خواتین پر تشدد اور استحصال کے بڑھتے رجحان کو روکنا وقت کی ضرورت: شعبہ خواتین، جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی، اکتوبر 31 (پریس ریلیز): جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی جانب سے’خواتین پرتشدد اوران کے استحصال کا ثقافتی معمول‘کے عنوان سے ایک ویبنار منعقد کیا گیا جس میں مختلف طبقات فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز خواتین اور سماجی کارکنان نے اظہار خیال کیا۔ شرکاء نے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے اہانت ا ٓمیز سلوک اور انہیں انسان سمجھنے کے بجائے ایک جنسی شئے کی طرح برتاؤ کرنے کے مزاج اور تشدد کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ ‘دی ویمن ایجوکیشن اینڈ ایمپاورمنٹ ٹرسٹ’ کی جنرل سیکرٹری محترمہ شائستہ رفعت صاحبہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ "خواتین پر تشدد اور ان سے بدسلوکی کسی ایک ملک کا مسٔلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس صورت حال سے دوچار ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں صورت حال سنگین ہے ۔ خواتین کو انسان نہ سمجھنے اور ایک شئے کی طرح ان کے ساتھ سلوک کرنے کا جو مزاج معاشرے میں پنپ رہا ہے اس کے پس پشت سماج میں مرد کی برتری والی ذہنیت اور خود عورت کا اس صورت حال کو قبول کرلینا ہے۔ سرمایادارانہ نظام اورمیڈیا سب عورت کا استعمال ایک سامان کی طرح کر رہے ہیں۔ ہم سب کو ان حالات کو بدلنے کی کوششوں میں تیزی لانی چاہیے” ۔
ویبنار کے افتتاحی خطاب میں محترمہ رحمت النسا صاحبہ نیشنل سیکرٹری شعبہ خواتین ، جماعت اسلامی ہند نے خواتین کے استحصال اور تشدد پر سماج کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ گھر،بازار ،کام کی جگہ ، کہیں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں اس پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے خلاف خواتین کوآواز اٹھانی چاہیے تاکہ عورت کو عورت کی حیثیت سے جینے کا حق ملے”۔ ویبنار کو خطاب کرتے ہوئے ‘ آپریشن پیس میکر اور مائی چوائسیز فاونڈیشن’ کی محترمہ ڈاکٹر فرزانہ خان نے عورت کے تعلق سے سماج میں پائے جانے والے نظریے کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ایسے قوانین ہونے چاہئیں جس سے مظلوم عورت کو انصاف ملے”۔ ایڈووکیٹ ویشالی ڈولاس نے میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی عریانیت کو روکنےپرزور دیا اور کہاکہ بلقیس بانو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف ہم کو آواز اٹھانی چاہیے”۔ جنرل سیکرٹری ‘نیشنل فیڈریشن آف جی آئی او(گرلس اسلامک آرگنائزیشن )’ ثمر علی نے کہا کہ حجاب پہننے کی بات ہو یاعبا، پہننے والے کی پسند پرمنحصر ہے۔ پہننے والوں کو شدت پسند کہنا انتہائی غلط ہے۔ عورت سامان نہیں ہے ۔عورت کے استحصال کے خلاف ہمیں جدوجہد کرنی ہے تاکہ سماج میں انہیں صحیح مقام مل سکے”۔ ‘ ونچت بہوجن آگہری ‘ کی ممبر محترمہ جے شری شرکے نے کہا کہ عورت سامان تعیش نہیں ہے۔ عورتوں کو چاہیے کہ اپنے حقوق کی لڑائی خود لڑیں اور مظلوم خواتین کو انصاف دلانے کی کوشش کریں”۔ ‘ ویمن پالی ٹیکنک کالج ، گونٹور آندھرا پردیش میں الکٹرانک ڈپارٹمنٹ کی ایچ او ڈی محترمہ رما سندری نے کہا کہ مقابلہ حسن کا کلچر عام ہونے کے بعد عورت بکاؤ چیز بن گئی ہے۔ انہوں نےمسلم خواتین میں آنے والی تبدیلی خصوصاً سی اے اے اور کورونا وبا کے دوران مسلم خواتین کی خدمات کو سراہا”۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اما سنگھ نے کہا کہ عورت پر تشدد عام ہے۔ گھر ہو یا دفتر۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم دلوائیں اور انہیں ظلم برداشت کرنے اور چپ رہنے کی تعلیم نہ دیں دے”۔ ۔اس ویبنار کی نظامت ثنا شیخ نے کی ۔ محترمہ مبشرہ فردوس صاحبہ نے استقبالیہ خطاب پیش کیا اور عارفہ پروین صاحبہ نے مقررین اور تمام شرکاء و ناظرین کا شکریہ ادا کیا۔