صحافی صدیق کپن کے ساتھ گرفتار کیے گئے عتیق الرحمن کو یو اے پی اے کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دی
نئی دہلی، مارچ 15: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز پی ایچ ڈی اسکالر اور کارکن عتیق الرحمن کو ہاتھرس اجتماعی عصمت دری سے متعلق غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کیس کے سلسلے میں ضمانت دے دی۔
تاہم عتیق کے وکیل شیران علی نے بتایا کہ وہ ابھی جیل میں ہی رہے گا کیوں کہ اسے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے مقدمے میں ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔
عتیق کو اکتوبر 2020 میں صحافی صدیق کپن، محمد عالم اور طالب علم مسعود احمد کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اتر پردیش کے ہاتھرس جا رہے تھے، جہاں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت خاتون کے ساتھ چار اعلیٰ ذات کے ٹھاکر مردوں نے مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کے بعد اسے قتل کر دیا تھا۔
اتر پردیش پولیس نے چاروں ملزمان کے خلاف بغاوت کے الزامات اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
پھر فروری 2021 میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ کے تحت بھی ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ مرکزی ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ عتیق الرحمٰن اور تین دیگر افراد نے اب کالعدم قرار دی گئی پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے ’’فسادات بھڑکانے‘‘ کے لیے رقم وصول کی تھی۔
بدھ کو عتیق کے وکیل شیران علوی نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے اس حقیقت پر غور کیا کہ وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہے اور اس کے شریک ملزمان کپن اور عالم کو ضمانت مل گئی ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ منی لانڈرنگ کیس میں رحمان کے بینک اکاؤنٹ میں صرف 5000 روپے منتقل ہوئے تھے۔
عالم کو UAPA کیس میں 23 اگست کو ضمانت دی گئی تھی۔ اس کے ایک ہفتہ بعد لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے PMLA کیس میں عالم کو کڑی شرائط، 2 لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے اور اتنی ہی رقم کی دو ضمانتوں پر ضمانت دی تھی۔
9 ستمبر کو سپریم کورٹ نے یو اے پی اے کیس میں صدیق کپن کو ضمانت دی تھی، جب کہ 23 دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ نے انھیں منی لانڈرنگ کیس میں بھی ضمانت دے دی۔ تاہم ضمانت کے احکامات کے باوجود کپن افسر شاہی کی تاخیر کی وجہ سے ایک ماہ سے زائد عرصے تک جیل میں رہے۔