سپریم کورٹ نے یوپی حکومت سے کہا کہ وہ مذہبی تبدیلی کے کیس میں مولانا کلیم صدیقی کے مخصوص کردار کی وضاحت کرے
نئی دہلی، اگست 23: سپریم کورٹ نے منگل کو اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ وہ مولانا کلیم صدیقی سے منسوب ان کے اس مخصوص کردار سے آگاہ کرے، جنھیں مبینہ طور پر غیر قانونی مذہب تبدیلی سے متعلق ایک کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مولانا کلیم صدیقی، جو مغربی اتر پردیش کے ممتاز علماء میں سے ایک ہیں، کو ریاست کے انسداد دہشت گردی دستے نے ستمبر 2021 میں گرفتار کیا تھا۔
انسداد دہشت گردی اسکواڈ کا دعویٰ ہے کہ مولانا کلیم صدیقی ہندوستان کی ’’سب سے بڑی [مذہبی] تبدیلی سنڈیکیٹ‘‘ چلا رہے تھے۔ اس نے الزام لگایا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کا جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ پروگرام چلانے کے نام پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کر رہا ہے۔
مولانا کلیم صدیقی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اپریل میں ضمانت دی تھی۔ اتر پردیش پولیس نے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
منگل کو سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ گریما پرشاد نے، جو اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے، دلیل دی کہ ہائی کورٹ نے مولانا کلیم صدیقی کو صرف اس بنیاد پر ضمانت دی تھی کہ کیس میں دو شریک ملزمان کو بھی راحت دی گئی ہے۔
پرشاد نے کہا ’’اس کے علاوہ کوئی غور و فکر نہیں کیا گیا۔ لیکن کلیم صدیقی اس کیس کا مرکزی ملزم اور کلیدی سازش کار ہے۔‘‘
وہیں مولانا کلیم صدیقی کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے اتر پردیش حکومت کی طرف سے ان کے موکل کے خلاف لگائے گئے الزامات پر سوال کیا۔
سبل نے کہا ’’وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت ملزمین کے بیانات تیار کر رہے ہیں [جو کہ تفتیشی افسر کو دیے گئے زبانی بیانات سے متعلق ہے] اور عدالت سے ان پر بھروسہ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ ناقابل یقین ہے۔‘‘
اس کے بعد بنچ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس کیس میں مولانا کلیم صدیقی کے کردار اور الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے کیا بات رکھی گئی تھی، اس کے بارے میں تفصیلات فراہم کرے۔
سپریم کورٹ اس کیس کی اگلی سماعت 5 ستمبر کو کرے گی۔