قرآن مجید: محسوس حقائق کے بیان سے غیر محسوس حقائق تک رسائی دینے والا بیانیہ

راست یا بالواسطہ انسان کے دل ودماغ کو اپیل کرنے والا کلام

ابوفہد ندوی

قرآن کا بیانیہ انسان کو توحید،تخلیق اور آخرت کے بارے میں سوچنے اور غورکرنے پر ابھارنے اور شوق دلانے والا بیانیہ ہے،کیونکہ انسان اگر تھوڑا بہت بھی غوروفکر کرنے کا عادی ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوالات ضرور گردش کرتے رہتے ہیں کہ وہ دنیا میں کہاں سے آیا ہے ، کیوں آیا ہے اورپھر دنیا سے چلاکیوں جاتا ہے اور پھر آخر جاتا ہے تو کہاں جاتا ہے۔ اور کیا موت ایک سرحد ہے جسے عبور کرکے کسی اور دنیا میں جانا ہے،یا موت ہر زندہ چیز کا اختتامیہ یعنی دی اینڈ (The End)ہے۔وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی وسیع وعریض کائنات اور محیر العقول تخلیقات کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ یہ سب چیزیں کب، کیسے اور کیوں پیدا کی گئی ہیں اور کیا یہ سب چیزیں ہمیشہ سے ہیں اور کیا یہ سب ہمیشہ اسی طرح رہیں گی۔ قرآن انسان کے انہی سوالوں کا جواب منطقی اور عقلی استدلال کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح قرآن راست یا بالواسطہ انسان کے دل ودماغ کو اپیل کرنے والا بیانیہ بن جاتا ہے۔قرآن کا بیانیہ مخالف سوچ فکر کو بزور قوت ختم کردینے والا یا کم از کم خاموش کردینے والا بیانیہ نہیں ہےکیونکہ پھر یہ بات لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ‎﴿البقرة:٦ ۲۵﴾‏، لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ‎﴿البقرة: ١٣٩﴾‏اور لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ‎﴿البقرة: ٦﴾‏کے ذریعہ دی گئی آزادی سلب کرنے کے ہم معنیٰ بن جائے گی۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ اپنے مخالف کو اپنی شیریں زبان ، پختہ استدلال اور اخلاق کریمانہ سے قائل کرلیں اور اسے اپنا ہمنوا بنالیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی مخالفت کا مقابلہ اپنے زوربازو سے کریں، دھونس دھاندلی کے ساتھ کریں اور اسے ڈرا دھمکاکر خاموش کردیں تاکہ وہ آپ کی مخالفت کی ہمت نہ کرسکے ،حتی کہ آپ کی فکر کے مقابلے میں اپنی فکر بھی نہ رکھ سکے۔ یہ دونوں روشیں انسانی معاشروں میں عام ہیں ۔اگر آپ غورکریں گے تو آپ یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قرآن کا بیانیہ پہلی روش والا بیانیہ ہے۔قرآن انسان کے پاس استدلال کی قوت کے ساتھ آتا ہے اوروقت کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنے شدید ترین مخالف اور کٹر سے کٹر دشمن کو بھی زیر کرلیتا ہے۔ اور یہی صفت رسول اللہﷺ کی بھی تھی کیونکہ آپ ﷺ کے اخلاق کریمانہ قرآنی اخلاق ہی کے پرتوتھے۔ اس معاملے میں استدلال کے ساتھ ساتھ طاقت کا فیکٹر بھی کام کرتا ہے مگر وہ دوسرے زاویے سے کام کرتا ہے ، وہ زیادہ تر اس وقت ایکٹو ہوتا ہے جب جارحانہ انداز کی مخالفتوں کا سامنا ہو اور سیدھی سچی دعوت جس کا انکار کردینے کی بھی پوری اجازت ہوتی ہے ،اس سیدھی سچی دعوت کا جواب جوہری اور عسکری مخالفت کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ ،رسول اللہ اور قرآن سے انتہائی درجے نفرت کرنے والوں میں بہت سے ایسے بھی ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے جو کبھی نہ کبھی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر وہ قرآن کے سامنے اپنی جبین نیاز جھکا دیتے ہیں اور اسلام قبول کرلیتے ہیں۔کتنے تو ایسے بھی ہوئے ہیں کہ قرآن کا چیلنج قبول کرنے کے لیے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر خودقرآن کو چیلنج کرنے کے لیے قرآن پڑھتے ہیں مگر درمیان راہ میں ہی کہیں نہ کہیں نقد دل ہار بیٹھتے ہیں، ان کی ساری کی ساری دلیلیں،تمام طرح کے استدلال ،حجتیں ،دشمنیاں اور نفرتیں یک لخت کافورہوجاتی ہیں۔پھر وہی لوگ جن کوقرآن سے سب سے زیادہ نفرت تھی قرآن سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بن جاتے ہیں۔اور پھر پہروں بیٹھےسوچتے رہتے ہیں کہ اتنی بنیادی اور بظاہربالکل ہی سامنے کی باتیں،استدلال اورسچائیاں ان کے ذہن میں پہلے کیوں نہیں آسکیں کہ وہ اتنے دنوں تک قرآن کی مخالفت کرتے رہے۔
اگر قرآن کے بیانیے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ اپنے مخالفین کے لیے سادہ سی توحید کی دعوت سے جو ان کے سوالوں اور اعتراضات کے سادہ سے جوابات سے شروع ہوتا ہے،پھر نصیحت، خیرخواہی،تفہیم،مکالمہ،مجادلہ، انذاروتبشیر اور پھر سب سے آخر میں (جب مخالف قوتیں جنگ سے کم تر کسی بات پر راضی نہ ہوں توا ن کے مقابلے کے لیے)جنگ کی اجازت پر ختم ہوتا ہے۔قرآن کے بیانیے میں کہیں بھی عاجزی ودرماندگی اور لاچاری نہیں ہے البتہ نرمی،معافی،درگزر اور خیرخواہی ہے، خیرخواہی ہر فرد بشر کے لیے بلکہ ساری انسانیت کے لیے ہے۔اب اس خیرخواہی اور نیک نیتی کواگر کوئی عاجزی ودرماندگی سے تعبیر کرے تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔اسی طرح اگر کوئی قرآن کے بیانیے کو جنگی بیانیے سے تعبیر کرے اور باطل کو بزور قوت چیلینج کرنے والا بیانیہ بتائے اور سمجھے تو یہ بھی غلط ہے۔بے شک قرآن میں ’اظہار دین‘ کا بیانیہ بھی ہے مگر یہ اظہار بھی جنگی اور فوجی سطح پر نہیں ہے بلکہ دعوت اور عقل واستدلال کی سطح پر ہے ۔کیونکہ پہلے حجت وبرہان ہیں بعد میں آخری چارہ ٔکار کے طور پرسیف وسنان ہیں۔پھر سیف وسنان محض کشور کشائی کے لیے نہیں ہیں بلکہ دین کی راہ کی رکاوٹوں کوہٹانے کے لیے ہیں۔یعنی جتنے زیادہ لوگوں تک دین کی دعوت پہنچ جائے گی اور جتنے زیادہ لوگ قرآن کی استدلالی قوت کے سامنے سرنگوں ہوتے چلے جائیں گے اسی نسبت سے اظہار دین حقیقت بنتا چلا جائے گا۔
قرآن دھونس دھاندلی کے ساتھ آگے نہیں بڑھتا بلکہ لوگوں کو آزادیاں دیتا ہے اور ان کےذہن ودل کو مخاطب کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ جل شانہ کے بارے میں بحث کرنے اور لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ تو ہم سب کا رب اور پالنہار ہے، اس کے بارے میں کیا لڑنا۔ اورجہاں تک اعمال اور اخلاق کی بات ہے تو تمہارے اعمال اور اخلاق تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارے اخلاق اوراعمال ہمارے ساتھ ہیں۔اور ہم نے تو خود کو اللہ کے لیے خالص کرلیا ہے، تمہارا معاملہ تم جانو۔ سورۂ بقرہ میں ہے: قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ ‎﴿البقرة: ١٣٩﴾‏
اور اسی لیے وہ مثالوں کے ذریعہ اپنے استدلال کو واضح کرتا ہے اور منطقی علتیں بیان کرتا ہوا چلتا ہے۔قرآن ان چیزوں کی مثالیں فراہم کرتا ہے جو انسان کےمشاہدے میں رہتی ہیں اور ان کے ذریعہ انسان کے ذہن کو نامعلوم حقائق کا یقین پیدا کرواتا ہے۔ اللہ قیامت کے دن تمام جانداروں کو کیسے زندہ کرے گا اس کے لیے وہ ایک تو بنجرزمین کی مثال دیتا ہے کہ اللہ بارش کے ذریعہ کس طرح بنجرزمین کو سبزہ زار بنادیتا ہے اور پھر عقلی ومنطقی استدلال یہ کرتا ہے کہ اگر انسان کی پہلی تخلیق ممکن ہے تو اس کی دوسری تخلیق بھی ممکن ہے، بلکہ پہلی تخلیق کے مقابلے میں دوسری تخلیق زیادہ آسان ہے۔تو جس اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ انسان کو اور کل کائنات کو پہلی بار پیدا کیا ہے وہی اللہ انسان کو دوسری بار پیدا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔سورۂ دخان میں یہ دونوں استدلال اس طرح آئے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ‎﴿٥﴾
’’اے لوگو! اگر تمہیں اس بات میں ذرا بھی شک ہے کہ تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا (تو اپنی پہلی تخلیق پر غورکرو کہ ہم نے تمہیں کس طرح پیدا کیا) ہم نے تمہیں (پہلی بار) مٹی سے بنایا، پھر (دوسری بار ) نطفے سے پیدا کیا(اس طرح کہ) نطفے سے علقہ بنایا اور علقہ سے مضغہ ، جو کبھی مکمل بھی ہوتاہے اور کبھی ناقص بھی اور یہ اس لیے ہےتاکہ ہم تم پر اپنی قدرت واضح کردیں۔ پھرہم نےتمہیں ایک مدت تک رحم مادر میں ٹھیرائے رکھا، پھر تمہیں (رحم مادر سے) ایک بچے کی صورت میں نکالا،پھر (تمہاری پرورش کرتے رہے) تاکہ تم جوانی کی عمر کو پہنچ جاؤ۔ پھر تم میں سے کسی کو (بچپن یا جوانی میں ہی) موت دے دی جاتی ہے اور کسی کو لمبی عمرعطا کی جاتی ہے (تاکہ اسے اور تمام لوگوں کو اپنی یہ قدرت بھی دکھائیں) کہ وہ سب کچھ جان لینے کے بعد پھرایسی حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتا(یعنی بڑھاپے کی عمر میں بچہ جیسا ہوجاتا ہے) …..(اورذرا زمین پر بھی غورکرو) تم رات دن یہ مشاہدہ کرتے ہی ہو کہ کسی سوکھی پڑی زمین پرجب ہم بارش برساتے ہیں تو وہ زمین لہلہااٹھتی ہے، پھولتی ہے اور قسم قسم کی خوش منظر نباتات اگانے لگتی ہے۔(جس طرح کوئی مردہ پڑی زمین بارش کے ذریعہ زندہ کردی جاتی ہے،اسی طرح ہم تمہیں بھی ،جبکہ تمہارے جسم اور ہڈیاں مٹی مل کر مٹی ہوجائیں گے، دوبارہ زندہ کریں گے)‘‘
اسی سوال کی یعنی موت کے بعد دوبارہ پیداکےجانے کی دلیل کے طورپر اللہ کا یہ فرمان بھی ہے:
لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀) 40۔ غافر :57)
’’انسان کو(پہلی اوردوسری بار) پیدا کرنے کے مقابلے میں زمین وآسمان کی تخلیق کہیں زیادہ بڑا کام ہے، مگر بیشتر لوگ غوروفکر نہیں کرتے‘‘
جب اللہ نے اتنے عظیم الشان زمین وآسامان تخلیق کرڈالے ہیں اوروہ بھی ایک لفظ کن کے ذریعہ اور بنا کسی تکان کے تو انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کونسا زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے؟
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎﴿٣٣﴾‏
’’آخر وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جس اللہ نے تمام آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اوراسے کچھ بھی تکان لاحق نہیں ہوئی، وہی اللہ اس بات پربھی قادر ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کردے(یعنی قیامت کے دن تمام انسانوں کو زندہ کردے) بے شک اللہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتا ہے‘‘
فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎﴿الروم:٥٠﴾‏
’’ اللہ کی رحمت کے مظاہر پر غورکرو اور سمجھو کہ اللہ کس طرح مردہ پڑی زمین کو زندگی بخش دیتا ہے، (یہ اس بات کی دلیل ہے) کہ اللہ مردوں کو بھی زندہ کردے گا۔(اور اس بات کی دلیل بھی ہے کہ) وہ کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتا ہے‘‘
ان میں سے بیشتر آیات مشرکین عرب کے اس سوال کے جواب میں ہیں کہ جب وہ مرکھپ جائیں گے تو اللہ انہیں کیسے زندہ کرےگا۔ وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ‎﴿٤٧﴾’’ کہتے تھے "کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے توکیا پھر بھی دوبارہ سے زندہ کردیے جائیں گے؟‘‘ کفار ومشرکین کی طرف سے حیرت واستعجاب میں ڈوبا ہوا یہ استفسارقرآن میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔دسیوں مقامات پر۔
اس پر اللہ کا ادعائی جواب یہ ہے: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ (21:104) ’’جس طرح پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوسری بار بھی پیدا کریں گے‘‘ پھر اس کے علاوہ، اس ادعائی جواب کو سپورٹ کرنے والے اور کمک پہنچانے والے استدلالی نوعیت کے جوابات ہیں، جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس طرح کے استدلال والی آیات قرآن میں اور بھی بہت ساری ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ قرآن کا بیانیہ کس طرح کا ہے اور وہ انسانوں کے دل ودماغ کو کس طرح مخاطب کرناچاہتا ہے ۔ قرآن کے بیانیے میں صرف توحید کا ہی اثبات نہیں ہے، توحید کے اثبات کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِفَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍمُّقْتَدِرًا (45)
’’اے نبی! انہیں (یہ حقیقت کہ ایک دن یہ سب بے حیثیت ہوکر فنا کے گھاٹ اترجائیں گے) دنیا کی زندگی کی مثال سے سمجھاو، جب ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں تو زمین کی روئیدگی خوب گھنی ہوکر نکلتی ہے (پھر اس پر تھوڑا عرصہ گزرتا ہے) اور ہم اسے سوکھا ہوا بھوسا بنادیتے ہیں کہ ہوائیں انہیں ادھر سے ادھر اڑائے پھرتی ہیں۔ (تو وہ اسی سے یہ جان لیں کہ) اللہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے‘‘
یہی استدلال قرآن میں سورہ ٔيونس، آیت:۲۴، سورۃالزمر،آیت ۲۱ اورسورۃالحديد : ۲۰ میں بھی آیا ہے۔
اور یہ سب یعنی پانی کا برسنا،زمین سے طرح طرح کی نباتات اور غلہ جات کا اگنا پھر دھوپ کے اثر سے ان کا سوکھ کر بھوسا بن جانا، دنیا کے تمام انسانوں کے لیے انتہائی محسوس حقائق ہیں، گرچہ ان میں سے بعض بہت زیادہ پڑھےہوئے بھی نہ ہوں اوران کے پس پردہ سائنسی علتوں کو بھی نہ جان پاتے ہوں، تاہم وہ اللہ کی اس قدرت کے نظارے اپنی ظاہری آنکھوں سے دن رات دیکھتے ہیں۔
قرآن اس طرح کےمحسوس حقائق کے ذریعہ انسان کو ان غیر محسوس حقائق تک لے جاناچاہتا ہے جو حشر کے دن ان کے سامنے شہود کے درجے میں آجائیں گے مگر دنیا کی زندگی میں ان حقائق کا تجربہ کرنا ناممکن ہے۔ قرآن یہ استدلال قائم کررہا ہے کہ اسی طرح انسانوں کا معاملہ ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہیں، بڑے ہوتے ہیں اور زور آور ہوجاتے ہیں،پھر ایک وقت پر جاکر عمر ڈھلنا شروع ہوتی ہے اوررفتہ رفتہ ان کے اعضاء مضمحل اور پریشاں ہونا شروع ہوتے ہیں اور ایک دن اچانک وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،پھر خاک میں ملادیے جاتے ہیں اور جس طرح وہ عدم سے وجود میں آئے تھے اسی طرح وجود سے معدومیت کے پردے میں چلے جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اللہ پھرسے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں معدومیت کے پردے سے وجود وشہود کی دنیا میں لے آئے گا۔ جس طرح وہ مردہ پڑی زمین کو بارش برساکر ہر ابھرا کردیتا ہے۔ جس زمین پر دوردور تک نباتات نظر نہیں آتی ، بارش ہونے کے بعد اسی زمین پر کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ اور اس دن وہ ان حقائق کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے جن حقائق کا وہ زندگی بھر انکار کرتے رہے اور حشر ونشر سے متعلق جس قرآنی بیانیے پر انہیں کبھی یقین ہی نہیں آیا، اس دن وہ اس کا بذات خود تجربہ کررہے ہوں گے۔
***

 

***

 قرآن ان چیزوں کی مثالیں فراہم کرتا ہے جو انسان کےمشاہدے میں رہتی ہیں اور ان کے ذریعہ انسان کے ذہن کو نامعلوم حقائق کا یقین پیدا کرواتا ہے۔ اللہ قیامت کے دن تمام جانداروں کو کیسے زندہ کرے گا اس کے لیے وہ ایک تو بنجرزمین کی مثال دیتا ہے کہ اللہ بارش کے ذریعہ کس طرح بنجرزمین کو سبزہ زار بنادیتا ہے اور پھر عقلی ومنطقی استدلال یہ کرتا ہے کہ اگر انسان کی پہلی تخلیق ممکن ہے تو اس کی دوسری تخلیق بھی ممکن ہے، بلکہ پہلی تخلیق کے مقابلے میں دوسری تخلیق زیادہ آسان ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023