ڈاکٹر سلیم خان
عالمی عدالت ؛ ایک ایساشیرجوجنگل میں حکم رانی نہیں ،سرکس میں تماشا کرتا ہے
آئی سی سی اور آئی سی جےکے درمیانی فرق کو سمجھنا ضروری ہے
نتن یاہو کے عدالتی فیصلے کو نظر انداز کرنے سے بین الاقوامی عدالت سوالات کے گھیرے میں
شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن وہی سرکس میں جوکر کے سنگ شائقین کا دل بہلاتا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کا یہی حال ہے جس نے بالآخر اسرائیل کو یہ حکم دے ہی دیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی روکنے، نسل کشی پر براہ راست اکسانے کا عمل روکنے اور اس ضمن میں سزا دینے کے لیے اقدامات کرے لیکن جوکر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا بلکہ قہقہہ لگایا جاتا ہے۔ یہ نہایت مضحکہ خیزاور دل چسپ فیصلہ ہے کہ جس میں مجرم سے خود کو سزا دینے کے لیے کہا جارہا ہے ۔ وہ مجرم بھی اتنا ڈھیٹ ہے کہ اس نے پہلے تو مقدمہ مسترد کرنے کی درخواست کی اور جب بات نہیں بنی تو پیشگی اعلان کردیا کہ وہ عدالت کے فیصلوں کا پابند نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہےاسرائیلی حکم رانوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف ہوگا۔ اسی کو کہتے ہیں چور کی ڈاڑھی میں تنکا ۔ نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں واقع آئی سی جی نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے میں فوری اقدامات پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر عالمی سطح کی قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بنچ کی کرسی صدارت پرفائز امریکی جج جون ای ڈوناہیو نے غزہ میں جاری انسانی جانوں کے ضیاع پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔بین الاقوامی عدالت نے اسرائیل کے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست ٹھکراتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت کےپاس اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کے مقدمے میں ہنگامی اقدامات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیارہے۔ یہ دعویٰ تو درست ہے مگر چونکہ فیصلے نافذ کروانے کی سکت نہیں ہے اس لیے ان کا ہونا یا نہ ہونا بے معنیٰ ہے۔ویسے اسرائیل جیسی سفاک ریاست پر تو علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہےکہ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اس صدی کے سب سے بڑے مقدمے کی سماعت 11 جنوری کو شروع ہوئی ۔پہلے مدعی جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور اگلے دن مدعا الیہ اسرائیل کو جواب دینے کے لیے کہا گیا ۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز نہیں بن سکتی ۔جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونالڈ لامولا کی دلیل یہ تھی کہ ’کہیں پر کوئی مسلح حملہ چاہے جتنا سنگین کیوں نہ ہو، کنونشن کی خلاف ورزیوں کا نہ جواز فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ان کے مطابق ’سات اکتوبر کے حملے پر اسرائیل کا رد عمل نسل کشی کے حوالے سے کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاشم نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسرائیل کی بمباری کا مقصد ’فلسطینیوں کی زندگی کو تباہ کرنا‘ ہے اور اس نے انہیں ’قحط کے دہانے پر‘ دھکیل دیا ہے۔جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے طرز عمل ، ارادوں اور کارروائیوں کو نسل کشی کا مترادف بتایا کیونکہ کنونشن کے مطابق ایسا عمل نسل کشی قرار پاتا ہے جس کا "ارتکاب کسی قومی، نسلی، ثقافتی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیا گیا ہو‘‘۔جنوبی افریقہ نے الزام لگایا کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی پر مبنی ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔
ان سنگین الزامات کے جواب میں اسرائیلی وکلا نے اپنی مضحکہ خیز منطق سے غزہ میں ہلاکتوں کے لیے الٹا حماس کو ہی ذمہ دارٹھیرا دیا ۔ اسرائیل نے اپنا حق دفاع کا راگ چھیڑنے کے بعد حماس پر ہسپتالوں اور دیگر شہری مقامات کو استعمال کر نے کا بے تکا الزام لگادیا۔جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کے وکلا نے اپنے موکل کی کارروائیوں کے نسل کشی ہونے سے انکار کے بعد نہ صرف جنوبی افریقہ کی درخواست رد کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ بین الاقوامی عدالت کے دائرہ اختیار پر بھی سوال اٹھائے۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر ٹال بیکر نے آئی سی جے میں جنوبی افریقہ کے مؤقف کو بالکل بے بنیاد ، انتہائی مسخ شدہ اور بدخواہی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کا انکار کردیا کہ وہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اسرائیل کی ڈھٹائی کا بنیادی سبب اس کے اتحادی امریکہ کا اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرکے عالمی عدالت میں مضبوط دفاع کا عزم ظاہر کرنا ہے
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر نے اس دوران غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے 120 رکن ممالک سے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل سے قراردادیں منظور ہونے کے بعد بھی جنگ بندی کا ہونا مشکل ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے نسلی امتیاز کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ اسرائیل کے استعماری قبضے میں ہیں اور اپنے لوگوں کی نسل کشی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ لڑنے پر جنوبی افریقہ کا شکر یہ ادا کیا ۔ اس کے برعکس اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے عالمی عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت کے کسی فیصلے کے بعد بھی باز نہیں آئےگا، غزہ میں جنگ جاری رکھی جائے گی۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ جب تک اسرائیل حماس کو ختم یا شکست نہیں دے دیتا اس وقت تک دنیا کی کوئی عدالت، شیطانی چکر یا کچھ اور، انہیں نہیں روک سکتا۔یاہو نے درست کہا کیونکہ ابلیس کے پیروکار یہی سمجھتے ہیں کہ ان کو روکنا ناممکن ہے لیکن یہی کبر وغرور انہیں تباہ و برباد کردیتا ہے۔
بین الاقوامی عدالت سے جہاں ایک طرف کافی امیدیں وابستہ کی گئی ہیں وہیں یک گونہ مایوسی بھی پائی جاتی ہے ایسے میں اس کا مقصد اور طریقہ کار سے متعلق معلومات ضروری ہیں۔یہ اقوام متحدہ کے 6 بنیادی اداروں جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، معاشی و سماجی کونسل ، تولیتی کونسل اور سکرٹریٹ میں سے ایک ہے۔ اس کا دفتر نیویارک سے باہر نیدرلینڈ کے شہر ہیگ کے اندر واقع قصرِ امن میں ہے۔ 1945 میں مختلف ممالک کے مابین تنازعات کے تصفیے کی غرض سے اس کو قائم کیا گیا تھا تاکہ اس سےقانونی سوالات پر مشاورتی رائے لے کر اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کو بھیجا جائے، یعنی عام طورپر اس کے فیصلوں کی حیثیت مشورے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک یا اس سے زیادہ ممالک کی درخواست پروہ کسی تنازع کی سماعت کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نو سالہ مدت کے لیے اس کے 15 ججوں کا تقرر کرتی ہیں۔ یہ خودمختار جج اپنی حکومتوں کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ آزادانہ حیثیت سے کام کرتے ہیں۔اس عدالت نے 2019 میں ایران اور امریکہ کے درمیان ا یک مقدمے کا فیصلہ بھی سنایا تھا ۔ اس کے علاوہ روہنگیا اور گیمبیا سے متعلق اس کامقدمہ عالمی سطح پر بہت مشہور ہوا تھا کیونکہ اس سیاسی رہنماآنگ سان سوچی نے اپنے ملک کی پیروی کی تھی۔
اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کے مابین تنازعات کو دور کرکے متحارب ممالک کو جنگ سے بچانے اور ان کے بیچ امن و سلامتی قائم کرنے کی کوشش کرنے والا یہ منفرد ادارہ ہے۔ اس کا کام نہ صرف اقوام متحدہ اور دیگر مخصوص اداروں کی جانب سے قانونی معاملات پر طلب کردہ مشاورتی آرا دینا ہے بلکہ ‘نزاعی معاملات’ پر بحث کرنا بھی ہے ۔گزشتہ برس 29 دسمبر کو جنوبی افریقہ کی جانب سے درج کیا جانے والا اسرائیل کے خلاف نزاعی دعویٰ اس کی پہلی مثال ہے۔ اس سے قبل 2004 میں اس عدالت نے ایک مشاورتی رائے میں بتایا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقے اور مشرقی یروشلم کے اندر اور اس کے اردگرد دیوار کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ظلم کی فصیل کا کام جاری و ساری رہا۔ آگے چل کر 20 جنوری 2023 کو جنرل اسمبلی نے عدالت سے مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر رائے طلب کی تھی ۔ اس بارجنوبی افریقہ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ انسداد نسل کشی سے متعلق 1948 میں منظور کردہ اقوام متحدہ کے کنونشن کو مدنظر رکھتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر قومی و نسلی تباہی پر فیصلہ دے گا اس لیے یہ معاملہ پہلے سے زیادہ سنگین اور مختلف نوعیت کا ہے ۔
جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے درخواست کی سماعت کرنے والی 15 رکنی بینچ میں 3 عرب جج بنام مراقش کے جسٹس محمد بنونہ، لبنان کے نواف سلام اور صومالیہ کے عبدالقوی احمد یوسف شامل ہیں۔جسٹس محمد بنونہ 1943ء میں مراقش میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں وہ پہلی بار بین الاقوامی عدالت کے رکن منتخب ہوئے۔ 2001ء سے 2006ء کے درمیان وہ نیویارک میں اقوام متحدہ میں مراقش کے سفیر اور مستقل مندوب تھے۔جسٹس نواف سلام 1953ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1992ء میں پیرس کے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل سائنسز سے پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کیا، ہارورڈ لا اسکول سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری اور سوربون یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔جسٹس نواف سلام نے 2007ء سے 2017ء تک نیویارک میں لبنان کے سفیر اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے طور پر خدمات انجام دیں۔جج عبدالقوی احمد یوسف 1948ء میں شمال مشرقی قصبے بونتلاند میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 2009ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2018 سے 2021 تک عدالت۔
کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس بنچ میں دلویر بھنڈاری کا تعلق ہندوستان سے ہے اور وہ 2018 میں دوسری بار عدالت کا حصہ بنے تھے۔
’آئی سی جے‘ کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان فیصلوں کو اپنے قومی دائرہ اختیار میں نافذ کرنا متعلقہ ممالک کی ذمہ داری ہوتی ہے اور عام طور پر وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اس طرح عدالتی احکامات کی تعمیل ہوجاتی ہے۔ اسرائیل جیسا کوئی سر پھرا ملک اگر عدالت کے کسی فیصلے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری میں ناکام رہے تو پھر متاثرہ ملک کے لیے آخری چارہ کار سلامتی کونسل سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل متعلقہ معاملے پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قرارداد کی منظوری دے سکتی ہے۔ 1984 میں نکاراگوا نے کونٹرا باغیوں کے لیے امریکہ کی مدد کے خلاف ازالے کے لیے مقدمہ درج کرایا تھا۔ ‘آئی سی جے’ نے اس معاملے میں نکاراگوا کو حق بجانب ٹھیرایا تو امریکہ نے فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ نکاراگوا نے سلامتی کونسل سے رجوع کیااور وہاں اس کے حق میں قرارداد پیش بھی کی گئی مگر امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ اس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف آنے والے فیصلے کا کیا حشر ہوگا کیونکہ وہ امریکہ کی ایک ناجائز ریاست ہی ہے۔
جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت کےحالیہ حکم نامے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’آج عالمی قانون کی عمل داری کی فیصلہ کن فتح کا دن اور فلسطین کے لوگوں کے لیے انصاف کی تلاش میں اہم سنگ میل ہے۔حماس نے عالمی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’اہم‘ قرار دیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس سے ’اسرائیل تنہا ہو گا‘ اور غزہ میں اس کے جرائم دنیا کے سامنے آئیں گے۔ فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’بین الاقوامی عدالت کے ججوں نے حقائق اور قانون کا جائزہ لیا۔ انہوں نے انسانیت اور عالمی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔‘انہوں نے زور دے کرکہا کہ ’قابض طاقت اسرائیل سمیت‘ تمام ممالک ان اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں جن کا عالمی عدالت نے حکم دیا ہے‘۔ آگے چل کر بین الاقوامی عدالت صرف یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اسرائیل پر ہنگامی احکامات (عدالت کی اصطلاح میں عارضی اقدامات) نافذ کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں، اس بارے میں فیصلہ دوسرے مرحلے میں ہو گا اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ دوسرے مرحلے پر جنوبی افریقہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، انہیں صرف یہ ثابت کرناہےکہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ عدالت اگر اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے دیتی ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ نہیں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر نو احکامات نافذ کرے، جس میں فوری طور پر فوجی سرگرمیاں معطل کرنا اور مزید انسانی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہے۔ اب عدالت پر منحصر ہے کہ وہ تمام نو احکامات کا حکم دیتی ہے یا ان میں سے کوئی بھی نہیں یا مکمل طور پر مختلف احکامات بھی صادر کرتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ویسے تو عدالت جنگ بندی کا حکم دے سکتی ہے، لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل سےمناسب خوراک، پانی اور انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے پر اکتفا کرے گی ۔
اسرائیل ویسے تو ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے مگر اس کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ عدالت اگر نسل کشی کا ’خطرہ تسلیم کر لیتی ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جائےگا اور عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتے ہیں۔ماضی قریب میں روس نے یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا یہی معاملہ اسرائیل بھی کرسکتا ہے۔ اس کا ایک علامتی پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اخلاقی حمایت کھو دے گا۔ ویسے اس ناجائز ریاست کو اس کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد میکسیکو سے ایک حوصلہ بخش خبر یہ آئی ہے کہ وہاں پر وزارت خارجہ نے چلی کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کی حیثیت کو ممکنہ جرائم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوج داری عدالت سے رجوع کیا ہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اس نے یہ اقدام تشدد کے حالیہ اضافے خاص طور پر شہری اہداف کے خلاف بڑھتی ہوئی تشویش کے سبب کیا ہے۔یہ اس لحاظ سے قابل تعریف اقدام ہے کہ عالم انسانیت فلسطینیوں کا درد محسوس کرتی ہے۔
عام طور پر جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی) اور بین الاقوامی عدالت (آئی سی جے) کو ایک ہی ادارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں یہ فرق ہے کہ ‘آئی سی جے’ میں ممالک کے خلاف مقدمات دائر کیے جاتے ہیں جبکہ ‘آئی سی سی’ جرائم پر فیصلہ دینے والی عدالت ہے
۔ یہ جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات سنتی ہے یعنی اس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو ماخوذ کیا جاسکتا ہے کیونکہ فی الحال جبرو تشدد کا محور انہیں کی ذاتِ والا صفات ہے۔ مذکورہ بالا دونوں اداروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ‘آئی سی جے’ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جبکہ ‘آئی سی سی’ قانونی طور پر اقوام متحدہ کا حصہ نہیں ہے حالانکہ اس کی توثیق بھی جنرل اسمبلی نے ہی کی ہے۔اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ‘آئی سی سی’ کے فریق نہیں ہیں۔ تاہم یہ کسی بھی رکن ملک یا عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے والے ملک کے شہری کی جانب سے یا اس کی سرزمین سے ہونے والے مبینہ جرائم کی تحقیقات کر سکتی ہے۔ ‘آئی سی سی’ جنسی تشدد کے بطور جنگی ہتھیار استعمال سے لے کر بچوں کو جنگوں کے لیے بھرتی کرنے تک بہت سے جرائم پر مقدمات سننے اور فیصلہ دینے کی مجاز ہے اور ان سارے جرائم کا ارتکاب نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر ہورہا ہے اس لیے اسے ثابت کرنے کی خاطر کوئی محنت درکار نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مشق کابالآخر نتیجہ کیا نکلے گا؟اس صورتحال میں حماس کی بے مثال مزاحمت اس لیے اہم ہو جاتی ہے کیونکہ بقول شاعر مشرق
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
اسرائیل ویسے تو ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے مگر اس کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ عدالت اگر نسل کشی کا ’خطرہ تسلیم کر لیتی ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جائےگا اور عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتے ہیں۔ماضی قریب میں روس نے یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا یہی معاملہ اسرائیل بھی کرسکتا ہے۔ اس کا ایک علامتی پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اخلاقی حمایت کھو دے گا۔ ویسے اس ناجائز ریاست کو اس کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد میکسیکو سے ایک حوصلہ بخش خبر یہ آئی ہے کہ وہاں پر وزارت خارجہ نے چلی کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کی حیثیت کو ممکنہ جرائم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوج داری عدالت سے رجوع کیا ہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اس نے یہ اقدام تشدد کے حالیہ اضافے خاص طور پر شہری اہداف کے خلاف بڑھتی ہوئی تشویش کے سبب کیا ہے۔یہ اس لحاظ سے قابل تعریف اقدام ہے کہ عالم انسانیت فلسطینیوں کا درد محسوس کرتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024