تمل ناڈو حکومت نے بلوں کی منظوری میں تاخیر پر گورنر آر این روی کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا
نئی دہلی، اکتوبر 31: تمل ناڈو حکومت نے گورنر آر این روی پر قانون ساز اسمبلی کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
اپنی درخواست میں ریاستی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ گورنر نے نہ صرف متعدد بلوں کو زیر التواء رکھا ہے، بلکہ کئی بدعنوانی کے معاملات میں تحقیقات اور مقدمہ چلانے کی بھی منظوری نہیں دی ہے۔
حکومت نے کہا کہ تمل ناڈو پبلک سروس کمیشن کے چیئرپرسن اور ممبران کی تقرری کے لیے درخواستیں بھی روی کے سامنے زیر التوا ہیں۔ اس کے نتیجے میں کمیشن 14 ارکان کی بجائے صرف چار ارکان کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
ڈی ایم کے حکومت نے کہا کہ گورنر کو کسی بھی طاقت یا کام کے استعمال کے لیے وزراء کے مشورے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ کرنے سے گورنر ’’پارلیمانی جمہوریت اور عوام کی مرضی کے خلاف ہوگا۔‘‘
اس نے دلیل دی کہ یہ اقدام آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بھی خلاف ورزی کرے گا۔
ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ گورنر کے لیے اپنے دفتر میں زیر التواء بلوں اور حکومتی احکامات پر غور کرنے کے لیے وقت کی ایک حد طے کرے۔ اس نے یہ بھی اعلان کرنے کا مطالبہ کیا کہ اس طرح کے معاملے پر غور کرنے کے سلسلے میں گورنر روی کی بے عملی کو ’’غیر آئینی اور طاقت کا غلط استعمال‘‘ سمجھا جائے۔
تمل ناڈو حکومت متعدد مواقع پر روی کے ساتھ تنازعہ کا شکار رہی ہے۔
جولائی میں وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے صدر دروپدی مرمو کو خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ روی آئینی عہدے پر برقرار رہنے کے لیے موزوں نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک سیاسی مخالف کی طرح کام کرتے ہیں اور ریاستی حکومت کو گرانے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اسٹالن نے کہا تھا کہ اس لیے روی کو محض مرکزی حکومت کا ایجنٹ سمجھا جا سکتا ہے۔
اسٹالن نے کہا تھا کہ ’’گورنر کی طرف سے اس طرح کی کارروائی وفاقیت کے اصول کو نقصان پہنچا کر ہندوستانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو تباہ کر دے گی۔‘‘
وزیر اعلیٰ نے گورنر پر فرقہ وارانہ نفرت بھڑکانے کا بھی الزام لگایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ تمل ناڈو کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔