رسول اللہﷺ معلمِ انسانیت

نبیِ رحمتؐ نے زندگی کے ہر گوشے میں مطلوب طرز حیات کی تعلیم دی

ڈاکٹر ساجد عباسی

اسلام سائنس کے دروازے کھولنے والا دین ہے جبکہ دوسرے مذاہب کی ہمیشہ سائنس سے جنگ رہی۔ یوروپ میں اہلِ کلیسا نے سائنس دانوں کو سزائیں دیں جب انہوں نے قدیم توہمات کے خلاف سائنسی حقائق کو پیش کیا تھا۔
قرآن نے رسول اللہ (ﷺ) کی شخصیت کے ہمہ جہتی درخشاں پہلوؤں کو پیش کرکے کارِ رسالت کو اجاگر کیا ۔آپ نے بیک وقت داعی الی اللہ ،مبشّر، نذیر، شاہد، ہادی، معلم، مزکّی اور مبلّغ کی حیثیت سے رسالت کے فرائض انجام دیے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے تمام ادیانِ باطلہ پر دینِ اسلام کو غلبہ عطا فرمایا۔دورِ نبوت میں یہ غلبہ جزیرہ نمائے عرب میں اخلاقی ، سماجی ،معاشی و سیاسی لحاظ سے مکمل غلبہ تھا لیکن یہ ساری دنیا میں قیامت تک کے لیےتمام ادیان پر اسلام کا نظریاتی غلبہ ہے ۔ قرونِ اولی میں اسلام کے اسی نظریاتی غلبہ نے اسلامی فتوحات کا دروازہ کھولا جس سے ملک پر ملک فتح ہوتے گئے ۔ملک جب فتح ہوئے تو اسلامی نظریہ کی طاقت سے انسانوں کے دل بھی مفتوح ہوتے گئے ۔جب اسلامی نظریہ کی اشاعت کے ساتھ جہاد و اجتہاد کا سلسلہ رک گیا تو اسلامی فتوحات کی رفتار سست پڑنے لگی اور امتِ مسلمہ مائل بہ زوال ہوتی گئی ۔
رسول اللہ (ﷺ) معلمِ انسانیت بنا کر بھیجے گئے، اسی غرض سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کسی کا شاگرد نہیں بنایا بلکہ جبرئیلؑ کی وساطت سے تعلیم دی۔ بحیثیتِ امی آپؐ نے ایسا کلام پیش فرمایا کہ عرب کے نامور شاعر و ادیب حیران و لاجواب رہ گئے۔ اسی کلامِ ربّانی نے آپ کی رسالت کے لیے مضبوط دلیل فراہم کی جس کو کفار جھٹلانہیں سکتے تھے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (العنکبوت ۴۸)
۔(اے نبیؐ )تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر قرآن کو نازل کرکے آپؐ کو علم و حکمت کا ایسا خزانہ عطا فرمایا کہ ہر میدان میں علم کی روشنی سے دنیا منّور ہوتی چلی گئی ۔آپ کی بعثت سے قبل دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔بنی اسرائیل میں مبعوث انبیاء و رُسل کی تعلیمات کے سوتے توراۃ و انجیل میں تحریف کے باعث خشک ہوچکے تھے۔ دنیا توہم پرستی اور قیاس و تخمین کے دلدل میں پھنس چکی تھی ۔چاند ، سورج اور ستارے پرستش کا موضوع بن چکے تھے ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے دنیا کو بتلایا کہ یہ اجرامِ فلکی ایک خالق کے تخلیقی کمالات کو ظاہر کرنے والے مظاہر ہیں ۔آپؐ کی رسالت کے بعد ہی ان اجرامِ فلکی کو تفکر و تحقیق کا موضوع بنایا گیا ۔اسی فکر نے جدید سائنسی علوم کے لیے سنگِ بنیاد فراہم کیا ۔قرآن نے توحید اور آخرت کے عقائد کے اثبات میں آفاق و انفس سے دلائل دے کر انسان کی عقل کو تفکر کی پر زور دعوت دی اور فرمایا : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ ۝  الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۝ (آل عمران ۱۹۰، ۱۹۱) زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کےلیے بہت نشانیا ں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غورو فکر کرتے ہیں۔ ( وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں)”پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کا لم کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔
اسلام سائنس کے دروازے کھولنے والا دین تھا جبکہ دوسرے مذاہب کی ہمیشہ سائنس سے جنگ رہی ۔یوروپ میں اہلِ کلیسا نے سائنس دانوں کو سزائیں دیں جب انہوں نے قدیم توہمات کے خلاف سائنسی حقائق کو پیش کیا تھا ۔مسلم سائنس دانوں کی طویل فہرست میں سے چند نام یہ ہیں : جابر بن حیان (۷۲۱ء تا ۸۱۵ء) ایک کیمیا دان تھے جن کو بابائے کیمیا کا لقب دیا گیا ۔الخوارزمی (۷۸۰ء تا ۸۵۰ء) ریاضی داں ،ماہر فلکیات اور علوم جغرافیہ کے ماہر تھے جن کو بابائے الجبراء کہا جاتا ہے۔ الکندی (۸۰۱ء تا ۸۷۳ء) ریاضی دان ،فلسفی ،طبیعات دان تھے ۔الفارابی (۸۷۰ء تا ۹۵۰ء) علم ِ ریاضی ،طب ،فلسفہ اور موسیقی کے محقق تھے۔ ابولقاسم الزہراوی (۹۳۶ء تا ۱۰۱۳ء) جدید سرجری کا موجد تھا جس نے سرجری میں کام آنے والے اوزار کو ایجاد کیا ۔ابن الہیثم (۹۶۵ء تا ۱۰۴۰ء) مصر کا ایک عظیم سائنس داں گزرا ہے جس کو دنیا کا پہلا حقیقی سائنس داں کہا جاتا ہے۔ابن سینا (۹۷۳ء تا ۱۰۳۷ء) علم ِ طب کے ساتھ کئی علوم کا ماہر تھا۔ عمر خیام (۱۰۴۸ء تا ۱۱۳۱ء) علم ریاضی کے ماہر تھےاور انہوں نے ہی شمسی کیلنڈر کو پہلی مرتبہ بنایا ۔البیرونی (۹۷۳ء تا ۱۰۴۸ء) علم ہیئت کے ماہر اور تاریخ داں تھے۔انہوں نے کتاب الہند تحریر کی اور بھارت کی تاریخ کو سنسکرت میں قلمبند کیا ۔امام غزالیؒ (۱۰۵۸ء تا ۱۱۱۱ء) اسلامی علوم کے عظیم مفکر و متکلم تھے جنہوں نے خدا کے وجود کو علم الکلام سے ثابت کیا ۔الادریسی(۱۱۰۰ء تا ۱۱۶۵ء)ایک جغرافیہ دان، نقشہ نویس اور سیاح تھے ۔انہوں نے پہلی مرتبہ دنیا کا نقشہ بنایا ۔ابن الخلدون (۱۳۳۲ء تا ۱۴۰۶ء) ماہر عمرانیات و معاشیات ،فلسفی ،سیاست داں ،مصنف اور شاعر تھے۔یہ سب انسانی تاریخ کے اولین سائنس داں تھے اور یہ سب محمد رسول اللہ (ﷺ) معلم انسانیت کی بعثت کے مرہون منت ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کو معلم بنا کر بھیجا : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعہ:۲) وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرضِ منصبی کے اہم گوشوں کو اجاگر کیا ہے ۔آپؐ پر جو وحی نازل ہوتی اس کو آپ لوگوں کے سامنے پڑھ کر سناتے ۔ان آیات کی بصیرت کی روشنی میں آپؐ لوگوں کا تزکیہ فرماتے ۔ان کے عقائدو افکار کے بگاڑ کو دور کرتے۔ ان کی نیتوں اور اعمال کی اصلاح فرماتے ۔زندگی کے ہر گوشے میں مطلوب طرز حیات کی تعلیم دیتے ۔قرآن کا عملی نمونہ بن کر قرآن کی تعبیر بتلاتے ۔قرآن کی آیات کی تفسیر پیش کرتے ۔لوگوں کے اشکالات کا جواب دیتے ۔حکمت کی تعلیم سے مراد اللہ کی ہدایات و احکام کی علت بیان کرنا ہے تاکہ شرح صدر حاصل ہو ۔قرآن کی تعلیم کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ قرآن دلائل کی کتاب ہے ۔توحید ،آخرت و رسالت کے عقائد کو بیان کرنے کے بعد ان کے اثبات میں دلائل کو دلنشین انداز میں پیش کرتا ہے۔ اسی کو قرآن کی حکمت کہا جاتا ہے اور قرآن کو قرآن حکیم کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح رسول اللہ (ﷺ) کے ہر قول وفعل کو بھی تاقیامت محفوظ کردیا۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کی کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کے ایک ایک قول و عمل کو لکھ کر محفوظ کرلیا گیا ہو۔ ۱۴۰۰ سال قبل اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ کر دکھایا ۔یہ معجزہ اس لیے رونما ہوا کہ اللہ چاہتا تھا کہ آپؐ کو قیامت تک کے لیے معلمِ انسانیت بنادے۔آپؐ کی سیرت میں بے شمار رول ماڈل ملتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی میں یتیم کا بھی ماڈل ہے جس کو اول روز سے ہی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔باپ کا انتقال پیدائش سے قبل ہوجاتا ہے۔ ماں بچپن ہی میں فوت ہوجاتی ہیں۔ مشفق دادا بھی جلد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔غمخوار چچا اور ہمدرد زوجہ خدیجہؓ بھی آپؐ کی زندگی میں داغِ مفارقت دے جاتے ہیں یہاں تک کہ سفرِ طائف کے بعد مکہ میں آپ اجنبی بنا دیے جاتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی میں مشفق باپ اور ازواج کی دلجوئی کرنے والے شوہر کا نمونہ ہے ۔
یتیموں ،مسکینوں اور محتاجوں کے لیے بھی رول ماڈل ہے ۔اسی غرض سے آپ نے تونگری میں بھی فقر کی زندگی گزاری تاکہ ایک تنگ دست و مسکین کے لیے یہ کہنے کا موقعہ نہ رہے کہ میرے رسول کی زندگی میں مجھ جیسے تنگ دست و مفلس کے لیے کوئی نمونہ نہیں ہے۔آپؐ نے دعوت و تبلیغ کے ساتھ کفار و مشرکین کی سخت مخالفت کو انگیز کیا ۔ایک داعی الی اللہ کی زندگی میں آپؐ کا اسوہ رہنما ہے۔ آپؐ کو بنو ہاشم کے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کردیا جاتا ہے ۔ دنیا کے جتنے محصورین ہیں ان کے لیے آپ کی زندگی میں نمونہ ہے۔ مکہ والوں کے قتل کے عزائم کے درمیان ہجرت کرکے آپ نے دنیا بھر کے مہاجرین کے لیے نمونہ چھوڑا ہے۔مدینے میں ہجرت کرنے کے بعد اسلامی ریاست کے ایک حکمران کی حیثیت میں ایک کامیاب سیاسی ومذہبی قائد، بیدار مغر وزیرک فوجی سپہ سالار ،معلم ،مزکّی و مربّی و صلح جو کی حیثیت سے ساری انسانیت کے لیے بہترین اسوہ چھوڑ جاتے ہیں ۔فتح مکہ کے موقعہ پر ایک انمول فاتح کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اپنے خون کے پیاسوں کو عام معافی دے دیتے ہیں ۔آپؐ کی ساری حیاتِ طیبہ حکمت wisdom سے لبریز ہے اور قرآن کی عملی تفسیر ہے۔
علم کے دو شعبے ہیں ۔ایک وہ شعبہ ہے جو انسان کے حواس ،مشاہدہ و تجربات کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا شعبہ وہ ہے جو علم غیب سے حاصل ہوتا ہے۔تجرباتی و مشاہداتی علم میں بقدرِ ضرورت مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں بھی اللہ کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔ اس علم کے لیے انبیاء اور رسولوں کی بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔علم کا دوسرا شعبہ وہ ہے جو حواس و عقل کی گرفت سے ماوراء ہے ۔عقلمند لوگ قیاس آرائی کرتے کرتے تھک جائیںگے لیکن اس ذہنی کاوش سے علمِ غیب کے حقائق حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس علم کو اللہ تعالیٰ براہ راست انبیاء کے ذریعے انسانوں کو عطا فرماتا ہے۔یہ علم کی اساس ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ورنہ انسان، انسان کے روپ میں ایک نرا حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔سائنس و ٹکنالوجی میں جتنی بھی انسان ترقی کرلے وہ دنیا میں اللہ کا خلیفہ ونائب بن کر ایک بامقصد زندگی گزارنے سے قاصر رہے گا۔ اپنے خالق کی ذات و صفات کے علم سے محروم ہونا انسان کو خود شناسی سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کائنات میں انسان کے رول کو ساری عمر پہچاننے سے قاصر رہتا ہے۔نہ وہ اپنی ابتداء سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی انتہا سے ۔اس کی مثال ایسے بدنصیب مسافر کی سی ہے جو اپنی منزل سے غافل چلا جارہا ہو۔ سائنس و ٹکنالوجی کا علم انسان کے لیے اسی وقت بامعنی و بامقصد ہوگا جب وہ اپنے خالق کو پہچانے ،اپنے مقصدِ وجود کو جانے اور وہ اپنی منزل سے آشنا ہو۔دینی و دنیاوی علوم کے امتزاج ہی سے انسان کی حقیقی کامیابی ممکن ہے۔ایک سائنس دان اشیاء کے متعلق بتلاتا ہے کہ یہ کیا ہیں اور ان کی ماہیت وکیفیت کیا ہے جبکہ ایک نبی یا رسول یہ بتلاتا ہے کہ دنیا میں ان اشیاء کا وجود کیوں ہے اور ان کا مقصد کیا ہے اور ان کو کیسے برتا جائے۔ایک ڈاکٹر انسانی جسم کے متعلق جانتا ہے کہ وہ کس طرح کام کرتا ہے اور اس کا علاج کیسے کیا جاتا ہے جبکہ رسول یہ بتلاتا ہے کہ اس جسم کا کیا مقصد ہے اور یہ کہ انسان ایک ذی روح ہستی ہے اور اس شعوری انسان کی زندگی کا مقصد کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر علم طب کا اکتساب کرتا ہے جبکہ رسول کو وحی کے ذریعے براہ راست علم دیا جاتا ہے۔ انسان کو اخلاقی حس دی گئی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے اور عقل کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان یہ جان سکتا ہے کہ علم کیا ہے اور جہل کیا ہے۔انسانی عقل حقائق کو جان نہیں سکتی لیکن حقائق کو ضرور پہچان سکتی ہے۔اسی لیے قرآن میں باربار تکرار سے حکم دیا کہ عقل کا استعمال کرو اور حق کو پہچانو۔ افلا یعقلون؟ افلا یتدبرون ؟افلا یبصرون؟ افلا یسمعون؟ انسان کو حیوانات سے ممیز کرنے والی سب سے پہلی چیز ہے عقل و شعور۔اسی لیے سب سے پہلا امتحان عقل و شعور کا لیا جاتا ہے۔ امتحان یہ ہے کہ انسان اللہ کو بغیر دیکھے اس کی نشانیوں کو دیکھ کر اللہ کی معرفت حاصل کرے ۔اسی معرفت کی جستجو میں جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ ہے ایمان۔ لیکن اس ایمان کو حقیقی ایمان بنانے والی چیز اللہ کی وحی کا علم ہے جو پیغمبروں کو دیا جاتا ہے۔ یہی علم انسان کو ایسا ایمان عطا کرتا ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اسی علم الیقین کے حاصل ہونے کے بعد ایک بندۂ مومن کو صبر و استقامت حاصل ہوتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا انسانیت کے لیے سب سے عظیم تحفہ یہی حقیقی ایمان ہے جس سے صراط مستقیم پر استقامت سے چلنا اور جنت کی منزل حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) ساری انسانیت کے وہ معلم ہیں جن کی تعلیمات سے ساری تاریکیاں دور ہوجاتی ہیں ۔ان تعلیمات پر عمل آوری سے آخرت کی فلاح کے ساتھ دنیا کی زندگی میں عدل و قسط کا نظام قائم ہوسکتا ہےجہاں مظلوم کو ظلم سے بچایا جاسکتا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکا جا سکتا ہے۔ چونکہ اب دورِ رسالت ختم ہوچکا اور ختم نبوت کا اعلان ہوچکا ہے لیکن کارِ رسالت باقی ہے ۔کارِ رسالت کا بوجھ امتِ مسلمہ پر ڈالا گیا ہے۔اب یہ امت کا کام ہے کہ معلم ِ انسانیت کا تعارف دنیا کے سامنے پیش کریں اور قرآن کی تعلیمات کو عام کرکے دنیا کے مسائل کا حل لوگوں کے سامنے رکھیں ۔انسانیت کی اکثریت خالقِ کائنات ،زندگی کا مقصد اور موت کے بعد کی زندگی کی حقیقت کو نہیں جانتی ۔یہ ہمارا کام ہے کہ لوگوں کو ان بنیادی حقائق سے آگاہ کریں۔ معلم انسانیت کا بنیادی کام یہی تھا کہ وہ انسانوں کی اخروی بھلائی کے لیے بے حد مضطرب ہوتے اور اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ سے فرمایا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الکہف۶) اچھا، تو اے محمدؐ ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔
بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت میں معلم ِانسانیت حضرت محمد(ﷺ) کی امت تعلیم میں تمام قوموں سے پیچھے ہے اور بڑی حد تک پیچھے کردی گئی ہے۔دوسرا اہم پہلو یہ ہے مسلمانوں میں دینی و دنیاوی تعلیم کی تفریق پائی جاتی ہے۔مدرسوں میں محض دینی تعلیم ان کو رزق کے ذرائع سے محروم کر دیتی ہے اور اسکولوں میں محض دنیاوی تعلیم ان کو اسلامی اقدار سے دور کردیتی ہے۔بہترین تعلیمی ماڈل یہ ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم بیک وقت ایک ہی چھت کے نیچے دی جائے جس سے ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔
***

 

***

 آپؐ کی سیرت میں بے شمار رول ماڈل ملتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی میں یتیم کا بھی ماڈل ہے جس کو اول روز سے ہی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپؐ کی زندگی میں مشفق باپ اور ازواج کی دلجوئی کرنے والے شوہر کا نمونہ ہے ۔یتیموں ،مسکینوں اور محتاجوں کے لیے بھی رول ماڈل ہے ۔اسی غرض سے آپ نے تونگری میں بھی فقر کی زندگی گزاری تاکہ ایک تنگ دست و مسکین کے لیے یہ کہنے کا موقعہ نہ رہے کہ میرے رسول کی زندگی میں مجھ جیسے تنگ دست و مفلس کے لیے کوئی نمونہ نہیں ہے۔آپؐ نے دعوت و تبلیغ کے ساتھ کفار و مشرکین کی سخت مخالفت کو انگیز کیا ۔ایک داعی الی اللہ کی زندگی میں آپؐ کا اسوہ رہنما ہے۔ آپؐ کو بنو ہاشم کے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کردیا جاتا ہے ۔ دنیا کے جتنے محصورین ہیں ان کے لیے آپ کی زندگی میں نمونہ ہے۔ مکہ والوں کے قتل کے عزائم کے درمیان ہجرت کرکے آپ نے دنیا بھر کے مہاجرین کے لیے نمونہ چھوڑا ہے۔ اسی طرح آپؐ مدینے میں ہجرت کرنے کے بعد اسلامی ریاست کے ایک حکمران کی حیثیت میں ایک کامیاب سیاسی ومذہبی قائد، بیدار مغر وزیرک فوجی سپہ سالار ،معلم ،مزکّی و مربّی و صلح جو کی حیثیت سے ساری انسانیت کے لیے بہترین اسوہ چھوڑ جاتے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023