امریکی فوج میں خواتین کے جنسی استحصال میں ریکارڈ اضافہ
نئی دہلی، ستمبر 2: پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں امریکی فوج میں جنسی استحصال کے کیسز میں اب تک کا ریکارڈ 13 فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس جنسی حملوں کے کم از کم 8866 کیسز درج کیے گئے، تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں جنسی استحصال کی روک تھام سے متعلق ادارے (ایس اے پی آر) کی طرف سے جمعرات کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 ستمبر 2021 تک جنسی حملوں کے 8866 کیسز درج کیے گئے جب کہ اس سے پچھلے سال یہ تعداد 7813 تھی۔ ان جنسی حملوں میں یا تو فوج میں کام کرنے والے افراد یا اپنے ماتحتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم متاثرین کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنسی حملوں کے کچھ واقعات ہی اعلیٰ حکام کے علم میں لائے گئے۔ فوج کی جانب سے کرائے گئے سروے میں تقریباً 36000 اہلکاروں نے کہا کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی قوانین کے مطابق بغیر مرضی کے جنسی روابط قائم کرنا یا ریپ یا زور زبردستی کے ذریعہ جنسی استحصال کرنا جنسی حملے میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنسی حملوں کی تعداد میں اضافہ "مجموعی طور پر غیر صحت مند فوجی ماحول” کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی استحصال کے حوالے سے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے عمل کی 16 سالہ تاریخ میں متاثرہ خواتین کی تعداد اب تک سب سے زیادہ ہے۔
امریکی فوج میں جنسی استحصال کے واقعات کی روک تھام کے لیے جنسی حملوں اور ایسے واقعات پر کارروائی کے لیے سال 2005 میں خصوصی شعبہ قائم کیا گیا تھا اور اگلے ہی سال ایسے واقعات کے اعداد و شمار اکھٹا کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔
پنٹاگون کی ایک اعلیٰ افسر الزبتھ فوسٹر کا کہنا تھا کہ فوج میں جنسی حملوں کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ سنہ 2006 میں شروع ہونے کے بعد سے "یہ تعداد خواتین کے خلاف جنسی حملوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔”
رپورٹ کے مطابق مردوں کے ساتھ جبری طور پر جنسی روابط قائم کرنے کی کوششوں کے سال 2006 میں سب سے زیادہ واقعات پیش آئے تھے۔ اور گزشتہ سال مردوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات دوسری بڑی تعداد میں سامنے آئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2021 میں امریکی فوج میں سب سے زیادہ 26 فیصد جنسی استحصال کے واقعات آرمی میں درج کیے گئے۔ اس کے بعد بحریہ میں 19 فیصد جبکہ ایئر فورس اور میرینز میں دو فیصد ایسے واقعات پیش آئے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکی فوج میں حاضر ڈیوٹی خواتین اہلکاروں میں سے، جنہوں نے اس سروے میں حصہ لیا، 8.4 فیصد نے جبکہ 1.5 فیصد مرد اہلکاروں نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کا انکشا ف کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوری میں ایک حکم نامہ جاری کرکے جنسی ہراسانی کو فوجی قانون کے تحت جرم قرار دیا تھا۔ اس حکم نامے کا مطلب یہ ہے کہ جنسی استحصال، گھریلو تشدد اور نابالغ افراد پر حملوں کے کیسز فوجی عدالت میں چلائے جائیں گے اور مقدمات کو عدالت میں لے جانے کا فیصلہ خصوصی فوجی افسران کے بجائے خصوصی وکلاء کریں گے۔
ماضی میں سینیئر افسران پر جنسی استحصال کے واقعات پر پردہ ڈالنے اور ان کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
فوج نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ فوج میں ڈسپلن کو برقرار رکھنے کے لیے سابقہ نظام زیادہ بہتر تھا۔ لیکن چونکہ سابقہ نظام مسئلے پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوا تھا اس لیے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ایک آزاد کمیشن قائم کیا تھا۔ انہوں نے کمیشن کو ایک ایسی رپورٹ تیار کرنے کے لیے کہا تھا جس میں فوج کے اندر رونما ہونے والے جنسی حملوں کی روک تھام کے نظام کو بہتر بنایا جاسکے تاکہ افواج کے اندر انصاف کے نظام پر فوجی اہلکاروں کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔