تمل ناڈو اسمبلی نے دلت عیسائیوں کو ریزرویشن دینے کے لیے قرارداد منظور کی
نئی دہلی، اپریل 20: تمل ناڈو اسمبلی نے بدھ کے روز ایک قرارداد منظور کی جس میں مرکزی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے عیسائیت اختیار کرنے والے درج فہرست ذات کے ارکان کو ریزرویشن فراہم کرے۔
وزیر اعلی ایم کے اسٹالن کی طرف سے پیش کردہ قرارداد میں دلت عیسائیوں کو قانونی تحفظ، حقوق اور مراعات دینے کی بھی کوشش کی گئی۔
آئین کے مطابق صرف ہندو، سکھ اور بدھ مت ہی قانونی طور پر درج فہرست ذات کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ مذہب تبدیل کرنے والے دلتوں کو سرکاری ملازمتوں اور کالجوں میں تبھی ریزرویشن ملے گا اگر ان کی درج فہرست ذات کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے گا۔
دراوڑ منیترا کزگم کے سربراہ نے بدھ کے روز کہا کہ عیسائی دلتوں کو ریزرویشن کے ان فوائد سے انکار کرنا غیر منصفانہ ہے جو اسی کمیونٹی کے دیگر افراد کو حاصل ہے، صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے عیسائیت اختیار کر لی۔‘‘
اسٹالن نے ریاستی اسمبلی میں کہا ’’جب کہ انسانوں کو اپنی پسند کے مذہب کی پیروی کرنے کا حق ہے، لیکن وہ ذات پات کے معاملے میں ایسا نہیں کر سکتے۔ ذات صرف دو مختلف افراد کی شناخت کے بارے میں نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ ایک کو اونچا اور دوسرے کو کم سمجھتا ہے۔ یہ افقی نہیں بلکہ عمودی ہے۔ سماجی انصاف کا فلسفہ اسی ذات پرستی کو، جو جبر کا ایک آلہ ہے، ریزرویشن فراہم کرنے اور مظلوموں کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہے۔‘‘
اس قرارداد کی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان نے مخالفت کی جو اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔
اسٹالن نے کہا کہ یہ قرارداد قانونی ماہرین کے ساتھ بات چیت کے بعد پیش کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا ’’بی جے پی کے واک آؤٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم نے اسے مناسب طریقے سے کیا ہے۔‘‘
دریں اثنا سپریم کورٹ درخواستوں کے ایک بیچ کی بھی سماعت کر رہی ہے جس میں یہ استدلال کیا گیا ہے کہ درج فہرست ذات کے زمرے کو مذہب سے غیرجانبدار بنایا جانا چاہیے ورنہ یہ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہوگا اور اس طرح یہ غیر آئینی ہوگا۔
غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن نے 2004 میں یہ درخواست دائر کی تھی۔
این جی او کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل پرشانت بھوشن نے 2007 میں جاری ہونے والی جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دوسرے مذاہب میں دلتوں کے ساتھ وہی امتیاز برتا جاتا ہے جیسا کہ ہندو مذہب میں ہے۔
نومبر میں ایک حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے مذہب تبدیل کرنے والے دلتوں کے لیے درج فہرست ذات کا درجہ دینے کی مخالفت کی تھی اور یہ دلیل دی تھی کہ عیسائیت اور اسلام میں اچھوت کا نظام موجود نہیں ہے۔