ملزمین – دعوت نیوز https://dawatnews.net نظر - خبر در خبر Mon, 03 Apr 2023 14:29:45 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.3 168958987 میرٹھ کی عدالت نے 1987 میں ہوئے فسادات کے 39 ملزمین کو ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے بری کیا https://dawatnews.net/meerut-court-acquits-39-accused-in-1987-riots-case-citing-lack-of-evidence/ Mon, 03 Apr 2023 14:29:45 +0000 https://dawatnews.net/?p=50991 میرٹھ ضلع کے ملیانہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 72 مسلمانوں کی ہلاکت کے چھتیس سال بعد اتر پردیش کی ایک عدالت نے گذشتہ ہفتے اس معاملے میں ملزم نامزد 39 افراد کو بری کر دیا۔]]>

نئی دہلی، اپریل 3: میرٹھ ضلع کے ملیانہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 72 مسلمانوں کی ہلاکت کے چھتیس سال بعد اتر پردیش کی ایک عدالت نے گذشتہ ہفتے اس معاملے میں ملزم نامزد 39 افراد کو بری کر دیا۔

یہ فساد 23 مئی 1987 کو ہوا تھا جب ایک ہجوم نے اتر پردیش کے صوبائی مسلح کانسٹیبلری کے ارکان کے ساتھ مل کر ملیانہ گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور مبینہ طور پر مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر گولیاں برسائی تھیں۔

اس سے ایک دن پہلے صوبائی مسلح کانسٹیبلری نے میرٹھ کے ایک محلے ہاشم پورہ سے 42 مسلمان مردوں کو اٹھا کر ایک لاری پر بٹھا کر قریبی نہر کے پاس لے جا کر ان سب کو گولی مار دی اور پھر ان کی لاشیں پانی میں پھینک دی تھیں۔

2016 میں دہلی ہائی کورٹ نے ہاشم پورہ قتل عام میں ان کے کردار کے لیے کانسٹیبلری کے 16 ارکان کو مجرم قرار دیتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے اس حکم کو مسترد کر دیا، جس نے انھیں بری کر دیا تھا۔

جمعہ کو میرٹھ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لکھویندر سنگھ سود نے ملیانہ تشدد کے 39 ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ انھیں مجرم قرار دینے کے لیے کافی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔

فسادات میں بچ جانے والوں میں سے ایک محمد یعقوب نے 93 لوگوں کے خلاف اصل شکایت درج کرائی تھی۔ ان میں سے 23 مقدمے کی سماعت کے دوران انتقال کر گئے اور باقی 31 افراد کا ’’سراغ نہیں لگایا جا سکا۔‘‘

یعقوب نے بتایا کہ ان ہلاکتوں میں صوبائی مسلح کانسٹیبلری کے کردار کا پہلی معلوماتی رپورٹ میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’میں ان لوگوں میں سے تھا جنھیں پکڑ کر بے رحمی سے پیٹا گیا کیوں کہ قتل عام جاری تھا جس میں بغیر کسی اشتعال کے پی اے سی کے جوانوں نے گھروں پر حملہ کرنا شروع کر دیا جب کہ ہجوم لوٹ مار اور فسادات میں ملوث تھا۔‘‘

متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل علاؤالدین صدیقی نے کہا کہ 39 افراد کو ایسے وقت چھوڑ دیا گیا جب ابھی کارروائی جاری تھی۔

وکیل نے کہا ’’34 پوسٹ مارٹم رپورٹس پر سماعت نہیں ہوئی تھی اور ملزمین سے سی آر پی سی کی دفعہ 313 کے تحت جانچ نہیں کی گئی تھی۔ ہم ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔‘‘

دریں اثنا ملیانہ کے رہائشیوں نے کہا کہ میرٹھ عدالت کا فیصلہ ہمارے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یعقوب نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ’’اس نے ہمارے لڑنے کے عزم کو توڑ دیا ہے۔ موت کا مکروہ رقص ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ پورے خاندان کا صفایا ہو گیا۔ پھر بھی ہمیں عدلیہ پر اپنا اعتماد برقرار رکھنا ہے۔ کیا وہ قتل عام صرف ہمارے تصور میں ہوا؟‘‘

متاثرین کے خاندان کے ایک رکن مہتاب نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ یہ فیصلہ منصفانہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کے دن ان کے والد یاسین کو بغیر کسی وجہ کے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ گھر واپس جا رہے تھے۔ ان کی لاش بعد میں ایک شوگر مل کے قریب سے ملی تھی۔

وکیل احمد نے، ایک گواہ جس نے عدالت میں اپنے بیانات ریکارڈ کرائے، دی ہندو کو بتایا کہ صوبائی مسلح کانسٹیبلری نے دلتوں کو اس وقت تحفظ فراہم کیا تھا جب انھوں نے مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور کمیونٹی کے بہت سے افراد کو آگ لگا دی۔

انھوں نے کہا ’’ہم دلتوں کے ساتھ امن سے رہ رہے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں ہندوتوا عناصر نے فسادات کے دوران شہر کے دیگر حصوں میں جو کچھ ہوا اس کا بدلہ لینے کے لیے اکسایا تھا۔ شاید انھیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ مسلمان بھاگ جائیں گے اور وہ ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔‘‘

میرٹھ میں 1987 میں ہندوؤں کی طرف سے عبادت کے لیے ایودھیا میں بابری مسجد کے تالے کھولنے کے خلاف احتجاج کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔

]]>
50991
دہلی کی عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمین کو الیکٹرانک آلات کے پاس ورڈ دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا https://dawatnews.net/accused-persons-cant-be-forced-to-give-passwords-of-electronic-devices-says-delhi-court/ Wed, 02 Nov 2022 15:29:28 +0000 https://dawatnews.net/?p=46547 بار اینڈ بنچ نے بدھ کو اطلاع دی کہ دہلی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ مجرمانہ مقدمات میں ملزم کو کسی تفتیشی ایجنسی کو اپنے الیکٹرانک ڈیوائس کا پاس ورڈ فراہم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔]]>

نئی دہلی، نومبر 2: بار اینڈ بنچ نے بدھ کو اطلاع دی کہ دہلی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ مجرمانہ مقدمات میں ملزم کو کسی تفتیشی ایجنسی کو اپنے الیکٹرانک ڈیوائس کا پاس ورڈ فراہم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

اسپیشل سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن جج نریش کمار لاکا نے کہا کہ کسی ملزم کو ایسا کرنے پر مجبور کرنا آئین کی دفعہ 20(3) کی خلاف ورزی ہوگی۔

یہ فیصلہ دیگر عدالتوں کے لیے پابند نہیں ہے، لیکن اس سے ملتے جلتے دیگر مقدمات میں اس کی قدر ہو سکتی ہے۔

سی بی آئی کی عدالت نے سی بی آئی کی طرف سے دائر درخواست پر فیصلہ سنایا جس میں ایک ملزم مہیش کمار شرما کو اپنے کمپیوٹر کا صارف آئی ڈی اور پاس ورڈ فراہم کرنے کی ہدایت مانگی گئی تھی۔

جج نے کہا کہ ایک تفتیشی ایجنسی ملزم کو پاس ورڈ فراہم کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی، لیکن ایک تفتیشی افسر کمپیوٹر سے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

جج لاکا نے کہا کہ اگرچہ کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں پہلے یہ کہا گیا تھا کہ پاس ورڈ اور بایومیٹرکس ایک جیسے ہیں، حال ہی میں نافذ کردہ کریمنل پروسیجر (شناخت) ایکٹ نے پاس ورڈ اور بایومیٹرکس کے بارے میں مختلف طریقوں پر زور دیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ کمپیوٹر میں ملزم کا پرائیویٹ ڈیٹا ہو سکتا ہے اور اسے تفتیشی ایجنسی پر ظاہر کرنا اس کی پرائیویسی کے حق میں مداخلت کر سکتا ہے۔

جج نے کہا کہ اگر کوئی ملزم ایسی معلومات دینے سے انکار کرتا ہے جو اس کو مجرم قرار دے سکتی ہیں تو اس شخص کے خلاف کوئی منفی نتیجہ نہیں نکالا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا ’’نہ صرف ایک ملزم کو کسی ایسے سوال کا جواب دینے سے انکار کرنے کا حق حاصل ہے جو الزام کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ اس کی خاموشی کی حقیقت سے نکالے جانے والے منفی نتائج کے خلاف بھی ایک اصول ہے۔‘‘

]]>
46547
مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا معاملہ: ممبئی کی عدالت نے ’’بُلّی بائی ایپلی کیشن کیس‘‘ کے تین مرکزی ملزمین کو ضمانت دی https://dawatnews.net/online-auction-of-muslim-women-mumbai-court-grants-bail-to-three-accused-persons/ Tue, 21 Jun 2022 16:29:06 +0000 https://dawatnews.net/?p=42359 ممبئی کی ایک سیشن عدالت نے منگل کے روز ایک ایپلی کیشن سے متعلق معاملے میں ملزم تین افراد کو ضمانت دے دی، جس نے غیر قانونی طور پر مسلم خواتین کی تصاویر کو آن لائن ’’نیلامی‘‘ کے لیے پوسٹ کیا تھا، جس کا مقصد انھیں ہراساں کرنا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا تھا۔]]>

ممبئی، جون 21: ممبئی کی ایک سیشن عدالت نے منگل کے روز ایک ایپلی کیشن سے متعلق معاملے میں ملزم تین افراد کو ضمانت دے دی، جس نے غیر قانونی طور پر مسلم خواتین کی تصاویر کو آن لائن ’’نیلامی‘‘ کے لیے پوسٹ کیا تھا، جس کا مقصد انھیں ہراساں کرنا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج اے بی شرما نے نیرج بشنوئی، اومکریشور ٹھاکر اور نیرج سنگھ کو ضمانت دے دی۔

ممتاز ہندوستانی مسلم خواتین کی تصاویر آن لائن ’’نیلامی‘‘ کے حصے کے طور پر ’’بلی بائی‘‘ ایپلی کیشن پر اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ یکم جنوری کو جن خواتین کو نشانہ بنایا گیا ان میں سے کئی نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر اجاگر کیا۔

ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ اس طرح کی دوسری کوشش تھی۔ اس سے قبل ’’سُلّی ڈیلز‘‘ نامی ایپلی کیشن نے مسلمان خواتین کی سینکڑوں تصاویر پوسٹ کی تھیں اور انھیں ’’ڈیلز آف دی ڈے‘‘ قرار دیا تھا۔

ایڈوکیٹ شوم دیشمکھ کے ذریعہ داخل کردہ اپنی ضمانت کی درخواست میں بشنوئی نے دعویٰ کیا کہ اسے اس کیس میں جھوٹے طور پر پھنسایا گیا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے کہ اس کے شریک ملزم کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے، بشنوئی نے اس معاملے میں برابری کی درخواست کی۔

12 اپریل کو ممبئی کی ایک عدالت نے ’’بُلّی بائی‘‘ ایپلی کیشن کیس میں تین ملزمان – وشال جھا، شویتا سنگھ اور مینک راوت کو ضمانت دی تھی۔

جج نے کہا تھا کہ جھا، سنگھ اور راوت نے دیگر دو ملزمین کے مقابلے میں کم کردار ادا کیا، جو بڑی عمر کے تھے اور معاملے کی ’’گہری سمجھ‘‘ رکھتے تھے۔

انھیں ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے ان کے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں سے بھی کہا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر مناسب برتاؤ سمیت ان کی کاؤنسلنگ کا بندوبست کریں۔ جج نے نوٹ کیا تھا کہ تینوں ملزمین کے امتحانات ہیں اور اگر وہ جیل میں رہیں گے تو ان کے مستقبل کے امکانات متاثر ہوں گے۔

دریں اثنا عدالت نے ٹھاکر، نیرج سنگھ اور بشنوئی کے خلاف الزامات کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جان بوجھ کر ایپ بنائی تھی۔

مارچ میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ بشنوئی نے ایک شریک ملزم سے کہا تھا کہ وہ اسے 100 ’’مشہور اور غیر بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم خواتین‘‘ کی تصاویر بھیجے تاکہ وہ انھیں نیلامی کے لیے پیش کر سکے۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ بشنوئی پہلا شخص تھا جس نے اپنے ٹویٹر گروپ پر ’’بلی بائی‘‘ ایپلی کیشن کا لنک شیئر کیا تھا۔

دی کوئنٹ کے مطابق منگل کے حکم کے بعد، ممبئی پولیس کے ذریعہ اس معاملے میں گرفتار تمام ملزمین کو ضمانت مل گئی ہے۔

]]>
42359
دہلی بی جے پی یونٹ نے اروند کیجریوال کے گھر میں توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں گرفتار اراکین کو اعزاز سے نوازا https://dawatnews.net/delhi-bjp-unit-felicitates-members-arrested-for-vandalising-arvind-kejriwals-home/ Sat, 16 Apr 2022 12:14:03 +0000 https://dawatnews.net/?p=41361 بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ نے جمعرات کو اپنے یوتھ ونگ کے ان آٹھ ممبران کو مبارکباد دی جنھیں 30 مارچ کو وزیر اعلی اروند کیجریوال کے گھر میں توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ سبھی فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔]]>

نئی دہلی، اپریل 16: بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ نے جمعرات کو اپنے یوتھ ونگ کے ان آٹھ ممبران کو مبارکباد دی جنھیں 30 مارچ کو وزیر اعلی اروند کیجریوال کے گھر میں توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ سبھی فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

دہلی بی جے پی کے سربراہ آدیش گپتا نے کہا کہ ان آٹھوں کو ’’ہندو مخالف کیجریوال‘‘ کے خلاف احتجاج کرنے کے سبب جیل بھیج دیا گیا تھا۔

چندرکانت، جیتیندر بشٹ، سنی، نیرج دکشت، ببلو کمار، پردیپ تیواری، راجو سنگھ اور نوین کمار کے اعزاز کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔

آدیش گپتا نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’’آج ریاستی دفتر میں ان نوجوان انقلابیوں کا خیرمقدم کیا۔ ہمارا ہر کارکن ہمیشہ ہندو مخالف طاقتوں کے خلاف لڑے گا۔‘‘

جمعہ کو عام آدمی پارٹی نے ملزمین کے اعزاز کو لے کر بی جے پی پر سخت نکتہ چینی کی۔

دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے کہا کہ بی جے پی ان لوگوں کو مبارکباد دے رہی ہے جو ’’وزیر اعلی کے گھر پر قاتلانہ حملے‘‘ کے ذمہ دار ہیں۔

انھوں نے مزید لکھا ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی نہ صرف غنڈوں کو بھرتی کرتی ہے بلکہ غنڈہ گردی کو بھی فروغ دیتی ہے۔‘‘

عام آدمی پارٹی کی لیڈر آتشی نے کہا کہ یہ مبارکبادی بی جے پی کارکنوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر وہ ’’غنڈہ گردی اور توڑ پھوڑ‘‘ میں ملوث ہوں گے تو انھیں انعام دیا جائے گا۔

ایک پریس کانفرنس میں آتشی نے بی جے پی کو ’’مجرموں کی پارٹی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ کیجریوال کے گھر پر حملہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔

آتشی نے مزید کہا ’’ان غنڈوں کی تعریف کرکے بی جے پی نے اپنا اصلی چہرہ پوری قوم کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ انھوں نے دنیا کو واضح طور پر دکھایا ہے کہ پارٹی کس قسم کی گندی سیاست میں ملوث ہونا چاہتی ہے اور یہ کہ یہ پارٹی میں مجرموں اور تشدد کا احترام کرتی ہے۔‘‘

معلوم ہو کہ 30 مارچ کو بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے کارکنوں کے ایک گروپ نے، جس کی قیادت تنظیم کے صدر اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا کر رہے تھے، کیجریوال کے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ انھوں نے دہلی کے وزیر اعلیٰ سے کشمیر فائلز فلم کے بارے میں ان کے ریمارکس پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔

عام آدمی پارٹی نے الزام لگایا تھا کہ دہلی پولیس کے افسران کے موقع پر موجود ہونے کے باوجود بی جے پی کے ارکان نے کیجریوال کے گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے اور حفاظتی رکاوٹوں کو توڑا۔

حملے کے ایک دن بعد پولیس نے کہا کہ انھوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر توڑ پھوڑ کے سلسلے میں تنظیم کے آٹھ ارکان کو گرفتار کیا ہے۔

6 اپریل کو یوتھ ونگ کے ممبران کو دہلی کی ایک عدالت نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملزمان نے جان بوجھ کر پرامن احتجاج کرنے کے اپنے بنیادی حق سے تجاوز کیا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق اس کے بعد وہ دہلی ہائی کورٹ گئے تھے، جس نے 14 اپریل کو انھیں 35,000 روپے کے ضمانتی مچلکے پر ضمانت دی تھی۔

]]>
41361