تعلیم اور صحت کے شعبوں سے بے توجہی ملک کی ترقی میں رکاوٹ

معیاری تعلیم تک سب کی رسائی اور ہنرمندی کا فروغ ملک کی خوشحالی کے لیے ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ملک کے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑی تبدیلی اور جدت کی ضرورت ہے جسے کلی طور سے نظر اندازکیا گیا۔ گزشتہ سال کے بجٹ اندازوں کے درمیان مقابلہ سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ سال 89155کروڑ روپئے جو معمولی اضافے کے ساتھ کسی طرح 180036کروڑ روپے یعنی 1.98 فیصد اضافہ کے بعد اس سال 909585 کروڑ روپے کیا گیا۔ اس کے ساتھ صحت مشن کے تحت خرچ میں معمولی اضافہ 1.16فیصد ہے وہیں پردھان منتری ادویات منصوبہ میں اضافہ محض 1.4فیصد ہے جبکہ اس سے مستفید ہونے والی آبادی 55 کروڑ ہے۔ جن کا حصہ کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہے۔ مذکورہ دونوں منصوبے مرکز کے ذریعہ شروع کیے گئے آیوشمان بھارت کا اہم جز ہیں۔ صحت کے بجٹ میں معمولی اضافہ کی وساطت سے ہم 2025تک ملک سے ٹی بی کے خاتمہ کا ہدف کیسے مکمل کرپائیں گے؟ اسی طرح سب بچوں میں مرض کی قوت مدافعت (ایمونیٹی) بڑھانا یا پھر لڑکیوں اور خواتین کی بچہ دانی میں کینسر کے روک تھام کے لیے ایچ پی وی ویکسین جاری کرنے کا ارادہ کیسے پورا ہوگا جبکہ فروری میں پیش کردہ عبوری بجٹ میں اس کا وعدہ کیا گیا تھا؟ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ شعبہ صحت کے بجٹ والا خرچ پہلے کی طرح 1.9فیصد پر اٹکا ہوا ہے۔ یہ قومی صحت 2017میں طے کیا گیا ہدف یعنی 2.5فیصد سے کافی کم ہے۔ کورونا وبا جس میں بھارت کو بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا، سرکاری ہسپتالوں نے بدترین مظاہرہ کیا۔نجی ہسپتال لوگوں کو لوٹنے میں مصروف رہے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق مرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ چالیس ہزار بتائی گئی ہے، اگرچہ نیویارک ٹائمز و دیگر بیرونی معتبر اداروں نے اسے آٹھ گنا زیادہ یعنی چالیس لاکھ بتایا ہے۔ کیا ہماری حکومت اس سے سبق لے گی؟
جہاں تک شعبہ تعلیم کا معاملہ ہے۔ بجٹ کا اندازہ 1,12899کروڑ روپے رکھا گیا تھا اور معمولی اضافہ کے ساتھ 1,206278.47کروڑ روپے کیا گیا۔ معاشی سروے کے مطابق جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر تعلیم کے لیے مختص کی گئی رقم اصلاً 2.8فیصد سے کم ہوکر 2.7فیصد ہونے کے ساتھ 2010کی سطح پر جا پہنچی ہے۔ جبکہ یونیسکو کے ذریعے طے شدہ عالمی اسٹینڈرڈ چار تا چھ فیصد ہے۔ دوسری طرف چین اپنی جی ڈی پی کا 3.5فیصد سے زائد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک نے 2020میں شعبہ تعلیم پر اپنی جی ڈی پی کا 2.8فیصد مختص کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری منصوبہ بندی میں بہت بڑی بے اعتدالی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکم راں طبقہ تعلیمی شعبہ میں پیدا شدہ ابتری سے لاپروا ہے۔ اسے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ ملک کا بچہ تعلیم یافتہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ صحتمند ہے نہیں؟ ان کا جواب پرائیویٹ سیکٹرس کے ذریعہ دیا جارہا ہے۔ ان دونوں بنیادی سہولتوں کی حصولیابی کے لیے لوگوں کو اپنی جیب پر بوجھ ڈالنا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو بہترین ہسپتال، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور اگر پیسہ نہیں ہے تو برے حالات کا سامنا کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ اسے روس یا چین کے مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہم ان دونوں پر ان کے کمیونسٹ افکار کی وجہ سے تنقید کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ چین نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ تعلیم یافتہ قوم ہونے کے لیے سب بچوں کو معیاری اور ہنر مندی کی تعلیم دینا ضروری ہے نہ کہ صرف اعلیٰ ذات کے بچوں کو۔ اس لیے انہوں نے پورے ملک میں آغاز بالکل ابتدائی سطح سے کیا۔ ابتدائی اسکولوں یعنی پرائمری اسکولوں اور پرائمری مراکز صحت کو بھرپور فنڈ فراہم کیا۔ ہمارے ملک کی جنوبی ریاستوں نےاس سے جلدی سے سبق لیا تھا جس کی شروعات کیرالا سے ہوئی تھی جس نے سواتھی تھیرونل جیسے اپنے سابق راجا کے علاوہ بائیں محاذ کی حکومت کے وزیراعلیٰ ای ایم ایس نمبودری پد کی حکومت سے سبق لیا۔ اس کے لیے آگے چل کر سماجی شعبوں کے لیے فنڈ مہیا کروانے کے لیے کام کیا جو آج تک جاری ہے۔
حکومت حاصل کرنے کے لیے سنگھیوں کے پاس فرقہ وارانہ منافرت کی زہریلی کاشت ہے۔ مندر، مسجد، ماب لنچنگ، بجرنگ بلی اور مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کرکے انہیں سبق سکھانے اور ان کے بے قصورنوجوانوں کو سالہا سال تک جیل میں سڑانے کا آزمودہ نسخہ ہے، اسی کے ذریعے اسے حکومت ملتی رہی ہے۔ تعلیم اور صحت بھاجپا کے ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے لیے اسٹاک مارکٹ پر دھیان زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ بیرونی و داخلی سرمایہ کاروں کو ملک میں پیسہ لگانے کا اشارہ ہے۔ ملک کی ایسی خستہ حالی کے لے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ خواہ عوام ہوں یا حکم راں طبقہ ہو یا حزب اختلاف، کسی کو بھی پروا نہیں ہے کہ تعلیم و صحت جیسے بنیادی ڈھانچہ کو ترجیحات میں نہ رکھنے پر بھاجپائیوں سے سوالات کریں کیونکہ انہیں پھر خوف ہوگا کہ بعد میں لوگ ان سے بھی سوالات کریں گے۔
ماہرین اقتصادیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ معیاری تعلیم ہماری خوشحالی اور ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے تعلیم پر اخراجات کو بڑھائے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ مرکز کے علاوہ ریاستیں بھی تعلیم پر خرچ کرتی ہیں۔ اس لیے مختلف ریاستوں کی تعلیمی بجٹ کی تقسیم بھی مختلف ہوتی ہے۔ کورونا وبا کے بعد 2021میں ملک کی آبادی کا 7.7فیصد حصہ ہمہ جہتی غربت کی مار جھیل رہا تھا۔ تقسیم کے باوجود اس کمزور آبادی تک ڈھنگ کی تعلیم کی رسائی نہیں ہوپائی۔ اس کے علاوہ دیہاتوں و قصبوں میں اسکولی بچے معیاری تعلیم کے ساتھ علم کے دیگر ذرائع سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں تجربہ گاہیں، لائبریریاں، کھیل کا میدان، صاف پانی، بیت الخلاء وغیرہ نہیں ہیں۔ بالغ بچیاں اسکول جانے سے کترانے لگتی ہیں۔ ملک میں لاکھوں پرائمری اسکول ہیں جہاں محض ایک ہی استاد متعین ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ زیادہ آمدنی والے ترقی یافتہ ممالک اپنی تعلیم پر آمدنی کا دوگنا خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک میں تعلیم کے پرائیوٹائزیشن ہونے کی وجہ سے دولت مند لوگ اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔ اس طرح ملک کے امیروں اور سیاست دانوں کے بچے لاکھوں کی تعداد میں ملک چھوڑ کر امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی وغیر میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں پھر وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس سے ملک میں عدم مساوات اور نابرابری کا گراف مزید بگڑتا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارا ملک کبھی بھی ترقی یافتہ نہیں بن پائے گا۔ اسی طرح ملک میں شعبہ صحت کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ اسے بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے تین خصوصی پہلووں کا اعلان کیا ہے۔
آیوشمان صحت مندروں کا تجزیہ کرنے کے لیے ورچوول نیشنل کوالٹی انشورنس اسٹینڈرڈ قائم کیا ہے۔ اسی طرح پبلک ہیلتھ اسٹینڈرڈ میں اصلاح اور نگرانی کے لیے نیا ڈیش بورڈ اور غذائی اجناس فروشی وینڈرس کے لیے لائسنس اور رجسٹریشن کا انتظام کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت 173 لاکھ سے زائد آیوشمان صحت مندروں کو قائم کرچکی ہے۔ پبلک میڈیسن سنٹرس کے ذریعے لوگوں کو معیاری دوائیاں مناسب قیمت پر دستیاب کرائی جارہی ہیں۔ ان کوششوں کا فائدہ صحیح طور سے تمام لوگوں کو ملے، اس کے لیے نگرانی اور تجزیہ کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل ٹکنالوجی سے اس شعبہ میں استعمال سے اس کا نظم شفاف بھی ہوگا اور وقت و دیگر وسائل کاضیاع بھی کم ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت زیادہ رقم مختص کرے تاکہ صحت کی خدمات سستی شرح پر پوری آبادی کو میسر ہوسکے۔ اس کے لیے چیلنجز بھی ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے صحت مشن کے تحت پبلک ہیلتھ اسکیم اور اس میں دستیاب سہولتوں کا بڑے پیمانہ پر سروے کروایا ہے۔ ایسے ہیلتھ سنٹرس میں انفراسٹرکچر ، ڈاکٹرس اور نرسوں کی دستیابی، ساز و سامان کی صورتحال وغیرہ سے متعلق معلومات اکٹھا کی گئی ہیں۔ اس سروے سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً 80فیصد مراکز طے شدہ پیمانے پر پورے نہیں اترتے جو ہمارے ملک کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024