مرکزی حکومت – دعوت نیوز https://dawatnews.net نظر - خبر در خبر Mon, 13 Nov 2023 15:36:29 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.3 168958987 مرکزی حکومت نے متعدد میتی عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی میں توسیع کی https://dawatnews.net/centre-extends-ban-on-several-meitei-militant-groups/ Mon, 13 Nov 2023 15:36:14 +0000 https://dawatnews.net/?p=57963 ایک گزٹ نوٹیفکیشن میں ان تنظیموں کو میتی انتہا پسند تنظیمیں کہا گیا ہے۔]]>

نئی دہلی، نومبر 13: وزارت داخلہ نے پیر کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت متعدد میتی عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی کو پانچ سال کے لیے بڑھا دیا۔

ایک گزٹ نوٹیفکیشن میں ان تنظیموں کو میتی انتہا پسند تنظیمیں کہا گیا ہے۔

یہ گروپ پیپلز لبریشن آرمی اور اس کا سیاسی ونگ ریوولیوشنری پیپلز فرنٹ، یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ اور اس کا مسلح ونگ منی پور پیپلز آرمی، پیپلز ریوولیوشنری پارٹی آف کنگلیپک اور اس کا مسلح ونگ ریڈ آرمی، کانگلیپک کمیونسٹ پارٹی اور اس کا مسلح ونگ اور کنگلی یاول کنبا لوپ شامل ہیں۔

ان میں سے، پیپلز لبریشن آرمی، یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ، پیپلز ریوولیوشنری پارٹی آف کنگلیپک، کنگلیپک کمیونسٹ پارٹی اور کنگلی یاول کنبا لوپ کو پہلے ہی کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

وزارت نے کہا کہ ان گروپوں کے دھڑوں، متعلقہ ونگز اور فرنٹ تنظیموں پر بھی پابندی ہے۔

نوٹیفکیشن میں وزارت نے گروپوں پر مسلح ذرائع سے ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ منی پور میں سیکورٹی فورسز، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں پر حملہ کرنے اور قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔

وزارت نے ان پر شہریوں کو ڈرانے دھمکانے، بھتہ لینے اور ہتھیاروں، تربیت اور پناہ گاہوں کے لیے غیر ملکی اداروں سے مدد حاصل کرنے کا بھی الزام لگایا۔

مرکز نے کہا کہ اگر ان تنظیموں پر روک نہیں لگائی گئی تو یہ پرتشدد کارروائیاں کریں گی جس میں عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز کو ہلاک کرنا اور دیگر غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہیں۔

اس سے قبل پابندی میں توسیع کرنے والے 2018 کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق یہ تنظیمیں یکم جنوری 2013 سے 31 جولائی 2018 کے درمیان 756 پرتشدد واقعات میں ملوث تھیں، اسی عرصے کے دوران انھوں نے سیکیورٹی فورسز کے 35 اہلکاروں سمیت 86 افراد کو قتل کیا۔ تاہم وزارت نے پیر کے تازہ نوٹیفکیشن میں ان اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے۔

دریں اثنا ایک نامعلوم سینئر سرکاری اہلکار نے دی ہندو کو بتایا کہ مرکز نے ان میں سے آٹھ گروہوں کو منی پور میں جاری نسلی تشدد میں ملوث پایا ہے۔

]]>
57963
ملکارجن کھڑگے نے مرکزی حکومت پر سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو بی جے پی کا ’سیاسی مارکیٹنگ ایجنٹ‘ بنانے کا الزام لگایا https://dawatnews.net/mallikarjun-kharge-flags-politicisation-of-civil-servants-armed-forces-in-letter-to-modi/ Sun, 22 Oct 2023 14:55:30 +0000 https://dawatnews.net/?p=57300 کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر دو احکامات پر تشویش کا اظہار کیا جس میں سرکاری ملازمین اور مسلح افواج سے سرکاری اسکیموں کو فروغ دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ اپنے خط میں کھڑگے نے مطالبہ کیا کہ ان احکامات کو واپس لیا جائے۔]]>

نئی دہلی، اکتوبر 22: کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر دو احکامات پر تشویش کا اظہار کیا جس میں سرکاری ملازمین اور مسلح افواج سے سرکاری اسکیموں کو فروغ دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ اپنے خط میں کھڑگے نے مطالبہ کیا کہ ان احکامات کو واپس لیا جائے۔

کانگریس کے سربراہ نے 18 اکتوبر کے ایک حکم نامے کا حوالہ دیا جس میں جوائنٹ سکریٹری، ڈائرکٹر اور ڈپٹی سکریٹری کے رینک کے افسران سے کہا گیا تھا کہ وہ ’’رتھ پربھارس [رتھ انچارج]‘‘ کے طور پر کام کریں تاکہ مرکزی حکومت کی ’’گذشتہ نو سالوں کی کامیابیوں کو ظاہر کیا جاسکے‘‘۔

کھڑگے نے لکھا کہ یہ حکم سنٹرل سول سروسز (کنڈکٹ) رولز 1964 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔

کھڑگے نے کہا ’’یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ پچھلے نو سال آپ کے عہدے کے دور سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ متعدد وجوہات کی بناء پر شدید تشویش کا باعث ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ سینئر سرکاری افسران کو مودی حکومت کی ’’مارکیٹنگ سرگرمی‘‘ کے لیے تعینات کیا جا رہا ہے۔

کانگریس صدر نے اپنے خط میں 9 اکتوبر کو وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک اور حکم کا ذکر کیا، جس میں فوجیوں کو ان کی سالانہ چھٹیوں کے دوران سرکاری اسکیموں کو فروغ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

کھڑگے نے لکھا ’’ہر جوان کی وفاداری ملک اور آئین کے ساتھ ہے۔ ہمارے فوجیوں کو سرکاری اسکیموں کا مارکیٹنگ ایجنٹ بننے پر مجبور کرنا مسلح افواج کو سیاست میں شامل کرنے کی طرف ایک خطرناک قدم ہے۔‘‘

دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے دونوں حکموں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانی کا بنیادی اصول اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اسکیمیں نچلی سطح تک پہنچیں۔

ایک الگ ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ’’ہو سکتا ہے یہ کانگریس پارٹی کے لیے ایک اجنبی تصور ہو، لیکن عوامی خدمت کی فراہمی حکومت کا فرض ہے۔‘‘

]]>
57300
مرکزی حکومت چیف جسٹس آف انڈیا کو الیکشن کمشنروں کی تقرری کرنے والے پینل سے نکالنے کے لیے ایک بل پیش کرنے کو تیار ہے https://dawatnews.net/centre-lists-bill-to-replace-chief-justice-on-panel-to-appoint-election-commissioners/ Thu, 10 Aug 2023 14:27:45 +0000 https://dawatnews.net/?p=55080 مرکز جمعرات کو راجیہ سبھا میں ایک ایسا بل پیش کرے گا جس کے تحت چیف جسٹس آف انڈیا کو انتخابی کمشنروں کی تقرریوں کے بارے میں صدر کو مشورہ دینے والے پینل سے نکال دیا جائے گا۔]]>

نئی دہلی، اگست 10: مرکز جمعرات کو راجیہ سبھا میں ایک ایسا بل پیش کرے گا جس کے تحت چیف جسٹس آف انڈیا کو انتخابی کمشنروں کی تقرریوں کے بارے میں صدر کو مشورہ دینے والے پینل سے نکال دیا جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، خدمات کی شرائط اور عہدے کی مدت) بل، 2023 میں چیف جسٹس کی جگہ کابینہ کے ایک رکن کو دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جسے وزیراعظم نامزد کریں گے۔

مارچ میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے ایک تاریخی فیصلے میں کہا تھا کہ ہندوستان کے الیکشن کمشنروں کی تقرری ایک ایسی کمیٹی کے مشورے پر کی جانی چاہیے جس کے ارکان میں وزیر اعظم، قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس شامل ہوں۔

عدالت نے کہا تھا کہ یہ انتظام اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پارلیمنٹ الیکشن کمشنروں کی تقرری کے عمل سے متعلق کوئی قانون نہیں بناتی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے الیکشن کمشنروں کی تقرری صرف مرکزی حکومت کرتی تھی۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پولنگ باڈی جانبدارانہ انداز میں کام کر رہی ہے اور الیکشن کمشنروں کی تقرری کا عمل شفاف نہیں ہے۔

انھوں نے الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے ایک آزاد طریقۂ کار کا مطالبہ کیا تھا۔

عدالت نے سماعت کے دوران افسوس کا اظہار کیا تھا کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے یہ یقینی بنایا کر کہ 1996 کے بعد سے کسی بھی چیف الیکشن کمشنر کو مکمل چھ سال کی مدت نہ ملے، الیکشن کمیشن کی آزادی کو ’’مکمل طور پر تباہ‘‘ کر دیا ہے۔

مرکز نے دلیل دی تھی کہ الیکشن کمشنروں کی تقرری کا سابقہ نظام آئینی دفعات کے مطابق تھا۔ اس نے دعوی کیا کہ اس عمل نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کمیشن ’’آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کام کر رہا ہے۔‘‘

فروری میں جب الیکشن کمشنر انوپ چندر پانڈے 65 سال کی عمر کو پہنچنے پر عہدہ چھوڑ دیں گے تو پولنگ پینل میں ایک جگہ خالی ہوگی۔ پولنگ باڈی 2024 کے ذریعے لوک سبھا انتخابات کا اعلان کرنے سے چند دن پہلے ان کی ریٹائرمنٹ ہوگی۔

وہیں جمعرات کے روز کئی اپوزیشن لیڈروں نے الزام لگایا کہ مجوزہ بل آئینی بنچ کے پاس کردہ حکم کو کمزور کر دیتا ہے۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری (برائے تنظیم) کے سی وینوگوپال نے کہا کہ یہ بل الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ’’کٹھ پتلی‘‘ بنانے کی کھلی کوشش ہے۔

لوک سبھا میں کانگریس کے وہپ منیکم ٹیگور نے کہا کہ مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ یہ بل پیش کرکے الیکشن کمیشن کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’تمام جمہوری قوتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔‘‘

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے دعوی کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پارلیمنٹ میں قانون بنا کر سپریم کورٹ کے ہر اس حکم کو پلٹ دیتی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتی۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ’’خطرناک صورت حال‘‘ ہے جو انتخابات کی شفافیت کو متاثر کر سکتی ہے۔

کیجریوال نے لکھا ’’مجوزہ پینل میں بی جے پی کے دو اور کانگریس سے ایک رکن ہوگا، اس لیے جو بھی انتخابی پینل کے لیے منتخب کیا جائے گا، وہ حکمراں پارٹی کا وفادار ہوگا۔‘‘

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے نے الزام لگایا کہ یہ اقدام 2024 کے انتخابات میں ’’دھاندلی کی واضح کوشش‘‘ ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے بی جے پی کے اندر خوف پیدا کر دیا ہے۔

]]>
55080
سابق بیوروکریٹس کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن کے قوانین میں تبدیلی کا مقصد اختلاف رائے کو خاموش کرنا ہے https://dawatnews.net/change-of-rules-for-civil-servants-pensions-aims-to-silence-dissent-say-ex-bureaucrats/ Wed, 26 Jul 2023 13:24:10 +0000 https://dawatnews.net/?p=54508 منگل کو 90 سے زیادہ سابق سرکاری ملازمین نے آل انڈیا سروسز رولز میں حالیہ ترامیم کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکز ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن روکنے یا واپس لینے کی دھمکی دے کر عوامی معاملات پر تبصرہ کرنے کے ان کے حق پر مکمل پابندی لگانا چاہتا ہے۔]]>

نئی دہلی، جولائی 26: منگل کو 90 سے زیادہ سابق سرکاری ملازمین نے آل انڈیا سروسز رولز میں حالیہ ترامیم کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکز ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن روکنے یا واپس لینے کی دھمکی دے کر عوامی معاملات پر تبصرہ کرنے کے ان کے حق پر مکمل پابندی لگانا چاہتا ہے۔

6 جولائی کو مرکز نے ایسے پنشنرز کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قوانین میں ترمیم کی جو انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس، انڈین پولیس سروس، انڈین فارسٹ سروس میں ملازمت کر رہے تھے، لیکن وہ کسی ’’سنگین بدانتظامی‘‘ کے مرتکب پائے جاتے ہیں یا عدالت کی طرف سے سزا یافتہ ہوتے ہیں۔

تینوں خدمات کے افسروں کو مرکزی حکومت کی طرف سے ایک مرکزی عمل کے ذریعے بھرتی کیا جاتا ہے، لیکن ریاستوں میں ان کی تعیناتی کیڈر کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

سابق بیوروکریٹس نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ مرکز نے ترمیم کرتے وقت ’’سنگین بدانتظامی‘‘ کی ’’مکمل تعریف‘‘ فراہم نہیں کی ہے۔

انھوں نے اپنے بیان میں کہا ’’اس کو جان بوجھ کر مبہم چھوڑ کر مرکزی حکومت نے اپنے آپ کو کسی بھی ایسے پنشنر کو ہراساں کرنے اور اذیت دینے کے لیے لامحدود اختیارات سے مسلح کیا ہے، جس کا عمل اس کی پسند کے مطابق نہیں ہو۔ چاہے وہ مضمون ہو، انٹرویو ہو، احتجاجی مارچ یا سیمینار میں شرکت ہو، یا کسی بھی قسم کی تنقید ہو۔‘‘

سابق سرکاری ملازمین کا کہنا تھا کہ پنشن واپس لینے کے لیے ریاستوں کے اختیارات پر قبضہ کرنے کا اقدام وفاقیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ’’مرکزی حکومت کو نگرانی اور ان پر قابو پانے کے سخت اختیارات بھی دیتا ہے، جو آل انڈیا سروسز کے ڈھانچے میں تصور کردہ کنٹرول کے دوہرے پن کے مطابق نہیں ہے۔‘‘

مزید برآں سابق بیوروکریٹس نے کہا کہ ان ترامیم سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے زیر اقتدار ریاستوں میں تعینات افسران کو مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کے راستے ملیں گے۔

سابق سرکاری ملازمین نے لکھا کہ حکومت کی ترامیم پنشنرز کے خاندان کو بھی ’’بلا جواز مصائب‘‘ میں مبتلا کر دیں گی۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے، دستخط کنندگان نے کہا کہ پنشن حکومت کی طرف سے عطا کردہ خیراتی ادارہ نہیں ہے بلکہ ’’پہلے سے پیش کی جانے والی خدمات کے لیے موخر ادائیگی کی ایک قسم ہے۔‘‘

آئینی طرز عمل گروپ نے مرکز سے ان ترامیم کو ختم کرنے اور وفاقیت، آزادی اظہار اور ایک متحرک جمہوریت کی خاطر اس فیصلے کو موخر کرنے پر زور دیا۔

]]>
54508
کانگریس نے دہلی کے بیوروکریٹس پر مرکز کو اختیار دینے والے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا https://dawatnews.net/congress-says-it-will-oppose-ordinance-giving-centre-power-over-delhi-bureaucrats/ Sun, 16 Jul 2023 14:02:25 +0000 https://dawatnews.net/?p=54217 کانگریس نے اتوار کو کہا کہ وہ قومی دارالحکومت میں انتظامی خدمات کے کنٹرول سے متعلق مرکز کے آرڈیننس کی مخالفت کرے گی۔ یہ فیصلہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے بنگلورو میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی دوسری میٹنگ سے ایک دن قبل لیا گیا ہے۔]]>

نئی دہلی، جولائی 16: کانگریس نے اتوار کو کہا کہ وہ قومی دارالحکومت میں انتظامی خدمات کے کنٹرول سے متعلق مرکز کے آرڈیننس کی مخالفت کرے گی۔ یہ فیصلہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے بنگلورو میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی دوسری میٹنگ سے ایک دن قبل لیا گیا ہے۔

مرکز نے 19 مئی کو دہلی حکومت میں خدمات انجام دینے والے بیوروکریٹس کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے انتظام کے لیے نیشنل کیپیٹل سول سروس اتھارٹی بنانے کے لیے آرڈیننس جاری کیا تھا۔ آرڈیننس نے سپریم کورٹ کے 11 مئی کو منظور کیے گئے اس فیصلے کو کالعدم کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ قومی دارالحکومت میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کے پاس امن عامہ، پولیس اور زمین کے علاوہ تمام محکموں میں نوکرشاہوں پر قانون سازی کا اختیار ہے۔

جون میں عام آدمی پارٹی نے کہا تھا کہ اگر کانگریس مرکز کے اس آرڈیننس کی مخالفت کرنے سے انکار کر دے گی تو اس کے لیے اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننا مشکل ہو گا۔

اتوار کو کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہا کہ ان کی پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی وفاقیت کو سبوتاژ کرنے کی کسی بھی کوشش کی مسلسل مخالفت کی ہے۔

وینوگوپال نے پی ٹی آئی کو بتایا ’’ہم گورنروں کے ذریعے اپوزیشن ریاستوں کو چلانے کے مرکزی حکومت کے رویہ کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارا موقف بالکل واضح ہے، ہم دہلی آرڈیننس کی حمایت نہیں کریں گے۔‘‘

کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے کہا کہ مرکز کے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا فیصلہ ہفتہ کو پارٹی کی پارلیمانی حکمت عملی گروپ کی میٹنگ کے دوران لیا گیا۔

کھیرا نے اے این آئی کو بتایا ’’2014 سے بی جے پی ہمارے ملک کے وفاقی نظام پر حملہ کر رہی ہے۔ چاہے وہ تمل ناڈو ہو، مغربی بنگال ہو یا دہلی ہو، کانگریس پارٹی نے ایسی کسی بھی کوشش کی ثابت قدمی سے مخالفت کی ہے…‘‘

دریں اثنا عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ راگھو چڈا نے آرڈیننس پر کانگریس کے موقف کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ان کی پارٹی اب 17 جولائی کو بنگلورو میں اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ میں شامل ہوگی۔

کانگریس سے پہلے کئی دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی مرکز کے آرڈیننس کے خلاف عام آدمی پارٹی کو حمایت کی پیش کش کی تھی۔ ان میں سماج وادی پارٹی، دراوڑ منیترا کزگم، ترنمول کانگریس، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، بھارت راشٹرا سمیتی، شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور جنتا دل (متحدہ) شامل ہیں۔

]]>
54217
ہائی کورٹ کے جج کے طور پر وکٹوریہ گووری کی تقرری پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے: مرکزی حکومت https://dawatnews.net/aspersions-should-not-be-cast-on-victoria-gowris-appointment-as-high-court-judge-says-centre/ Thu, 09 Feb 2023 14:36:36 +0000 https://dawatnews.net/?p=49215 مرکزی وزیر پیوش گوئل نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں کہا کہ وکٹوریہ گووری کی مدراس ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔]]>

نئی دہلی، فروری 9: مرکزی وزیر پیوش گوئل نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں کہا کہ وکٹوریہ گووری کی مدراس ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔

گوئل نے راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران گووری کی تقرری پر ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ جواہر سرکار کے بیانات کے جواب میں یہ تبصرہ کیا۔

جواہر سرکار نے کہا ’’آپ کہتے ہیں کہ صرف مناسب لوگوں کو ہی جج کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے۔ کیا آپ وکٹوریہ گووری کو واقعی ایک مناسب شخص سمجھتے ہیں، جس پر عوام میں ذات پات پر مبنی بیانات دینے کا الزام لگایا گیا ہے؟‘‘

گوئل نے جواب میں کہا کہ گوری کی تقرری ایک مناسب طریقۂ کار کے مطابق کی گئی ہے۔

گووری نے منگل کو مدراس ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیا، جب سپریم کورٹ ان کی تقرری کے خلاف دائر دو درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے وہ درخواستیں خارج کر دیں۔

17 جنوری کو سپریم کورٹ کے کالیجیم نے گووری اور چار دیگر کی تقرری کی سفارش مدراس ہائی کورٹ میں کی تھی۔ مرکز نے پیر کو ان کی تقرری کی اطلاع دی تھی۔ تاہم یہ تقرری اس وقت تنازعہ میں پڑ گئی جب سوشل میڈیا صارفین بشمول وکلاء نے نشان دہی کی کہ گووری بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن رہی ہیں اور اس سے قبل عیسائیوں اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت انگیز تبصرے کر چکی ہیں۔

جمعرات کو پیوش گوئل کے علاوہ، نائب صدر جگدیپ دھنکھرنے بھی، جو راجیہ سبھا کی صدارت کر رہے تھے، جواہر سرکار کے تبصروں کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کی جانب سے فیصلہ آچکا ہے تو اس معاملے کو دور رکھا جانا چاہیے۔

معلوم ہو کہ گذشتہ ہفتے مدراس ہائی کورٹ بار کے اراکین نے کالیجیم اور صدر دروپدی مرمو کو خط لکھا تھا، جس میں ان کی توجہ اقلیتی برادریوں کے بارے میں گووری کے تبصروں کی طرف مبذول کرائی تھی۔

خطوط میں کہا گیا تھا کہ گووری کے ’’رجعت پسندانہ خیالات مکمل طور پر بنیادی آئینی اقدار کے خلاف ہیں اور ان کے گہرے مذہبی تعصب کی عکاسی کرتے ہیں‘‘، جو انھیں ہائی کورٹ میں تقرر کے لیے نااہل بناتے ہیں۔

مدراس ہائی کورٹ کے وکلا نے دو انٹرویوز کا حوالہ دیا۔ ایک جو گوری نے ایک یوٹیوب چینل کو دیا تھا جس کی مبینہ طور پر بی جے پی کے نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے میزبانی کی تھی۔

انٹرویو کا عنوان ہے ’’بھارت میں عیسائی مشنریوں کی طرف سے ثقافتی نسل کشی‘‘۔

دوسرا انٹرویو ’’قومی سلامتی اور امن کو مزید خطرہ؟ جہاد یا عیسائی مشنری؟‘‘ کے عنوان سے ہے۔

]]>
49215
دہلی-مرکزی حکومت میں اختیارات سے متعلق جھگڑا: انتظامی خدمات پر کس کا کنٹرول ہے؟ اس معالے پر دائر درخواست پر سماعت کرے گی آئینی بنچ https://dawatnews.net/delhi-centre-power-tussle-constitution-bench-to-hear-plea-on-who-controls-administrative-services/ Mon, 05 Sep 2022 11:08:49 +0000 https://dawatnews.net/?p=44875 سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ 7 ستمبر کو قومی دارالحکومت میں انتظامی خدمات کے کنٹرول کو لے کر مرکز اور دہلی حکومت کے درمیان تنازعہ سے متعلق کیس کی سماعت کرے گی۔]]>

نئی دہلی، ستمبر 5: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ 7 ستمبر کو قومی دارالحکومت میں انتظامی خدمات کے کنٹرول کو لے کر مرکز اور دہلی حکومت کے درمیان تنازعہ سے متعلق کیس کی سماعت کرے گی۔

یہ فیصلہ اس وقت لیا گیا جب دہلی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل اے ایم سنگھوی نے چیف جسٹس ادے امیش للت کی سربراہی والی بنچ سے اس معاملے کو فوری طور پر درج کرنے کی درخواست کی۔

چیف جسٹس نے کہا ’’میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سے بات کروں گا۔ ہم اسے پرسوں جسٹس چندر چوڑ کی سربراہی میں سی بی [آئینی بنچ] کے سامنے پیش کریں گے۔‘‘

دریں اثنا سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ انھیں کارروائی کی تیاری کے لیے کچھ اور دن درکار ہیں۔

اپریل میں مرکز نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس تنازعہ کو بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا جانا چاہیے۔ مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے دہلی میں عہدیداروں کے تبادلے اور تقرری کے لیے طاقت کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ملک کا دارالحکومت ہے۔

2018 میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ دہلی کا لیفٹیننٹ گورنر، جسے صدر ہند کے ذریعہ مقرر کیا جاتا ہے، دہلی حکومت کے وزرا کی کونسل کی ’’مدد اور مشورہ‘‘ کا پابند ہے، ان تمام معاملات میں جو کہ اس کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

اس نے یہ بھی کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر میکانکی انداز میں کام نہیں کر سکتا۔ بنچ نے مزید کہا تھا کہ مرکز ’’ریاستوں کے زیر تسلط معاملات کے اختیارات پر قبضہ نہیں کر سکتا۔‘‘ تاہم یہ بھی نوٹ کیا کہ دہلی کو ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے۔

دریں اثنا دہلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے مرکز کی عرضی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس معاملے کو بڑی بینچ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ سنگھوی نے کہا تھا کہ 2018 کے فیصلے میں ریاستی حکومت کے اختیارات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

اس سے قبل فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ نے دہلی میں اقتدار کے جھگڑے پر الگ الگ فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن، جو دو ججوں کی بنچ میں شامل تھے، نے ’’سروسز‘‘ کے دائرۂ اختیار کے معاملے کو بڑی بنچ کو بھیج دیا۔ زیر غور دیگر معاملات پر ججوں نے متفقہ فیصلے سنائے۔

]]>
44875
تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت، وفاقی اقدار کو مجروح کرنا چاہتی ہے https://dawatnews.net/centre-seeking-to-undermine-federal-values-alleges-telangana-chief-minister/ Tue, 16 Aug 2022 12:59:33 +0000 https://dawatnews.net/?p=44147 تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے۔ چندر شیکھر راؤ نے پیر کے روز الزام لگایا کہ مرکزی حکومت ملک کے لیے آئین کے معماروں کی طرف سے تصور کردہ وفاقی اقدار کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔]]>

نئی دہلی، اگست 16: تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے۔ چندر شیکھر راؤ نے پیر کے روز الزام لگایا کہ مرکزی حکومت ملک کے لیے آئین کے معماروں کی طرف سے تصور کردہ وفاقی اقدار کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اپنے یوم آزادی کے خطاب میں راؤ نے یہ بھی الزام لگایا کہ مرکز ایسی سازشوں میں مصروف ہے جس سے ریاستوں کو مالی طور پر کمزور کیا جائے۔

راؤ نے الزام لگایا کہ ’’یہ (مرکزی حکومت) ریاستوں سے مشورہ کیے بغیر کنکرنٹ لسٹ میں شامل موضوعات پر فیصلے لے کر اور اس کے بعد ریاستوں پر فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈال کر آئین کا مذاق اڑا رہی ہے۔‘‘

کنکرنٹ لسٹ میں ایسے مضامین کی فہرست ہوتی ہے جن پر مرکزی اور ریاستی حکومتیں قانون بنا سکتی ہیں۔

راؤ نے دعویٰ کیا کہ مرکز کے ذریعہ ٹیکس کی شکل میں جمع ہونے والی آمدنی کا 41 فیصد ریاستوں کو ادا کیا جانا چاہیے، لیکن مرکزی حکومت ریاستوں کو ادا کیے جانے والے حصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا ’’مرکزی حکومت کوآپریٹو فیڈرلزم کے نظریات کے بارے میں بات کرتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ اختیارات کی مرکزیت میں ملوث ہے۔ آئین کی پہلی شق، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا اتحاد ہے، اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔‘‘

راؤ نے یہ بھی کہا کہ یہ توہین آمیز ہے کہ مرکز فلاحی اسکیموں کو ’’مفت‘‘ کہہ رہا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہریوں کی فلاح وبہبود حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔

راؤ نے مزید کہا ’’یہ قابلِ الزام ہے کہ مرکز، اس ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کیے بغیر، فلاحی اسکیموں کو مفت کہہ کر ان کی توہین کر رہا ہے۔‘‘

اس معاملے پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے 16 جولائی کو فلاحی اسکیموں کو ’’ریوڑی کلچر‘‘ قرار دیا تھا۔ ریوڑی ایک مٹھائی ہے جو گڑ اور تل سے بنتی ہے۔

10 اگست کو پانی پت میں ایک تقریب میں مودی نے مزید کہا تھا کہ اس طرح کے اعلانات ٹیکس دہندگان پر بوجھ بڑھاتے ہیں اور ملک کو خود انحصار بننے سے روکتے ہیں۔

]]>
44147
مرکزی حکومت نے قطب مینار کی مغل مسجد میں نماز کی مخالفت کی https://dawatnews.net/central-government-opposed-namaz-in-mughal-mosque-of-qutub-minar/ Tue, 26 Jul 2022 11:15:01 +0000 https://dawatnews.net/?p=43586 مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں قطب مینار کمپلیکس میں موجود مغل مسجد میں نماز پڑھنے کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔ مرکز کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوwکیٹ کیرتیمان سنگھ نے دہلی ہائی کورٹ میں کہا کہ یہ مسجد ایک محفوظ یادگار ہے اور یہ معاملہ فی الحال ساکت عدالت میں زیر التوا ہے۔]]>

نئی دہلی، جولائی 26: مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں قطب مینار کمپلیکس میں موجود مغل مسجد میں نماز پڑھنے کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔ مرکز کی طرف سے پیش ہوئے ایڈووکیٹ کیرتیمان سنگھ نے دہلی ہائی کورٹ میں کہا کہ یہ مسجد ایک محفوظ یادگار ہے اور یہ معاملہ فی الحال ساکت عدالت میں زیر التوا ہے۔

تاہم وقف بورڈ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ساکت عدالت میں معاملہ قطب مینار کمپلیکس میں ہی دوسری مسجد قوۃ الاسلام کا ہے نہ کہ مغل مسجد کا۔ انھوں نے دلیل دی کہ مغل مسجد محفوظ یادگاروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

نیوز 18 کی رپورٹ کے مطابق اس دوران انھوں نے کہا کہ نماز پڑھنے سے روکا جانا یک طرفہ، غیر قانونی اور من مانا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد مرکزی حکومت کے وکیل نے ہائی کورٹ سے بحث جاری رکھنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔ جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

قابل ذکر ہے کہ 15 مئی کو نماز پر پابندی کے فیصلے کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے چیلنج کیا تھا۔ وقف کی جانب سے ہائی کورٹ میں معاملے کی جلد سماعت کا ذکر بھی کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا حکم جاری کیا گیا ہے لیکن اس سے قبل ہر روز نماز ادا کی جارہی تھی۔ اس دوران وقف کے وکیل نے کہا کہ قطب کمپلیکس میں واقع مسجد وقف کی ملکیت ہے، لیکن اے ایس آئی نے اچانک نماز پر پابندی لگا دی۔

غور طلب ہے کہ قطب مینار احاطے میں ہندو اور جین دیوتاؤں کی مورتیوں کی بحالی کے مطالبے کو لے کر کچھ دنوں سے جاری تنازعہ کے درمیان دہلی وقف بورڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ مسجد میں ہمیشہ نماز ہوتی رہی ہے لیکن اے ایس آئی نے اسے رکوا دیا۔ بورڈ نے دوبارہ مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی ہے۔

]]>
43586
بی جے پی کے زیرقیادت مرکزی حکومت نے 2019 سے اب تک اشتہارات پر 900 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے https://dawatnews.net/bjp-led-centre-has-spent-over-rs-900-crore-on-ads-since-2019/ Sat, 23 Jul 2022 10:44:54 +0000 https://dawatnews.net/?p=43548 بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیرقیادت مرکزی حکومت نے 2019 سے اس سال جون تک پرنٹ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ میڈیا پلیٹ فارم میں اشتہارات پر 911.17 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔]]>

نئی دہلی، جولائی 23: بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے 2019 سے اس سال جون تک پرنٹ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ میڈیا پلیٹ فارم میں اشتہارات پر 911.17 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

یہ اعداد و شمار وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ سنگھ ٹھاکر نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کے ایک سوال کے جواب میں فراہم کیے۔

سنگھ نے ان اخبارات، ٹی وی چینلز اور ویب پورٹلز کی تعداد کے بارے میں تفصیلات طلب کی تھیں جنھوں نے مرکزی حکومت کے اشتہارات حاصل کیے اور 2019 سے اب تک اس طرح کے اشتہارات پر خرچ کیے گئے کل فنڈز کے بارے میں معلومات مانگی تھیں۔

ٹھاکر نے جواب دیا کہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کے تحت سنٹرل بیورو آف کمیونیکیشن نے تمام سرکاری اشتہارات کو میڈیا میں چلانے کے لیے دیا تھا۔

اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے 2019 سے اس سال جون تک ٹی وی چینلز میں اشتہارات پر 199.76 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اس میں سے 2019 اور 2020 کے درمیان 270 چینلز کو 98.69 کروڑ روپے دیے گئے۔ 2020 سے 2021 تک حکومت نے 318 چینلز کو 69.81 کروڑ روپے دیے۔ 2021 سے 2022 کی مدت میں 265 چینلز پر 29.30 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ رواں مالی سال میں 99 چینلز میں اشتہارات پر 1.96 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 سے پرنٹ اشتہارات پر ہونے والے اخراجات 690.83 کروڑ روپے سے کہیں زیادہ تھے۔

2019 سے 2020 تک بی جے پی حکومت نے 5,326 اخبارات میں اشتہارات کے لیے 295.05 کروڑ روپے دیے۔ اگلے مالی سال میں 5,210 اخبارات میں اشتہارات پر 197.49 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ حکومت نے 2021 سے 2022 تک 6,224 اخبارات میں اشتہارات پر 179.04 کروڑ روپے خرچ کیے اور موجودہ مالی سال میں 19.25 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

ٹھاکر نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے 2019 سے اب تک ویب پورٹلز میں اشتہارات پر 20.58 کروڑ روپے کی رقم خرچ کی ہے۔ 2019 میں 54 ویب سائٹس کو اشتہارات کے لیے 9.35 کروڑ روپے، 2020 میں 72 ویب سائٹس کو 7.43 کروڑ روپے، 2021 میں 18 سائٹس کو 1.83 کروڑ روپے اور 30 ​​پورٹلز کو رواں مالی سال میں 1.97 کروڑ روپے دیے گئے۔

دسمبر میں مرکز نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ اس نے 2018 اور 2021 کے درمیان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات پر 1,698.89 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

جولائی 2021 میں ٹھاکر نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ حکومت نے غیر مواصلاتی اشتہارات جیسے کہ ٹینڈرز کو مدعو کرنے یا ملازمت کی آسامیوں کے سائز کو کم کرکے اشتہاری اخراجات میں کمی کی ہے۔

]]>
43548