!سنبھل: پولیس حراست میں عرفان کی موت، پولیس پر قتل کا الزام
اہل خانہ کا احتجاج۔ دوران حراست موت پر سوالات بڑھنے لگے
اکھلیش ترپاٹھی
سنبھل میں ایک شخص عرفان کی پولیس حراست میں افسوس ناک طور پر موت ہو گئی جس پر اس کے اہل خانہ نے پولیس پر تشدد کا الزام عائد کیا، جسے وہ اس کی موت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ لیکن سنبھل پولیس کا دعویٰ ہے کہ عرفان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ عرفان کی موت تھانے کے اندر ہی ہوئی۔ اس کے بیٹے عفران رضا نے کہا کہ پولیس نے میرے والد کی کوئی بات نہیں سنی۔ جب ان کی حالت تھانے میں بگڑنے لگی تو انہیں دوا تک لینے نہیں دی گئی۔ اگر انہیں دوا لینے دی جاتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتے۔
دوسری جانب سنبھل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کرشنا کمار وشنوئی کا کہنا ہے کہ عرفان کی طبیعت دورانِ حراست بگڑ گئی جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔
عرفان کے اہل خانہ پولیس کے اس بیان کو مسترد کیا اور اصرار کیا کہ عرفان کی موت تھانے میں ہی ہوئی اور پولیس جھوٹی کہانی گھڑ رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ جائیداد کے تنازع سے جڑا ہوا ہے جو شفیق بیگم اور ان کے بیٹے ارکان کے درمیان چل رہا تھا۔ یہ واقعہ نکھاسہ تھانے کے تحت حاتم سرائے علاقے میں پیش آیا۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے شفیق بیگم نے اپنے دیور کے بیٹے عرفان کو سرائے پریوں والا مندر علاقے سے بلوایا تاکہ وہ ثالثی کرے اور تصفیے کے دوران گواہ بنے۔
اس تصفیے کے تحت شفیق بیگم نے ارکان کو چھ لاکھ روپے دیے۔ 20 جنوری کو ارکان نے دوبارہ اپنی ماں سے جھگڑا کیا اور انہیں زد و کوب کیا۔ شفیق بیگم کو شبہ ہوا کہ عرفان نے ارکان کو مکمل رقم نہیں دی اور یہی اس جھگڑے کی بنیادی وجہ بنی۔
اس پر شفیق بیگم اسی روز نکھاسہ تھانے کی رائے ستی چوکی پہنچیں اور عرفان کے خلاف تحریری شکایت درج کرائی جس میں کارروائی کی درخواست کی گئی۔ ان کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پانچ پولیس اہلکار عرفان کے گھر پہنچے اسے گرفتار کر کے تھانے لے آئے، جہاں اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔
دورانِ تفتیش عرفان کی طبیعت بگڑ گئی اور کچھ ہی دیر بعد اس نے دم توڑ دیا۔ جب اہل خانہ کو عرفان کی موت کی خبر ملی تو اس کی بیوی ریشما، بچے اور دیگر رشتہ دار تھانے پہنچ گئے جہاں انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے پولیس پر قتل کا الزام عائد کیا۔ صورت حال کشیدہ ہونے پر پولیس نے اضافی فورس طلب کر لی جس میں دو تھانوں کی نفری، پی اے سی اور آر اے ایف کے اہلکار شامل تھے۔
سپرنٹنڈنٹ کرشنا کمار وشنوئی جائے وقوع پر پہنچے اور عرفان کے اہل خانہ کو سمجھانے کی کوشش کی، یہ مؤقف دہراتے ہوئے کہ عرفان کی موت تشدد سے نہیں بلکہ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔
پولیس کا مؤقف
سپرنٹنڈنٹ وشنوئی نے وضاحت کی "20 جنوری کو صبح 11:30 بجے شفیق بیگم نے نکھاسہ پولیس چوکی میں شکایت درج کرائی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے نے ان پر جسمانی حملہ کیا اور عرفان نے چھ لاکھ روپے واپس نہیں کیے جو انہوں نے اسے دیے تھے۔ اس شکایت کی بنیاد پر پولیس اہلکار عرفان کے گھر گئے اور اسے گرفتار کرکے رائے ستی چوکی لے آئے۔ عرفان نے دوا لینے کی درخواست کی جس کی اجازت پولیس نے دی۔ بعد میں اس نے سینے میں درد کی شکایت کی جس کے بعد اسے اس کے بیٹے کے ساتھ ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ فوت ہو گیا۔”
سپرنٹنڈنٹ نے مزید کہا "اس کی موت غالباً دل کے دورے کے باعث ہوئی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور موت کی حتمی وجہ رپورٹ آنے کے بعد واضح ہوگی۔ یہ الزامات کہ پولیس نے عرفان کو دوا لینے سے روکا گیا بالکل بے بنیاد ہیں۔”
اہل خانہ کے پولیس پر الزامات
عرفان کی اہلیہ ریشما نے اپنے شوہر کی موت کا الزام پولیس پر عائد کرتے ہوئے کہا "پانچ پولیس اہلکار ہمارے گھر آئے اور میرے شوہر کو لے گئے حالانکہ وہ بیمار تھے اور حال ہی میں مرادآباد میں ناک کی سرجری کروائی تھی۔ پولیس نے انہیں دوا بھی لینے نہیں دیا اور زبردستی ساتھ لے گئے۔ بعد میں ہمیں ان کی موت کی اطلاع ملی۔ اب ہمارے پانچ بچے یتیم ہو چکے ہیں ہمارا سہارا کون بنے گا؟”
ریشما نے مزید کہا "یہ معاملہ عرفان کی پھوپھی سے متعلق تھا۔ خاندان کے بزرگ ہونے کے ناطے عرفان نے مالی مدد فراہم کرنے میں کردار ادا کیا تھا لیکن اگر۔ ان کے بیٹے نے اس رقم کا غلط استعمال کیا تو اس میں عرفان کا کیا قصور تھا؟ پولیس جب آئی تو انہوں نے عرفان سے کہا کہ چونکہ پیسے اس نے دیے تھے لہٰذا وہی واپس لے کر آئے۔ وہ انہیں اسی بنیاد پر لے گئے اور اس کے بعد ہم نے انہیں زندہ نہیں دیکھا صرف ان کی موت کی خبر ملی۔”
بیٹے کا بیان
عرفان کے بیٹے عفران رضا نے کہا "پولیس نے میرے والد کی کوئی بات نہیں سنی۔ انہوں نے دوا تک لینے کی اجازت نہیں دی اور جب ان کی طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تب بھی انہیں دوا لینے نہیں دیا گیا۔ اگر انہیں دوا لینے دی جاتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتے۔”
سنبھل میں عمومی تاثر یہی ہے کہ عرفان کی موت تھانے میں ہی ہوئی لیکن سپرنٹنڈنٹ کرشنا کمار وشنوئی کا اصرار ہے کہ ان کی طبیعت تھانے میں بگڑی جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا انتقال ہوا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس کا یہ بیان حقیقت سے میل نہیں کھاتا اور وہ اپنے کردار کو چھپانے کے لیے ایک نئی کہانی گھڑ رہی ہے۔
عرفان کی موت کے بعد سنبھل پولیس کے رویے پر شدید سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگرچہ پولیس اپنی صفائی پیش کر رہی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ عرفان پولیس کی حراست میں ہی دم توڑ گئے اور ان کی موت کے حالات بدستور متنازعہ بنے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ: انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025