رامپور رضا لائبریری میں

حضرت علیؓ سے منسوب کتابت شدہ قرآن پاک کا نادر نسخہ

ڈاکٹر تبسم صابر
کیٹلاگر رامپور رضا لائبریری، رامپور

اہل علم و دانش حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علم و فضل سے متعلق جانتے ہیں کہ آپ درس گاہ نبوت کے تعلیم یافتہ تھے۔ بچپن سے لے کر وفات نبوی تک کامل تیس سال آنحضرت کی خدمت و رفاقت میں بسر کیے تھے جو علم کا سرچشمہ تھے۔ ان سے بلا فصل و بلا واسطہ علم حاصل کیا۔ کاتبان وحی میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔ آنحضرت کی طرف سے جو مکاتیب وفرامین لکھے جاتے تھے ان میں بعض آپ کے دست مبارک کے لکھے ہوئے تھے۔ قرآن پاک آپ کو زبانی یاد تھا۔ ایک ایک آیت کے معنی اور شان نزول سے واقف تھے۔ قرآن وحدیث سے اجتہاد اور مسائل کے استنباط میں آپ کو ید طولی حاصل تھا۔ آپ کی اصابت رائے پر عہد نبوت سے اعتماد کیا جا تا تھا خلفائے ثلاثہ کے بھی آپ سے اہم امور میں مشورہ لینے کے واقعات ملتے ہیں۔
رام پور رضا لائبریری میں قرآن مجید کا ایک ایسا نادر نسخہ موجود ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ پورے وثوق سے کیا جاتا ہے کہ یہ آپ ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ جس میں ۳۴۳ اوراق ہیں، رسم الخط خط عربی کوفی میں ہے۔سائز ۲۰ × ۲۸ سینٹی میٹر ہے۔ ہر ورق پر ۱۵ یا کہیں ۱۶ سطریں ہیں۔ قرآن پاک اونٹ کی کھال پر لکھا ہوا ہے اور ہر دو ورق کے بیچ ہرن کی کھال کی جھلی لگائی گئی ہے تاکہ روشنائی آپس میں مل کر پھیل نہ پائے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے۔ اس مصحف شریف کے شروع میں تقریباً سات اوراق تعارف کے طور پر شامل ہیں جو حافظ محمد اسرائیل نقوی امروہوی نے لکھے ہیں۔ اس تعارف کو پڑھ کر اس قرآن شریف سے متعلق بہت ہی اہم باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ یہ تعارف سنہ ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۲ء میں لکھا گیا ہے۔اپنے تعارفی نوٹ میں حافظ محمد اسرائیل نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ قرآن شریف اصلاً نواب رامپور سید محمد حامد علی خاں بہادر (متوفی ۱۹۳۰ء) کے تبرکات امام باڑہ میں شامل تھا جو عربی رسم الخط میں خط کوفی میں لکھا ہوا تھا۔ چونکہ اس خط کے غیر مانوس ہونے اور متروک الکتابت ہونے کی وجہ سے صحیح طور پر یہ اندازہ لگا نا مشکل تھا کہ مصحف شریف مکمل ہے یا زمانہ گزرنے کے ساتھ اس مصحف میں کچھ تصرف ہوگیا ہے؟ لہٰذا اس بات کی تحقیق کے لیے کہ یہ قرآن شریف مکمل ہے یا نہیں، اس کی کیفیت رسم الخط معلوم کرنے کے لیے نواب سید محمد حامد علی خاں بہادر کے سکریٹری جناب حاجی حافظ محمد ہادی حسن خاں نے حافظ محمد اسرائیل کو جو سید محمد اسماعیل معروف بہ ذوالحافظین کے صاحبزادے تھے اور عرصہ دراز سے کتب خانہ علوم دینیہ امامیہ کی خدمت پر مامور تھے انہیں یہ ذمہ داری سونپی۔ چنانچہ حافظ محمد اسرائیل نے نہایت اہتمام و کمال کے ساتھ اس مصحف شریف کو اول تا آخر بغور دیکھا اور پڑھا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ کلام اللہ نوادرات زمانہ عجائبات روزگار سے ہے اور قدیم زمانے کی طرز کتابت وحسن خط پر ایک بے مثال دلیل ہے۔ زمانے کی دست برد نے اس کی تکمیل میں کسی قدر نقصان پیدا کر دیا اور بعض اوراق تلف وضائع ہو گئے ہیں۔
بہ قول حافظ محمد اسرائیل اس کلام اللہ کے بیش تر اوراق بے ترتیب و بے نظم تھے شیرازہ بندی غلط ہوئی تھی۔ نہایت بلیغ کوشش سے تصحیح کی گئی۔ اول و آخر کے نقصان کی وجہ سے کاتب کا نام نہیں پایا جاتا لیکن اس کا معائنہ دلالت کرتا ہے کہ یقینا یہ مصحف ابتدائے دور اسلام کا لکھا ہوا ہے۔حسن خط وخوبی کتابت اس کے ہر حرف سے نمایاں بلکہ حد اعجاز پر فائز ہے۔ خط کی پختگی ایسی ہے کہ گویا ٹائپ کے حروف نقش کر دیے ہیں۔ کیا عجب کہ یہ خیال صحیح ہو کہ یہ جناب امیر المومنین حضرت علیؓ کے دست مبارکہ کا نوشتہ ہے۔اس لیے کہ خط کوفی کو جیسا حضرت نے لکھا ایسا مرتبہ کمال کسی کو میسر نہیں ہوا۔ منقول ہے کہ حضرت نے اس خط کو تمام عالم سے بہتر لکھا حضرت اکثر سر حروف کو ایسا لکھتے تھے کہ اس کے مابین سر ہائے حرف ایک باریک بیاض مہارت نہایت لطیف نمایاں ہوتی تھی جیسا کہ اس مصحف کے معائنے میں بھی پایا گیا ہے۔ خط کوفی میں پانچ حصہ سطح ہے اور ایک حصہ دور۔ کتاب ’’کلمات الحسان فی الحروف السبعۃ و جمع القران للعالم‘‘ از علامہ شیخ محمد نجيب المطبعی الحنفی میں مرقوم ہے کہ صحابہ کے زمانے میں قرآن بخط کوفی لکھا گیا اور مسجد حسینی مصر میں خط کوفی کے مصاحف پائے گئے ہیں جن میں ایک مصحف حضرت علیؓ کا لکھا ہوا ہے جس کا رسم الخط غیر مدنی وشامی ہے اس کے آخر میں تین سطریں پائی گئی ہیں کہ وہ پڑھی نہیں جاتیں لیکن صرف یہ پڑھا جا تا ہے کہ کتبہ علی بن ابی طالب و نیز کتاب مذکور میں مرقوم ہے کہ لفظ من يرتد کو سورہ مائدہ میں مصاحف عثمانی میں جو چار یا پانچ یا سات نسخے لکھے گئے تھے دو دالوں سے لکھا تھا اور جناب امیرالمومنین نے ایک دال سے بہ ادغام کتابت فرمائی اس مصحف میں بھی ایک دال سے تحریر ہے۔اس کتاب میں مذکور ہے کہ ان مصاحف میں نقاط نہیں دیے گئے اس لیے کہ تعلیم وتعلم کے ذریعے سے قرآن کو حاصل کیا جائے۔اس مصحف پر بھی نقاط نہیں ہیں۔ اس مصحف میں وسط الفاظ میں الف بہت کم لکھا گیا ہے اور کوئی علامت الف کی نہیں پائی گئی بہر طور اس مصحف مجید کے رسم الخط میں دیگر مصاحف موجودہ کی رسم الخط سے اختلاف پایا جا تا ہے ممکن ہے کہ حضرت کے دست مبارکہ کا لکھا ہوا نسخہ کسی طریقہ سے سادات میں منتقل ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچا ہو اس پر اعراب یا علامت وقف ورکوع و پارہ و سجدات و دیگر رموز کچھ نہیں ہیں ہمزہ کے لیے کوئی شکل مقرر نہیں کہیں کہیں صرف ایک نقطہ سیاہی سے ہمزہ کی علامت ہے اکثر سرخی سے نقاط قائم مقام اعراب دے گئے ہیں بیشتر دس آیتوں کے بعد ایک پھول مدور یا مربع ہرتال سے بنایا گیا ہے۔سورتوں کا صرف نام ہے لفظ سورہ نہیں ہے اور اکثر نام سورہ میں مصاحف دیگر سے اختلاف ہے۔ رسم الخط بھی اکثر مصاحف میں بیشتر مصاحف سے علیحدہ ہے۔ لفظ علی و حتی کو اکثر جگہ الف ممدودہ سے لکھا ہے لفظ مولود کومولد کی شکل میں لکھا ہے۔ ضمہ کی علامت سرخی سے نقطہ دیا ہے املا بھی زمانہ حال کے خلاف ہے۔ یہ لحاظ نہیں کیا گیا کہ پورا لفظ سطر یا صفحہ میں آجائے۔مثلا تخرجون کا جیم واؤ ایک صفحہ پر نون دوسرے صفحے پر لکھا گیا ہے جیسا کہ عرب کی شاعری کا دستور ہے کہ آدھا لفظ ایک مصرعے میں اور آدھا لفظ دوسرے مصرعے میں۔ آخر پاروں میں کسی قرات کرنے والے نے آیت کی علامت( ه ) بہت بد نمائی سے بنادی ہے۔ ۳۴۳ ورق ہیں اس مصحف کے تین ورق ابتدائی نہیں ہیں۔سورہ حمد غیر قلم سے زمانہ حال کا لکھا ہوا ہے۔سورہ بقرہ کے دو رکوع اور تیسرے رکوع کی پہلی آیت کا اتنا ٹکڑا یا ایھا الناس اعبدوا نہیں ہے۔ ربکم الذی سے پانچویں رکوع کی پہلی آیت اوفوا بعھدی تک ہے اس کے بعد اوف بعھدکم سے نویں رکوع کے آخر تک نہیں ہے۔ ھم فيھا خالدون سے ہے تیسرے پارے میں آیت فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله پر ورق ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد چند آیات رہ گئی ہیں دوسرا ورق یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ الله ثم توفی کل نفس ما کسبت درمیان میں اتنا ٹکڑا رہ گیا ہے۔ و رسولہ و ان تبتم فلکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون و ان کان ذوا عسرۃ فنظرۃ الی ميسرۃ وان تصدقوا خير لکم ان کنتم تعلمون واتقوا يوما يرجعون فيہ الی ۔۔۔ اصل کتابت میں یہ آیات رہ گئی ہیں دوسرے ورق سے خط وسیاہی وقلم بھی غیر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چار ورق کسی دوسرے کا تب نے لکھے ہیں اول کتابت و آخر کتابت میں آیات رہ گئی ہیں آیت وان کان ذو عسرۃ کسی دیکھنے والے نے حاشیے پر بخط شیخ لکھ دی ہے تاہم ایک آیہ نہیں ہے ان اوراق پر سیاہی اڑ جانے کی وجہ سے کسی نے ہاتھ پھیرا ہے جس سے حروف کی شکل بالکل خراب ہوئی ہے اور یہ چار ورق وان اللہ ربی و ربکم فاعبدون پر ختم ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کا اتنا ٹکڑا دو آیتوں سے زیادہ ھٰذا صراط مستقیم سے و مکروا و مکر اللہ تک نہیں ہے اس کے بعد واللہ خير الما کرين سے ورق شروع ہوتا ہے یہاں سے پھر پہلا قلم وسیاہی وخط ہے۔سورتوں کے نام و شمار آیات میں بعض جگہ اختلاف ہے۔ سورہ انعام کے گیارہویں رکوع میں لفظ جعل کو الف سے جاعل صیغہ اسم فاعل بروزن خالق لکھا ہے۔ نویں و دسویں پارہ میں بعض مقامات پر سیاہی پھیری گئی ہے جس سے الفاظ خراب ہو گئے ہیں۔سورہ بنی اسرائیل کے آخر رکوع میں لفظ ایاماتدعوا کو ایما کی شکل سے لکھا ہے۔ سورہ انبیاء میں لفظ ننجی المؤمنين کو ایک نون سے نجی المؤمنين لکھا ہے۔ سورۂ قصص کا نام موسی و ہارون لکھا ہے۔ اکیسویں پارہ کے تیسرے رکوع میں لفظ حرما کو اس شکل میں لکھا ہے حرمنا۔ اس ورق کے معائنہ سے یہ امر تحقیق کو پہنچتا ہے کہ یہ چرمی کاغذ ہے۔ سورہ روم کے تیسرے رکوع میں لفظ عالمین کو علمین بفتح لام لکھا ہے یعنی نقطہ سرخ بالائے حرف علامت زیر بنایا ہے۔ چوتھے رکوع میں واذا من الناس فی سے لکھا ہے۔ سورۃ احزاب سے حروف کے نقاط بہت باریک کہیں کہیں دیے گئے ہیں اس سے پہلے نقاط حروف نہیں ہے۔سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں پیوند کاری کی گئی ہے جس کے نیچے اتنا ٹکڑا آیت کا آگیا ہے۔ (دابۃ الارض تاکل) سورہ فاطر کا نام سورہ ملائکہ لکھا ہے اور آخر رکوع میں لفظ و لا يريد کے دیکھنے والے نے سیاہی پھیر کر خراب کر دیا ہے۔ سورہ زمر کا نام العرف لکھا ہے۔سور حمعسق کے آخر میں تین آیتیں مع آیات سورہ زخرف ایک ورق نہیں۔ آیۃ، و ما کان لبشر ان يکلمہ الله الا وحيا او من تک ہے۔ وراء حجاب سے نہیں ہے ایک ورق کم ہے وجعلوا لملکہ الذين ھم عباد الرحمان اناثاً سے ہے سورہ جاثیہ کا نام الشریعۃ لکھا ہے۔ تعداد آیات میں بھی اختلاف ہے۔سورہ احقاف کا پہلا ورق دیکھنے سے بھی کاغذ چرمی معلوم ہوتا ہے۔ سورہ احقاف کے دوسرے رکوع میں آیۃ، ووصينا الانسان بوالديہ احساناً کو بوالديہ حسنا لکھا ہے سورۂ ق کے آخر سے پھر نہیں ہے۔ ولقد خلقنا السموات تک ہے۔ والارض و مابينھما في ستۃ ايام وما مسنا من لغوب سے نہیں ہے۔ تقریباً ایک ورق کم ہے۔سورہ حدید کے آخر میں فان اللہ ھو الغنی الحمید کو اس طرح لکھا ہے فان الله الغنی الحميد۔ سورہ صف کا نام حواریون لکھا ہے آیت قالوا ھذا سحر مبين و قالوا سحر مبین لکھا ہے۔ سورہ طلاق کے آیۃ اسکنواھن من حيث سکنتم من وجد کم سے تا آخر سورہ تحریم و نام سورہ تبارک الذی نہیں ہے۔ بسم اللہ سے سورۂ تبارک الذی موجود ہے۔ سورۂ مدثر کے آیۃ، یسئلون المجرمین ماسلککم فی سقر سے نہیں ہے۔ یہاں سے تا سورۂ والشمس وضحی نہیں ہے۔ سورۃ مذکور کی چوتھی آیت، والليل اذا يغشھا سے آخر سورۃ، الم تر کيف فعل ربک تک ہے لايلف قريش سے نہیں ہے۔ سورہ تبت یدی کے شروع سے تا آخر سورہ فلق ہے سورۂ الناس و دعائے اختتام یا عبارت خاتمہ نام کاتب کچھ نہیں ہے۔ بعد ازاں حافظ محمد اسرائیل نے جس خط میں یہ قرآن شریف لکھا ہوا ہے اس خط کے حروف کی اشکال دیے ہیں تاکہ عام قاری کو اس کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک سے کتابت کیا ہوا یہ قرآن چودہ سو سال قبل لکھے گئے قلمی نسخے کی شکل میں رامپور رضا لائبریری کی زینت ہے، جسے دیکھنے کا شوق وحسرت لیے زائرین دور دراز سے یہاں آتے ہیں۔اس قرآن کو دیکھنا اپنے آپ میں ایک بہت خوبصورت احساس ہے۔ بیشتر افراد جو سیکڑوں سال پہلے لکھے عربی رسم الخط سے کم واقفیت رکھتے ہیں وہ بھی اسے دیکھنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پھر خواہ وہ مسلمان ہوں یا کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ہوں سبھی کے اپنے اپنے جذبات ہوتے ہیں۔ کچھ وقت پہلے تک لائبریری میں اس قرآن شریف کو دیکھنے آنے والے زائرین کو زیارت سے محروم واپس جانا پڑتا تھا کیونکہ لائبریری کے ذمہ داران کی اپنی مجبوریاں رہتی ہیں اس قلمی نسخے کی حفاظت کے پیش نظر اسے ہر وقت نہیں دکھایا جاسکتا بلکہ خاص خاص موقعوں پر خصوصاً رمضان کے آخری عشرے میں اسے عام زیارت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اپنے معزز مہمانوں کو بغیر زیارت کے واپس لوٹانا بلاشبہ لائبریری کے ذمہ داران کے لیے بھی کوئی خوش گوار عمل نہیں تھا، چنانچہ اس مسئلہ کے حل کے طور پر سابق ڈائریکٹر رامپور رضا لائبریری پروفیسر سید محمد عزیزالدین حسین ہمدانی نے اس قرآن کی Replica تیار کروا کر لائبریری کے مین ہال میں لگا دی ہے تاکہ زائرین کم از کم عکسی تصویر کی زیارت کر سکیں اور بالکل محروم واپس نہ جائیں۔
***

 

***

 نواب سید محمد حامد علی خاں بہادر کے سکریٹری جناب حاجی حافظ محمد ہادی حسن خاں نے حافظ محمد اسرائیل کو جو سید محمد اسماعیل معروف بہ ذوالحافظین کے صاحبزادے تھے اور عرصہ دراز سے کتب خانہ علوم دینیہ امامیہ کی خدمت پر مامور تھے انہیں یہ ذمہ داری سونپی۔ چنانچہ حافظ محمد اسرائیل نے نہایت اہتمام و کمال کے ساتھ اس مصحف شریف کو اول تا آخر بغور دیکھا اور پڑھا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ کلام اللہ نوادرات زمانہ عجائبات روزگار سے ہے اور قدیم زمانے کی طرز کتابت وحسن خط پر ایک بے مثال دلیل ہے۔ زمانے کی دست برد نے اس کی تکمیل میں کسی قدر نقصان پیدا کر دیا اور بعض اوراق تلف وضائع ہو گئے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022