20201122 – دعوت نیوز https://dawatnews.net نظر - خبر در خبر Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.3 168958987 کورونا ویکسین تیار کرنے والےترک نژاد جوڑے کی کہانی https://dawatnews.net/%da%a9%d9%88%d8%b1%d9%88%d9%86%d8%a7-%d9%88%db%8c%da%a9%d8%b3%db%8c%d9%86-%d8%aa%db%8c%d8%a7%d8%b1-%da%a9%d8%b1%d9%86%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92%d8%aa%d8%b1%da%a9-%d9%86%da%98%d8%a7%d8%af-%d8%ac/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31796/   (دعوت نیوزڈیسک ) کوویڈ۔19 کے وبائی مرض کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی دریافت کے پیچھے دو معروف سائنس دان، شوہر اور بیوی کی ٹیم ہے جن کے ذریعہ قائم کردہ جرمن کمپنی بائیو این ٹیک نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر ایک ایسی ویکسین تیار کی ہے جو 90 فیصد […]]]>

 

(دعوت نیوزڈیسک )
کوویڈ۔19 کے وبائی مرض کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی دریافت کے پیچھے دو معروف سائنس دان، شوہر اور بیوی کی ٹیم ہے جن کے ذریعہ قائم کردہ جرمن کمپنی بائیو این ٹیک نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر ایک ایسی ویکسین تیار کی ہے جو 90 فیصد سے زیادہ موثر پائی گئی ہے۔
سات سے آٹھ ماہ کی اس تحقیق کے سفر میں بائیو این ٹیک ابھی تک کامیاب رہی ہے اور اس کی بنائی ویکسین کے نتائج نوے فیصد حوصلہ افزا ہیں جن کی بنیاد پر اب اس ویکسین کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن شروع کی جائے گی۔ جرمنی کی کمپنی بائیو این ٹیک اور امریکی کمپنی فائزر کے اشتراک سے تیار ہونے والی کووِڈ-19 کی ویکیسن کے پیچھے ایک ترک نژاد جوڑے کی کہانی ہے جس نے اپنی پوری زندگی کینسر کے خلاف امیون سسٹم (دفاعی نظام) کو بہتر بنانے کے لیے وقف کر دی۔
اب تک دنیا بھر میں بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کرنے والے کورونا وائرس کے ویکسن کی تیاری میں کامیاب پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے فائیزر نے کہا کہ تجرباتی سطح پر کووِڈ-19 کے لیے تیار ہونے والی ویکسین کے ابتدائی سطح پر کیے گئے تجربے، تجزیے اور مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے 90 فیصد نتائج بہتر آئے ہیں۔ اس کمپنی کو امید ہے کہ جلد ہی امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگز ایجنسی ہنگامی بنیادوں پر اس ویکسین کے استعمال کی اجازت دے دے گی۔
ویکسن تیار کرنے والے اس ترک نژاد جوڑے کا تعلق ایک کم آمدنی والے طبقے سے تھا۔ بائیو این ٹیک کے 55 برس کے سربراہ ڈاکٹر اوگر ساہین جرمنی کے شہر کولون میں فورڈ کمپنی میں ایک ترک تارکِ وطن کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ اپنی لیبارٹری کے قریب ایک معمولی اپارٹمنٹ میں اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ مقیم تھے اور اپنے آفس آنے جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کرتے تھے، لیکن اب ڈاکٹر ساہین کا اپنی 53 سالہ بیوی ڈاکٹر اوزلم تورجی کے ہمراہ جرمنی کے سو ارب پتیوں میں شمار ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر اوگر ساہین شام کے شہر حلب کی سرحد کے قریب ترکی کے شمال جنوبی شہر اسکندرون میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت امریکی حصص کمپنی ” نسدق“ کے مطابق ڈاکٹر ساہین اور ڈاکٹر تورجی کی کمپنی کی قیمت 21 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ جمعہ تک اس کی قیمت 4.6 ارب ڈالر تھی۔
ڈاکٹر اوگر ساہین ان افراد میں سے ہیں جنہیں بچپن سے ہی میڈیسن پڑھنے کا شوق تھا اور وہ کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔ اپنے اس خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے تعلیم کے بعد کولون اور ہومبُرگ کے مختلف تدریسی ہستالوں میں کام کیا۔ ہومبُرگ میں اپنے کیریئر کے آغاز میں ان کی ملاقات ڈاکٹر تورجی سے ہوئی۔ میڈیکل ریسرچ اور علمِ سرطان (اونکولوجی) میں دونوں کی گہری دلچسپی تھی۔ڈاکٹر تورجی خود ایک ترک نژاد ڈاکٹر کی بیٹی ہیں جو خود ترکی سے ایک تارک وطن کی حیثیت سے جرمنی آئے تھے۔ ان دونوں کو اپنے کام سے اتنا زیادہ لگاؤ تھا کہ جس روز ان کی شادی تھی وہ اس روز بھی اپنی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے اور وہیں سے گھر پہنچ کر تیار ہوئے اور شادی کی رسومات ادا کی گئیں۔ان دونوں نے اپنی تحقیق کے دوران جسم کے دفاعی مزاحمت کے ایسے نظام (امیون سسٹم) کا سراغ لگایا جو کینسر کے خلاف لڑائی میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور ہر ایک ٹیومر کی منفرد خصوصیات کے مطابق اس کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت پر تحقیق کی۔ ان کے بزنس کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے2001 میں گینیمڈ فارماسیوٹیکلز کا آغاز کیا اور کینسر سے لڑنے والے اینٹی باڈیز تیار کیے۔ لیکن ڈاکٹر ساہین اس وقت یونیورسٹی آف مینز میں پروفیسر تھے، انہوں نے اپنی تحقیق اور تدریس کا کام کبھی بھی نہیں روکا۔ ان کے کام کو اس وقت بہت اہمیت حاصل ہوئی جب انہوں نےاپنے دو وینچرز کے لیے کیپیٹل سرمایہ کار کمپنیوں سے سرمایہ کاری حاصل کر لی۔ ایک تو اے آئی جی-اے جی تھی جبکہ دوسری ٹامس اینڈ اینڈریاز سٹرونگمین تھی۔ اس کے بعد یہ وینچر کمپنی جاپان کی ایسٹالا کمپنی کو 2016 میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز میں فروخت کردی گئی۔ اس دوران گینیمڈ کمپنی جو اس سرمایہ کاری میں شامل تھی، وہ بائیو این ٹیک کے بنانے میں ان کا ساتھ شامل ہو گئی، جس نے سنہ 2008 میں کینسر کی امینولوجی کا نظام (امیونوتھرپی) تیار کرنے کا ایک بڑا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ اس کی تحقیقات میں ایک ایسا مواد بھی (ایم آر این اے) تیار کرنا شامل تھا جو خلیوں کو جینیاتی پیغام دے سکے۔
ایم آئی جی کمپنی کے لیے ڈاکٹر ساہین اور ڈاکٹر توراجی پر مشتمل ایک ایسی ٹیم تھی جو ان کے ایک بڑے خواب کی تعبیر دینے والی تھی۔ انہوں نے ان پر بھرپور سرمایہ کاری کی اور انہیں اس بات
کی مکمل آزادی دیکہ وہ اپنی مرضی سے حقائق کے مطابق اپنی ریسرچ جاری رکھیں۔ بائیو این ٹیک کی ترقی کی کہانی میں اس وقت ایک منفرد تبدیلی آئی جب ڈاکٹر ساہین کی نظر سے چین کے ووہان شہر میں کورونا وائرس پر ایک ریسرچ مقالہ گزرا۔ اس وقت ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کینسر کے خلاف تیار کی جانی والی ’ایم آر این اے‘ دوا اور وبا پھیلانے والے اس وائرس ‘ایم آر این اے’ کی ویکسین کے درمیان کتنا کم فرق ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31796
اسلام نے ہی عورت کو سر بلندی عطا کی https://dawatnews.net/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d9%86%db%92-%db%81%db%8c-%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa-%da%a9%d9%88-%d8%b3%d8%b1-%d8%a8%d9%84%d9%86%d8%af%db%8c-%d8%b9%d8%b7%d8%a7-%da%a9%db%8c/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31805/ عتیق احمد شفیق اصلاحی، مرادآباد   اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام عطا کیا اور اس کو عزت و وقار اور برابری کے حقوق دیے ہیں۔ایک عورت کی چار حیثیتیں نمایاں ہیں۔ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن۔ اسلام نے ان چاروں ہی حیثیتوں میں عورت کو جو حقوق دیے ہیں اس کی نظیر کوئی […]]]>

عتیق احمد شفیق اصلاحی، مرادآباد

 

اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام عطا کیا اور اس کو عزت و وقار اور برابری کے حقوق دیے ہیں۔ایک عورت کی چار حیثیتیں نمایاں ہیں۔ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن۔ اسلام نے ان چاروں ہی حیثیتوں میں عورت کو جو حقوق دیے ہیں اس کی نظیر کوئی اور مذہب و معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔
ماں:۔ نبیﷺ نے ماں کی خدمت، اطاعت اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور ماں کے قدموں تلے جنت بتائی ہے۔ حضرت جاہمہؓ نبیؐ کے پاس گئے اور کہا اے اللہ کے رسولؐ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں، آپ کے پاس مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ زندہ ہیں آپؐ نے فرمایا ’’میں تم کو تمہاری ماں کے سلسلے میں وصیت کرتا ہوں“ ایسا آپ نے تین مرتبہ فرمایا پھر فرمایا ”تمہارے باپ کے بارے میں اچھے سلوک کی نصیحت کرتا ہوں“( ابن ماجہ) آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ماؤں کی نافرمانی ہم پر حرام کر دی ہے۔ والدین کی نافرمانی کو کبائر گناہوں میں شمار کیا گیا ہے( بخاری) ایک صحابی نے آپؐ سے سوال کیا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں چوتھی بار جب اس نے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا تمہارا باپ ۔(بخاری و مسلم) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز نبیؐ نے فرمایا میں نے خواب میں جنت کا نظارہ دیکھا وہاں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی میں نے پوچھا یہ کس کی آواز ہے بتایا کہ حارثہ بن نعمان کی آواز ہے اس کے بعد آپؐ نے صحابہ سے فرمایا یہ ہے ماں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب یہ ہے ماں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب۔
بیوی :۔ عورت کی ایک حیثیت بیوی کی ہوتی ہے اس صورت میں عورت نکاح کے بعد شوہر کی نہ تو غلام ہو جاتی ہے اور نہ ہی شوہر کی شخصیت میں گم ہو جاتی ہے۔ اسلام نے عورت کی شخصیت کو اہمیت دی ہے اور حکم دیا۔ وعاشروھن بالمعروف(النساء ۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (بقرہ ۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔
نبیؐ نے فرمایا ’’جو تم کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ جو تم پہنو وہی ان کو پہناؤ ان سے مار پیٹ مت کرو اور برا بھلا مت کہو‘‘( ابو داؤد) ‘‘کوئی مومن کسی مومنہ (بیوی ) سے نفرت نہ کرے اگر اس کی ایک عادت اچھی نہ لگے تو دوسری لگے گی‘‘
وعاشروھن بالمعروف (النساء ۱۹)
اسلام نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کا تقاضا بتایا ہے۔ ’’ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہیں‘‘
( ترمذی)’’یہ دنیا زندگی گزارنے کا سامان ہے اس کا بہتر سامان صالح عورت ہے‘‘( مسلم)۔
’’اللہ کے تقوی کے بعد ایک مومن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتاہے ان میں صالح بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں‘‘( ابن ماجہ)
بیٹی:۔ عورت کی ایک حیثیت بیٹی کی ہوتی ہے اسلام نے اس پہلو سے عورت کو بہت اہمیت دی ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے لڑکی کی پرورش کو نیک کام اور جنت میں لے جانے والا عمل بتایا ہے۔
فرمایا ’’اللہ تعالی جس شخص کو ان لڑکیوں کے ذریعہ کبھی بھی آزمائش میں ڈالے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ ان کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی‘‘( بخاری)
’’جو شخص دو بچیوں کی ان کے جوانی کو پہنچنے تک پرورش کرے گا قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح (مل کر) آئیں گے۔ یہ کہہ کر آپ نے انگشت ہائے مبارک ملا کر دکھایا‘‘(مسلم)
’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کی تعلیم و تربیت دی ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے‘‘(ابو داؤد)
سماج میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس طرح کے سلوک سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کو لڑکی ہو اور وہ نہ تو اسے زندہ در گور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے ہی کو ترجیح دے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرمائے گا (ابو داؤد)۔ حضرت محمدﷺ نے جہاں بچیوں کی پرورش، تعلیم وتربیت، نکاح اور ان کے ساتھ برابری سے پیش آنے پر جہنم سے نجات اور جنت ملنے کی بشارت دی وہیں آپؐ نے ان کو اللہ کا قیمتی تحفہ قرار دیا تاکہ ان کی حیثیت و مقام و عظمت لوگوں کے دلوں بیٹھ سکے۔ چنانچہ فرمایا’’لڑکیوں سے نفرت مت کرو وہ تو غم خوار اور بڑی قیمتی ہیں‘‘( مسند احمد)
شادی سے قبل لڑکیوں کی کفالت باپ اور قریبی رشتہ داروں پر رکھی اور شادی کے بعد شوہر اور اولاد پر رکھی ہے اگر شوہر کا انتقال ہو جائے یا طلاق دے دے اور عورت خود کفیل نہ تو اولاد پر اور اولاد بھی اس لائق نہ ہو یعنی چھوٹی ہو یا نہ ہو تو باپ یا قریبی رشتہ داروں کی ذمہ داری ٹھہرائی ہے کہ وہ اس کی کفالت کریں۔ سراقہ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے پوچھا کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ کیاہے؟ انہوں نے عرض کیا حضور ضرور بتائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا اپنی اس بچی پر احسان کر جو (بیوہ ہونے یا طلاق دیے جانے کی وجہ سے) تیری طرف لوٹا دی گئی ہو اور تیرے سوا کوئی دوسرا اس کا کمانے والا نہ ہو۔ آپ نے دیکھا کہ حضرت محمد ﷺ نے کس طرح عورتوں کو مقام بلند پر اٹھایا۔ بہن: عورت کی ایک حیثیت بہن کی ہے۔ اسلام نے بہنوں کی پرورش اور ان کی پرداخت پر بھی کافی زور دیا ہے اور ان کی پرورش پر اجر کی خوش خبری سنائی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہو سکتا ہے کہ والد کی وفات جلد ہی ہو جاتی ہے ایسے میں بہنوں کی پرورش کی ذمہ داری بھائیوں پر ڈالی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں وہ ان کی پرورش کرے ان کو تحفظ فراہم کرے اور ان کی شادی کر دے وہ جنت میں جائے گا‘‘۔
برابری کا معاملہ: ایک بات یہ کہی جاتی ہے اسلام میں عورتوں کو برابری کا درجہ نہیں دیا گیا ہے یہ بات غلط ہے اس لیے کہ پہلے برابری کی تعریف طے کی جانی چاہیے (آیا برابری کے معنی یہ ہیں کہ عورتیں مردوں کے ساتھ نوکری کریں تو اسلام اس کو غلط قرار دیتا ہے ایسا سمجھنا برابری نہیں ہے بلکہ ظلم ہے) مثلاً اگر کسی کے دو بچے ہیں ایک دس سال کا جو اسکول جاتا ہے اور ایک دودھ پیتا ایک سال کا بچہ ہے کیا برابری کے معنی یہ ہوں گے جو بڑا کھائے گا وہی چھوٹے کو دیا جائے یا چھوٹا دودھ پیتا ہے تو بڑے کو کھانا نہ کھلا کر اسے بھی صرف دودھ دیا جائے؟ کوئی بھی عقل مند آدمی اس کو برابری نہیں سمجھے گا بلکہ برابری یہ ہوگی کہ چھوٹے بچے کے لیے دودوھ اور بڑے بچے کے لیے کھانے کا نظم کیا جائے۔ عورتیں مرد کے مقابلے جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں اس لیے اسلام نے ان کا دائرہ کار الگ الگ متعین کیا ہے مرد کو گھر کے باہر اور عورتوں کو گھر کی ذمہ داریاں دی ہیں۔ اس کے علاوہ چند ایسے ایام ہوتے ہیں جن میں جوانی سے بڑھاپے تک عورتوں کو ماہواری آتی ہے، حمل اور رضاعت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ان ایام میں اس کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر مرد عورتیں ہر جگہ ساتھ رہیں گے تو اس بات کا بڑا امکان ہے جنسی میلانات بھڑک اٹھیں اور وہ بے قابو ہو کر جنسی بے راہرروی کا آسانی سے شکار ہو جائیں۔ اس طرح عورت کی عفت کی حفاظت نا ممکن ہے۔ آج کے سماج نے عورتوں کو مردوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے تو اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ یعنی عورت کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مردوں سے الگ رہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ عورت کے سروس کرنے پر عورت پر دوگنی ذمہ داری آجاتی ہے ایک تو وہ باہر سروس کرے اور پھر گھر آکر کھانا پکائے بچوں کی دیکھ بھال کرے گویا اس طرح عورت کو دوگنا کام کرنا پڑتا ہے جو عورت کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر مرد تھکا ہوا اور عورت بھی تھکی ہو تو کون کس کا خیال کرے گا جب کہ عورت کے گھر پر رہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی جب باہر سے تھکا ہارا آتا ہے تو عورت اس کو راحت پہونچانے کے لیے تیار ملتی ہے۔ اس طرح آدمی کو سکون ملتا ہے۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ عورت سروس کرتی ہے تو چھوٹے بچوں کی نگہداشت ٹھیک سے نہیں ہو پاتی ہے اور ان کا حق مارا جاتا ہے۔ نہ ان کو ماں کا دودھ اہتمام سے مل پاتا ہے اور نہ ہی ماں کی ممتا۔ جب کہ ایک بچہ کی اچھی اور صحت مند پرورش کے لیے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔
اسی طرح بوڑھے والدین کی نگرانی اور ان کی ضرورتوں کا خیال بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔عورتوں کی عفت محفوظ رہے، ان پر زیادہ کام کا بوجھ نہ پڑے، بچوں کی پرورش درست ہو سکے، والدین کی ضروریات کا خیال رکھا جا سکے، مرد جب باہر سے گھر میں آئے تو اس کو محبت کا گوشہ مل سکے۔ ان تمام مصلحتوں کی بنا پر اسلام نے عورت کا دائرہ کار گھر متعین کیا ہے۔ اسی بنیاد پر اچھے سماج کی تعمیر ہو سکتی ہے۔اسلام نے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی ہے یہ عورتوں کے لیے باعث رحمت ہے۔ رحمت کیسے ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان باتوں کو ذہن میں رکھا جائے جن کی بنیاد پر اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔ایک ایسا مرد جس کے اندر جنسی میلان زیادہ ہو وہ کیا کرے؟ کیا وہ ایک بیوی سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں کسی سے آشنائی اور ناجائز تعلق قائم کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو سماج میں گندگی پھیلتی ہے اور پہلی بیوی کے بہت سے حقوق مارے جاتے ہیں۔ جب کہ دوسرے نکاح کی صورت میں دونوں بیویوں کو قانونی درجہ ملتا ہے۔ دونوں کے اخراجات، ان کے بچوں کی ذمہ داری، ان کی رہائش و دیگر تمام چیزوں کی ذمہ داری مرد اٹھاتا ہے اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق محفوظ رہتے ہیں۔
عورت کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے جنسی تعلق قائم کرنے سے منع کر دیا ہو تو ایسی صورت میں شوہر کیا کرے؟ کیا مرد کو صبر کی تلقین کی جائے گی؟ لیکن سوال یہ ہے کیا ایسی صورت میں تلقین کار گر ہوگی؟ ہوگی تو کتنے فیصد؟ ایسے میں امکان ہے کہ شوہر بیوی کو چھوڑ دے اگر شوہر ایسا کرتا ہے تو بیماری کی حالت میں کوئی دوسرا مرد اس سے نکاح نہیں کر سکتا ایسی حالت میں عورت کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر مرد عورت کو طلاق نہ دے لیکن اپنے جذبات کی تسکین کے لیے کوئی غلط قدم اٹھائے۔
یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جن میں بیوی ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ دوسری شادی کر لے تاکہ پہلی عورت بھی اپنے تمام حقوق کے ساتھ گھر والی رہے اور مرد بھی کسی غلط فعل کا مرتکب نہ ہو اور سماج و معاشرہ پاک صاف رہے۔
عورت بانجھ ہو۔ مرد اور عورت دونوں کو اولاد کی چاہت ہوتی ہے۔ نکاح کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نسل کا تسلسل رہے لیکن عورت جب بانجھ ہوتی ہے تو نکاح کا یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مرد کیا کرے کیا اپنی پوری زندگی اولاد کی خوشی سے محروم رہے یا وہ عورت کو طلاق دے کر دوسری کسی عورت سے شادی کر لے؟ ایسے میں عورت ہی کا نقصان ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں کوئی دوسرا مرد اس سے شادی نہیں کرے گا اور اس کو عمر کے اس مرحلے میں بے چارگی کی زندگی گزارنا پڑے گا۔ جب کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں یہ فطری چیز ہے۔ ایک دوسری شکل یہ ہے کہ مرد دوسری شادی کر لے اور پہلی بیوی بھی اس کے ساتھ رہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج میں موافقت نہیں ہوتی۔ بیوی بہت تیز مزاج ہوتی اس کی طرف سے کبھی شفقت کا اظہار نہیں ہوتا اور ہمیشہ تکرار ہی ہوتی رہتی ہے ایسے میں مرد کو گھر میں سکون نہیں ملتا ہے۔ ایسے میں مرد کیا کرے کیا عورت کو طلاق دے دے؟ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت کے لیے نقصان ہوگا۔دوسرا طریقہ یہ کہ وہ دوسری شادی کرے پہلی بیوی کو بھی رکھے اور اسی کے ساتھ دوسری بیوی کو بھی اور زندگی پر سکون گزارے تاکہ بچوں کی تربیت کے فرائض ٹھیک سے انجام پا سکیں۔
کبھی کبھی معاشرے میں ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ خواتین کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔اب جو خواتین مردوں سے زیادہ ہیں ان کا کیا کیا جائے کیا ان کو بغیر شوہروں کے پوری زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے؟ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو کیا ان کی پاک دامنی محفوظ رہ سکتی ہے؟ قوی امکان یہ ہے کہ ان کی عصمت تار تار ہو جائے گی اور معاشرہ برائیوں کا اڈہ بن جائے۔ اسلام اس صورت کا حل یہ پیش کرتا ہے کہ مردوں کو اجازت دی جائے کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کر کے ایسی عورتوں کی ذمہ داریاں اٹھائیں اور ان کی عصمت کو تحفظ فراہم کریں۔
سماج میں بیوائیں بھی ہوتی ہیں شوہر کے انتقال کے بعد خود ان کی اپنی کفالت اور اگر بچے ہیں تو ان کی کفالت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت کو کیسے بے سہارا چھوڑ دیا جائے کیا ایسی صورت میں عورت کی عصمت باقی رہ پائے گی؟ اسلام ایسی عورتوں کے لیے یہ حل پیش کرتا ہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کریں اور ایسی عورتوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ برداشت کریں۔ اسی طرح یتیم بچوں کا مسئلہ ہے۔
اسلام نے اس بات کا حکم دیا کہ بچیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے اور اس کی ایک شکل یہ ہے کہ ان کو نکاح میں داخل کر لیا جائے تاکہ قربت کی بنا پر آدمی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو۔
کوئی مرد وعورت اگر اسلام کے تعداد ازدواج کے قانون پر سنجیدگی سے غور کرے گا وہ اسی نتیجے پر پہونچے گا کہ اسلام کا قانون ازدواج عورتوں کے لیے سماج کے لیے باعث رحمت ہے۔عورت کے لیے طلاق باعث رحمت: اسلام نے طلاق کو جائز رکھ کر عورتوں پر رحم کیا ہے۔ ایک مرد اگر اپنی بیوی سے خوش نہیں ہے جس کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں ایسے میں امکان ہے کہ مرد عورت کو ستائے گا، اس کے جو حقوق زوجیت اس کو ادا نہیں کرے گا۔ ایسے میں عورت کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ اللہ کی نظر میں وہ شخص ظالم اور گناہ گار ہوگا۔ ایسی صورت میں مرد کو یہ اختیار ہے کہ وہ علیحدگی اختیار کرسکتا ہے۔ اس سے مرد گناہ و ظلم سے اور عورت مرد کے ظلم و تعددی کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے طلاق عورت کے لیے باعث رحمت ہے۔ طلاق ایک بہت ہی سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر اٹھایا جانا والا قدم ہے لیکن آج اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں ہی پریشانیوں سے دو چار ہوتے ہیں۔
خلع: مرد کو طلاق تو عورت کو خلع کا اختیار دیا گیا ہے۔ جہاں مرد کو اپنی پسند اور ناپسند کا اختیار دیا وہیں عورت کو بھی اس کا اختیار دیا ہے کہ کسی بھی بنیاد پر اگر عورت مرد کو پسند نہیں کرتی ہے ۔اور وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو مرد کو علیحدگی کے لیے تیار کر لے اسی کو خلع کہتے ہیں عورت کا شوہر کو کچھ لے دے کر علیحدہ ہونے کا فیصلہ خلع کہلاتا ہے۔ خلع ایسا طریقہ ہے جو گھر میں بیٹھ کر حل ہو جاتا ہے اور سماج و معاشرے میں کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوتی ہے۔
’’ طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقہ سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔(البقرہ:۲۲۹)
اگر عورت علیحدگی چاہتی ہے اور مرد تیار نہیں ہے تو شریعت نے عورت کو اختیار دیا ہے کہ قاضی کے سامنے اپنا معاملہ رکھے اور قاضی سارے معاملے کو سمجھ کر ان کے درمیان تفریق کرا دے۔
مرد کو طلاق کا اختیار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے اندر صبر و تحمل زیادہ ہوتا ہے وہ عورت کی جملہ ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ مرد جب بھی علیحدگی کا فیصلہ کرے گا زیادہ سوچ سمجھ کر کرے گا۔ جب کہ عورت فطری طور پر چیزوں سے متاثر جلدی ہو جاتی ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ عورت طیش میں آکر کوئی ایسا قدم اٹھالے جس کا نقصان بھی اسی کو اٹھانا پڑے۔
حلالہ: ایک عورت کو طلاق ہو جائے تو وہ اپنے پہلے شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے اور وہ آزاد ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی سے نکاح کر لے۔ جب اس نے اپنی مرضی سے کسی سے نکاح کر لیا تو نکاح کر لینے کے بعد شوہر کا انتقال ہو جائے یا دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے تو پھر اس کا نکاح پہلے شوہر سے جائز و حلال ہو جاتا ہے کہ وہ پہلے شوہر سے پھر سے نکاح کر سکتی ہے۔ حلالہ کی اصل شکل یہ ہے۔ جو نکاح طے کر کے ہو وہ حرام ہے۔ اس کو حلالہ نہیں کہا جائے گا یہ غلط فہمی ہے اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے۔
اسلام نے عورت کا وراثت میں حق متعین کیا ہے۔وہ وراثت میں باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہوگی۔ ضرورت ہے کہ مسلم مرد و خواتین اسلام کی عائلی و معاشرتی تعلیم کو جانیں اور اس پر عمل کریں اسی سے دنیا میں خوشگوار زندگی میسر آئے گی اور آخرت میں اللہ کی رضا حاصل ہو سکے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31805
دعوت، مسلمان اور غیر مسلمین https://dawatnews.net/%d8%af%d8%b9%d9%88%d8%aa%d8%8c-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%ba%db%8c%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85%db%8c%d9%86/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31804/ اسلام کی دعوت دیگر ادیان کی تبلیغ سے بہت مختلف ہے، اس میں نہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں اور نہ ہی اس کا کچھ جواز ہے کہ انہیں کسی قسم کا لالچ دے کر احسان مند رکھا جائے کہ وہ احسان مندی کے جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام کی طرف راغب ہوں۔ اسلام میں ایسا کچھ بھی جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اس اختیار کی آزادی سلب ہو جاتی ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے کو دے رکھی ہے کہ دنیا میں وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرے یا نہ کرے۔]]>

ابو فہد، نئی دلّی

 

دعوت کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے تجربے اور مشاہدے یا علم کی بنیاد پر یہ جانتا ہے کہ فلاں راستے پر رکاوٹ ہے یا کوئی خطرہ ہے تو وہ اپنا اخلاقی فرض سمجھ کر دوسرے راہ گیروں سے کہتا ہے کہ فلاں راستے پر مت جاؤ کیونکہ وہاں خطرہ ہے یا راستہ بند ہے۔ ایسا کرنے والا ہر طرح سے ایک اچھا عمل کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح دین اسلام کی طرف دعوت دینے والا ہر مسلمان ہر طرح سے غیر مسلموں کے لیے اچھا عمل کرنے والا ہے، ان کا خیر خواہ ہے اور ان کے لیے دنیوی بھلائی کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کی بھلائی بھی چاہتا ہے۔ پھر یہ ان کے اوپر ہے کہ وہ اس کی اچھی بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔ قرآن میں ایسے شخص کی تحسین اس طرح فرمائی گئی ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (فصلت۔33)
’’اور اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں‘‘
قرآن کی اس تحسین کا ہر وہ مصلحِ امت بھی مستحق ہے جو مسلمانوں کو گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں اچھے اعمال کی ترغیب دیتا ہے، اپنی زبان سے بھی اور اپنے عمل سے بھی۔بے شک بھلائی کے کام ہزاروں اور لاکھوں ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی، مگر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا تمام بھلے اور اچھے کاموں میں سب سے اچھا اور بھلا کام ہے۔ تاہم اللہ کی طرف بلانے میں رفاہ عام کے تمام کام بھی شامل ہیں، اسی لیے مذکورہ آیت میں ’عمل صالح‘ کا ذکر بھی ہے اور پھر مسلم ہونے کا بھی۔ دراصل عمل کی ترتیب یوں ہے: ’’ایمان، عمل صالح اور پھر دعوت‘‘ اس طرح دیکھیں تو آیت میں اس شخص کی بات کی تحسین فرمائی گئی ہے جو پہلے خود اللہ پر ایمان لائے، نیک عمل کرے اور پھر دوسروں کو بھی اللہ کی طرف بلائے اور انہیں نیک اعمال کی ترغیب دلائے۔
پوری خوش دلی اور قلبی اطمینان کے بعد ہی اسلام قبول کرنا چاہیے:
اگر آپ غیر مسلم ہیں اور اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں یا مسلمان ہی ہیں اور ہمیشہ مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں تو دونوں طرح کے لوگوں کا یہ عمل عقل وشعور کی سطح پر ہونا چاہیے نہ اس لیے کہ آپ جذبات سے مغلوب ہوگئے ہوں یا دلائل سے ہار گئے ہوں یا کسی کی فلسفیانہ گفتگو سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیے ہوں یا پھر کسی طرح کا کوئی لالچ یا کوئی خوف دامن گیر ہے کہ اسلام کے سائے میں آکر خوف جاتا رہے گا اور لالچ کی بنیاد پر پیدا ہونے والی خواہش پوری ہو جائے گی۔ اسلام قبول کرنے کی ان میں سے کوئی بھی وجہ گرچہ کسی نہ کسی معنیٰ میں درست ہو اور بہت ممکن ہے کہ ایسے اسلام کے بھی بہت سے فوائد ہوں۔ یا پھر یہی ایک سنہری امید ہو کہ دھیرے دھیرے لالچ، خوف اور جذباتی مغلوبیت کے اثرات ختم ہو جائیں گے اور قلب ونگاہ اخلاص وللٰہیت تک پہنچ ہی جائیں گے۔ پھر بھی اس طرز کا اسلام کم از کم ابتدائی دور میں حسن وکمال نہیں رکھتا اور انجام کا کیا ہے اس کا تو کسی کو نہیں معلوم۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان محض معاشرے کے دباؤ سے مسلمان رہنا چاہتا ہے وہ کھل کر اپنے اسلام کی نفی نہیں کرسکتا تو یہ بھی دیانت داری نہیں ہے گرچہ اس میں بھی یہ امکانی صورت موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مضر چیزیں زائل ہوجاتی ہیں اور ایسے مسلمان کا دل محض توفیق الٰہی سے کامل ایمان اور اخلاص سے بھر جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کے قلب و ذہن کی کیفیت ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ کیا معلوم آج کا بے عمل وبے توفیق مسلمان کل کو جب اپنی زندگی کے آخری پڑاؤ پر پہنچ جائے تو با توفیق اور باعمل بن جائے اور اللہ اس کے حق میں بہتر فیصلہ فرمادے۔ یہی حال اسلام قبول کرنے والوں کا بھی ہے، ممکن ہے قبول اسلام کے وقت ان کی نیت کا قبلہ درست نہ ہو تاہم زندگی کے کسی پڑاؤ پر یا پھر آخری پڑاؤ پر پہنچ کر توفیق الٰہی سے نواز دیے جائیں۔
آج دعوت کا کام پہلے سے زیادہ آسان ہے:
آج کی دنیا میں غیر مسلموں میں دعوتِ اسلامی کا کام کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے، آج وسائل کی فراوانی بھی ہے اور لوگوں کو تبدیلیِ مذہب کی کسی نہ کسی درجے میں آزادیاں بھی حاصل ہیں۔آج کی دنیا میں تبلیغِ دین کو داعی کا جائز حق تسلیم کرلیا گیا ہے اور اسی طرح مدعو کے لیے کسی بھی دین کو اپنانے کا حق بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ان سب کے پیچھے جو بھی مقاصد رہے ہوں تاہم یہ اصول مسلمانوں کے لیے بھی دعوت کے میدان میں نہایت کشادگی اور فراخی لے کر آئے ہیں اور اسلام کو پھلنے پھولنے کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں۔ مستزاد برآں سائنسی علوم کی ترقی نے بھی انسان کے ذہن میں کشادگی پیدا کی ہے اور آج کے انسان کو جس بات میں یا دعوت میں لاجک (logic) نظر آتی ہے یا اسے لگتا ہے کہ فلاں دین فطرت سے زیادہ قریب ہے تو وہ اس دین کو اپنانے میں زیادہ دقت محسوس نہیں کرتا۔
البتہ آج جو چیزیں نہیں ہیں اور جن کا اثر براہ راست دعوت قبول کرنے والے کی ذہنیت پر پڑتا ہے ان میں سے ایک تو خود داعی کے اندر علم وعمل اور ایمان ویقین کی کمی ہے دوسرے علم وفن کے تمام میدانوں میں مسلمانوں کا پچھڑا پن ہے اور تیسری چیز یہ ہے کہ مسلمانوں کی پشت پر اقتدار کی طاقت موجود نہیں ہے۔ بے شک اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کی پشت پر ایسی کوئی طاقت نہیں تھی مگر اس وقت رسول اللہﷺ بنفس نفیس امت کے اندر موجود تھے اور زمین سے آسمان کے رشتے مستحکم تھے۔ خود رسول اللہﷺ کے لیے اور صحابہ کرام ؓ کے لیے یہ چیز بڑی قوت اور سہارا تھی، پھر بعد کے زمانے میں خلافت راشدہ کا رعب ودبدبہ اور پھر اس کے بعد طاقتور مسلم قیادت کا سہارا تبلیغ دین کو حاصل رہا۔ ایک بڑی قوت مسلمانوں کے اجتماعی اخلاق بھی تھے۔ مگر آج ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی سلبی شناخت ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ معاشرتی اور تمدنی زندگی میں مسلمانوں کی اخلاقی قوت بھی کمزور پڑ گئی ہے۔ فیملی سسٹم بھی کمزور ہوا ہے۔ اب اگر کوئی چیز باقی ہے جو غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرسکتی ہے تو وہ اسلامی تعلیمات ہیں قرآن کریم کی حقانیت ہے اور اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ اثرات ہیں اور بس۔ آج ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جو اسلام کی دعوت دینے والے کے لیے اضافی سہارا بن سکے اور آڑے وقت میں اسکی پشت پناہی کرسکے۔ اس کا نتیجہ راست طور پر یہ نکلتا ہے کہ جب کسی غیر مسلم کو دعوت دی جاتی ہے تو اس کے ذہن میں پہلا سوال یہی ابھرتا ہے کہ جب اس کا دین اتنا ہی اچھا ہے اور اتنا ہی فطری ہے اور اتنا ہی ترقی یافتہ ہے جتنا یہ ہمیں بتا رہا ہے تو پھر اس دین نے خود اس کی قوم کی تقدیر کیوں نہیں بدلی، مسلم معاشرہ بدحالی کی طرف کیوں گامزن ہے اور یہ کہ خود اس کے اپنے دین میں اتنی تفرقہ بازیاں، گروہ بندیاں اور افراتفریاں کیوں ہیں؟ جب بھی کسی سادہ ذہن رکھنے والے پڑھے لکھے انسان کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے تو اس کے دماغ میں اسی قسم کے سیکڑوں سوالات کا خود رو جنگل اُگ آتا ہے اور وہ اسلام کی طرف آنے سے کترانے لگتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے زمانے میں ایسی آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا کہ آدمی اپنی پسند اور مرضی سے جو چاہے دین اپنا لے۔ اسی لیے ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب بھی کوئی اسلام قبول کرلیتا تو سب سے پہلے اس کے گھروالے، بعد ازاں محلے والے اور پھر بستی کی سرکردہ شخصیات اس پر دباؤ بناتی تھیں کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے اور اگر وہ دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا تھا تو اس کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔ اس معاشرے میں جو انسانی آزادیوں پر یقین نہیں رکھتا تھا یہاں تک بھی ہوا کہ بستی کے تمام لوگوں نے مل کر ایمان لانے والوں کا، جن کی تعداد اس وقت بہت کم تھی، حقہ پانی بند کردیا اور انہیں بستی سے دور پہاڑوں کی طرف رگید دیا، جہاں انہوں نے کم وبیش تین سال اس طرح گزارے کہ کھانے پینے کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے، یہاں تک کہ وہ پیڑوں کی چھال اور پتے کھانے پر بھی مجبور ہوئے۔ یہ بڑا ہی بے رحمانہ اور ظالمانہ بائیکاٹ تھا، کئی اہل ایمان اس جان لیوا بائیکاٹ کی نذر ہوگئے اور جاں سے گزر گئے۔ خود رسول اللہ ﷺ بھی اس بڑی آزمائش سے گزرے۔ اُس معاشرے میں دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا بہت ہی خطرناک کام کرنے جیسا تھا، جس میں جان ومال دونوں کا نقصان تھا۔ مگر آج کی دنیا میں کم از کم ایسی صورت حال نہیں ہے، مسائل بہر حال موجود ہیں، تاہم مواقع بھی ہیں اور راستہ یہی ہے کہ مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اور مواقع کو بھناتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں۔
دعوت نہ اکراہ ہے اور نہ جبر:
قرآن میں ہے ’’ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ‘‘یعنی دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔ جو اپنی مرضی سے دین کو قبول کرنا چاہے وہ کرلے اور جو قبول نہ کرنا چاہے وہ نہ کرے۔ مگر دعوت سب کو دی جائے گی۔ اور دعوت اپنے اسلوب اور طریقہ کار کے اعتبار سے کسی بھی طرح ’اکراہ‘ یعنی جبر نہیں ہے۔ اس لیے دعوت کو بہلانے پھسلانے اور برین واشنگ جیسی تعبیرات اور الفاظ سے معنون نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دعوت بالغ اور ہوش مند انسان پر پیش کی جاتی ہے اور اسے دعوت قبول کرنے یا رد کر دینے کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت کے پورے پروسس میں تالیف قلب کے طور پر غیر مسلمانوں کی مادی مدد کرنے یعنی راشن پانی، علاج معالجہ اور نقدی وغیرہ سے تعاون کرنے کی اجازت ہے مگر یہ عمل لالچ دینے دلانے سے مختلف ہے۔
اسلام کی دعوت دیگر ادیان کی تبلیغ سے بہت مختلف ہے، اس میں نہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں اور نہ ہی اس کا کچھ جواز ہے کہ انہیں کسی قسم کا لالچ دے کر احسان مند رکھا جائے کہ وہ احسان مندی کے جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام کی طرف راغب ہوں۔ اسلام میں ایسا کچھ بھی جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اس اختیار کی آزادی سلب ہو جاتی ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے کو دے رکھی ہے کہ دنیا میں وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرے یا نہ کرے۔
قرآن میں اس آزادی اور اختیار کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ(الکہف: 29)
’’اے محمد! آپ لوگوں میں یہ اعلان کر دیجیے کہ ان کے رب کی طرف سےحق، یعنی قرآن آگیا ہے، اب جو چاہے اس پر ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے۔‘‘
کسی انسان کے ایمان لانے یا کفر پر قائم رہنے کی آزادی کے صریح اعلان کے بعد کسی بھی مسلمان، داعی یا حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کی آزادیاں سلب کرے اور انہیں زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے توڑ جوڑ کرے، لالچ دے یا خوف کا ماحول پیدا کرے۔ ان احکامات کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں پر اس الزام کی کچھ بھی حقیقت نہیں رہ جاتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا یا گیا ہے یا کسی قسم کے جبر واکراہ سے کام لیا گیا ہے۔
دعوت تو بس درد و تڑپ اور جدوجہد ہے:
دعوت تو صرف درد و تڑپ اور جدوجہد ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور سرخروئی کاجذبہ ہے۔ دعوت دینے والے کے اندر وہی درد اور جذبہ ہونا ضروری ہے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی ذات میں دکھائی دیتا ہے۔ جس کی ترجمانی قرآن میں اس طرح کی گئی ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿الکہف:٦﴾
’’تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ تک بھی گھلا دیں گے اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے ‘‘
رسول اللہ ﷺ کے اسی درد وتڑپ اور شدت جذبات کا پتہ مسلم شریف کی اس حدیث سے بھی چلتا ہے جس میں آپ نے ایک مثال کے ذریعے اپنی قلبی کیفیت اور دردو تڑپ کو بیان فرمایا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا اَضَائَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَ ھٰذِہِ الدَّوَابُّ الَّتِیْ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا، وَ جَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَ یَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا قَالَ فَذٰلِکُمْ مَثَلِیْ وَ مَثَلُکُمْ اَنَا اَخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا۔(رَوَاہُ مُسْلِمٌ)
حضرت ابوؓ ہریرہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب اس کے گرد روشنی ہوگئی تو پتنگے اور کیڑے جو آگ پر مرے پڑتے ہیں آگ میں گرنے لگے اور وہ شخص ان کو روکنے لگا لیکن پتنگے اس پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے چلے گئے۔ یہی میری اور تمہاری مثال ہے میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر جہنم سے بچا رہا ہوں اور آواز دے رہا ہوں آگ سے دور رہو، آگ سے دور رہو، لیکن تم مجھ پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے چلے گئے۔‘‘ ***

اسلام کی دعوت دیگر ادیان کی تبلیغ سے بہت مختلف ہے، اس میں نہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں اور نہ ہی اس کا کچھ جواز ہے کہ انہیں کسی قسم کا لالچ دے کر احسان مند رکھا جائے کہ وہ احسان مندی کے جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام کی طرف راغب ہوں۔ اسلام میں ایسا کچھ بھی جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اس اختیار کی آزادی سلب ہو جاتی ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے کو دے رکھی ہے کہ دنیا میں وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرے یا نہ کرے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31804
آدی واسیوں کی سماجی و تعلیمی ترقی کی منفرد تحریک https://dawatnews.net/%d8%a7%d9%93%d8%af%db%8c-%d9%88%d8%a7%d8%b3%db%8c%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%85%d8%a7%d8%ac%db%8c-%d9%88-%d8%aa%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%85%db%8c-%d8%aa%d8%b1%d9%82%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%85%d9%86/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31803/ وکاس سیوا سمیتی کی کوششوں سے آدی واسیوں کا ذہن بہت حد تک صاف ہوچکا ہے اور جو غلط فہمیاں ان کے ذہنوں میں بھر دی گئی تھیں ، ان میں بہت کمی آئی ہے۔ 2002میں بعض تنظیموں کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے سبب انہوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن نیز ان کی اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا تھا لیکن سمیتی سے میل ملاپ کے بعد آدی واسی قائدین اس بات کا اعتراف کرنے لگے کہ یہ سب ان کی غلط فہمیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رہنمائوں کے جنم دن یا کسی اور تہوار کے موقع پر سمیتی کے ممبران و دیگر مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں اور ان سے اور دیگر مسلم برادری سے اظہار اپنائیت کرتے ہیں۔]]>

وسیم احمد، دلی

 

بحیثیت باشندگان ملک، ہم سب ہندوستانی ہیں۔ہندوستانیت کے اس رشتے میں بندھے ہر شہری پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔حقوق متنوع ہیں۔ ان تمام کا ذکر تو یہاں ذرا مشکل ہے ۔البتہ انہی حقوق میں سے میں ایک ہے سماجی معاونت اور دوسرا ہے تعلیمی بیداری لانے کی کوشش۔ہم میں سے جو طبقہ بھی سماجی اعتبار سے پچھڑا ہوا ہے ، اس کوتعاون دینا ہماری قومی ذمہ داری ہے اور جو طبقہ تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہے، اس کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا بحیثیت ہندوستانی ہم سب کا فریضہ ہے۔ یہ دونوں چیزیں کسی بھی قوم کو باعزت زندگی دینے میں معاون ہوتی ہیں ۔ کیونکہ قوم کا عروج و زوال ، ترقی اور ارتقا اس کی تعلیمی و سماجی بلندی و پستی میں پنہاں ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم کا علم و ادب اوران کی سماجی سرگرمیاں عروج پر رہیں ،ان کی شہرت کے ڈنکے بجتے رہے اور جب ان کے اندر تعلیمی شعور کا فقدان ہوگیا اور سماجی پسماندگی نے ان میں اپنی جگہ بنا لی تو وہ قوم محکوم ہوگئی ۔ ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو آج مسلمان سماجی اعتبار سے تو بہتر ہیں مگر تعلیم میں پچھڑے ہوئے ہیں جیسا کہ سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیٹی اور محمود الرحمن کمیٹی وغیرہ کی رپورٹ میں اس بدحالی کی حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے۔ البتہ ملک کے اندر ایک اور بھی طبقہ ہے جوتعلیمی اعتبار سے تو پچھڑا ہوا ہے ہی، سماجی اعتبار سے بھی پسماندگی کا شکار ہے ، وہ ہے آدیواسی ۔ ظاہر ہے وہ بھی اسی ملک کے باشندے ہیں اورقومی وسائل پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے شہری کا۔ مگر سماجی پسماندگی نے ان سے حق مانگنے کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی کچھ تنظیمیں ان کے لیے کوششیں کررہی ہیں اور انہیں تعلیمی و سماجی اعتبار سے اوپر لانے کی مسلسل جدو جہد میں لگی ہوئی ہیں۔انہی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ’’ سب جن وکاس سیوا سمیتی‘‘ بھوپال ، مدھیہ پردیش میں ہے جو جماعت اسلامی ہند کے زیر نگران آدی واسیوں میں فلاح بہبودی کے فروغ کا ایک این جی او ہے۔ یہ این جی او آدیواسیوں میں سوشل بیداری لانے اور ان کی کمزور معیشت و سماجی حالت کو بہتر بنانے کا کام کرتا ہے۔
مدھیہ پردیش میں22ایسے اضلاع ہیں جہاں آدیواسی اکثریت میں ہیں۔ ان اضلاع میں ان کی آبادی60فیصد سے90فیصد تک ہے۔ ریاست کے جنوب مغربی علاقے میں مختلف قبائل مثلاً بھیل ، بھلالا، باریل اور پھٹیلیا آدیسواسی رہتے ہیں اور جنوب مشرقی علاقے میں گونڈ، کورکو، بھریا، حلبا اور سہریا و دیگر آدیواسی آباد ہیں۔ ان سے اظہار یگانگت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مذکورہ این جی او کے اراکین انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کی بستیوں میں جاتے ہیں اور ان سے ملاقاتیں کرکے صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے این جی او نے ایک کوچنگ سینٹر بھی کھولا تھا اور انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی طرف متوجہ کیا تھا ۔2014-2017 میں دس کوچنگ سینٹر کھولے گئے جن سے 1310آدیواسی بچوں نے استفادہ کیا۔ نیز یہ این جی او سرکاری اسکولوں میں آدیواسی بچوں کے داخلے کی حوصلہ افزائی میں مسلسل لگا ہوا ہے ، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس وقت زیادہ تر گھروں میں ان کے بچے پانچویں سے نویں کلاس تک پڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں بیداری لانے کی کوششوں کا نتیجہ سامنے آرہا ہے اور نوجوان لڑکے اسکول میں پڑھ کر شہروں کی طرف جارہے ہیں جبکہ گائوں میں رہنے والے لوگ جنگلوں سے لکڑیاں لاکر بیچنے کا کام کرتے ہیں۔سرکار نے ان کی حالت میں سدھار لانے کے لیے بہت ساری اسکیمیں بنائی ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ سبسڈی دیتی ہے ۔ بینک بھی انہیں کم سے کم انٹریسٹ پر قرض فراہم کرتا ہے مگر ان اسکیموں کے بارے میں انہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذاوہ ان اسکیموں سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں۔ یہ این جی او ان کے پاس جاکر انہیں ان اسکیموں کے بارے میں بتاتا ہے اور استفادہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ تعاون دیتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ آدیواسی سماج کے کمزور اور پچھڑے لوگ جو مین اسٹریم سے دور حاشیے پر دھکیل دیئے گئے ہیں، انہیں بیدار کرکے انہیں تعلیمی اور سماجی اعتبار سے ترقی دی جائے ۔ ضرورت پڑنے پر ان کی مالی معاونت بھی کی جاتی ہے۔تعاون عامہ کے تحت جہاں پینے کے پانی کے لیے ہینڈ پائپ نہیں ہے اور بستی کے لوگ ہینڈ پائپ لگانے کی حیثیت میں نہیں ہیں، تو کسی فائونڈیشن سے بات کرکے وہاں ہینڈ پائپ لگوایا جاتا ہے ۔ مذکورہ سمیتی کے توسط سے 2014-2020کے دوران کل 85ہینڈ پمپ لگائے گئے جن میں شہری علاقے میں 29اور دیہی علاقے میں 56ہینڈ پائپ لگائے گئے۔اسی طرح تین اضلاع کے ایک شہر اور چھ گائوں میں 2015-2020کے دوران 890فوڈ کٹس تقسیم کیے گئے جن سے مسلم اور قبائلی دونوں طبقے نے استفادہ کیا۔2018میں اسکولی بچے اور بچیوں میں 220اسکولی بیگ تقسیم کیے گئے۔ سردی کا موسم آرہا ہے۔ ایسے موسم میں جو خاندان یا فرد گرم کپڑے خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،انہیں گرم کپڑا ، کمبل وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے۔ 2016-2019میں 150مرد، 120عورتیں اور250بچوں کو گرم کپڑے فراہم کرائے گئے۔ عام طور پر ہندو اعلیٰ ذات کے لوگ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، پوجا کرنا اور کھانے پینے میں شرکت کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ لہٰذا سمیتی کے ممبران ان سے اظہار یگانگت اور مساوات کا احساس دلانے کے لیے رمضان میں ان کے ساتھ بیٹھ کر افطار کرتے ہیں، عید ملن میں ان کو مدعو کرتے ہیں اور سب مل کر سیویاں کھاتے ہیں۔ 2018-19میں سمیتی نے کل 9عید ملن پروگرام کیے تھے۔ ان مواقع پر آدیواسی سماج کے عام لوگوں کے علاوہ لیڈر بھی شامل ہوتے ہیں ۔ کبھی کوئی سوشل پروگروم منعقد کیا جاتا ہے تو اس میں آدیواسی کے کسی فرد کو چیف گیسٹ بنا کر سامنے لایا جاتا ہے۔ ان سب کا مقصد صرف ایک ہے کہ ان کو جذباتی اور سماجی اعتبار سے احساس کمتری سے باہر نکالا جائے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ان کا رجحان تعلیم کی طرف بڑھا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کے ذہن میں جو غلط فہمیاں تھیں ،وہ بہت کم ہوگئی ہیں۔
سمیتی کے جنرل سکریٹری جناب ارشا احمد قریشی نے بات چیت کے دوران کہا کہ سمیتی کی کوششوں سے اب ان کا ذہن بہت حد تک صاف ہوچکا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے اندر جو غلط فہمیاں بھر دی گئی تھیں ، ان میں بہت کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ذہن کو پراگندہ کرنے میں مسلم مخالف تنظیموں کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ مسلم مخالف تنظیموں نے ان کے کان بھر کر 2002میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرائی تھی۔ تب انہیں لگتا تھا کہ مسلمان ان کے دشمن ہیں اور ان کی اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں مگرسمیتی سے میل ملاپ کے بعد آدیواسی لیڈرس اس بات کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ یہ سب ان کی غلط فہمیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رہنمائوں کے جنم دن یا کسی اور تہوار کے موقع پر سمیتی کے ممبران و دیگر مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں اور ان سے اور دیگر مسلم برادری سے اظہار اپنائیت کرتے ہیں۔ بلکہ ایک تنظیم ’’ آدیواسی مسلم کوآرڈینیشن سمیتی ‘‘ کے نام سے تشکیل بھی دی گئی ہے جس میں دونوں طرف کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔جناب ارشاد قریشی کا کہنا ہے کہ وہ آدیواسیوں میں نہ صرف سوشل بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ اسلام کے بارے میں انہیں واقفیت بھی دیتے ہیں۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ وقفہ وقفہ سے کچھ لوگ ایک ساتھ آدیواسی اکثریتی خطے کا دورہ کریں، ان کے یہاں ٹھہریں ۔ اس بستی میں سب لوگ اذان دیں، جماعت سے نماز پڑھیں۔ ایسا کرنے سے وہ اسلامی ارکان کی ادائیگی کو دیکھیں گے تو متاثر ہوں گے اور استفسار کا جذبہ بیدار ہوگا۔ ان میں سے جن میں اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہوگا، انہیں ہم بتائیں گے۔ ظاہر ہے اس عمل کو انجام دینے میں اخراجات ہیں اور سمیتی کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہوتا ہے کہ اجتماعی طور پر اتنے لوگوں کو ساتھ لے کر بستی کا دورہ کرسکے۔ اگر مخیر حضرات اپنے اخراجات پر اس خطے کا دورہ کریں اور اسلامی حقائق سے انہیں واقف کرائیں تو اسلام کے تئیں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مزید مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں سمیتی کے جنرل سکریٹری سے irshadalirajpur@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسے سمیتی حسب استطاعت ان خدمات کو انجام دے رہی ہے اور کئی گائوں کا دورہ کرکے سرگرمی جاری رکھے ہوئی ہے۔ قریشی صاحب نے گفتگو کے دوران آدیواسیوں سے قربت پڑھانے کی اہمیت و ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پسماندہ علاقہ ہے، اگر یہاں کے لوگوں کو ’’ سیلف ہیلپ گروپ ‘‘ کی بنیاد پر کچھ رقم دے کر چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کا موقع فراہم کیا جائے، مثال کے طور پر ضرورت مند خاندان کو مد د کے طور پر دو بکریاں دے دی جائیں اور ان سے معمولی منفعت واپس کرنے کا معاہدہ کرلیا جائے تو اس سے ایک تو انہیں اپنی خانہ داری کے اخراجات میں آسانی ہوگی اور جو منافع ملے گا اسے کسی اور تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیاجاسکے گا۔ بہر کیف سرکاری سطح پر اور تنظیمی سطح پر ان آدیواسیوں کو تعلیمی، معاشی اور سماجی اعتبار سے بیدار کرنے اور مین اسٹریم میں لانے سے ملک و قوم کا ہی بھلا ہوگا۔ اسی لیے یہ تنظیم، دیگر مسلم تنظیمیں اور وابستہ افراد اس راہ میں موثر اقدامات کررہے ہیں۔
***

وکاس سیوا سمیتی کی کوششوں سے آدی واسیوں کا ذہن بہت حد تک صاف ہوچکا ہے اور جو غلط فہمیاں ان کے ذہنوں میں بھر دی گئی تھیں ، ان میں بہت کمی آئی ہے۔ 2002میں بعض تنظیموں کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے سبب انہوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن نیز ان کی اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا تھا لیکن سمیتی سے میل ملاپ کے بعد آدی واسی قائدین اس بات کا اعتراف کرنے لگے کہ یہ سب ان کی غلط فہمیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رہنمائوں کے جنم دن یا کسی اور تہوار کے موقع پر سمیتی کے ممبران و دیگر مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں اور ان سے اور دیگر مسلم برادری سے اظہار اپنائیت کرتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31803
علامہ اقبالؔ کی نظر میں خواتین کی اصلاح کیوں ضروری https://dawatnews.net/%d8%b9%d9%84%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84%d8%94-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%aa%db%8c%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d8%b5%d9%84%d8%a7%d8%ad/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31802/ اقبال کا نظریہ عورت کے تعلق سے بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، وہ اس کے لیے وہی طرزِ زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام سکھاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے، اس طرح اپنے آپ کو پیش کرے کہ معاشرے پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرَ تو سے حریمِ کائنات روشن ہو۔]]>

تسنیم فرزانہ (بنگلورو)

 

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ علامہ اقبال ایک مفکر اور مصلح قوم تھے، وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور اس کے ارتقا کے ضمن میں خواتین نے ہمیشہ ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔
اقبال چونکہ اسلامی شعائر، تہذیب اور تعلیمات کے پروردہ، شیدائی و ہمنوا تھے اور اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق عورت اور مرد خاندانی اکائی کے ایسے پہیے ہیں جن کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔
علامہ اقبال نے جب ہوش سنبھالا تب مغربیت، مشرقیت پر حاوی ہورہی تھی اور ایک ایسی تہذیب وجود میں آ رہی تھی جس کی اخلاقی قدریں معدوم ہو رہی تھیں۔ اس زمانے کے شاعر و ادیب بھی اپنی شاعری و ادب میں سارا زور عورتوں کے خد وخال کو اجاگر کرنے پر صرف کر کے ایک نئی بنیاد قائم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن جب اقبال جیسا حساس شاعر اس جانب متوجہ ہوتا ہے تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے :
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار!
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اقبال کا نظریہ وہی ہے جو اسلام کا ہے، اسی وجہ سے اقبال نے اپنے کلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی سے متعلق اپنے نظریات کو پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں عورت کا مختلف انداز میں بار بار ذکر کیا ہے، وہ عورت کا ذکر نہایت عزت و احترام سے کرتے ہیں کبھی ماں کی شکل میں تو کبھی عورت کی جفاکشی اور دلیری پر داد و تحسین پیش کرتے ہیں تو کبھی اس کی تعلیم و تربیت کی جانب توجہ دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عورت کی عزت و حقانیت کو مرد کا اولین فریضہ بتاتے ہیں، چنانچہ عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
عورتوں کی شجاعت و بہادری اور ان کی عزت و احترام کا عکس ہمیں اقبال کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے انہوں نے فاطمہ بنت عبداللہ کو شجاعت کی مثال کہا ہے جو ۱۹۱۲ کی طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں، ان کو امت کی آبرو بتا کر ان کی شہادت پر فخر کیا ہے، فرماتے ہیں :
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
غازیانِ دین کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
ان اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال عورت کی عظمت اور اس کی نسوانیت پر آنچ نہیں آنے دیتے اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
اپنی نظم ’’ماں‘‘ میں ایک ماں کی مامتا، تڑپ، الفت ہر طرح کے جذبوں کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں
میں جو سوئی ایک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے میرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
اقبال کا نظریہ عورت کے تعلق سے بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، وہ اس کے لیے وہی طرزِ زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام سکھاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے، اس طرح اپنے آپ کو پیش کرے کہ معاشرے پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرَ تو سے حریمِ کائنات روشن ہو۔
وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے پابند تھے اور مرد کو عورت کا قوام کہتے ہیں، مرد و زن کے مَابین مکمل مساوات کے قائل نہیں تھے اس بات کی وضاحت ان کے ان اشعار سے ملتی ہے
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
عورت کی تعلیم کو اقبال بہت ضروری سمجھتے اور زور دیتے ہیں، ان کا قول ہے کہ عورتوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ عورت ہی ہے جس کے وجود سے قوم بنتی ہے، اگر یہ تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو پوری قوم تباہ و برباد ہو جائے گی عورت
و تعلیم کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
تہذیب فرنگی ہے اگر موت اس وقت
ہے حضرتِ انسان کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ ہنر موت
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
عورت کی تعلیم کی طرف اشارہ تو ضرور کرتے ہیں مگر وہ ایسی ہونی چاہیے کہ جس سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو ایسا نہ ہو کہ اس علم سے مغربی تہذیب کو اپنایا جائے جس سے بے حیائی اور غیر ذمہ داری کو فروغ ملے اپنے کلام میں ایک جگہ فرماتے ہیں :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
یہاں انگریزی سے مراد یہ نہیں کہ انگریزی زبان میں کوئی خرابی ہے بلکہ علامہ اقبال اس تہذیب و ثقافت کے خلاف ہیں جو اس زبان سے وابستہ ہے، اقبال کا تو یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی ان پڑھ غیر مہذب دین دار عورت بچے کی پرورش کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک غیرت مند مسلم وجود میں آ جائے، تو وہ اس ماڈرن، تہذیب یافتہ اور بے دین عورت سے قدرے بہتر ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ’’مومن لونڈی، مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کتنی پسندیدہ کیوں نہ ہو‘‘ – اس سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے بھی حامی ہیں۔ وہ عورت کو خاتونِ خانہ بناتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ شمعِ انجمن بنے تو اس سے مسائل پیدا ہونگے وہ مانتے ہیں کہ عورت کو سماج میں ہر طرح کی آزادی ملے، مگر وہ آزادی ایسی نہ ہو جس سے اس میں اخلاقی گراوٹ آ جائے، اقبال ایک طرف آزادی نسواں کے پُر زور حامی تھے مگر ایسی آزادی کے خلاف بھی تھے جو مغربیت کے طرز پر ہو، ایسی آزادی اقبال کی نظروں میں زہرقند کے مترادف ہے لکھتے ہیں :
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کہ کچھ کہہ کہ بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں یا زمرد کا گلو بند
آزادی نسواں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کی تکمیل ہو اور اپنی خودی اجاگر ہو، ورنہ ایسا نہ ہو کہ مغربیت کی اندھی تقلید کی بنا پر اپنے وجود کو فنا کردیں
اقبال نے حضرت فاطمہؓ کے کردار کو عورتوں کے لیے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے، بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہؓ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تمام عورتوں کے لیے نمونہ ہے
فرراع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اسوہ زہرا مند
اقبال کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں یہ حدود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے دی ہے
علامہ اقبال عورتوں کی حفاظت کے قائل تھے اور ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتے جہاں مرد نسوانیت کی نگہبانی اور حفاظت کرے، کیوں کہ سماج میں زن دشمن بھیڑیے ہر قدم پر پائے جاتے ہیں جن سے عورت کی عزت و آبرو ہر لمحے خطرے میں رہتی ہے
ان باتوں پر عمل درآمد کر کے ایک نیک و صالح معاشرے کی تشکیل علامہ کے پیشِ نظر تھی اسلام بھی عورت کے لئے ایسا ہی ماحول دیتا ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لائے یہی بات علامہ اقبال نے کہی ہے یہ فطرت کے عین مطابق ہے، اس کی خلاف ورزی معاشرے میں لازماً بگاڑ اور انتشار کا باعث بنتی ہے بقول علامہ
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
***

اقبال کا نظریہ عورت کے تعلق سے بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، وہ اس کے لیے وہی طرزِ زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام سکھاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے، اس طرح اپنے آپ کو پیش کرے کہ معاشرے پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرَ تو سے حریمِ کائنات روشن ہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31802
بائیڈن انتظامیہ! تنظیم اور ترجیحات https://dawatnews.net/%d8%a8%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%88%d9%86-%d8%a7%d9%86%d8%aa%d8%b8%d8%a7%d9%85%db%8c%db%81-%d8%aa%d9%86%d8%b8%db%8c%d9%85-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%aa%d8%b1%d8%ac%db%8c%d8%ad%d8%a7%d8%aa/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31801/ بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20 جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے طالبان سے معاملہ کر کے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی ترجیح ہوگی۔]]>

مسعود ابدالی

 

امریکی انتخابات کو تین ہفتے گزرجانے کے باوجود کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اب تک جاری ہے۔ زیادہ تر مقامات پر ڈاک سے آنے والے پرچہ انتخاب کا شمار ہو رہا ہے جبکہ جارجیا میں ریاستی سکریٹری آف اسٹیٹ کے حکم پر تمام ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کی جا رہی ہے۔ تاہم صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جو بائیڈن 306انتخابی یا الیکٹرل ووٹ لے کر امریکہ کے چھالیسویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کے حریف صدر ٹرمپ کے کھاتے میں 232ووٹ درج ہیں۔ قصر مرمریں کی کنجی کے لیے 270الیکٹورل ووٹ درکار ہیں چنانچہ اگر دوبارہ گنتی کے بعد جارجیا میں صورتحال تبدیل ہو بھی گئی تو نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے کہ کلیہ انتخاب میں جارجیا کے 16ووٹ ہیں۔ حتیٰ کہ جارجیا کے ساتھ پنسلوانیہ کے نتائج بدل جانے کی صورت میں بھی جو بائیڈن ہی نو منتخب صدر رہیں گے۔
ریاضی کے مطابق صدر ٹرمپ کی کامیابی کا اب کوئی امکان نہیں اور جمہوری اقدار کی رو سے انہیں باوقار انداز میں اپنی شکست مان لینی چاہیے۔ لیکن موصوف اس پر تیار نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن میڈیا پر انتخاب جیتے ہیں اور بدترین دھاندلی کے ذریعے بائیں بازو کے سوشلسٹوں نے امریکی عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے۔ امریکی سیاسی حلقے ٹویٹر پر صدر ٹرمپ کی شعلہ افشانیوں کو چائے کی پیالی میں طوفان قرار دے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اب تک کسی سنجیدہ قانونی سرگرمی کا آغاز نہیں ہوا۔ پنسلوانیہ، مشیگن، ایریزونا اور وسکونسن میں صدر کی 9 انتخابی عذر داریاں ابتدائی سماعت کے بعد مسترد کی جاچکی ہیں۔ خبروں کے مطابق موقر وکلا انکا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ پنسلوانیہ میں ٹرمپ انتخابی مہم ٹیم نے مقدمے کے لیے Wright Morris & Arthur نامی وکلا کی مشہور کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن 13 نومبر کو جج کے روبرو ان کے وکلا نے پیروی سے انکار کرتے ہوئے منسوخی کے لیے اپنے وکالت نامے عدالت میں جمع کروا دیے۔ وکلا نے صدر ٹرمپ کو مطلع کر دیا ہے کہ کیس میں جان نہیں ہے۔ صدر کے ذاتی وکیل اور نیویارک کے سابق رئیسِ شہر روڈی جولیانی عدالتوں میں صدر ٹرمپ کی پیروی کے لیے راضی و پرعزم ہیں لیکن جناب جولیانی کی وجہ شہرت سیاست ہے اور وکالت کے حوالے سے موصوف کا کوئی بڑا نام نہیں ہے۔ صدر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ سپریم کورٹ سے پورے انتخاب کو کالعدم کرنے کی درخواست کرنے والے ہیں لیکن دنیا بھر کی طرح امریکی عدلیہ بھی اداروں کو بے وقار نہیں ہونے دے گی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اگر انتخابات پر جھاڑو پھر جائے تو ریپبلکن پارٹی کے نو منتخب سینیٹرز، 11 گورنروں اور ارکان ایوان نمائندگان کا کیا ہوگا؟
صدر ٹرمپ کے پاس ملک گیر مظاہروں کا راستہ موجود ہے۔ 14 نومبر کو دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے زبردست جلوس نکالا جس میں عوامی امنگوں پر ڈاکہ مردہ باد، امریکہ پر سوشلسٹوں کا قبضہ نامنظور اور ترقی و خوشحالی کے چار مزید سال کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر سیاہ فام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جوابی مظاہرہ کیا۔ دھکم پیلی اور ہاتھا پائی کے دوران ایک شخص چھری کے وار سے زخمی ہو گیا۔
امریکی نظمِ حکومت میں صدر بہت با اختیار ہوتا ہے لیکن امریکی دستور کے مصنفین نے اختیار میں اعتدال کے لیے کلیدی نوعیت کے صدارتی فیصلوں کو مقننہ سے مشورے بلکہ توثیق کا پابند کردیا ہے۔ مثلاً اٹارنی جنرل سمیت وفاقی کابینہ، وفاقی جج، سفرا، خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکار، حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے خود مختار اداروں کے سربراہ اور عسکری قیادت کا تقرر کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ (راجیہ سبھا) کی توثیق سے مشروط ہے۔ اسی طرح سالانہ میزانیہ، دوسرے ملکوں کو اسلحے کی فروخت اور دوسرے اہم معاملات کی کانگریس سے منظوری لازمی ہے۔ کچھ معاملات پر صدر ایکزیکیوٹیو آرڈر کے ذریعے کام چلا سکتا ہے لیکن اگر گانگریس کھلی مخالفت پر اتر آئے تو انتظامی مشنری سست و غیر موثر ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی مثال اومابا کے دور میں سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کا معاملہ ہے۔ جسٹس انتھونی اسکالیا فروری 2016 میں انتقال کر گئے۔ صدر اوباما نے انکی جگہ ایک سینئر جج میرک گارلینڈ کو نامزد کیا۔ اسوقت امریکی سینیٹ میں 2 اتحادیوں کو ملا کر 46 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن سینیٹروں کی تعداد 54 تھی۔ سینیٹ کے قائد ایوان مچ میک کانل نے یہ کہہ کر توثیق سے انکار کر دیا کہ صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہونے میں ایک سال سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور سپریم کورٹ کے جج کا تقرر ساری زندگی کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ اہم فیصلہ نئے صدر کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سال ستمبر میں جب سپریم کورٹ کی جج جسٹس روتھ بدر گنزبرگ کا انتقال ہوا تو یہی موقف ڈیموکریٹس نے اختیار کیا اور قائد حزب اختلاف نے مچ مک کانل کو یاد دلایا کہ 2016 میں انتخابات 10 مہینے دورتھے جبکہ اس بار تو قبل از ووٹنگ بھی شروع ہو چکی ہے لہذا جج کا تقرر انتخابات تک موخر کر دیا جائے لیکن اکثریت کے بل پر چند ہفتوں میں جسٹس ایمی کونی بیرٹ کی سپریم کورٹ سے توثیق کرالی گئی۔
اسی طرح کانگریس کے ایوان زیریں یا ایوان نمائندگان (لوک سبھا) پر ڈیموکریٹک پارٹی کی گرفت صدر ٹرمپ کو کچھ معاملات میں ناکوں چنے چبوا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیرملکی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے لیکن ایوان نمائندگان نے اسکے لیے رقم منظور نہیں کی چنانچہ یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔
اس گفتگو کے پس منظر میں عرض کرنا یہ ہے کہ تین نومبر کو صدارتی انتخابات کے ساتھ ایوان نمائندگان کی کل 435 اور سینیٹ کی 35 نشستوں کے انتخابات ہوئے۔ ان نشستوں میں سے 23 ریپبلکن پارٹی کے سینیٹروں کی میعاد مکمل ہونے پر خالی ہوئی ہیں اور ڈیموکریٹس کو اپنی 12 نشستوں کا دفاع کرنا تھا۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس نے ایریزونا اور کولوریڈو میں ریپبلکنس سے نشستین چھین لیں اور جواب میں صدر ٹرمپ کی جماعت نے الاباما میں ڈیموکریٹس رکن کی معیاد مکمل ہونے پر خالی ہونے والی نشست ہتھیالیں۔ اب نئی سینیٹ کی ہئیت ترکیبی کچھ اس طر ح ہے کہ 100 رکنی ایوان میں 50 ریپبلکن ارکان کے مقابلے میں 48 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہوں گے۔ جارجیا کی دو نشستوں پر کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہ حاصل کرسکا چنانچہ یہاں جنوری کے پہلے ہفتے میں ضمنی یا Run-off انتخاب ہوگا۔ اگر ڈیموکریٹس یہ دونوں نشست جیت گئے پھر تو خیر ہے ورنہ ایوان بالا پر ریپبلکن کی برتری صدر بائیڈن کے لیے سخت مشکل کا سبب بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان نفرت کی حد تک جو کشیدگی نظر آرہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کسی قسم کی مفاہمت یا رواداری کا کوئی امکان نہیں اور سیاسی مبصرین ہر نکتے پر دما دم مست قلندر کی توقع کر رہے ہیں۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اعترافِ شکست سے انکار اور صدر ٹرمپ کا مہم جویانہ انداز جارجیا میں سینیٹ کے ضمنی انتخاب کے لیے اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ شکست تسلیم کرلینے سے صدر کی کمزوری ظاہر ہوگی۔ وہ اپنے حامیوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جنگ جاری ہے اور کمر کھولنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ صدر کی موجودہ مدت 20 جنوری تک ہے اور وہ یہ عرصہ امریکی روایت کے مطابق غیر موثر و نمائشی یا lame-duck صدر کی طرح نہیں گزارنا چاہتے۔ خیال ہے کہ وہ جلد ہی جارجیا میں اپنے امیدواروں کے لیے بھرپور انتخابی مہم شروع کردیں گے اور اگر ریپبلکن پارٹی سینیٹ کی کم ازکم ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ پروقار انداز میں اقتدار جو بائیڈن کے حوالے کر کے 2024میں انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیں گے۔
ایوان نمائندگان کے انتخابات میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی بہتر نہیں رہی۔ اس وقت ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ارکان کی تعداد 197ہے اور 232نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں لیکن 3نومبر کے انتخاب کے بعد ڈیموکریٹس کی تعداد گھٹ کر 225ہونے کی توقع ہے یعنی واضح اکثریت سے صرف 7 زیادہ۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی صفوں میں نظریاتی تفریق بھی خاصی گہری ہے۔ چار نوخیز خواتین، الیکزینڈرا اورٹیز المعروف AOC، الحان عمر، رشید طلیب اور آیانا پریسلے پر مشتمل گروہ جسے صدر ٹرمپ چار کا ٹولہ یا squad کہتے ہیں اب مزید مضبوط ہوگیا ہے اور اس بار نیویارک سے جمال بومن اور مزوری سے محترمہ کوری بش نے ڈیموکریٹک پارٹی کے برج گرا کر اسے مزید تقویت دیدی ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے اس انقلابی Caucus کے ارکان کانگریس کی تعداد اب 10 ہوگئی ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کم سے کم تنخواہ 15 ڈالر فی گھنٹہ، تمام امریکیوں کے لیے صحت بیمہ، پولیس اصلاحات، صنعتی اداروں میں مزدور یونینوں کے قیام، ماحول کی حفاظت، کاربن ٹیکس کے ساتھ غیر ملکی امور پر بھی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) پر پابندی ان کے منشور کا حصہ ہے۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی، ترک نژاد چینی مسلمانوں سے بدسلوکی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر بھی اس گروپ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس شری رو کھنہ سمیت تین ہند نژاد ارکان بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔
جسٹس گروپ کے غیر اعلانیہ سرپرست سینیٹر برنی سینڈرز ہیں جنہوں نے پارلیمانی سال کے آغاز پر جسٹس ڈیموکریٹس کے منشور کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ برنی سینڈرز کابینہ کی تشکیل، کانگریس کی مجالس قائمہ اور پالیسی سازی میں جسٹس ڈیموکریٹس کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس تناظر میں جو بائیڈن انتظامیہ کا آغاز نا ہموار یا bumpy نظر آرہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ کابینہ اور کلیدی تقرریوں کے لیے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے اور ریپبلکن پارٹی ’ناپسندیدہ نامزدگیوں‘ کو مسترد کرکے نئے صدر کے لیے مشکل پیدا کرسکتی ہے۔ اس پس منظر میں اسرائیلی ترغیب کاروں (lobby) کا کام آسان ہو جائے گا اس لیے کہ اسرائیل کے مخلص حامی دونوں جماعتوں میں کلیدی عہدوں پر موجود ہیں چنانچہ اب صفِ مخالف سے حمایت حاصل کرنے کے عوض اسرائیل کے ہمدردوں کو انتظامیہ کے اہم عہدوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جائیگی۔ اس ضمن میں وزیر خارجہ، وزیر دفاع، اسرائیل اور اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر کے مناصب بہت اہم ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کے لیے جو نام سامنے آرہے ہیں ان میں مشہور دانشور ڈاکٹر سوزین رائس سر فہرست ہیں۔ 55 سالہ سوزین اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر اور صدر اوباما کی مشیر قومی سلامتی رہ چکی ہیں۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور صدر اوباما کے تعلقات کشیدہ کرنے میں ڈاکٹر صاحبہ کا ہاتھ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ 2014 میں ایران سے ممکنہ معاہدے پر اپنے اتحادی کو اعتماد میں لینے تل ابیب گئیں تو اسرائیل حکام کا رویہ ان سے اچھا نہیں تھا۔ اس دوران اسرائیلی زعما نے مبینہ طور پر صدر اوباما کے بارے میں کچھ اس انداز میں باتیں کیں جو نسلی حساسیت کے حوالے سے بے باک نوعیت کی تھیں۔ یہ عام خیال ہے کہ امریکہ کے اسرائیل نواز عناصر کے لیے سوزین رائس کا بطور وزیر خارجہ تقرر پسندیدہ نہ ہوگا لیکن black lives matter تحریک اب مضبوط ہوچکی ہے اور ایک لائق و فائق سیاہ فام دانشور کی کھلی مخالفت ایک مشکل کام ہے۔ متوازن و امن پسند اسرائیلی حلقوں میں ڈاکٹر صاحبہ پسند کی جاتی ہیں اور امریکی یہودی تنظیموں کی فیڈریشن انہیں اعزاز سے بھی نواز چکی ہے۔
ایک اور اہم نام اوباما دور کے نائب وزیر خارجہ ڈاکٹر ولیم برنز ہیں۔ 64سالہ ڈاکٹر صاحب ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جنکی پشت پر 38سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے مارشل اسکالر شپ پر انگلستان کی جامعہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی تعلقات پر پی ایچ ڈی کی اور وہ کئی گرانقدر مقالوں کے خالق ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی موصوف نے ہی فرمائی تھی۔ صدر مرسی کے خلاف سیکیولر قوتوں کے محاذ میں اسلام پسند النور پارٹی کی شرکت انہیں کی مہین سفارتکاری کا کمال ہے۔ جمہوری حکومت کی معزولی اور قاہرہ کی مشہور مسجد رابعۃ العدویۃ میں اخوانی کارکنوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے بعد سب سے پہلے جناب برنز قاہرہ پہنچے اور جنرل السیسی سے ملاقات میں انہیں مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اس وقت تک السیسی مصر کے وزیر دفاع تھے۔ اس ہم ملاقات کے بعد جنرل السیسی نے صدر بننے کی کوششیں شروع کیں اور ایک سال بعد صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ایک اور اہم امیدوار ڈاکٹر وینڈی شرمن ہیں۔ 71سال وینڈی شرمن جامعہ ہارورڈ میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وینڈی بھی اوباما انتطامیہ میں نائب وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ اگر وزیر خارجہ نہ بنیں تو راسخ العقیدہ یہودی محترمہ وینڈی کی اقوام متحدہ میں بطور مستقل سفیر تعیناتی بھی خارج از امکان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سفیر کے لیے انڈیانا کے ایک چھوٹے سے قصبے ساوتھ بینڈ کے سابق رئیس شہر پیٹ بیوٹیجیج کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ پیٹ صاحب نے حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن پارٹی ٹکٹ کے ابتدائی مقابلوں میں پے درپے شکست کے بعد جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ پیٹ ہم جنس پرست ہیں اور انہوں نے ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے۔ سابق صدر اوباما ہم جنس پرستوں پر عائد پابندیوں کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان پر زور دیا تھا کہ ہم جنس شادیوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس اہم عہدے پر پیٹ بیوٹیجیج کے تقرری سے دنیا کو یہ پیغام بھی جائیگا کہ بائیڈن انتظامیہ ہم جنسی پر پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔
دو ایک سینیٹرز بھی وزارت خارجہ کے امیدوار ہیں۔ اگر سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی تو بہت ممکن ہے کہ نئے امریکی صدر اپنے کسی ساتھی سینیٹر کو وزیر خارجہ نامزد کریں۔ تعلقات، رواداری، رکھ رکھاؤ اور آنکھ کے لحاظ کی بنا پر سینیٹر کی سینیٹ سے توثیق زیادہ آسان ہیں۔ اس سلسلے میں بائیڈن کی ریاست ڈیلاوئیر کے سینیٹر کرس کون اور ریاست کنیٹیکٹ کے سینٹر کرس مرفی کا نام لیا جا رہا ہے۔ 57 سالہ کرس کون اسرائیلی لابی میں بہت مقبول ہیں اور وہ امر یکہ اسرائیل سیاسی مجلس عمل (AIAPC) کی مجلسوں میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ کون صاحب سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ریاست کنیٹیکٹ سے 47 سالہ ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی بھی جو بائیڈن کے قریبی دوست اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کی مخالفت کی تھی جس پر اسرائیلی لابی ان سے ناراض ہوئی تھی لیکن اسکا کفارہ مرفی صاحب نے اسطرح ادا کیا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد سینیٹر صاحب نے سعودی و کویتی رہنماؤں کو فون کرکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی درخواست کی۔ یہ دونوں ریاستیں ڈیموکریٹس کا گڑھ ہیں اور وزیر بننے کی صورت میں خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار کا جیتنا مشکل نہ ہوگا۔
وزیر دفاع کے لیے محترمہ مشل فلورنی کا نام لیا جا رہا ہے۔ 59 سالہ مشل اوباما انتظامیہ میں نائب وزیر دفاع تھیں۔ ان کے شوہر اسکاٹ گڈ بھی نائب وزیر دفاع رہ چکے ہیں۔ مشل اور ان کے شوہر اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ تاہم مشل صاحبہ کو غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں پر شدید تحٖفظات ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کے جدید ترین میزائیل شکن نظام فولادی گنبد (Iron Dome) کی فراہمی میں مشل صاحبہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔وزیر دفاع کے لیے ایک اور اہم امیدوار لیفٹینیٹ کرنل (ر) ٹیمی ڈک ورتھ ہیں۔ اپنی ننھیال کی جانب سے تھائی نژاد ٹیمی امریکی فوج میں پائلٹ تھیں۔ عراق میں انکا ہیلی کاپٹر القاعدہ نے گرا لیا تھا۔ شدید زخمی ٹیمی کا پورا دایاں پیر اور بایاں پاؤں گٹھنے کے نیچے سے کاٹ دیا گیا۔ انکے دونوں ہاتھ بھی متاثر ہیں۔ نومبر 2016 میں ٹیمی الی نوائے سے امریکی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ ایوان نمائندگان کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ٹیمی امریکہ کی واحد سینیٹر ہیں جو اس عہدے پر رہتے ہوئے ماں بنیں جب انہوں نے 2018 میں ایک چاند سی بیٹی کو جنم دیا۔ ڈک ورتھ صاحبہ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کی رکن ہیں۔
وزارت، نظامت و سفارت کا تاج کن لوگوں کے سر سجے گا اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان اہم اسامیوں کے لیے نو منتخب صدر نے با ضابطہ رابطے ابھی شروع نہیں کیے ہیں لیکن آثار کچھ ایسے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اوباما اقتدار کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔ یعنی ایران جوہری منصوبہ کی تجدید، چین کے گھیراؤ کے لیے بحر ہند و خلیج بنگال میں ہند ناو سینا (بھارتی بحریہ) کی تکنیکی اعانت میں اضافہ، اسرائیل کی بھرپور مدد کے ساتھ نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کی مخالفت، آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت، دنیا بھر میں ہم جنسی و اسقاط حمل پر پابندیوں کی حوصلہ شکنی، ماحولیاتی کثافت سے بچاؤ کے لیے پیرس کلب کی سفارشات پر عملدرآمد، نیٹو کا استحکام اور یورپی یونین سے قریبی تعلقات شامل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے طالبان سے معاملہ کر کے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی ترجیح ہوگی۔ یورپی یونین اور ترکی کے مابین حالیہ کشیدگی میں جو بائیڈن یورپ کی مکمل حمایت کریں گے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انقرہ میں اقتدار کی تبدیلی یا regime change ان کی ترجیح ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
masood_abdali@hotmail.com

بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20 جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے طالبان سے معاملہ کر کے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی ترجیح ہوگی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31801
پہلی بار لوگوں نے تعلیم، روزگار اور صحت پر بات کی:منوج جھا https://dawatnews.net/%d9%be%db%81%d9%84%db%8c-%d8%a8%d8%a7%d8%b1-%d9%84%d9%88%da%af%d9%88%da%ba-%d9%86%db%92-%d8%aa%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%85%d8%8c-%d8%b1%d9%88%d8%b2%da%af%d8%a7%d8%b1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b5%d8%ad%d8%aa/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31800/   (دعوت نیوز ڈیسک) بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد آر جے ڈی لیڈر منوج جھا نے ووٹوں کی گنتی پر سوال اٹھاتے ہوئے نیتیجوں میں ہیرا پھیری اور دھاندلی کا اندیشہ ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے الیکشن کمیشن میں شکایت بھی درج کرائی۔ گیارہ نومبر کو بی بی سی کے […]]]>

 

(دعوت نیوز ڈیسک)
بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد آر جے ڈی لیڈر منوج جھا نے ووٹوں کی گنتی پر سوال اٹھاتے ہوئے نیتیجوں میں ہیرا پھیری اور دھاندلی کا اندیشہ ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے الیکشن کمیشن میں شکایت بھی درج کرائی۔ گیارہ نومبر کو بی بی سی کے رپورٹر اقبال احمد سے بات کرتے ہوئے منوج جھا نے کہا کہ دوپہر ڈیڑھ بجے سے شام پانچ بجے تک گنتی کے دوران نمبروں کو منجمد رکھا گیا حالانکہ کہ ’’ڈائنمک کاؤنٹنگ‘‘ میں نمبر اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ منوج جھا کا الزام ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ آر جے ڈی کے نمبروں کو کس حد تک دبایا جاسکتا ہے اس کا اندازہ کیا جاسکے۔ ان کا الزام ہے کہ شام پانچ بجے کے بعد ہی گنتی میں ہیرا پھیری کی گئی ہے کیونکہ جتنے بھی ’’لو مارجن‘‘ یعنی نہایت ہی کم ووٹوں سے ہارنے کا معاملہ ہے، شام کو ہی پیش آیا۔ پہلے آر جے ڈی کے کئی امیدواروں کو کامیاب بتایا گیا لیکن انہیں کو شام کے بعد ناکام قرار دے دیا گیا۔ منوج جھا نے اپنی بات چیت کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ ہلسہ حلقہ اسمبلی سے آر جے ڈی کے ایک امیدوار کو پہلے 567 ووٹوں سے کامیاب بتایا گیا لیکن شام کو انہیں آٹھ ووٹوں سے شکست کی خبر دی گئی۔ منوج کے مطابق پریہار اور مُنگیر میں بھی اسی طرح کی گڑبڑی کی گئی۔ منوج جھا نے حکمراں جے ڈی یو اور بی جے پی کے لیڈروں سمیت کچھ افسروں پر بھی الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جہاں آر جے ڈی ’’ری کاؤنٹنگ‘‘ کا مطالبہ کر رہی تھی وہاں انکے مطالبات کو خارج کردیا گیا لیکن جے ڈی یو اور بی جے پی کی ’’ری کاؤنٹنگ ‘‘ کے مطالبے کو مان لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ری کاؤنٹنگ‘‘ کی شرائط پوری کرنے کے باوجود آر جے ڈی کو یہ موقع نہیں دیا گیا۔ جب منوج جھا سے بی بی سی کے رپورٹر کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ الیکش کمیشن نے جب انکے مطالبات کو خارج کر دیا ہے تو کیا وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ اس سوال کا انہوں نے صاف جواب نہیں دیا بلکہ بہار کے نوجوانوں، خواتین اور مزدوروں کا ذکر چھیڑ دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام کھیل پندرہ سیٹوں کو لے کر ہوا ہے، اگر ہیرا پھیری نہیں ہوئی ہوتی تو مینڈیٹ آر جے ڈی کے حق میں ہوتا۔ ’ایم وائی‘ فیکٹر یعنی (مسلم، یادو اتحاد) کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ انکے ساتھ بہار کے عوام ہیں اور انکا ووٹ شیئر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ منوج جھا نے کہا کہ اس بار کے انتخابات یہ بتاتے ہیں کہ بہار میں ذات پات، مذہبی تعصب کی دیواریں ٹوٹی ہیں، دفعہ 370 اور رام مندر کا معاملہ ناکام رہا، بہار کے لوگوں نے عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر ووٹ کیا۔ پہلے مرحلے میں ’’عظیم اتحاد‘‘ کی کارکردگی اچھی رہی۔ لیکن دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ناکامی کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ ابھی اس پورے معاملہ پر تجزیہ کرنا باقی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں قوی امید تھی کہ سمانچل اور متھلانچل کے علاقوں میں انہیں اچھی کامیابی ملے گی لیکن مجلس پارٹی کی وجہ اسے انہیں سمانچل میں کامیابی نہیں مل پائی۔ منوج کہتے ہیں کہ متھلانچل میں بی جے پی کو کامیابی تو ملی ہے لیکن عوام اس تجزیہ ضرور کریں گے۔ منوج جھا نے یہ بھی کہا کہ آخر ان علاقوں میں انکی طرف سے کیا کمی رہی اس پر وہ غور و فکر کریں گے۔
مجلس پارٹی کے ساتھ اتحاد کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ وہ سماج کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیتے ہیں سماج کو بانٹنے کا کام نہیں کرتے ہیں۔ نتیش کمار کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ اب تک نتیش کمار ’’بڑے مینڈیٹ‘‘ کے سی ایم ہوا کرتے تھے اب دیکھنا اہم ہوگا کہ چالیس سیٹوں کے ساتھ نتیش کمار کو حکومت چلانے کے لیے کتنی آزادی ملتی ہے ۔نتیش کمار کے ساتھ اتحاد کے سوال پر منوج جھا نے یہ صاف کر دیا کہ نتیش کمار کی پارٹی کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔ کیونکہ عوام نے انہیں نتیش کمار کے خلاف ووٹ دیا ہے اس لیے وہ اس کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ وہیں این ڈی اے کی جانب سے انیس لاکھ نوکریوں کے وعدے پر منوج جھا نے چٹکی لی اور پی ایم کے دو کروڑ نوکریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ حکومت بنتے ہی نوکریوں کے معاملہ پر وہ حکومت سے سوال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار بہار کے انتخابات میں نوکری، تعلیم، صحت جیسے عنوانات موضوع بحث رہے اور وہ آگے بھی انہی عنوانات کو لے کر چلیں گے۔ منوج جھا نے یہ بالکل صاف کر دیا کہ نئی حکومت سازی کے فوری بعد ہی وہ عوامی مسائل کو حکومت کے سامنے لانا شروع کر دیں گے۔ ان انتخابات سے انکی پارٹی کیا حاصل کر پائی اس سوال کے جواب میں منوج جھا نے کہا کہ اس بار کے انتخابات میں انکی پارٹی اور عظیم اتحاد کی جانب سے سب سے زیادہ ’کلین‘ انتخابی تشہیر چلائی گئی ہے جبکہ پی ایم کی جانب سے ذاتی حملہ جیسے ’’جنگل راج کا یو راج‘‘ اور نتیش کمار کی جانب ’’بچوں کا گنوانا‘‘ جیسے بیانات اخلاقی قدروں سے نیچے گرکر بیان بازی ہے لیکن تیجسوی جی نے کبھی بھی اپنے حدود کو پار نہیں کیا۔ اس بار ہم نے یہ کر کے دکھا دیا کہ انتخابات میں صاف ستھری انتخابی تشہیر کیسے کی جاتی ہے۔ منوج جھا نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ انتخابات اور سابقہ تشہیر کے دوران عوام کے ذہنوں کو بھٹکانے کی کوشش کی گئی۔ اصل علاقائی مسائل کو چھوڑ کر بی جے پی کے لیڈر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے۔ منوج جھا نے کہا کہ ’’یو پی کے سی ایم بھوجپور میں آکر کہتے ہیں کہ اب آپ لوگ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں۔‘‘ بہرحال منوج جھا کو خوشی ہے کہ انہوں نے عوامی اور علاقائی مسائل پر بات کی اور بی جے پی کو بھی مجبوراً انہیں موضوعات پر آنا پڑا۔ آخر میں منوج جھا نے کہا کہ بہار کے عوام نے ’’فرقہ واریت‘‘ اور سماج میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کو کچھ حد تک ناکام بنا دیا اور یہ انکی بڑی کامیابی ہے۔یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ای وی ایم اور کاؤنٹنگ میں دھاندلی کے مسئلے پر اس سے پہلے بھی کئی بار سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یکم فروری 2019 کو حزب اختلاف کی 21 جماعتیں ’سیو دا نیشن، سیو ڈموکریسی‘ کے بینر تلے جمع ہوئی تھیں اور ووٹنگ کرانے کےلیے ایک متبادل راستہ تلاش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31800
زینب الغزالیؒ : عظیم داعیہ،مجاہدہ اور مفسر قرآن https://dawatnews.net/%d8%b2%db%8c%d9%86%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d8%ba%d8%b2%d8%a7%d9%84%db%8c%d8%92-%d8%b9%d8%b8%db%8c%d9%85-%d8%af%d8%a7%d8%b9%db%8c%db%81%d8%8c%d9%85%d8%ac%d8%a7%db%81%d8%af%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31799/ زینب الغزالیؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عزیمت سے پُر تھی۔ انہوں نے مصر میں آزاد پسند اور حقوق نسواں کے علمبرداروں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور مصر میں اسلام کو متبادل طریقہ زندگی کے طور پر پیش کیا تھا۔]]>

مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد

 

زینب الغزالیؒ ۲/ جنوری ۱۹۱۷ء کو قاہرہ کے شمال میں ضلع دقہیلہ کے دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری اسکول میں پرائمری اور سکنڈری اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ازہر یونیورسٹی کے معروف اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ انہوں نے علم و تحقیق سے بے انتہا رغبت کی بنا پر قدیم و جدید علوم میں کافی عبور حاصل کیا۔ زینب الغزالیؒ دور طالب علمی ہی سے وہ خواتین اور طالبات میں پُرجوش اور شعلہ بیان خطیبہ کی حیثیت سے مشہور تھیں اور خواتین کی مختلف تنظیموں سے بھی وابستہ رہیں۔ ۱۹۳۷ء میں انہوں نے خواتین کی ایک تنظیم کی بناء ڈالی جس کا نام ’’السیدات المسلمات‘‘ تھا۔ اس تنظیم کو بعد میں انہوں نے حسن البناؒء کے کہنے پر اخوان میں ضم کر دیا۔ وہ ایک بے باک داعیہ اور راہ حق کی ایک عظیم مسافر اور مجاہدہ تھیں۔ اسلام کی اشاعت کے لیے انہوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ اس عظیم مسافرہ کو جمال عبدالناصر نے ۱۹۲۵ء میں جیل میں ڈال دیا اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ وہ زندان کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’ایک دن مجھے ایک اندھیری کوٹھری میں دھکیلا گیا جو کتوں سے بھری ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کتے مجھ پر حملہ آور ہوئے، میرا ہاتھ میری چھاتی غرض میرا سارا جسم کتوں کی زد میں آگیا۔ میں صاف محسوس کر رہی تھی کہ کتوں کے تیز نوکیلے دانت میرے جسم کے ہر حصے میں پیوست ہو رہے ہیں۔ میں آنکھیں بند کر کے اسمائے حسنیٰ کا ورد کرنے لگی جب دروازہ کھول دیا گیا۔ میرا خیال تھا کہ جیل کی کوٹھری میں جو کچھ مجھ پر گزرا ہے اس کے نتیجے میں میرے سفید کپڑے خون میں ڈوب چکے ہوں گے۔ لیکن یہ اللہ کی مجھ پر ایک واضح کرامت تھی کہ میرے کپڑے پہلے جیسے ہی تھے اور میرے چہرہ پر کوئی زخم نہیں تھا۔ جب صفوت مجھے دیکھنے آیا تو مجھے صحیح سلامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا‘‘۔ اذیت رسانی کا ایسا کون سا طریقہ نہیں تھا جو حکومت وقت نے ان پر استعمال نہ کیا ہو۔
زینب الغزالیؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عزیمت سے پُر تھی۔ انہوں نے مصر میں آزاد پسند اور حقوق نسواں کے علمبرداروں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور مصر میں اسلام کو متبادل طریقہ زندگی کے طور پر پیش کیا تھا جہاں مغربی فکر و تہذیب اور سیکولرزم یعنی لا دینیت کی جڑیں مضبوط تھیں۔ خواتین میں اسلامی بیداری لانے کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے خواتین میں اسلام کے دیے گئے حقوق کی بھر پور نمائندگی کی اور برملا اس حقیقت کا اظہار کرتی رہیں کہ اسلام نہ صرف خواتین کو ذاتی زندگی گھر کی چار دیواریوں میں کلیدی رول ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے بلکہ سماجی اور معاشی زندگی میں بھی اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہے اور سیاست میں بھی حصہ لینے اور اظہار خیال کی آزادی بھی دیتا ہے غرض کہ انہوں نے خواتین کے درمیان اسلامی بیداری کا علم بلند کیا اور ان کے اندر حوصلہ، جذبہ ایمان اور عزم و استقلال پیدا کیا ہے۔ گھر ہو یا جیل کی کال کوٹھریاں، بازار ہو یا گلیاں ہر جگہ خواتین کو نہ صرف اسلام کی طرف بلاتیں اور ان کی تعلیم تربیت کا انتظام بھی کرتی تھیں۔ زینب الغزالی قرآنی آیتوں کی ایک عملی تفسیر تھیں۔ مصری حکومت ان کی ہر بات سے خائف تھی۔ انور السادات نے اس عظیم خاتون کو ٦ سال تک جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید کر رکھا تھا۔ موصوفہ ایک بہترین مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :(۱) ایام حیاتی (۲) نظرات فی کتاب اللہ (۳) غریرۃ المراۃ مشکلات الشباب والفتیات (٤) الی بنتی (۵) تاملات فی الدین و الحیاۃ۔
تفسیری خدمات:
زینب الغزالی قرآن مجید سے گہرا تعلق اور بے حد محبت رکھتی تھیں۔ وہ قرآن مجید کے پیغام کو دوسری خواتین تک پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں۔ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں نے ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ اللہ کی کتاب کو سمجھنے اور اس کو اس کے بندوں تک پہنچانے میں صرف کیا ہے۔ زینب الغزالی نے تفسیر کے میدان میں اور فہم قرآن کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے ’نظرات فی کتاب اللہ‘ کے عنوان سے تفسیر لکھی۔ اس تفسیر کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دن ایک اشاعتی ادارہ کی مالکہ خاتون کی جانب سے پیغام آیا کہ وہ کم عمر بچوں و بچیوں کے لئے ۲۸،۲۹ اور ۳۰ویں پارے کی ایسی آسان تفسیر لکھوانا چاہتی ہیں جو ان کی زبان اور معیار کے مطابق ہو۔ زینب الغزالی نے جواب دیا کہ میں نے کبھی تفسیر لکھنے کے بارے میں سوچا نہیں اور یہ میرا میدان بھی نہیں ہے۔ مگر جب اس خاتون نے خود زینب سے رابطہ کر کے اصرار کیا تو پہلے انہوں نے استخارہ کیا اور دعا کی پھر اللہ کے نام سے کام شروع کیا اور تین پاروں کی تفسیر تیار
کر لی ۔جب وہ مسودہ لے کر اس خاتون کی تلاش میں نکلیں تو ان کا کہیں پتہ نہ چلا۔ واپس لوٹتے ہوئے شیخ محمد الملعم کے پاس پہنچ گئیں اور ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اسے شائع کرسکتے ہیں؟انہوں نے اسے دیکھا اور کہا ہاں مگر ایک شرط ہے وہ یہ کہ آپ پورے قرآن کی تفسیر لکھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مکمل تفسیر لکھی۔ تفسیر کے مقدمہ میں موصوفہ لکھتی ہیں ’’میں قرآن مجید سے اتنی محبت کرتی ہوں کہ بخدا میں نے قرآن پڑھا ہی نہیں بلکہ اسے اپنی زندگی بنا لیا اور اس کے بعد یہ کوشش کی کہ جس کتاب سے میں اس قدر محبت کرتی ہوں اسے دوسرے لوگوں تک پہنچاؤں تاکہ وہ بھی اسے محبت کرنے لگیں‘‘۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’میں قرآن مجید کی کوئی مفسرہ نہیں ہوں نہ ہی میرے اندر یہ صلاحیت ہے مگر اپنے اس جذبے کی تسکین کے لیے میں نے اپنی اس کتاب نظرات فی کتاب اللہ میں سورہ بقرہ، سورہ آل عمران اور سورہ نساء کے مطالب بیان کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
زینب الغزالی نے اس تفسیر کو لکھنے میں نہایت غور و فکر سے کام لیا ہے۔ انہوں نے جیل کی کال کوٹھریوں اور تنہائیوں میں بھی اور گھر کو بھی قرآن مجید کی آیتوں پر غور و فکر کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دعوت کے میدان میں بھی اور سفر کے دوران بھی قرآن مجید کو غور و فکر اور تدبر کی جولان گاہ بنایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے قدیم و جدید عربی تفاسیر سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے۔ وہ اس حوالے سے رقمطراز ہیں: ہمارے علمائے سابقین اور سلف صالحین نے کتاب اللہ کی تفسیر میں جو وسیع تصنیفات چھوڑی ہیں ان سے بھی میں نے فائدہ اٹھایا ہے، چنانچہ میں نے قرطبی کی تفسیر، حافظ ابن کثیر کی تفسیر جس کو میں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا تھا اور میں اس کی عاشق ہوں،ل۔ آلوسی، ابوالسعود قاسمی اور رازی کی تفسیروں سے بھی استفادہ کیا ہے اور سید قطب شہید ؒکی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ سے بھی استفادہ کیا ہے‘‘ نیز انہوں نے احادیث کو بھی قرآن مجید کی تشریح و توضیح کا ذریعہ بنایا اور احادیث کے ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ لکھتی ہیں: ’’میں نے اپنی طاقت بھر حدیث سے مراجعت کی کیوں کہ یہ اللہ کی کتاب قرآن کی بہترین تفسیر ہے اور تفسیر کے موضوع پر فاضل علماء نے جو کچھ تحریر کیا ہے ان سبھوں نے احادیث سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس سرچشمہ سے سیراب ہوئے ہیں“۔ نیز اس تفسیر میں جگہ جگہ اقوال صحابہ اور سلف صالحین کے اقوال سے بھی انہوں نے استدال کیا ہے۔ غرض کہ یہ تفسیر، تفسیر بالماثور کا بہترین نمونہ ہے۔ تفسیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے تفسیر میں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی عصری معنویت کو اجاگر کرنا بھی اس میں ہر لحاظ سے پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحی فرماوی کے بقول قرآن مجید کے معنی و مطالب اور احکام کو ہمارے موجودہ زمانے کے حالات سے سچی اور مخلصانہ کوشش کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے تاکہ ان احکام کی رہنمائی میں اور ان مطالب کے دائرے میں ہمارے موجودہ حالات کو درست کیا جائے۔ ان معنیٰ اور احکام کو نمایاں کر کے معاشرے کی بیماریوں کے علاج کے لیے مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور نمایاں خصوصیت اس تفسیر کی یہ ہے کہ اکثر وبیشتر متجددین، مغربی مصنفین اور مستشرقین یہ کہتے ہیں کہ تفاسیر میں مردانہ اپروچ غالب ہے اور نسائی اپروچ کا فقدان ہے جس کی وجہ سے خواتین کو سماجی، سیاسی، تعلیمی اور دیگر میدانوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن اس تفسیر میں خواتین کی نفسیات و ضروریات اور ان کے جذبات و احساسات کا بھرپو رخیال رکھا گیا اور جہاں جہاں خواتین کے مسائل اور احکامات کے بارے میں ہدایات ہیں، ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے ان کی مدلل تفسیر بیان کی ہے۔ تفسیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مفسرہ ہر سورت کے آغاز میں نہایت عمدہ اور جامع تعارف پیش کرتی ہیں۔اس سلسلے میں فاتحہ کا مختصر و جامع تعارف ملاحظ فرمائیے: ’’فاتحہ الکتاب، یہ سب سے پہلی سورت ہے جو پوری سات آیتوں کے ساتھ یکبارگی نازل ہوئی ہے۔ یہ جامع سورت ہے، اس کی آیتوں میں قرآن مجید کے سبھی مقاصد، عقیدہ، تشریح اور قصے ہیں جن کا تذکرہ اختصار کے ساتھ جامع انداز میں بلاغت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی چند آیتوں میں توحید، توکل، مشرکین، گمراہوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کر کے ان کو معطل کرنے والوں کا کافی و شافی بیان ہے‘‘ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تفسیر ہر معنیٰ میں مکمل ہے۔
یہ تفسیر پی ڈی ایف کی صورت میں دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کا نیا ایڈیشن تحقیق کے ساتھ آٹھ جلدوں میں قاہرہ سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین جلدوں میں ہے اور ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی نے اس تفسیر کو اردو جامہ پہنایا ہے۔ موصوف تصنیف و تحقیق کے ماہر ہیں اور درجنوں کتابوں کے اردو تراجم بھی کر چکے ہیں۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ میں مقدمہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ تقریظ کے طور پر مولانا امین عثمانی مرحوم کی تحریر بھی جلد اول میں شامل ہے اور معروف ازہری اسکالر ڈاکٹر عبد الحی فرماوی کے تاثرات بھی تفسیر میں شامل ہیں۔ المنار پبلشنگ ہاوس، نئی دہلی نے ۲۰۲۰ء میں اس کو شائع کیا ہے۔
(مضمون نگارمانو،حیدرآباد سے پی۔ایچ۔ ڈی اسکالر ہیں)
***

زینب الغزالیؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عزیمت سے پُر تھی۔ انہوں نے مصر میں آزاد پسند اور حقوق نسواں کے علمبرداروں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور مصر میں اسلام کو متبادل طریقہ زندگی کے طور پر پیش کیا تھا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31799
کیریر گائیڈنس: ہندوستان کی جعلی جامعات https://dawatnews.net/%da%a9%db%8c%d8%b1%db%8c%d8%b1-%da%af%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%88%d9%86%d8%b3-%db%81%d9%86%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%ac%d8%b9%d9%84%db%8c-%d8%ac%d8%a7%d9%85%d8%b9%d8%a7%d8%aa/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31798/ ڈاکٹر سلمان عابد ،حیدرآباد   جہاں ہندوستان کو اعلیٰ تعلیمی معیاری اداروں کے قیام اور ان سے منسوب کارناموں کا اعزاز حاصل ہے وہیں اس ملک کی کئی ریاستوں کے کئی شہر ایسے تعلیمی اداروں کے قیام کے بھی حامل ہیں جنہیں کوئی منظوری حاصل نہیں یا جنہیں جعلی یافرضی یا غیر منظورشدہ قرار دے […]]]>

ڈاکٹر سلمان عابد ،حیدرآباد

 

جہاں ہندوستان کو اعلیٰ تعلیمی معیاری اداروں کے قیام اور ان سے منسوب کارناموں کا اعزاز حاصل ہے وہیں اس ملک کی کئی ریاستوں کے کئی شہر ایسے تعلیمی اداروں کے قیام کے بھی حامل ہیں جنہیں کوئی منظوری حاصل نہیں یا جنہیں جعلی یافرضی یا غیر منظورشدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسا کسی فرضی ادارے نے نہیں کی اور نہ ہی کسی خانگی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کیا ہے بلکہ ملک کے ایسے ادارے نے یہ بات بہ بانگ دہل کہی ہے جس کے اختیار میں ہندستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نگرانی اور مالیات کی فراہمی کا حق و اختیار حاصل ہے اور وہ ہے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایسا پہلی بار کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ ہر سال یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے ایسی مکمل فہرست اسی کی ویب سائٹ پر جاری کی جاتی ہے، آویزاں کی جاتی ہے اور مشتہر کی جاتی ہے۔ تو پھر اس مرحلے پر ایک اور بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں گزشتہ دو تین دہوں سے اس فہرست کی اجرائی کا صرف رواج جاری ہے اور اس میں بہت تھوڑا اضافہ ہوتا ہے مگر جو فہرست آج سے تقریباََ دو دہوں قبل جاری کی گئی جس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ یہاں پہنچ کر ہم بھی لا جواب ہو جاتے ہیں اور اس سوال کا جواب بھی صرف مرکزی وزارت تعلیم، مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن وغیرہ کے پاس ہی ہے۔ بہرحال یہ تسلیم کہ ملک میں ایسے کوئی 23 جامعاتی سطح کے ادارے نہ صرف قائم ہیں بلکہ یہ اپنے قیام میں اب بہت ہی سینئر ہو چکے ہیں۔ ان میں طلبا داخلہ بھی لیتے ہیں ان کے کورسس بھی چلتے ہیں اور یہاں سے ہر سال فارغ التحصیل بھی بڑی تعداد انسانی وسائل کی ہوتی جارہی ہے۔ اور ظاہر ہے ان کی کھپت بھی تو روزگار مارکیٹ میں کہیں نہ کہیں ہوتی ہی ہوگی۔
اب اس سال 7 اکتوبر 2020 میں بھی ایک ایسی ہی فہرست جاری کی گئی ہے کہ بڑی تعداد میں فرضی ادارے کام کر رہے ہیں اور طلبا کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان میں داخلہ ان کی اپنی صوابدید پر ہوگا۔ جملہ 25 جامعات کو منظوری نہیں ملی ہے اور جملہ 279 فنی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جنہیں کسی بھی طرح کی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ملک کی کئی ریاستیں ان میں سر فہرست ہیں ان میں پہلی ریاست اتر پردیش ہے اور دوسری ریاست دلی ہے جو ملک کا صدر مقام ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے آویزاں کی گئی اس فہرست میں اپنی اپنی ریاستوں کے ناموں کے ساتھ شامل بعض اداروں پر وہاں کی ریاستیں متعجب بھی ہیں کیوں کہ ان میں سے کئی ادارے تو بہت پہلے ہی بند ہوچکے اور بعض عرصہ دراز سے غیر کارکرد ہیں مگر ان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک اہم سوال ہے جس کا جواب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے پاس ہونا چاہیے۔ ہمیشہ کی طرح یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے اس سال نئے اکیڈیمک سیشن کے آغاز کے ساتھ ایسی فہرست جاری کی ہے اس مقصد کے ساتھ کہ طلبا ایسے فرضی اداروں سے دور رہیں اور ساتھ ہی متعلقہ ریاستی حکومتوں کو اس جانب کارروائی کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ دوسری طرف ریاست بہار نے بھی اپنا احتجاج درج کروایا ہے کہ پہلے ہی وہ کئی ایسے معاملات میں ریاست کی نیک نامی کو متاثر کرنے کی کوششوں کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور ایسے تعلیمی اداروں کے خلاف اقدامات بھی کیے گئے ان میں سے کئی نام اب ختم بھی ہوچکے ہیں مگر پھر بھی ان کے نام یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے جاری فہرست میں درج ہونے پر انہیں تعجب ہے۔ دوسری طرف مہاراشٹر کی اکلوتی یونیورسٹی جس کا نام فہرست میں رکھا گیا ہے وہ رضا عربک یونیورسٹی ناگپور ہے جو ایک دینی مدرسہ کے طور پر کام کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اس دینی مدرسہ کے مولانا محمود رضوی خان نے ایک اخبار کو بتایا کہ وہ 240 طلبا کے ساتھ ایک دینی اقامتی مدرسہ ہے جسے یونیورسٹی بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سینٹ جان یونیورسٹی جس کا فہرست میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مقام کشن نٹم بتایا گیا ہے جس کا وجود ہی نہیں۔ مغربی بنگال میں واقع دو نام جن میں سے ایک ادارہ اپنا نام تبدیل کر کے متبادل طبی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے اور دوسرا ادارہ اب بھی کار کرد ہے۔ اسی دوران وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے تمام ریاستوں کو حکمنامے جاری کیے گئے ہیں کہ وہ ایسے تمام فرضی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کریں اور اپنی رپورٹ وزارت کو پیش کریں۔
ریاستوں کی اساس پر فرضی یونیورسٹیوں اور فنی تعلیمی اداروں کی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فہرست:
بہار
۱۔مایتھلی یونیورسٹی وشوا ودیالیہ، دربھنگہ ، بہار۔
دہلی
۲۔ کمرشیل یونیورسٹی لمیٹیڈ۔دریا گنج، دلی۔
۳۔یونائیٹیڈ نیشنس یونیورسٹی ، دلی۔
۴۔وکیشنل یونیورسٹی ، دلی۔
۵۔اے ڈی آر۔ سنٹر ل جیوریڈیکل یونیورسٹی۔اے ڈی آر ہاوز۔راجندر پلیس، نئی دلی۔
۶۔انڈی
ن انسٹی ٹیوٹ آف سائینس اینڈ انجنئیرنگ، نئی دلی۔
۷۔وشواکرما اوپن یونیورسٹی فار سیلف ایمپلائمنٹ۔ روزگار سیواسدن، دلی۔
۸۔ادھیاتمک وشوودیالیہ(اسپرچول یونیورسٹی)،رتھالہ روہنی، دلی
کرناٹکا:
۹۔بداگانوی سرکار ورلڈ اوپن یونیورسٹی ایجوکیشن سوسائیٹی۔ بلگام۔
کیرالا
۱۰۔سینٹ جانس یونیورسٹی۔کشنٹم، کیرالا۔
مہاراشٹرا
۱۱۔ رضا عربک یونیورسٹی ، ناگپور، مہاراشٹرا۔
مغربی بنگال
۱۲۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف آلٹرنیٹیو میڈیسن، کولکتہ۔
۱۳۔ انسٹی ٹیوٹ آف آلٹرنیٹیو میڈیسن اینڈ ریسرچ،ڈائمنڈ ہاربر روڈ۔ٹھاکر پرکر، کولکتہ۔
اتر پردیش
۱۴۔ورنا سیوا سنسکرت وشواودیالیہ، واراناسی،جگت پوری ، یوپی۔
۱۵۔مہیلا گرام ودیا پیٹھ،وشواودیالیہ،ویمنس یونیورسٹی ، پرایاگ، الہ آباد،
۱۶۔گاندھی ودیا پیٹھ، پرایاگ، الہ آباد، اتر پردیش،
۱۷۔نیشنل یونیورسٹی آف الیکٹروہومیوپتھی، کانپور، اترپردیش،
۱۸۔نیتا جی سبھاش چندرا بوس اوپن یونیورسٹی،اچھل تل، علی گڑھ،
۱۹۔اتر پردیش وشواودیالیہ، کوشی کلان،متھرا، اتر پردیش،
۲۰۔مہارانا پرتاپ شکشا نیکیتن،وشواودیالیہ، پرتاپ گڑھ، اتر پردیش۔
۲۱۔اندرا پرشٹھا شکھشا پریشد،کھوڈا، مکان پور، نوئیڈا فیس ۲۔اتر پردیش،
اڈیشہ
۲۲۔نبا بھارت شکھشا پریشد،پانی ٹینکی روڈ، روڑکیلا،
۲۳۔نارتھ اڑیسہ یونیورسٹی آف اگریکلچر اینڈ ٹکنالوجی۔اڈیشہ
پڈوچیری
۲۴۔سری بودھی اکیڈیمی آف ہائر ایجوکیشن۔وزوتھاور روڈ،پڈوچیری
آندھرا پردیش
۲۵۔کرائسٹ نیو ٹسٹامنٹ ڈیمڈ یونیورسٹی،گریس ولا اپارٹمنٹس،سری نگر، گنٹور۔
نوٹ: بھارتیہ شکھشا پریشد لکھنو کا معاملہ ڈسٹرکٹ جج لکھنو کے حدود میں زیردوراں بتا یا گیا ہے۔
www.ugc.ac.in
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31798
پیشہ ورانہ اورہُنرمندی پر مبنی کورس : بیچلر آف ووکیشن https://dawatnews.net/%d9%be%db%8c%d8%b4%db%81-%d9%88%d8%b1%d8%a7%d9%86%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1%db%81%d9%8f%d9%86%d8%b1%d9%85%d9%86%d8%af%db%8c-%d9%be%d8%b1-%d9%85%d8%a8%d9%86%db%8c-%da%a9%d9%88%d8%b1%d8%b3-%d8%a8%db%8c/ Thu, 19 Nov 2020 11:53:06 +0000 https://dawatnews.net/31797/ مومن فہیم احمد عبدالباری ،بھیونڈی   بیچلر آف ووکیشن کیا ہے؟ پیشہ ورانہ یا ہنر پر مبنی تعلیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم ہوتی جا رہی ہے۔ بی ووک (بیچلر آف ووکیشن) ہندوستان میں ایک ابھرتا ہوا کورس ہے جس کا مقصد امیدواروں کو کسی خاص تجارت کے لیے درکار مناسب مہارت مہیا […]]]>

مومن فہیم احمد عبدالباری ،بھیونڈی

 

بیچلر آف ووکیشن کیا ہے؟
پیشہ ورانہ یا ہنر پر مبنی تعلیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم ہوتی جا رہی ہے۔ بی ووک (بیچلر آف ووکیشن) ہندوستان میں ایک ابھرتا ہوا کورس ہے جس کا مقصد امیدواروں کو کسی خاص تجارت کے لیے درکار مناسب مہارت مہیا کرنا ہے۔ یہ کورس روایتی تعلیمی پروگراموں سے مختلف ہے کیونکہ یہ صرف نظریاتی تعلیم (Theoratical) پر توجہ دینے کے بجائے عملی سرگرمیوں پر مبنی (Practical based) کورس ہے۔ B.Voc. ایک تین برس کی مدت پر مشتمل ہے انڈرگریجویٹ کورس ہے جس میں صحت کی دیکھ بھال، فوڈ ٹکنالوجی اور مہمان نوازی سے لے کر تخلیقی شعبوں جیسے گرافک ڈیزائننگ، بیوٹیشئین اور صحت وغیرہ جیسے وسیع شعبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عام ڈگری کورسز کے بر عکس B.Voc کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک امیدوار کے پاس پروگرام کے دوران متعدد خارجی نکات
(Exit Points) ہوتے ہیں جہاں وہ ایک، دو سال کے بعد بھی سرٹیفکیشن کا اہل ہوتا ہے۔ جس کی بناء پر اسے مارکیٹ یا انڈسٹری میں روزگار کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی امیدوار اپنا BVoc کورس مکمل نہیں بھی کرتا ہے تو اسے پہلے سال کی کامیابی یا دوسرے سال کامیابی کے بعد ایڈوانس ڈپلوما دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کام کا تجربہ حاصل ہوتا ہے اس سے نوکری ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ہندوستان میں مختلف یونیورسٹیز اور کالیجس بی ووک کے مختلف کورسیس کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کورسیس میں داخلے، اہلیتی امتحانات، فیس اور دیگر شرائط مختلف ہو سکتی ہیں۔ ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
اہلیت: بی ووک کے تین سالہ کورس میں داخلہ لینے کے لیے ایک امیدوار کا کسی بھی مسلمہ یونیورسٹی سے کم از کم پچاس (کچھ کورسیس کے لیے ساٹھ) فیصد مارکس سے بارہویں، انٹر میڈیٹ یا اس کے مساوی امتحان کامیاب ہونا لازمی ہے۔ یوں تو عموماً کورسیس میں داخلے کے لیے کسی بھی فیکلٹی اور مضمون کے امیدوار کی کوئی قید نہیں ہے لیکن چند ایک کورسیس کے لیے کچھ مخصوص مضامین لازمی ہیں۔ اس لیے درخواست دینے سے پہلے امیدوار کے لیے بہتر ہے کہ وہ کورس کے بارے میں یونیورسٹی یا کالج کی ویب سائٹ سے مکمل معلومات حاصل کرلے۔
درکار مہارتیں: BVoc کورس ان امیدواروں کے لیے زیادہ موزوں ہے جو نظریاتی تعلیم (Theory) کی بجائے عملی تربیت (Practical) فراہم کرنے والے کورسز پر فوکس کرتے ہوئے اپنے روزگار کے مواقع کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ کچھ مہارتیں جو اس کورس کے لیے درکار ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
٭ محنتی اور صبر آزما: پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کورس میں عملی تربیت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کے تحت مختلف کورسیس میں کمپنیوں میں بحیثیت انٹرن بھی کام کرنا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ہفتہ میں دو سے تین دن کالج بھی اٹینڈ کرنا ہوتا ہے اس لیے امیدوار کا محنتی اور صبر آزما ہونا لازمی ہے۔
٭ توجہ مرکوز: امیدوار نے جس کورس میں داخلہ لیا ہے اس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل میں دلچسپی اور توجہ دینا ایک اہم شرط ہے کیوں کہ اس کورس کی تکمیل کے بعد امیدوار کو ’انڈسٹری ریڈی ‘یعنی صنعتوں یا کمپنیوں میں عملی کام کے لیے تیار ہنر مند شخص سمجھا جاتا ہے۔
٭ پرعزم و پر اعتماد: بارہویں کامیاب طلبہ کے لیے پڑھائی کے ساتھ ہفتے میں چار سے پانچ دن کمپنی، فیکٹری یا صنعت میں چھ تا آٹھ گھنٹے کی نوکری کرنا ابتدا میں گراں اور مشکل محسوس ہوتا ہے۔ کئی امیدوار کچھ دنوں کے بعد اس بوجھ کو برداشت نہیں کرپاتے اور درمیان میں ہی یہ کورس چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے امیدوار کو داخلہ لیتے وقت ہی اس کی تکمیل کا عزم کرلینا چاہیے اور کورس کو ہر صورت میں مکمل کرنا چاہیے۔
٭ ٹیم ورک کی صلاحیت: امیدوار میں یہ قابلیت ہونی چاہیے کہ وہ ٹیم کے ساتھ مل جل کے مسائل کو حل کرنے والا ہو۔ عام طور پر اس طرح کے کورسیس پیشہ ورانہ مہارت یا ہنر مندی سکھاتے ہیں جس میں لوگوں کے علاوہ مختلف مشینوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے اس لیے ٹیم ورک ایک اہم مہارت ہے جو اس کورس کے لیے درکار ہے۔
٭ نئی تکنیک سیکھنے کے لیے تیار: یہ کورس انڈسٹری اورینٹیڈ ہے یعنی اس کورس کی تکمیل کے بعد امیدوارکو کسی کمپنی یا صنعت سے وابستہ ہونا لازمی ہے ایسی صورت میں امیدوار کو ہمہ وقت نئی تکنیکیں سیکھنے اور اپنے آپ کو کاروبار کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔ تیز رفتار تکنیکی ترقی کی اس دنیا میں روزانہ نئی نئی ایجادات اور آئیڈیاز سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت اس کورس کی ایک اہم خصوصیت ہے۔
٭ پیشہ ورانہ اخلاقیات و اقدار کا حامل ہونا: یہ کورس پبلک ریلیشن اور پروفیشنلزم جیسی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے کیونکہ عام طورپرایک پروفیشنل کو صارفین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جس کے لیے پیشہ ورانہ اخلاقیات و اقدار کا حامل ہونا لازمی ہے۔ B.Voc. کا نصاب: B.Voc. کورس تین سال کی مدت کا ہے جسے چھ سمسٹر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ BVoc کا نصاب صنعت پر مبنی ہے جس میں تقریبا چالیس فیصد نظریاتی تعلیم (تھیوری) اور ساٹھ فیصد پیشہ ورانہ تربیت (عملی/پریکٹیکل ) شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باقاعدہ نصاب کا مطالعہ کرنے کے علاوہ ، تمام طلبا کو ہر سمسٹر میں کم سے کم چار سے آٹھ ہفتوں تک صنعتی تربیت یا پروجیکٹ کے کام سے گزرنا پڑتا ہے۔ B.Voc. کورس کی فیس: B.Voc. کورس کی فیس کورسیس اور کالیجس کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن امیدوار کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ روزگار سے بھی وابستہ رہ سکتا ہے، عملی تربیت کے لیے جس کمپنی میں بطور انٹرن تربیت حاصل کرتا ہے وہاں سے اسٹائی فنڈ کے طور پر ماہانہ بارہ تا پندرہ ہزار روپئے بھی ملتے ہیں جس سے کورس کی فیس بآسانی ادا کی جاسکتی ہے۔ B.Voc. کے تحت چند مخصوص کورسیس (اسپیشلائزیشن) :
ریٹیل مینجمنٹ،فیشن ٹیکنالوجی اور ملبوسات کی ڈیزائننگ، طباعت اور اشاعت، مہمان نوازی اور سیاحت، نامیاتی زراعت، ویب ٹیکنالوجی، آٹو موبائیل، ریفریجریشن اینڈ ائیر کنڈیشننگ، فوڈپروسیسنگ و کوالیٹی منیجمنٹ، اپلائیڈ کمپیوٹر ٹیکنالوجی، ڈیٹا انالیسیز، ہیلتھ کئیر، فوڈ سائنس، سافٹ وئیر ڈیویلپمنٹ، گرین ہاؤس ٹیکنالوجی، تھیٹرس و ایکٹنگ، میڈیکل لیب ٹیکنالوجی، مٹی اور پانی کا تحفظ، بیوٹی اور ویل نیس(خوبصورتی و تندرستی)، انٹیرئیر ڈیزائننگ وغیرہ۔ ان کے علاوہ بھی کئی کورسیس ہیں لیکن امیدوار کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اسے جس کورس میں داخلہ لینا ہے وہ کورس کس یونیورسٹی یا کس کالج میں جاری ہے۔ مضامین اور نصاب کی تفصیل کورس کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے اس لیے اپنے منتخبہ کورس اور کالج کی ویب سائٹ سے امیدوار مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ B.Voc کورس کی تکمیل پر ملازمت کے مواقع: B.Voc. کورس کی تکمیل پر کون سے شعبوں میں ملازمت کے مواقع دستیاب ہیں؟ اور وہ کمپنیاں ہیں جو بحیثیت انٹرن اور کورس مکمل ہونے کے بعد روزگار فراہم کرتی ہیں۔ بی ووک کورس کامیاب امیدوار اپنے تخصص کی بنا پر درج ذیل حیثیتوں سے کام کرسکتا ہے۔
٭ کمپیوٹر آپریٹر: کمپیوٹر آپریٹر ایک پیشہ ور ہوتا ہے جو کمپیوٹروں کے چلانے کی نگرانی کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کمپیوٹر نظام مناسب طریقے سے چل رہے ہیں۔ کمپیوٹر آپریٹر کے روزانہ کاموں میں ڈاٹا بیک اپ، پرنٹرز، سائیکلنگ ٹیپ یا دیگر میڈیا وغیرہ کا انتطام سنبھالنا وغیرہ شامل ہے۔
٭ اکاؤنٹنٹ: اکاؤنٹنٹ حساب کتاب کا تجزیہ کرکے کمپنی کے مالی اقدامات سے متعلق مشورے دیتا ہے۔ ایک اکاؤنٹنٹ کمپنی کی مالی حیثیت کا خلاصہ پیش کرتا ہے، بیلنس شیٹ، پرافٹ اینڈ لاس گوشوارے وغیرہ تیار کرتا ہے۔
٭ فوڈ ٹکنالوجسٹ: فوڈ ٹکنالوجسٹ فوڈ پروڈکٹس کی موثر ترقی، تیاری اور ترمیم کا ذمہ دار ہے۔ ایک ماہر فوڈ ٹیکنولوجسٹ کچن اور فیکٹریوں سے لے کر دفاتر اور لیب تک مختلف کام انجام دیتا ہے۔
٭ بیوٹیشن: بیوٹیشین ایک پیشہ ور فرد ہوتا ہے جو عام طور پر سیلون میں کام کرتا ہے تاکہ گاہکوں کو مختلف قسم کی خوبصورتی اور ذاتی نگہداشت کی خدمات فراہم کی جاسکے۔ ایک بیوٹیشین بال، میک اپ، ناخن آرٹ اور پرسنل اسٹائلنگ وغیرہ میں مہارت رکھتا ہے۔
٭ پروڈکٹ ڈیولپمنٹ انجینئر: کسی پروڈکٹ ڈویلپمنٹ انجینئر کی بنیادی ذمہ داری کسی کمپنی کی مارکیٹنگ، سیلز اور مینوفیکچرنگ ڈیپارٹمنٹ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پروڈکٹ ڈیزائن تیار کرنا ہے۔
٭ ڈیزائن انجینئر: ایک ڈیزائن انجینئر نئی مصنوعات کے لیے آئیڈیوں کی تحقیق کرتا ہے۔ ڈیزائن انجینئر کسی مصنوعات کی بہتری کے لیے موجودہ مصنوعات اور عمل میں بھی رد وبدل کرتا ہے۔
٭ آٹوموبائل انجینئر: ایک آٹوموبائل انجینئر مختلف گاڑیوں کے ڈیزائن، ترقی، تیاری اور جانچ سے متعلق کام کرتا ہے۔ ایک آٹوموبائل انجینئر کاروں، ٹرکوں، بسوں وغیرہ کی مارکیٹنگ، فروخت اور فروخت کے بعد خدمات بھی انجام دیتا ہے۔
٭ ریسرچ سائنٹسٹ: ایک تحقیقی سائنسدان لیبارٹری پر مبنی تحقیقات اور تجربات سے جمع کی گئی معلومات کے ڈیزائن اور تجزیہ کا ذمہ دار ہے۔ ایک تحقیقی سائنسدان سرکاری لیب، ماحولیاتی تنظیموں، تحقیقی تنظیموں وغیرہ کے لیے کام کرسکتا ہے۔
٭ بائیو کیمسٹ: بائیو کیمسٹ کا بنیادی کام سیل کی نشوونما، نمو، وراثت اور بیماری جیسے جاندار عمل کی کیمسٹری کا مطالعہ کرنا ہے۔ ایک بائیو کیمسٹ نئی دوائیں تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جو کینسر اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے لڑتے ہیں۔
٭ گھریلو ماہر معاشیات: گھریلو ماہر معاشیات ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو تغذیہ، انٹیرئیر ڈیزائن، وسائل کے انتظام، خاندانی تعامل، وغیرہ کے شعبوں میں مجموعی طور پر لوگوں اور معاشرے کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔
٭ پیشہ ور ٹیچر: ایک پیشہ ور استاد نرسنگ، باغبانی، کمپیوٹر کی مرمت وغیرہ جیسے شعبوں میں طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
ملازمت فراہم کرنے والی اہم کمپنیاں: امول، گودریج، ڈابر انڈیا، پیپسی کو انڈیا، نیسلے انڈیا پرائیویٹ، بریٹانیا، پارلے پروڈکٹس، ٹیلکو، ایل اینڈ ٹی، اشوک لیلینڈ، مہیندرا اینڈ مہیندرا، بجاج، ہونڈا، ٹویوٹا، ماروتی سوزوکی وغیرہ۔
٭٭٭

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020


]]>
31797