عدلیہ سے متعلق ٹویٹس کے لیے صحافی راجدیپ سردیسائی کے خلاف سپریم کورٹ نے از خود توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا

نئی دہلی، فروری 16: لائیو لا ڈاٹ اِن کے خبر کے مطابق عدالت عظمیٰ نے عدلیہ سے متعلق ٹویٹس پر صحافی راج دیپ سردیسائی کے خلاف از خود توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا ہے۔

یہ شکایت درخواست گزار آستھا کھرانہ نے دائر کی تھی۔ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کے ذریعے اسی شکایت کی بنیاد پر سردیسائی کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کرنے سے انکار کے پانچ ماہ بعد یہ توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ستمبر میں وینوگوپال کے فیصلے کے بعد درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا، جسے 9 فروری کو سو موٹو شکایت کے طور پر درج کیا گیا تھا۔

درخواست گزار نے جولائی اور اگست میں شائع صحافی کے ٹویٹس کا حوالہ دیا۔ بار اینڈ بنچ کے مطابق اگست سے ہونے والے ٹویٹس میں وکیل پرشانت بھوشن کے توہین عدالت کیس پر تبصرے تھے اور جولائی میں کیے گئے ٹویٹس سپریم کورٹ کے سابق جج ارون مشرا سے متعلق تھے۔

سپریم کورٹ کو دی جانے والی شکایت میں کھرانہ نے عرض کیا کہ سردیسائی نے پرشانت بھوشن توہین عدالت کیس میں عدالت کے فیصلے کی ساکھ پر نہ صرف سوال اٹھایا، بلکہ انھوں نے سابق ججوں اور ہندوستان کے چیف جسٹس پر بھی تبصرے کیے تھے۔ اس میں کہا گیا کہ انڈیا ٹوڈے کے اینکر نے ججوں کو اپنے فرائض اور ذمہ داریاں سکھانے کی بھی کوشش کی۔

درخواست گزار نے کہا کہ ’’اس معزز عدالت پر اس طرح کے حملے تقریر اور اظہار رائے کی آزادی نہیں ہیں، بلکہ اس (سردیسائی) نے عدالت کی ساکھ خراب کرنے اور عدالت کی بدنامی کرنے کے لیے جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے۔‘‘

کھورانا نے وینوگوپال کو شکایت کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ بھوشن کے خلاف توہین عدالت کیس میں فیصلے پر تنقید کرنے والے سردیسائی کے ٹویٹس ’’سستے پبلسٹی اسٹنٹ‘‘ تھے۔

اٹارنی جنرل نے کھرانا کو جواب دیا تھا کہ سردیسائی کے ٹویٹس سنگین نوعیت کے نہیں ہیں۔ وینگوپال نے کہا تھا کہ ’’ہماری جمہوریت کے ایک عظیم ستون کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی ساکھ کو پچھلے 70 سالوں میں یقین کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے۔ طنزیہ تبصرے اور محض تنقید سے گزرنا اگرچہ ناگوار گزرا ہے لیکن اس سے ادارے کے امیج کو خراب کرنے کا امکان نہیں ہے۔‘‘

معلوم ہو کہ توہین عدالت ایکٹ کے سیکشن 15 اور عدالت عظمی کی توہین عدالت سے متعلق کارروائی کے لیے ضابطہ نمبر 3 کے تحت نجی فرد کے ذریعہ دائر کردہ کسی مجرمانہ توہین عدالت کی درخواست کی سماعت سے پہلے اٹارنی جنرل یا سالیسیٹر جنرل کی رضامندی ضروری ہے۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی منظوری کے بغیر ازخود توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا۔ پرشانت بھوشن کے خلاف بھی سپریم کورٹ نے وینوگوپال کی منظوری کے بغیر توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا تھا۔