غیر ملکی ٹربیونلز – دعوت نیوز https://dawatnews.net نظر - خبر در خبر Tue, 30 Nov 2021 12:28:26 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.3 168958987 گوہاٹی ہائی کورٹ نے کاچھر خاندان کو غیر ملکی قرار دینے والے ٹربیونل کے حکم کو کالعدم قرار دیا https://dawatnews.net/gauhati-high-court-sets-aside-order-by-tribunal-declaring-cachar-family-as-foreigners/ Tue, 30 Nov 2021 12:27:39 +0000 https://dawatnews.net/?p=39012 گوہاٹی ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے غیر ملکیوں کے ٹربیونل کے آسام کے کاچھر ضلع کے پانچ باشندوں کو غیر ملکی قرار دینے کے ایک حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ ثابت کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے کہ وہ ہندوستانی ہیں۔]]>

نئی دہلی، نومبر 30: گوہاٹی ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے غیر ملکیوں کے ٹربیونل کے آسام کے کاچھر ضلع کے پانچ باشندوں کو غیر ملکی قرار دینے کے ایک حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ ثابت کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے کہ وہ ہندوستانی ہیں۔

ٹربیونل نے جنوری 2018 میں یک طرفہ حکم (خاندان کے دلائل سنے بغیر) پاس کیا تھا۔ متاثرہ شخص، راجندر داس اور اس کے خاندان کے افراد نے اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جسٹس این کوٹیشور سنگھ اور ملاسری نندی پر مشتمل بنچ نے کہا کہ اگر خاندان ان دستاویزات کی صداقت کو ثابت کرنے کے قابل ہے جو انھوں نے ہائی کورٹ میں پیش کیے ہیں تو ان کا یہ دعویٰ قانونی ہو سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ داس نے 1965 اور 1971 کی ووٹر لسٹیں جمع کرائی تھیں، جن میں اس کے والدین کے ناموں کا ذکر تھا اور اس کی بیوی رینوبالا کے ساتھ اس کا نکاح نامہ بھی ان دستاویزات میں شامل ہے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ شہریت کے ذریعے ہی کوئی شخص بنیادی حقوق اور آئین کی طرف سے عطا کردہ دیگر حقوق سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ شہریت سے محروم کیا جانے والا شخص بے وطن قرار دیا جائے گا اگر کوئی دوسرا ملک اسے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے شہریت کی سب سے بڑی اہمیت اور ضرورت یہی ہے۔‘‘

بنچ نے کہا کہ ٹربیونلز کو شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد ہی اپنی رائے دینی چاہیے نہ کہ ڈیفالٹ کے ذریعے۔

عدالت نے داس اور اس کے خاندان کو 24 دسمبر یا اس سے پہلے ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی۔

قبل ازیں درخواست گزار کے وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ داس خراب صحت کی وجہ سے 2018 میں ٹربیونل کے سامنے پیش نہیں ہو سکے تھے۔ وکیل نے مزید کہا کہ ٹربیونل کے حکم کا ان کے خاندان پر اثر پڑے گا۔

ستمبر میں ایک الگ کیس میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے اسی طرح کے ایک حکم کو کالعدم قرار دیا تھا اور درخواست گزار کو ٹربیونل کے سامنے حاضر ہونے کی ہدایت کی تھی۔

اگست 2019 میں آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر کی حتمی فہرست شائع کی گئی تھی۔ 19 لاکھ سے زیادہ لوگ اس حتمی فہرست سے باہر رہ گئے، جو آسام کی کل آبادی کا تقریباً 6 فیصد ہیں۔ باہر رہ جانے والوں میں سے کچھ نے غیر ملکیوں کے ٹربیونلز میں اپنے اخراج کے خلاف اپیل کی ہے۔

]]>
39012
این آر سی حتمی ہے، آسام کے غیر ملکیوں سے متعلق ٹربیونل کا فیصلہ https://dawatnews.net/nrc-is-final-rules-assam-foreigners-tribunal/ Mon, 20 Sep 2021 12:44:45 +0000 https://dawatnews.net/?p=37809 اگرچہ رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے ابھی تک آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کو قانونی دستاویز بنانے کے لیے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ہے، لیکن ایک غیر ملکی ٹریبونل نے آگے بڑھ کر ایک آدمی کو ہندوستانی ڈکلیئر کرتے ہوئے اسے ’’حتمی این آر سی‘‘ کے طور پر ریکارڈ کیا ہے۔]]>

نئی دہلی، ستمبر 20: اگرچہ رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے ابھی تک آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کو قانونی دستاویز بنانے کے لیے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ہے، لیکن ایک غیر ملکی ٹریبونل نے آگے بڑھ کر ایک آدمی کو ہندوستانی ڈکلیئر کرتے ہوئے اسے ’’حتمی این آر سی‘‘ کے طور پر ریکارڈ کیا ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق جمیرالا گاؤں کے ایک شخص بکرم سنگھا کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے جس کا نام این آر سی کی فہرست میں شامل ہے، کریم گنج قصبے میں ایف ٹی-2 کے رکن سشیر ڈے نے کہا ’’…اس میں کوئی شک نہیں کہ 2019 میں شائع ہونے والا یہ این آر سی حتمی این آر سی کے سوا کچھ نہیں ..‘‘

FT-II کا ’’آرڈر/ رائے‘‘ آسام کے پولیٹیکل (B) ڈیپارٹمنٹ کے اس حکم کے کچھ دن بعد ہی سامنے آیا ہے جس میں 4 ستمبر کو اس نے FTs سے کہا تھا کہ وہ ’’نتیجہ خیز احکامات/ہدایات‘‘ نہ دیں اور غیر ملکی ٹربیونل آرڈر 1964 کے حکم کے مطابق ’’رائے‘‘ دینے پر قائم رہیں۔

آسام پولیس کے بارڈر ونگ نے مئی 2008 میں جنوبی آسام کے کریم گنج ضلع کے پتھر کنڈی اسمبلی حلقہ کے تحت جمیرالا گاؤں کے مسٹر سنگھا کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ شخص جو ڈی یعنی ’’مشکوک ووٹر‘‘ کے طور پر نشان زد ہے، 28 جون تک لا پتہ رہا اور دو ماہ بعد کریم گنج قصبے میں غیر ملکیوں کے ٹربیونل (FT-II) کے سامنے پیش ہوا، اور بنگلورو سے واپس آنے کے لیے وقت مانگا جہاں وہ کام کر رہا تھا۔

سنگھا نے FT-II کے سامنے اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنے کے لیے کئی دستاویزات پیش کیے۔

ان میں ان کے دادا مدن کمار سنگھا کے نام پر 1968 کی زمین کا معاہدہ اور ان کے والد بھرت چندر سنگھا کے 1972 سے 29 سال تک بھارتی فضائیہ کے ملازم ہونے کا ثبوت شامل تھا۔

FT-II کے رکن سشیر ڈے نے 1 ستمبر کو ان کے کیس کی سماعت کی۔ استغاثہ کے وکیل نے دلیل دی کہ مسٹر سنگھا کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ان کا خاندان 1966 سے پہلے ہندوستان میں رہ رہا تھا۔

اس نے 20 اکتوبر 2012 کو آسام کے ہوم اینڈ پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے شائع ہونے والے ’’غیر ملکیوں کے معاملے پر وائٹ پیپر‘‘ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 26 جنوری 1950 اور یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص اس کے والدین کی قومیت سے قطع نظر پیدائشی طور پر ہندوستانی شہری سمجھا جا سکتا ہے۔

تاہم مسٹر ڈے نے مشاہدہ کیا کہ مسٹر سنگھا کی دستاویزات اس کے والد اور دادا کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو 1968 سے پہلے جمیرالا گاؤں کے رہائشی تھے۔

اگرچہ 1966 سے پہلے آسام کے رہائشی ہونے کے لیے کوئی دستاویزات موجود نہیں۔

ڈے نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ مسٹر سنگھا کا نام این آر سی میں شامل ہے جس کی نگرانی سپریم کورٹ نے 1955 کے شہریت ایکٹ اور شہریت (شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ جاری کرنا) رولز 2003 کی بنیاد پر کی۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’حتمی این آر سی 31 اگست 2019 کو شائع کیا گیا ہے جو این آر سی آسام کی آفیشیل ویب سائٹ پر آنلائن موجود ہے جہاں اسے ’حتمی این آر سی‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ قانونی پوزیشن ابھی تک نافذ ہے۔ قومی شناختی کارڈ ابھی ان شہریوں کو جاری کیے جانے ہیں جن کے نام حتمی این آر سی میں شامل کیے گئے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ 2019 میں شائع ہونے والا یہ NRC حتمی NRC کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘

ٹربیونل نے مزید کہا ’’میں سمجھا جاتا ہوں کہ مخالف پارٹی (سنگھا) غیر ملکی نہیں بلکہ ہندوستان کا شہری ہے۔‘‘

]]>
37809