دل نرم ہوا اور نصیحت قبول کرنے کا مادہ اس میں پیدا ہوا پھر نصیحت اس کے دل میں جذب ہو گئی اسی جذب ہونے کی وجہ سے اس کے دل کا روگ دور ہو گا، اس کے دل کا علاج ہو گا۔
دل کی بیماریاں کونسی ہیں؟ نالیوں کا بند ہونا؟ دل میں خون کا انجماد ہونا؟ نہیں، بلکہ وہ بیماریاں اور ہیں جن کے لیے قرآن شفاء ہے۔ وہ بیماریاں ہیں تکبر، حسد، حب مال، حب دنیا، حب جاہ، حب شہرت وغیرہ۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو اصل میں علاج طلب ہیں، یہی ہے وہ دل کے امراض جن کا علاج قرآن مجید کرتا ہے، ان سب بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یہی وہ بیماریاں جس میں انسان غیر محسوس طریقے سے مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ ہدایت بھی ہے۔ ہدایت انفرادی زندگی میں بھی ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی ہے۔ اس ہدایت پر چلنےکی صورت میں رحمت ہی رحمت ہے۔
جب یہ طے ہو گیا کہ اس کی ہدایت میں ہی انسانوں کی نجات ہے تو سب سے پہلے ہم پر اس کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں جو ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ پہلا: اس پر ایمان ہو اور اس کی تعظیم کی جائے۔ دوسرا: اس کی تلاوت کی جائے اور وہ بھی ترتیل کے ساتھ۔ تیسرا: اس کا ذکر ہو اور اس میں تدبر کیا جائے۔ چوتھا: اس کے احکامات پر چلا جائے اور اس کی اقامت کی جائے یعنی اس کو قائم کیا جائے۔ پانچواں: اس کی تبلیغ کی جائے۔
پہلا حق: ہم اس بات کا اقرار تو کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے لیکن یقین اور تصدیق کی ہمارے اندر کمی نظر آتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ آیا ہم قرآن کو مورثی عقیدے کی بنا پر ایک مقدس کتاب سمجھتے ہیں یا یہ یقین ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں؟ ایمان کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے جسے باہر سے ٹھونس کر اندر داخل کر دیا جائے بلکہ ایمان کی چنگاری ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، لیکن اعمالِ بد اسے دھندلا کر دیتے ہیں۔ اس چنگاری کو شعلہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے ،جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول! اس کی صفائی کس طرح ہو گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہر وقت موت کو یاد رکھو اور کثرت سے قرآن کی تلاوت کرو”۔
دوسرا حق: قرآن مجید کا دوسرا حق اس کی قرات اور تلاوت ہے۔ قراءت کا لفظ ہر کتاب کے پڑھنے کو بولا جاتا ہے، جبکہ تلاوت کا لفظ صرف قرآن کے لیے خاص ہے۔ پہلے زمانے میں قاری قرآن کو عالم کہا جاتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو قرآن کو مخارج اور صفات کا لحاظ رکھتے ہوئے اہتمام کے ساتھ پڑھتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت بار بار کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح جسم انسانی بار بار کھانے کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح روح انسانی بھی غذا کی محتاج ہے اور روح کی سب سے عمدہ غذا تلاوت قرآن مجید ہے۔ پھر اس تلاوت کے بھی کچھ حقوق ہیں:
٭ تلاوت کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کی تجوید کے ساتھ قواعد کا لحاظ کرتے ہوئے تلاوت کی جائے، یعنی پڑھنے والے کو مخارج، صفات اور رموز و اوقاف کا علم ہونا چاہیے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا ہو سکے۔
٭ تلاوت کا دوسرا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنا روزانہ کا معمول ہونا چاہیے۔
٭تلاوت کا تیسرا حق خوش الحانی ہے، فرمایا نبی کریم نے: ’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کر کے پڑھو‘‘ اور ایک روایت میں آپ ﷺ نے تنبیہ فرمائی جو قرآن کو خوبصورت نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
٭تلاوت کا چوتھا حق یہ ہے کہ آدابِ ظاہری وباطنی کا خیال رکھا جائے، یعنی باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ کر تعوذ وتسمیہ پڑھ کر حضوریٔ قلب کے ساتھ اور مسلسل تدبر اور تفہم وتفکر کے ساتھ تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے خود ساختہ خیالات ونظریات کی سند قرآن میں نہ ڈھونڈی جائے، بلکہ قرآن سے ہدایت لینے کے لیے اسے پڑھا جائے۔ ٭ تلاوت کا پانچواں حق ترتیل ہے یعنی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً” (سورۃ المزمل: ۴) اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو” ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تثبیت قلب کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: "وَکَذَالِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً ” (الفرقان:۳۲) "ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے”۔ چنانچہ ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے زیادہ فیض حاصل ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ "قرآن کی تلاوت کرو اور روؤ”۔ ٭ تلاوتِ قرآن کا چھٹا حق یہ ہے کہ اس کو حفظ بھی کیا جائے۔ حفظ میں یہ ضروری نہیں کہ پورا ہی حفظ کیا جائے بلکہ حسب توفیق زیادہ سے زیادہ حفظ کیا جائے۔
تیسرا حق: تذکر وتدبر یعنی قرآن مجید کو سمجھنا۔ بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کا جواز ہی نہیں۔ بغیر سمجھے پڑھنا ان لوگوں کے لیے تو درست ہو سکتا ہے جو پڑھنے لکھنے سے محروم رہ گئے ہوں اور اب ان کی عمر اس حد کو پہنچ چکی ہو کہ ان کے لیے سیکھنا نا ممکن ہو چکا ہو۔ ایسے لوگ اگر ٹوٹی پھوٹی تلاوت کریں یا محض عقیدت کی بنا پر سطروں پر اپنی انگلیاںہی پھیر لیں تو بھی ان کو ثواب ملے گا۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے دنیا کے مختلف علوم وفنون حاصل کرنے میں زندگیاں صرف کی ہوں، اپنی مادری زبان تو کیا غیر ملکی زبانیں بھی سیکھی ہوں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا فہم حاصل کریں۔ فہم قرآن کے بھی دو مدارج ہیں۔ پہلا: تذکر بالقرآن اور دوسرا: تدبر فی القرآن۔ تذکر بالقرآن یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کی جائے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید بہت ہی آسان کتاب ہے، ارشاد ربانی ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْأٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ” (سورۃ القمر:۱۷) "ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟”۔ قرآن کو نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر حجت قائم کر دی ہے، خواہ وہ کتنی ہی کم استعداد کا مالک ہو، اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا ہر انسان کے لیے آسان ہے، ہر انسان قرآن سے تذکیر حاصل کر سکتا ہے۔ تدبر فی القرآن یہ ہے کہ قرآن میں غور وخوض کیا جائے، قرآن مجید وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کسی کو اندازہ نہیں ہو سکا۔ صحابہ کرام ؓ تدبر و تفکر میں کئی کئی سال لگاتے تھے۔ عبد اللہ بن عمرؓ جن کو حضور ﷺنے سات دنوں میں قرآن مجید ختم کرنے کی اجازت دی تھی وہ صرف سورۃ البقرہ میں تدبر پر آٹھ سال لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ آیات کا شان نزول، عربی زبان اور دیگر قواعد سب جانتے تھے، ان کو سیکھنے کی کوئی حاجت نہیں تھی لیکن انہوں نے تفکر و تدبر میں کئی سال لگائے۔ مولانا مودودی قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے متعلق مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علم طب کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہو جائے گی تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ مگر شافی مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہو جائیں گے، اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مضر بتا رہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دور کرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے؟”۔
چوتھا حق: حکم، اقامت اور عمل۔ قرآن مجید کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید نہ تو جادو منتر کی کتاب ہے کہ محض اس کا پڑھنا دفع بلیات کے لیے کافی ہے اور نہ ہی یہ محض حصول برکت اور ثواب کی کتاب ہے کہ دکان ومکان میں برکت یا مردے بخشوانے کے لیے اس کی تلاوت کی جائے، بلکہ یہ "ھُدًی لِّلنَّاسِ” ہے، اس کا مقصد نزول اس ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اُسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنانا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جو تلاشِ حق میں لگا ہوا ہے، اس کو قرآن کے حق ہونے یا نہ ہونے کا یقین نہیں ہے، لیکن وہ لوگ جو اسے حق سمجھتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کو اپنی زندگیوں میں عملًا نافذ کریں، وہ قرآن مجید کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کریں۔ اس عمل کے بھی دو پہلو ہیں: ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی۔ ایسے احکام جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، ان کا تو انسان فی الفور مکلف ہے، البتہ ایسے احکام جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے جیسے معاشرتی معاملات، اجتماعی عدل و انصاف، ان کا وہ فی الفور مکلف تو نہیں ہے لیکن ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
پانچواں حق: تبلیغ وتبیین ہے۔ قرآن مجید کا پانچواں حق یہ ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے: بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْأٰیَۃً آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں ہے۔ اصلاً تو یہ فریضہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اور مفہوم کو اقوامِ عالم تک پہنچایا جائے، لیکن بدقسمتی سے جن کی یہ ذمہ داری تھی وہ خود دوسروں کے محتاج بنے بیٹھے ہیں، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتعلم قرآن کی ایک ایسی رَو چل پڑے کہ تمام مسلمان قرآن مجید کو سیکھنے سکھانے میں لگ جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کے پیغام کو اقوام عالم تک پہنچانے میں لگ جائیں۔ قرآن مجید کے یہ پانچ حقوق ہیں۔ لیکن عام طور پر جو حقوق سمجھے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ اسے ریشمی جز دان میں لپٹ کر رکھا جائے۔ شادی بیاہ کے مواقع پر اسے جہیز میں دیا جائے، نزع کے وقت مریض کے سرہانے کے قریب رکھ دیا جائے یا نئی دکان یا مکان میں اس کی تلاوت کی جائے۔ عدالتوں میں قسم اٹھاتے وقت سر پر رکھا جائے، پریشانی کے وقت فال نکالا جائے وغیرہ۔ بد قسمتی سے قرآن کے ساتھ ہمارا طرزِ عمل بالکل یہی ہو گیا ہے، ہم اس جھوم جھوم کر پڑھتے تو ہیں لیکن اس کو سمجھتے نہیں، اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، قرآن ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا، اس پر ہم تدبر نہیں کرتے، ہم نے اسے برکت کی کتاب سمجھ کر طاق میں رکھ دیا ہے، اپنی قسموں کے لیے تختۂ مشق بنا دیا، مرتے ہوئے شخص کے پاس سورۂ یٰسین پڑھ لیا، بیٹی کو جہیز میں دے دیا لیکن وہ ہماری زندگی کا لائحہ عمل نہیں بن سکا۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ "اے اہل قرآن! اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا کہ اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاؤ، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پڑھو، اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ” ہمارے حال پر حضور ﷺ کی وہ بات صادق آتی ہے جو اس سے قبل بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے "ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے” یعنی دنیا میں بحیثیت قوم ہماری تقدیر اس کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: "میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک اس کے ساتھ چمٹے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب (قرآن) ہے”۔ آج اگر ہم اپنی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو واضح طور پر نظر آئے گا کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اسی کو حقیقی معنوں میں اپنا ہادی و راہنما سمجھا، اپنے عمل، اخلاق اور معاملات کو اسی کے مطابق استوار رکھا تو انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہا۔ دنیا میں وہ سربلند اور غالب رہے اور اسلام کا جھنڈا پورے عالم میں لہراتا رہا، لیکن جیسے جیسے وہ کتاب اللہ سے بے پروا اور نور وحکمت کے اس خزینہ سے بے تعلق ہوتے چلے گئے، ویسے ویسے ان پر زوال کے سائے گہرے ہوتے گئے اور وہ بتدریج فساد اور انحطاط میں مبتلا ہوتے چلے گئے تو نیتجتاً مغلوب ہو گئے۔ اگر آج ہم اپنے کھوئے ہوئے وقار کو واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو رشد وہدایت پر لانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہو گا تب ہی ہم اپنے زوال کو عروج میں بدل سکتے ہیں ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
***

 

***

 دل کی بیماریاں کونسی ہیں؟ نالیوں کا بند ہونا؟ دل میں خون کا انجماد ہونا؟ نہیں، بلکہ وہ بیماریاں اور ہیں جن کے لیے قرآن شفاء ہے۔ وہ بیماریاں ہیں تکبر، حسد، حب مال، حب دنیا، حب جاہ، حب شہرت وغیرہ۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو اصل میں علاج طلب ہیں، یہی ہے وہ دل کے امراض جن کا علاج قرآن مجید کرتا ہے، ان سب بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022