سی اے اے – دعوت نیوز https://dawatnews.net نظر - خبر در خبر Wed, 14 Jun 2023 16:00:26 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.3 168958987 کرناٹک ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف ڈرامہ کرنے پر بیدر کے شاہین اسکول کے خلاف بغاوت کا مقدمہ منسوخ کیا https://dawatnews.net/karnataka-hc-quashes-sedition-case-against-bidar-school-for-staging-anti-caa-play/ Wed, 14 Jun 2023 16:00:26 +0000 https://dawatnews.net/?p=53302 کرناٹک ہائی کورٹ نے بدھ کے روز بیدر شہر کے شاہین اسکول کی انتظامیہ کے خلاف 2020 میں شہریت ترمیمی قانون پر ایک تنقیدی ڈرامے کا انعقاد کرنے کے لیے دائر غداری کے مقدمے کو مسترد کر دیا۔]]>

نئی دہلی، جون 14: کرناٹک ہائی کورٹ نے بدھ کے روز بیدر شہر کے شاہین اسکول کی انتظامیہ کے خلاف 2020 میں شہریت ترمیمی قانون پر ایک تنقیدی ڈرامے کا انعقاد کرنے کے لیے دائر غداری کے مقدمے کو مسترد کر دیا۔

ایک ٹیچر اور ایک طالب علم کی ماں کو پولیس کے اس الزام کے بعد گرفتار کیا گیا تھا کہ یہ ڈرامہ باغیانہ اور اشتعال انگیز تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلاس 4، 5 اور 6 کے طلبا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی توہین کی تھی۔

سوشل میڈیا کے متعدد صارفین نے الزام لگایا تھا کہ اس ڈرامے میں وزیر اعظم کو چپل سے مارنے کے بارے میں ایک مکالمہ تھا۔ حالاں کہخبروں نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔ اس ڈرامے کا مقصد شہریت ترمیمی قانون کے بارے میں مسلمانوں کے خدشات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا تھا۔

بیدر پولیس نے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ایک رکن کی شکایت کی بنیاد پر غداری کا مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا طلباء ونگ ہے۔ پولیس کو نوعمر طالب علموں سے پوچھ گچھ کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک نو سالہ بچہ بھی شامل تھا۔ طلبا کو پولیس اسٹیشن بھی طلب کیا گیا تھا۔

اگست 2021 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ پولیس کی پوچھ گچھ بچوں کے حقوق اور جووینائل جسٹس ایکٹ کی دفعات کی ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ تھی۔

ہائی کورٹ نے یہ معاملہ اس وقت اٹھایا جب ایک درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے طلبا سے ان کے اساتذہ یا والدین کی غیر موجودگی میں پوچھ گچھ کرکے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ مخالف ماحول میں سوال کرنے سے بچوں کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔

عدالتوں کی مداخلت کے بعد دونوں گرفتار افراد کو ضمانت مل گئی تھی اور بچوں سے پوچھ گچھ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

]]>
53302
این آر سی کا خطرہ منڈلا رہا ہے،ووٹر لسٹ میں اپنا نام درست کرائیں:ممتا بنرجی https://dawatnews.net/threat-of-nrc-looms-get-your-name-corrected-in-voter-list-mamata-banerjee/ Thu, 24 Nov 2022 14:16:50 +0000 https://dawatnews.net/?p=47112 مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مرکزی حکومت کی جانب سے مغربی بنگال میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو مستقبل میں لاگو کرنے کی کوشش کےحوالے سے آگاہ کیا ہے۔]]>

نئی دہلی، نومبر 24: مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مرکزی حکومت کی جانب سے مغربی بنگال میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو مستقبل میں لاگو کرنے کی کوشش کےحوالے سے آگاہ کیا ہے۔

وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے ملک بھر میں ممکنہ طور پر این آر سی کے نفاذ کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ ووٹر لسٹ میں تصحیح کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اس لئے اس میں کوتاہی نہ برتیں، ووٹرلسٹ میں نام کے اندراج کو یقینی بنائیں اور نام کے ہجے کی بھی درست کرائیں۔

ممتا بنرجی نے نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں ریاستی حکومت کی زمین پٹہ پر دینے کی تقریب میں شرکت کی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کا کام جاری ہے۔ یہ 5 دسمبر تک جاری رہے گا۔ وزیر اعلیٰ نے سب کو مشورہ دیا کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے نام دیکھیں۔انہوں نے کہا کہ تاکہ کوئی این آر سی کے نام پر آپ کا نام نہ کاٹ سکے، اس لیے اب سے آپ پولنگ اسٹیشن پر جائیں اور اپنا نام درست کرائیں۔’ دیکھیں کہ آپ کا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہے یا نہیں۔ میں بنگال کے تمام شہریوں سے اپیل کررہی ہوں کہ اس کے لئے وقت نکالیں،اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ناموں کو ووٹر لسٹ میں درج کرائیں۔نام کے ہجے بھی درست کرائیں۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بنگال میں بھی آسام جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، انہیں ایساخدشہ ہے جس سے بچنے کی قواعد ابھی سے ہی شروع کردینی چاہیے۔

نیتا جی انڈور میں این آر سی کے موضوع کو ایک بار پھر اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ”کتنے لوگ اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں اور بنگلہ دیش سے یہاں آئے ہیں۔ مارچ 1971 تک آنے والوں سے حکومت کا معاہدہ ہے۔ وہ ہندوستان کا شہری ہے۔ لیکن کبھی کبھاران کی شہریت پر حملہ کیا جاتا اورکہا جاتا ہے، تم یہاں کے شہری نہیں ہو۔

جن لوگوں نے حکومت کو منتخب کیا ہے ان کی شہریت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ میرے ووٹ سے وزیر اعظم بننے کے بعداب آپ مجھے شہریت کے حقوق دینا چاہتے ہیں؟ یہ بے عزتی ہے۔کئی دہائیوں سے ہندوستان میں رہےو والے جن کے بچوں نے یہاں کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی، کوئی رکشہ چلا رہے ہیں، کوئی کھیتی باڑی کر رہا ہے، انہیں یہ حق کہاں سے مل رہا ہے؟ ہر ایک کے پاس آدھار کارڈ، راشن کارڈ ہے۔ ووٹر لسٹ میں نام بھی درج ہے ۔ انہیں شہریت کے نئے حقوق دینا ان کی بے عزتی کرنے کے مترادف ہے۔ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گی اس لیے لوگوں کو بیدار رہنے کی نصیحت کر رہی ہیں۔

ریاست کے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ مرکز نے شہریت سے متعلق نئے قانون کے سلسلے میں کوئی پہل کی ہے۔ اس لیے انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ 5 دسمبر تک پولنگ اسٹیشن جا کر اپنے اور اپنے اہل خانہ کے نام درست کرا لیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ووٹر لسٹ میں ان کا نام صحیح لکھاہو، تاکہ انہیں حراستی مراکز میں نہ بھیجا جائے۔

محترمہ بنرجی نے ایک سرکاری بیان میں کہا، ” این آرسی کا کھیل دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ اس پلیٹ فارم سے، میں بنگال میں رہنے والے تمام باشندوں سے محتاط رہنے کے لئے کہہ رہی ہوں کیونکہ مستقبل میں مرکزی حکومت کہہ سکتی ہے کہ تمہارا نام این سی آر میں نہیں ہے اور وہ آپ کو حراستی مرکز بھیج سکتی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت اس غلط معاملے کو مکمل نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ پولنگ بوتھ پر جائیں اور ووٹنگ لسٹ میں اپنا نام درج کرائیں۔

محترمہ بنرجی نے کہا کہ وہ لوگوں کو خبردار کر رہی ہیں کیونکہ آسام میں این آر سی کی فہرست سے بہت سے نام حذف کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تب بھی احتجاج کیا تھا اور آج بھی میں اس بات کا اعادہ کرتی ہوں کہ میں این آر سی کی مذمت کرتی ہوں۔

محترمہ ممتا نے وزیراعظم نریندر مودی کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ سال 1971 سے پہلے بنگلہ دیش سے اپنا سب کچھ کھوکر آئے لوگوں کی حمایت کی وجہ سے وزیر اعظم بنے ہیں۔انہوں نے کہا، ”ان لوگوں کو اب بتایا جا رہا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ لوگ کیسے باہرگئے اورآپ کو ووٹ دیا۔

]]>
47112
بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن محمود کا کہنا ہے کہ سی اے اے ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے https://dawatnews.net/caa-is-indias-internal-matter-says-bangladesh-information-minister-hasan-mahmud/ Wed, 02 Nov 2022 16:05:52 +0000 https://dawatnews.net/?p=46535 یہ قانون بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں رہ رہے ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔]]>

نئی دہلی، نومبر 2: بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن محمود نے منگل کو کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کا داخلی اور قانونی معاملہ ہے۔

یہ قانون بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں رہ رہے ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

اس متنازعہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں 200 سے زائد درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو قانون کے سامنے مساوات سے متعلق ہے۔

عدالت ان درخواستوں کی سماعت 6 دسمبر سے شروع کرے گی۔

پیر کو محمود نے پریس کلب آف انڈیا کے زیر اہتمام ایک نیوز کانفرنس میں اس قانون کے بارے میں بات کی۔

اس تقریب میں انھوں نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے تبصروں کو بھی دہرایا کہ بنگلہ دیش میں ہندو مذہب کی پیروی کرنے والوں کو اقلیتی برادری نہیں سمجھا جانا چاہیے کیوں کہ وہ ملک کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے آئین کے مطابق سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں میں کچھ جنونی گروہ ہیں جو جنون کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور مذہبی گروہوں میں ہم آہنگی کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

انجوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے ہندوؤں کی حمایت کی ہے اور وہ اچھی پوزیشن میں ہیں۔ محمود نے مزید کہا کہ حکمران جماعت کے ارکان گذشتہ سال جیسے فسادات سے بچنے کے لیے کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اکتوبر 2021 میں بنگلہ دیش کے کومیلا ضلع میں درگا پوجا پنڈال میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس کے بعد ہندوؤں کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد کم از کم سات افراد ہلاک اور 41 کو گرفتار کر لیا گیا۔

اقوام متحدہ نے ہندوؤں پر ہوئے حملوں پر تنقید کی تھی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ یہ تشدد ملک میں بڑھتے ہوئے اقلیت مخالف جذبات کی علامت ہے۔

]]>
46535
مرکز نے گجرات کے 2 اضلاع سے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کے لیے کہا https://dawatnews.net/centre-asks-2-gujarat-districts-to-grant-citizenship-to-afghanistan-pakistan-bangladesh-minorities/ Tue, 01 Nov 2022 15:11:14 +0000 https://dawatnews.net/?p=46509 دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ نے پیر کو گجرات کے مہسانہ اور آنند کے ضلعی کلکٹروں سے کہا کہ وہ شہریت ایکٹ 1955 کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، بدھ اور جین برادری کے لوگوں کو شہریت کا سرٹیفکیٹ دیں۔]]>

نئی دہلی، نومبر 1: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ نے پیر کو گجرات کے مہسانہ اور آنند کے ضلعی کلکٹروں سے کہا کہ وہ شہریت ایکٹ 1955 کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، بدھ اور جین برادری کے لوگوں کو شہریت کا سرٹیفکیٹ دیں۔

اخبار کے مطابق یہ نوٹیفکیشن قانونی تارکین وطن کے لیے جاری کیا گیا ہے، جنھوں نے شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 5 (بذریعہ رجسٹریشن) اور سیکشن 6 (نیچرلائزیشن) کے تحت پہلے ہی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔

2019 میں منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کی چھ غیر مسلم کمیونٹیز کے افراد کو شہریت دیتا ہے، جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان آئے ہوں۔ تاہم اس قانون کے تحت قواعد ابھی تک نہیں بنائے گئے ہیں۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق وزارت داخلہ نے پیر کو حکام سے کہا کہ تینوں ممالک کے تارکین وطن کی درخواست آن لائن لی جائے۔ درخواستوں کی تصدیق ضلع کلکٹر کے ذریعہ کی جائے گی اور پھر اسے مرکزی ایجنسیوں کو بھیج دیا جائے گا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اگست میں گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے 40 پاکستانی ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے تھے۔ اخبار کے مطابق 2016 سے احمد آباد میں کلکٹر کے دفتر نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 1,032 ہندوؤں کو شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے ہیں۔

وزارت داخلہ اکثر ریاستوں کی ضلعی انتظامیہ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ پاسپورٹ یا ویزا پر ہندوستان میں داخل ہونے والے چھ کمیونٹیز کے تارکین وطن کو شہریت کا سرٹیفکیٹ فراہم کریں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ 2019 میں منظور کیے گئے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 200 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو قانون کے سامنے مساوات سے متعلق ہے۔

ناقدین کو خدشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون، 2019 کو شہریوں کے قومی رجسٹر کے ساتھ جوڑ کر ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط استعمال کیا جائے گا۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا مطلب قانونی ہندوستانی شہریوں کی فہرست ہے۔

]]>
46509
مرکز نے سپریم کورٹ میں کہا کہ سی اے اے ہندوستانی شہریوں کے حقوق کو متاثر نہیں کرتا ہے https://dawatnews.net/caa-does-not-affect-the-rights-of-indian-citizens-centre-tells-supreme-court/ Mon, 31 Oct 2022 15:35:35 +0000 https://dawatnews.net/?p=46427 بار اینڈ بینچ کی خبر کے مطابق مرکزی حکومت نے اتوار کو سپریم کورٹ کو بتایا شہریت ترمیمی قانون ہندوستانی شہریوں کے قانونی، جمہوری یا سیکولر حقوق کو متاثر نہیں کرتا ہے۔]]>

نئی دہلی، اکتوبر 31: بار اینڈ بینچ کی خبر کے مطابق مرکزی حکومت نے اتوار کو سپریم کورٹ کو بتایا شہریت ترمیمی قانون ہندوستانی شہریوں کے قانونی، جمہوری یا سیکولر حقوق کو متاثر نہیں کرتا ہے۔

یہ قانون بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں رہ رہے ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

اس متنازعہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں 200 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جن میں درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیا جاتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ایک حلف نامے میں مرکز نے کہا کہ یہ ایک ’’مرکوز قانون‘‘ ہے جو واضح کٹ آف تاریخ کے ساتھ مخصوص ممالک کی مخصوص کمیونٹیز کو معافی کی نوعیت میں نرمی فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

عدالت سے درخواستوں کو مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے مرکز نے کہا کہ یہ قانون سازی پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے۔

حکومت نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون پوری دنیا میں ہونے والے کسی بھی قسم کے ظلم و ستم کو تسلیم کرنے یا جواب دینے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔

اس نے کہا ’’اس سلسلے میں سی اے اے ایک مختصر طور پر تیار کردہ قانون سازی ہے جو اس مخصوص مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کئی دہائیوں سے حل کے لیے ہندوستان کی توجہ کا منتظر ہے۔‘‘

کچھ عرضیوں کے دلائل پر حکومت نے کہا کہ یہ قانون آسام میں غیر قانونی نقل مکانی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے اور اسے بے بنیاد خدشہ قرار دیا۔

عدالت درخواستوں کی سماعت پیر کو بعد میں کرے گی۔

مرکز نے کہا ہے کہ شہریت کا قانون صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی مظلوم برادریوں کے ارکان کو راحت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون، جسے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ جوڑا گیا ہے، ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جائے گا۔

نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا مطلب قانونی ہندوستانی شہریوں کی فہرست ہے۔

اس قانون پر ابھی تک عمل درآمد ہونا باقی ہے کیوں کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے اس کے قواعد وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ مئی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وبا کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ قانون نافذ کر دیا جائے گا۔

]]>
46427
سی اے اے کے اصول سری لنکا کے ہندو تملوں پر لاگو ہوسکتے ہیں، مدراس ہائی کورٹ نے کہا https://dawatnews.net/principles-of-caa-can-be-applied-to-hindu-tamils-from-sri-lanka-observes-madras-high-court/ Sun, 16 Oct 2022 15:39:58 +0000 https://dawatnews.net/?p=45978 مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ نے مشاہدہ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے اصولوں کا اطلاق ہندو تملوں پر کیا جا سکتا ہے جنھیں سری لنکا سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا تھا۔]]>

نئی دہلی، اکتوبر 16: مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ نے مشاہدہ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے اصولوں کا اطلاق ہندو تملوں پر کیا جا سکتا ہے جنھیں سری لنکا سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

عدالت ایک 29 سالہ خاتون ایس ابیرامی کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جو اپنی پیدائش کے بعد سے ہندوستان میں رہ رہی ہے۔ اس کے والدین، جو سری لنکا کے شہری تھے، سری لنکا میں نسلی تنازعات کی وجہ سے اس کی پیدائش سے قبل بھارت آ گئے تھے۔

ابرامی کی پیدائش تروچیراپلی میں ہوئی تھی اور اس نے اپنی اسکولی تعلیم تمل ناڈو میں مکمل کی۔ اس کے پاس آدھار نمبر بھی ہے۔ اپنی درخواست میں اس نے تروچیراپلی کے ضلع کلکٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہندوستانی شہریت کے لیے اپنی درخواست تمل ناڈو حکومت کو بھیجے، جو اسے مرکز کو بھیج سکتی ہے۔

جسٹس جی آر سوامی ناتھن نے نوٹ کیا کہ ابیرامی کبھی بھی سری لنکا کی شہری نہیں تھی، اس لیے سری لنکا کی شہریت ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کی درخواست قبول نہیں کی گئی تو اس کی وجہ سے وہ بے وطن ہو جائے گی۔

ہائی کورٹ نے تروچیراپلی کے کلکٹر کو ہدایت کی کہ وہ اس کی درخواست تمل ناڈو حکومت کو بھیجے اور ریاست سے بھی کہا کہ وہ اسے مرکز کو بھیجے۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو اس معاملے پر 16 ہفتوں کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔

جسٹس سوامی ناتھن نے نوٹ کیا کہ شہریت ترمیمی قانون پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی مظلوم اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا ’’اگرچہ سری لنکا مذکورہ ترمیم کے اندر نہیں آتا، لیکن وہی اصول یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ کوئی اس حقیقت کا عدالتی نوٹس لے سکتا ہے کہ سری لنکا کے ہندو تامل نسلی جھگڑوں کا بنیادی شکار تھے۔‘‘

تاہم اس قانون پر عمل درآمد ہونا باقی ہے کیوں کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے اس کے قواعد وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ مئی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وبا ختم ہوتے ہی قانون نافذ کر دیا جائے گا۔

]]>
45978
سی اے اے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سپریم کورٹ نے مرکز سے جواب طلب کیا https://dawatnews.net/on-pleas-challenging-caa-supreme-court-seeks-centres-response/ Tue, 13 Sep 2022 04:36:46 +0000 https://dawatnews.net/?p=45126 سپریم کورٹ نے پیر کے روز شہریت ترمیمی قانون 2019 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے بیچ کو الگ کرنے کی ہدایت جاری کی اور مرکز کو نوٹس جاری کیا کہ وہ درخواستوں کو تقسیم کرنے کے بعد چار ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرے۔]]>

نئی دہلی، ستمبر 13: سپریم کورٹ نے پیر کے روز شہریت ترمیمی قانون 2019 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے بیچ کو الگ کرنے کی ہدایت جاری کی اور مرکز کو نوٹس جاری کیا کہ وہ درخواستوں کو تقسیم کرنے کے بعد چار ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرے۔

پی ٹی آئی کے مطابق چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی اور زبانی طور پر کہا کہ اس کیس کو تین ججوں کی بنچ کے پاس بھیجا جائے گا۔

اس قانون کے خلاف 200 سے زیادہ مفاد عامہ کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جو بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

تاہم اس قانون پر عمل درآمد ہونا باقی ہے کیوں کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے اس کے قواعد اب تک وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ مئی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وبا ختم ہوتے ہی یہ قانون نافذ کر دیا جائے گا۔

درخواست گزاروں نے دلیل دی ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

اے این آئی کے مطابق اس قانون کے خلاف درخواستیں پہلی بار 18 دسمبر 2019 کو سماعت کے لیے آئی تھیں۔ کیس کی آخری سماعت 15 جون 2021 کو ہوئی تھی۔

جنوری 2020 میں سپریم کورٹ نے مرکز کو عرضیوں کا جواب دینے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

مارچ 2020 میں داخل کردہ 129 صفحات پر مشتمل حلف نامے میں مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کسی بھی شہری کے قانونی، جمہوری اور سیکولر حقوق کو متاثر نہیں کرتا ہے اور یہ کہ پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کردہ قانون ’’عدالتی جائزے کے دائرۂ کار کے اندر نہیں آ سکتا۔‘‘

مرکز نے کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والے ظلم و ستم کا شکار کمیونٹی کے ارکان کو راحت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ جوڑ کر، ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط استعمال کیا جائے گا۔

]]>
45126
سپریم کورٹ شہریت ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر 12 ستمبر کو سماعت کرے گی https://dawatnews.net/supreme-court-to-hear-pleas-challenging-constitutional-validity-of-caa-on-september-12/ Thu, 08 Sep 2022 12:19:52 +0000 https://dawatnews.net/?p=45067 لائیو لاء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ 12 ستمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرے گی۔]]>

نئی دہلی، ستمبر 8: لائیو لاء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ 12 ستمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرے گی۔

چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ ان درخواستوں پر سماعت کرے گی۔

2019 کے اس قانون کے خلاف 200 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں جو بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو شہریت فراہم کرتا ہے، اس شرط پر کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

یہ قانون ابھی تک نافذ ہونا باقی ہے کیوں کہ اس کے قواعد ابھی تک کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے نہیں بنائے گئے ہیں۔ مئی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وبا ختم ہوتے ہی قانون نافذ کر دیا جائے گا۔

درخواست گزاروں نے دلیل دی ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیتا ہے۔

درخواست گزاروں میں سے ایک، کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قانون ایک ’’غیر آئینی اخراج کی حکومت‘‘ تشکیل دیتا ہے۔

انڈین یونین مسلم لیگ نے سپریم کورٹ پر زور دیا ہے کہ وہ اس قانون کو غیر آئینی قرار دے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ تارکین وطن کو مذہب کے مطابق درجہ بندی کرتا ہے اور دفعہ 14 (قانون کے سامنے مساوات)، دفعہ 15 (مذہب، نسل، ذات، جنس، یا پیدائش کی جگہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت) اور دفعہ 21 (زندگی کا حق) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

جنوری 2020 میں سپریم کورٹ نے مرکز کو ان عرضیوں کا جواب دینے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

مارچ 2020 میں داخل کردہ 129 صفحات پر مشتمل حلف نامے میں مرکزی حکومت نے پیش کیا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کسی بھی شہری کے قانونی، جمہوری اور سیکولر حقوق کو متاثر نہیں کرتا ہے اور یہ کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ قانون ’’عدالتی جائزے کے دائرۂ کار میں نہیں ہو سکتا۔‘‘

مرکز نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی مظلوم برادریوں کے ارکان کو راحت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

]]>
45067
دہلی پولیس نے چارج شیٹ میں دعویٰ کیا کہ جہانگیرپوری تشدد سی اے اے اور این آر سی مخالف احتجاج سے منسلک تھا https://dawatnews.net/jahangirpuri-violence-was-continuation-of-caa-nrc-protests-says-delhi-police-chargesheet/ Fri, 15 Jul 2022 12:59:11 +0000 https://dawatnews.net/?p=43457 دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں اپریل میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد 2019 اور 2020 میں شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر کے خلاف فروری 2020 کے فسادات کے ساتھ احتجاج سے منسلک تھا۔ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جمعرات کو یہ چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔]]>

نئی دہلی، جولائی 15: دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں اپریل میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد 2019 اور 2020 میں شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر کے خلاف فروری 2020 کے فسادات کے ساتھ احتجاج سے منسلک تھا۔ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جمعرات کو یہ چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔

16 اپریل کو بجرنگ دل نے جہانگیر پوری میں ہندو تہوار ہنومان جینتی کی یاد میں تین جلوس نکالے تھے۔ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ جلوس کے شرکا تلواروں اور ترشولوں سے مسلح تھے، جب کہ ویڈیوز میں ان میں سے کچھ بندوقیں اٹھائے ہوئے اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔

جب تیسرا جلوس ایک مسجد سے گزرا تو تشدد پھوٹ پڑا۔ پولیس نے کہا کہ ہندو اور مسلم گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔

جمعرات کو دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے 37 ملزمین کی گرفتاری پر شہر کی عدالت میں 2,063 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ داخل کی۔ پولیس نے بتایا کہ مزید آٹھ مشتبہ افراد مفرور ہیں۔

چارج شیٹ میں 10 اپریل کو رام نومی کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں جہانگیر پوری میں جھڑپوں کے محرک کے طور پر ہونے والے تشدد کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے مطابق جہانگیر پوری میں تشدد اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ ایک ’’بڑی سازش‘‘ کا حصہ تھا۔

پولیس نے یہ بھی الزام لگایا کہ مرکزی ملزم محمد انصار اور اس کے دو ساتھی، تبریز خان اور اسرافیل، اس واٹس ایپ گروپس کے ممبر تھے جنھیں 2019 اور 2020 میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرین کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

پولیس نے مزید کہا کہ ملزمین مقامی لوگوں کو سی اے اے مخالف مظاہروں میں شرکت کے لیے بھیجتے تھے۔

ایک پولیس افسر نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ انھوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ جہانگیرپوری تشدد سے متعلق ’’الیکٹرانک مواد، ڈیجیٹل چیٹ اور مالیاتی لین دین‘‘ شہریت قانون مخالف مظاہروں سے منسلک ہیں۔

جہانگیر پوری کیس میں گرفتار افراد کے خلاف 13 الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جن میں فسادات، آتش زنی، قتل کی کوشش اور مجرمانہ سازش شامل ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق کرائم برانچ نے 9 آتشیں اسلحہ، پانچ کارتوس، دو استعمال شدہ گولیوں کے خول، نو تلواریں اور 11 ملزمان کے کپڑے ضبط کیے ہیں جو انھوں نے تشدد کے دوران پہن رکھے تھے۔

]]>
43457
لوک سبھا انتخابات سے پہلے بنگال میں سی اے اے نافذ کیا جائے گا، ریاستی بی جے پی سربراہ کا دعویٰ https://dawatnews.net/caa-will-be-implemented-in-bengal-before-lok-sabha-polls-claims-state-bjp-chief-sukanta-majumdar/ Wed, 06 Jul 2022 15:37:01 +0000 https://dawatnews.net/?p=43428 بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر سوکانتا مجومدار نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ شہریت ترمیمی قانون کو لوک سبھا انتخابات سے پہلے مغربی بنگال میں نافذ کیا جائے گا۔]]>

نئی دہلی، جون 6: بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر سوکانتا مجومدار نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ شہریت ترمیمی قانون کو لوک سبھا انتخابات سے پہلے مغربی بنگال میں نافذ کیا جائے گا۔

مجومدار نے کہا ’’بی جے پی کے پاس اپنے وعدوں کو نبھانے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ ہم نے رام مندر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم نے یہ کیا ہے. سی اے اے ہمارا مقصد ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔ اسے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے نافذ کیا جائے گا۔‘‘

شہریت ترمیمی قانون، جسے پارلیمنٹ نے 11 دسمبر 2019 کو منظور کیا تھا، بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ اقلیتی مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال تک ہندوستان میں رہ چکے ہوں اور 31 دسمبر 2014 سے پہلے ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

تاہم اس قانون کو نافذ کرنا ابھی باقی ہے، کیوں کہ شہریت ترمیمی قانون کے قواعد وضع ہونا باقی ہیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے قواعد کی تشکیل میں تاخیر ہوئی ہے اور اس نے متعدد مرتبہ اس کام کے لیے معینہ مدت میں توسیع کی درخواست کی ہے۔

شہریت ترمیمی قانون کو امتیازی قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر اس کی تنقید کی گئی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ اس کا استعمال شہریوں کے قومی رجسٹر کے ساتھ انھیں ہراساں کرنے اور حق رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اس نے ملک بھر میں زبردست احتجاج کو جنم دیا تھا۔

تمل ناڈو، مغربی بنگال، کیرالہ، پنجاب، راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی کئی ریاستوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قرارداد بھی منظور کی ہے۔

2021 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے مغربی بنگال کے لیے اپنے منشور میں پارٹی کی حکومت بننے پر اپنی پہلی کابینہ میٹنگ میں سی اے اے کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم ریاست میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کی لیڈر اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ وہ ریاست میں سی اے اے نافذ نہیں ہونے دیں گی۔

مئی میں بنرجی نے دعویٰ کیا تھا یہ قانون ختم ہوچکا ہے۔

دریں اثنا مغربی بنگال پردیش کانگریس کے سربراہ ادھیر رنجن چودھری نے منگل کو کہا کہ یہ قانون ابھی جلد نافذ نہیں ہونے والا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ترنمول کانگریس کے ریاستی جنرل سکریٹری کنال گھوش نے کہا کہ وہ بی جے پی کی ’’تقسیم کی سیاست‘‘ میں یقین نہیں رکھتے۔

گھوش نے کہا ’’یہ [بی جے پی] ملک کی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ تمام محاذوں پر ناکام رہی ہے اور لوک سبھا انتخابات سے صرف دو سال قبل یہ بیانات عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہیں۔‘‘

]]>
43428