!شہری آزادیوں کو سلب کرنے والے غیر آئینی قوانین
ایمرجنسی کی مذمت کرنے والے جمہوری حقوق پر شب خون مارنے لگے؟
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
سیول سوسائٹی جدید فوجداری قوانین کے خلاف اٹھ کھڑی ہو
صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو نے ہندوستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25 جون 1975 کو لگائی گئی قومی ایمرجنسی ملک کے دستور پر سب سے بڑا حملہ تھا۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے اس اقدام کو جمہوریت کے سیاہ باب سے تعبیر کیا۔ صدر جمہوریہ کا عہدہ ایک دستوری عہدہ ہوتا ہے۔ اس منصب جلیلہ کا تقاضا تھا کہ صدر جمہوریہ کوئی سیاسی تبصرہ نہ کریں۔ لیکن انہوں نے این ڈی اے حکومت کی جانب سے تیار کی گئی تقریر کو پڑھ دیا۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہو سکتی ہے یا انہوں نے حکومت کو خوش کرنے کے لیے پرانے زخموں کو تازہ کر دیا۔ صدر جمہوریہ کے علاوہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے بھی ایوان میں ایمرجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے غیر آئینی اقدام قرار دیا۔ وزیر اعظم نریندرمودی کو تو موقع ہی مل گیا، انہوں نے کہا کہ جو لوگ آج دستور کے تحفظ کا دعویٰ کر رہے ہیں انہی کے ہاتھوں دستور پامال ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ایمرجنسی کے ذریعہ شہریوں کی آزادیاں سلب کرلی گئی تھیں اور اس دوران میڈیا کی آزادی بھی ختم کر دی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت نے گزشتہ دس سال سے ملک میں ایمرجنسی سے بھی بُرے حالات پیدا نہیں کر دیے ہیں اور حکومت سے سوال کرنے والے پابند سلاسل نہیں کیے جا رہے ہیں؟ اس پس منظر میں یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ این ڈی اے حکومت نے جمہوریت کے تحفظ اور دستور کی بالادستی کو باقی رکھا ہے۔ قانون کی حکم رانی کا تصور اب محض کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔ آئین میں درج شہریوں کی آزادیوں کا تحفظ ایک خواب بن کر رہ گیا۔ حکومت جب چاہے اور جیسے چاہے شہریوں کے حقوق پر شب خون مار سکتی ہے۔ حکومت اب کسی معاملہ میں اپنے آپ کو جواب دہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تیسری مرتبہ اقتدار ملنے کے بعد حکومت کے تیور اور بھی بدل گئے ہیں۔ حالاں کہ بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں اخلاقی شکست ہوئی ہے۔ عوام نے اس پارٹی کو مسترد کر دیا ہے۔ انتخابات میں بی جے پی کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہو سکی اور حکومت کی تشکیل کے لیے سہاروں کو تلاش کرنا پڑا۔ بیساکھیوں پر ٹِکی حکومت ملک کے شہریوں کو راحت و اطمینا ن دینے کے بجائے ان کے حقوق اور آزادیوں کو ختم کرنے کے در پے ہے۔
یکم جولائی ۲۰۲۴ سے ملک میں نافذ نئے فوجداری قوانین کو ملک کے بدلتے ہوئے اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان قوانین کو حکومت نے جس جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دسمبر ۲۰۲۳ میں منظور کیا تھا اسی عجلت پسندی کے ساتھ اسے ملک میں لاگو بھی کر دیا گیا۔ ان قوانین کے متعلق اس وقت سے ہی اندیشے ظاہر کیے جا رہے تھے جب انہیں اگست ۲۰۲۳ میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ حکومت کا ادعا تھا کہ نوآبادتی دور کے تعزیراتی اور فوجداری قوانین ظالمانہ نوعیت کے ہیں اس لیے ان کو ختم کر کے نئے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں تاکہ جدید عدالتی قوانین کے ذریعہ عوام کو انصاف فراہم ہو سکے۔ کسی بھی قانون کو پارلیمنٹ میں منظور کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان قوانین کی غرض و غایت کیا ہے۔ آیا یہ قوانین ملک کی ضرورتوں کی تکمیل اور عوام کی آرزوؤں و امنگوں کو پوراکرنے کے لیے وضع کیے جا رہے ہیں۔ برطانوی نظام کے تین قوانین، قانون تعزیرات ہند، ضابطہ فوجداری اور قانون شہادت کو بالترتیب بھارتیہ نیایا سنہتا، بھارتیہ ناگرک سرکھشا سنہتا اور بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم کا نام دے کر اسی مہینے کی پہلی تاریخ سے نافذ کیا گیا۔ حکومت ان قوانین کو روبہ عمل لانے کی یہ دلیل دے رہی ہے کہ ان کے ذریعہ غلامی کی یادگار کو ختم کر دیا گیا اور ملک کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جدید قوانین مدون کیے گئے ہیں۔ جبکہ ماہرین قانون نے حکومت کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نئے قوانین میں برطانوی دور کے قوانین کی بہت ساری دفعات موجود ہیں۔ کانگریس کے سنیئر لیڈر اور قانون داں پی چدمبرم نے کہا کہ ان قوانین میں ۹۰ تا ۹۹ فیصد حصہ کاپی پیسٹ ہے اور جو نئی دفعات شامل کی گئیں ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ ایک اور قد آور سیاست داں اور ماہر قانون کپل سبل کا کہنا ہے کہ اس میں بھارتیہ کے لفظ کے سوا اور کوئی چیز نئی نہیں ہے۔ مروجہ قوانین میں ہی ترمیم کرکے اسے قابل عمل بنایا جا سکتا تھا۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہ قوانین پارلیمنٹ میں ایسے وقت منظور کیے گئے جب کہ پارلیمنٹ کے 146 ارکان کو ایوان سے معطل کر دیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے حکومت نے یکطرفہ طور پر انہیں منظور کرکے عوام پر مسلط کر دیا۔ اب جب کہ ان قوانین کا نفاذ عمل میں آچکا ہے اس پر جو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اسے دور کرنا حکومت کی اولین ذ مہ داری ہے۔ ان قوانین کے ذریعہ جہاں شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی وہیں پولیس کو وسیع تر اختیارات تفویض کر دیے گئے۔ ان قوانین کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومت نے ایک جمہوری معاشرہ کو پولیس اسٹیٹ میں بدل دینے کا کام کیا۔ یہ قوانین ملک میں ایک استبدادی نظام کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ یہ قوانین ملک کو آمریت کی راہ پر ڈال دیں گے۔ کوئی عام شہری حکومت سے کوئی سوال نہیں کر سکے گا۔ آزاد ملک میں لوگ گھٹن کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ملک میں پہلے سے دہشت گردی کو نمٹنے کے قوانین موجود ہیں، اب مزید خطرناک قانون بنا دیا گیا ہے۔ جمہوری اور پرامن احتجاج بھی دہشت گردی کے زمرے میں آجائے گا۔ نظریاتی اور سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو بھی دہشت گرد مانا جائے گا۔ان قوانین کے نفاذ سے انسانی حقوق کی پامالی کے پورے امکانات ہیں لیکن حکومت کا دعوی ہے کہ نئے قوانین شخصی آزادی اور حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
اقلیتوں اور دیگر محروم طبقات کے حوالے سے ان قوانین کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان قوانین کا ان کے خلاف بے جا استعمال ہو گا۔ پولیس اور دیگر قانون کی ایجنسیاں من مانی انداز میں ان قوانین کا سہارا لے کر ان طبقات کو پریشان کرنے کی کوشش کریں گی جبکہ پہلے سے ہی یہ طبقے پولیس کے عتاب کا شکار ہیں۔ اب پولیس کے ہاتھوں میں ایک نیا ہتھیار تھما دیا گیا ہے۔ اب پولیس کسی بھی شخص کو ۹۰ دن تک اپنی تحویل میں رکھ سکتی ہے۔ پولیس کسی بھی ملزم کو ہتھکڑی پہنا کر سر بازار گھما سکتی ہے۔ ایف آئی آر کو درج کرنا بھی اب پولیس کی صوابدید پر ہوگا۔ صرف شک کی بنیاد پر کسی کو بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں چودہ فیصد مسلم آبادی ہے لیکن ۲۰ فیصد مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔ سابق میں پوٹا اور ٹاڈا جیسے ظالمانہ قوانین بنا کر مسلمانوں کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں۔ اب ان نئے قوانین کے ذریعہ ان کی زندگی کو اجیرن کیا جائے گا۔ ان قوانین کے خلاف متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں اس وقت ایک مضبوط اپوزیشن موجود ہے۔ اس کی ذ مہ داری ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ ان قوانین پر نظر ثانی کرے۔انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں دستور کے تحفظ اور جمہوریت کی بحالی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا لیکن ان قوانین سے متعلق عوامی شعور کو بیدار نہیں کیا۔ سیکولر پارٹیوں کی جانب سے ان قوانین کی مزاحمت کی جاتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اب بھی انڈیا الائنس کی جانب سے ان قوانین کی اس انداز میں مخالفت نہیں ہو رہی جیسی کہ ہونا چاہیے تھا۔ اس سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی یا تو حکومت سے خوف کھائی ہوئی ہیں یا انہیں عوام کے مفادات کی فکر نہیں ہے۔ گزشتہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ہی اس مسئلہ پر حکومت کو گھیرنا چاہیے تھا۔ نیٹ امتحان کے بارے میں ایوان میں جس انداز میں اپوزیشن پارٹیوں نے ایوان کی کارروائی چلنے نہیں دی اسی نوعیت کا احتجاج ان قوانین کے ضمن میں پارلیمنٹ میں ہوتا تو حکومت ان قوانین پر دوبارہ غور کرنے پر آمادہ ہوجاتی۔ اب جب کہ جولائی کے آخری ہفتہ میں پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن شروع ہو رہا ہے انڈیا الائنس کو اس جانب توجہ دینی ہو گی۔ اپوزیشن پارٹیوں کی اس معاملے میں غفلت خود ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ آنے والے دنوں میں حکومت ان کی آواز کو دبانے کے لیے ان قوانین کا بے دریغ استعمال کرے گی۔ کتنے ہی سیاست داں ابھی جیلوں میں بند ہیں اور کتنے ہی ای ڈی اور سی بی آئی کے نشانے پر ہیں۔ ملک کو مطلق العنانی کے دور میں جانے سے بچانے کے لیے ایسے قوانین سے دستبرداری کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا اپوزیشن پارٹیوں کے لیے موجودہ حالات میں لازمی ہو گیا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کا دانشور طبقہ جس میں ریٹائرڈ ججس، بیورکریٹس ، ایڈووکیٹس، صحافی اور یونیورسٹی کے پروفیسرس اور طلباء شامل ہیں وہ مسلسل ان قوانین کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایسے نازک وقت سیول سوسائٹی کے افراد کا رول بھی اہم ہے۔ وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ان قوانین پر دوبارہ غور و خوض کر کے اس کی خامیوں کو دور کرے۔ ان نئے قوانین سے متعلق جو اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں اسے دور کرنا حکومت کا فرض ہے۔ حالات کے اس تناظر میں مسلمانوں کو بھی بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو آزمائشوں سے بچانا چاہیے۔ ان قوانین کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے ہم اپنی حکمت عملی ترتیب دیں۔ کوئی بھی کام کرتے ہوئے اس کے قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت غیر ضروری طور پر کسی کو بھی اپنے شکنجہ میں نہ لے سکے۔ اس لیے قانونی شعور بیداری بھی وقت کی اہم اور لازمی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے حقوق اور آزادیوں کو محفوظ رکھ سکیں۔
***
***
یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کا دانشور طبقہ جس میں ریٹائرڈ ججس، بیورکریٹس ، ایڈووکیٹس، صحافی اور یونیورسٹی کے پروفیسرس اور طلباء شامل ہیں وہ مسلسل ان قوانین کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایسے نازک وقت سیول سوسائٹی کے افراد کا رول بھی اہم ہے۔ وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ان قوانین پر دوبارہ غور و خوض کر کے اس کی خامیوں کو دور کرے۔ ان نئے قوانین سے متعلق جو اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں اسے دور کرنا حکومت کا فرض ہے۔ حالات کے اس تناظر میں مسلمانوں کو بھی بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو آزمائشوں سے بچانا چاہیے۔ ان قوانین کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے ہم اپنی حکمت عملی ترتیب دیں۔ کوئی بھی کام کرتے ہوئے اس کے قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت غیر ضروری طور پر کسی کو بھی اپنے شکنجہ میں نہ لے سکے۔ اس لیے قانونی شعور بیداری بھی وقت کی اہم اور لازمی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے حقوق اور آزادیوں کو محفوظ رکھ سکیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024