قبول اسلام کے بعد جنہوں نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کردی
ہندہؓ نام تھا اور قریش کے خاندان بنو عبد شمس سے تھیں۔ نسب نامہ یہ ہے: ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
عتبہ بن ربیعہ قریش کا معزز ترین سردار تھا۔ ماں کا نام صفیہ بنت امیہ تھا۔ پہلے فاکہہ بن مغیرہ مخزومی سے نکاح ہوا۔ ان سے نباہ نہ ہوسکا تو ابو سفیان بن حرب کے نکاح میں آئیں۔
ہندہ کا باپ عتبہ بن ربیعہ اور شوہر ابو سفیان اسلام کے سخت دشمن تھے اور ہندہ بھی اسلام دشمنی میں ان سے کم نہ تھیں۔ ہجرت کے بعد ۲ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا اس میں ہندہ کا والد عتبہ قریش کے کئی دوسرے سرداروں کے ہم راہ مارا گیا، جن میں ابو جہل بھی تھا۔ اس کے بعد مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان کے ہاتھ آئی۔ ہندہ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا وہ بڑی شعلہ بیان مقرر تھی اور باپ کے قتل نے ان کے دل میں جذبہ انتقام کے شعلے بھڑکادیے تھے۔ ۳ ہجری میں مشرکین مکہ نے ابو سفیان کی زیر قیادت بڑی تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا اور غزوہ احد پیش آیا۔ ہندہ خصوصیت سے حضرت حمزہؓ سے انتقام لینا چاہتی تھیں جنہوں نے ان کے باپ کو قتل کیا تھا۔
چناں چہ انہوں نے جبیر بن مطعم کے غلام وحشیؓ کو حضرت حمزہؓ کے قتل پر آمادہ کیا۔ وحشی بھالا پھینکنے میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ جب لڑائی کا تنور گرم ہوگیا تو ہند نہایت اشتعال انگیز رجز پڑھ پڑھ کر کفار کو جوش دلارہی تھیں۔ وحشی گھات لگاکر بیٹھ گئے۔ حضرت حمزہؓ جوں ہی ان کی زد میں آئے انہوں نے اپنا بھالا پھینکا جو حضرت حمزہؓ کے جسم کے پار ہوگیا۔ اور ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ کفار کی عورتوں نے اس رجل عظیم کی شہادت پر مسرت کے گیت گائے۔ ہندہ نے جوش انتقام میں حضرت حمزہؓ کا پیٹ چاک کرکے جگر نکالا اور چبا گئیں لیکن گلے سے نہ اترسکا، اس لیے اگلنا پڑا۔ رسول کریمؐ کو اس دردناک واقعے سے بے حد صدمہ پہنچا۔
۸ ہجری میں رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کیا اور فاتحانہ شان سے دس ہزار صحابہ ؓ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ اس وقت کوئی ایسی طاقت نہ تھی جو رسول کریمؐ کو انتقام لینے سے روک سکتی۔ لیکن رحمت دو عالمؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ حتی کہ اعلان فرمایا کہ جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر میں پناہ لے گا اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ ابو سفیانؓ نے فتح مکہ سے ایک دو دن پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ہندہؓ پر بھی اب اسلام کی صداقت واضح ہوچکی تھی چناں چہ وہ چند برقعہ پوش خواتین کے ہم راہ رسول کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں۔ اس موقعے پر حضورؐ اور ان کے درمیان یہ گفتگو ہوئی۔
ہندہ: یا رسول اللہؐ آپ ؐ ہم سے کن باتوں پر بیعت لیتے ہیں۔
سرور کائناتؐ : شرک نہ کرو اور خدا کا وحدانیت کا اقرار کرو۔
ہندہؓ : یہ عہد آپؐ نے مردوں سے نہیں لیا تاہم ہمیں منظور ہے
سرور کائناتؐ : چوری نہ کرو۔
ہندہؓ : میں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ کر ڈالتی ہوں، معلوم نہیں یہ جائز ہے یا نہیں۔
سرور کائناتؐ : اولاد کو قتل نہ کرو۔
ہندؓ: ہم نے اپنے بچوں کو پالا تھا )قتل نہیں کیا تھا) جب بڑے ہوئے تو آپؐ نے قتل کر ڈالا۔
رسول کریمؐ کا دامن بڑا کشادہ تھا۔ ہندہ نے اگرچہ آپؐ کے محبوب چچا کا جگر چبایا تھا اور پھر اس موقع پر بھی ایسی بے باکانہ بلکہ گستاخانہ گفتگو کی تھی لیکن رحمت عالمؐ نے ان کی تمام خطاوں کو بخش دیا۔ ہندہؓ کو اپنی جاں بخشی کی امید نہیں تھی لیکن جب رحمتہ للعالمینؐ نے انہیں بالکل معاف کردیا تو ان کے دل کی دنیا یکسر بدل گئی اور وہ صدق دل سے مسلمان ہوگئیں۔ اس وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا:
’’یا رسول اللہؐ اس سے پہلے آپ سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی دشمن نہ تھا۔ لیکن آج حضورؐ سے زیادہ کوئی محبوب و محترم نہیں‘‘۔
اس کے بعد گھر جاکر اپنے معبودیت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
قبول اسلام کے بعد حضرت ہندہؓ کی زندگی یکسر خدمت اسلام کے لیے وقف ہوگئی۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں وہ اپنے شوہر حضرت ابو سفیانؓ کے ساتھ شام جانے والے مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوگئیں۔ جس جوش و خروش کے ساتھ یہ دونوں میاں بیوی مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوا کرتے تھے اس سے کئی گنا زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کفار کے خلاف جہاد میں حصہ لیا اور اپنے قبول اسلام سے قبل کی اسلام دشمنی کا کفارہ ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
شام کی جنگوں میں جنگ یرموک ایک زبردست اور فیصلہ کن جنگ تھی، جس میں قیصر روم نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ بعض روایتوں کے مطابق رومی لشکر کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ مجاہدین اسلام کی تعداد صرف تیس اور چالیس ہزار کے درمیان تھی۔ اس جنگ میں حضرت ہندہؓ اور ان کے شوہر ابو سفیانؓ دونوں بڑے جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ لڑائی میں دشمن کے زبردست دباو کی وجہ سے مسلمانوں کے قدم کئی بار پیچھے ہٹے لیکن عورتوں نے ان کو غیرت دلائی اور خود خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر یا پتھر ہاتھوں میں لے کر رومیوں پر حملہ آور ہوگئیں۔ حضرت ہندؓ رجز پڑھ پڑھ کر مسلمانوں میں جوش پیدا کرتی تھیں۔ یہ ہندہ اور دوسری خواتین کی غیرت و استقامت ہی تھی کہ پیچھے ہٹتے ہوئے مسلمان پلٹ کر اس زور سے رومیوں پر حملہ کرتے کہ ان کے پرے کے پرے کاٹ کر رکھ دیتے۔
ایک موقعے پر پیچھے ہٹنے والے مسلمانوں میں حضرت ابو سفیان ؓ بھی تھے۔ ہندؓ نے انہیں دیکھ لیا، اپنے خیمے کی چوب لے کر ان کی طرف لپکیں اور کہا:
’’خدا کی قسم تم دین حق کی مخالفت کرنے اور خدا کے سچے رسولؐ کو جھٹلانے میں بہت سخت تھے۔ آج موقع ہے کہ رزمگاہ میں دین حق کی سربلندی اور رسول خداؐ کی خوش نودی کے لیے اپنی جان قربانی کرو اور خدا کے سامنے سرخرو جاو‘‘۔
حضرت ابو سفیانؓ کو سخت غیرت آئی اور پلٹ کر شمشیر بہ دست دشمن کے ٹڈی دل میں گھس گئے۔
اسی جنگ میں ایک اور موقع پر رومی عورتوں کی خیمہ گاہ تک آپہنچے۔ تمام عورتوں نے جن میں حضرت ام ابانؓ، ام حکیمؓ، خولہ بنت ازور اور ہندہؓ بھی شامل تھیں اپنے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر رومیوں کا منہ پھیردیا۔ جب تک مسلمانوں کا ایک دستہ ان کی مدد کو نہ آپہنچا وہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہیں اور متعدد رومیوں کو جہنم واصل کیا۔
حضرت ہندہؓ نے حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ ان کی اولاد میں امیر معاویہؓ تاریخ اسلام کی نامور شخیصت ہیں۔
ابن اثیرؒ نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ :
’’حضرت ہندہؓ ایک خود دار، غیرت مند، صائب الرائے اور دانش مند خاتون تھیں‘‘
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طبعاً نہایت فیاض تھیں۔
شعر و شاعری میں بھی درک رکھتی تھیں، غزوہ بدر میں اپنے بھائی ابو حذیفہؓ کو شعروں میں ملامت کی۔ اسی طرح غزوہ احد میں شعر پڑھ پڑھ کر مشرکین قریش کو لڑائی پر ابھارتی تھیں۔ جب ان کی زندگی میں انقلاب آگیا تو اپنے شعروں سے مجاہدین اسلام کو کفار کے خلاف جوش دلاتی تھیں۔ اہل سیر نے ان کے متعدد اشعار نقل کیے ہیں۔
ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ہجرت نبوی کے بعد جب حضرت زینب بنت رسول اللہؐ نے مکہ سے مدینہ جانے کے لیے رخت سفر باندھا تو ہندہؓ ان کے پاس گئیں اور کہا کہ:
’’اے بنت محمدؐ تم اپنے باپ کے پاس جارہی ہو اگر کچھ زادراہ وغیرہ کی ضرورت ہوتو بے تکلف کہ دو میں مہیا کردوں گی‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے عداوت رکھنے کے باوجود ان میں رواداری کا فقدان نہیں تھا۔ قبول اسلام کے بعد ان کے فطری جوہر خوب نمایاں ہوئے او رانہوں نے سابقہ زندگی کی تلافی اپنے حسن کردار سے کردی۔
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکارصحابیاتؓ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 جولائی تا 09 جولائی 2022