قرآن مجید کا ایک فراموش کردہ سبق

بھوکمری اور فاقہ کشی جیسے عالم گیرمسائل کا حل الٰہی تعلیمات میں پنہاں

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

جب سے دنیا میں انسانی آبادی کا ظہور ہوا تب سے وہ یہاں گونا گوں مسائل کا شکار ہوتی رہی ہے۔ ان مسائل میں بھوک اور فاقہ کشی کا مسئلہ ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔ کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے تو کبھی آپسی جنگ و جدل کے سبب اور کبھی قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ایسے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ انسان دانے دانے تک کو ترس گیا، بڑی بڑی آبادیاں بھوک اور فاقہ کشی میں مبتلا ہوکر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حالانکہ دنیا آج ترقی کی جس منزل پر پہچنچ چکی ہے اس کا تصور بھی کچھ صدیوں پہلے محال تھا۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عقل کو حیران کردینے والے سائنسی ایجادات نے انسانی آبادیوں پر آرام و آسائش کے ایسے ایسے دروازے وا کردیے ہیں کہ اس کرہء ارض پر جنت کا گمان ہونے لگا ہے، اس کے باوجود کئی انسانی مسائل جوں کے توں آج بھی حل طلب نظر آرہے ہیں۔ ان میں بھوک اور فاقہ کشی ہمیشہ کی طرح سر فہرست مسئلہ ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹThe State of Food Security and Nutrition in the World 2021 (SOFI)
کے مطابق سن 2020میں 768 ملین افراد غذائی قلت اور دائمی بھوکری کا شکار ہوئے۔ 2021 میں دنیا بھر کے 702 سے 828 ملین لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید برآں، دنیا بھرمیں تقریباً تین میں سے ایک شخص، یعنی تقریباً 2.31 بلین لوگ، 2021 میں کسی قدر یا شدید طور پر غذائی عدم تحفظ کا شکار پائے گئے۔ اس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو 2030 تک دائمی بھوکمری کے شکار لوگوں کی تعداد 150 ملین سے بھی بڑھ جائے گی۔
قرآن مجید دنیا بھر میں پائے جانے والی مذہبی کتابوں میں ایک نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ رب العالمین کی جانب سے بنی نوع انسانی کی طرف بھیجی گئی آخری وحی کے طور پر خود کو متعارف کرانے والی یہ کتاب اول سے آخر تک صرف انسان اور انسانی مسائل سے ہی گفتگو کرتی نظر آتی ہے اور وہ بھی ایسے انوکھے انداز اور لہجے میں کہ جس کی مثال اس زمین پر ملنی ناممکن ہے۔ اگر انسان کھلے قلب و نظر کے ساتھ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر اس کتاب کو مشعل راہ بنائے تو نہ صرف اس کے تمام مسائل بآسانی حل ہوسکتے ہیں بلکہ اس کی زندگی دنیا کے لیے امن و امان کی موجب بن سکتی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی کے مسئلے کا حل قرآن مجید ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اس کے لیے راست اُن انسانوں کو حکم دینے کے بجائے جو اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تمام انسانوں کو اس کام پر لگاتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے آئیں کیونکہ یہ ان کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے کوئی استثناء نہیں اور اگر وہ اس کام میں پیچھے ہٹیں گے تو وہ سخت خسارے میں رہیں گے۔
اَرَئَ یتَ الَّذِی یُلَذّبُ بِا لدِّین۔ فَذَٰ لِکَ الَّذِ ی یَدُعُّ الیِتِیمَ۔ وَلا یَحُضُّ عَلَیٰ طَعَامِ المَسکِینِ۔
تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔
(الماعون3-1)
خُذُوہُ فَغُلُّو ہُ۔ ثُمَّ ا لجَحِیمَ صَلُّو ہُ۔ ثُمَّ فیِ سِلسِلَۃٍ ذَرَاعًا فَا سلُکُوہُ۔اِنَّہُ و کَا نَ یُوء مِنُ بِا للَّہ ا لعَظِیمِ۔ وَلا یَحُضُّ عَلَیٰ طَعَامِ المَسکِینِ۔
(حکم ہو گا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو پھر اسے جہنم میں جھونک دو پھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ (الحاقہ 34-30)۔
سورۃ الماعون کی آیت 3-1 اس بات کی دلیل ہے قرآن مجید، جو لوگ مسکین کو کھانا نہیں دیتے ، بلکہ جو لوگ کھانا دینے پر اُکساتے نہیں ان کی بات کہہ کر یہ واضح کر رہا ہے اس کے نزدیک فاقہ کشی اور بھوک کے مسئلے کو حل کرنے کا ذمہ دار معاشرے کا ہر فرد ہے اور اگر کوئی اپنے اس فرض سے غفلت برت رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بظاہر کتنا بھی اپنے آپ کو پارسا اور ایمان والا کہتا رہے اس کا شمار آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلانے والوں میں ہی ہوگا۔
سورۃ الحاقہ کی آیت سورۃ الماعون کی آیت سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس آیت میں یہ بات با لکل واضح کر دی گئی ہے کہ جو، انسانی آبادی میں پائی جانے والے بھوک اور فاقہ کشی جیسے سر فہرست مسئلے کو حل کرنے کے لیے رب کائنات کی جانب سے تفویض کردہ فرائض منصبی سے رو گردانی کرے گا، دوسروں کوبھوکوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دے گا، اس کا ایمان اللہ پر بالکل نہیں مانا جائے گا اور اس کے ساتھ بروز آخرت بد ترین مجرموں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔ ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں اسے جکڑ کر اس کے گردن میں طوق ڈال کر اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا جو یقینا اس کے لیے بدترین ٹھکانہ ہوگا اور اس طرح وہ سخت خسارے میں رہے گا۔
اتنی واضح قرآنی ہدایت کے باوجود حیرت ہے کہ امت مسلمہ اس فرض کو ادا کرنے میں مسلسل کوتاہی برتتی آرہی ہے۔’’ ھل من مزید‘‘ کے دوڑ میں الجھ کر وہ نفسی نفسی تو چلا رہی ہے پر اپنے اطراف میں بلکتے اور سسکتے انسانوں کی کراہیں اسے سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ وہ یہ سبق بھول چکی ہے کہ اس کا منصب رب العامین اور رحمت العالمین کے واسطے سے امام العالمین کا ہے اور بحیثیت امام و رہبر اس کا فرض ہے کہ وہ انسانوں کے ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھے، امن عالم کے لیے کوشاں رہے، انسانی آبادی کی بھوک اور فاقہ کشی جیسی عفریت سے آہنی دیوار بن کر حفاظت کرے، ان مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہا ہے۔
آج وطن عزیز میں ملت کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امت نے یہاں صدیوں حکومت کے مزے لوٹنے کے باوجود اپنے منصب اور فرض کو نہیں پہچانا اور اس کی ادائیگی میں انکار کی حد تک غفلت برتتی رہی۔ اپنی مسجدوں اور مقبروں کو سجانے سنوارنے کے لیے تو امت کے پاس بے تحاشا مال نکل آتا ہے لیکن اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے کے لیے انہیں بھوک اور فاقہ کشی کی اذیت سے بچانے کے لیے اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ غیروں کے عبادت گاہوں میں صبح و شام بلا تفریق مذہب وملت لنگر لگتے ہیں اور ہماری عبادت گاہیں فانوسوں اور قالینوں کی حفاظت کے لیے سوائے عبادت کے اوقات کے بند پڑے ر ہتے ہیں۔ نہ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کی اور نہ کسی پیاسے کو پانی پلانے کی ہمیں توفیق ہوتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر ہم نے کھلانے اور پلانے کی دوسروں کو ترغیب بھی نہیں دی تو بروز آخرت کس عظیم خسارے سے دو چار ہوسکتے ہیں، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے دوسروں کی ترقی پر حسد کرتے ہوئے اور اپنے خالق سے گلہ کرتے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کچھ برسوں قبل کی بات ہے، ایک ریاست میں برپا ہونے والے بدترین فسادات کے بعد جب وہاں کے کچھ طبقوں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیوں اپنے آس پاس بسنے والے انسانوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا تو وہ یہی گلہ کرتے نظر آئے کہ جب ہم اناج کے ایک ایک دانے کو ترس رہے تھے اس وقت ان کے مطبخوں سے اشتہا انگیز انواع قسم کے کھانے کی خوشبوئیں ہمیں تڑپاتی تھیں۔
آج وطن عزیز میں بھوک اور فاقہ کشی ایک وبائی بیماری کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی سے جوجھنے والے 116 ممالک کی فہرست میں بھارت 101 ویں مقام پر ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی لگ بھگ پندرہ سے پچیس فیصد آبادی غذائی قلت کی شکار ہے۔ ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم فوراً اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے حل کے لیے راستے تلاش کریں۔ اپنے مسائل کو اللہ کے حوالے کر کے اس کے بندے جس مسئلہ کا شکار ہیں انہیں اس کرب اور آفت سے چھٹکارا دلانے کی سبیل ڈھونڈیں تو امید ہے اللہ ہمارے مسائل غیب سے حل کرادے گا۔بلا تفریق مذہب وملت اپنی عبادت گاہیں اپنے مدرسے اور خانقاہوں کے در ہر ایک کے لیے وا کر کے وہاں بھوکوں کے لیے لنگر چلا کر اور پیاسوں کے لیے ٹھنڈا پانی مہیا کراکر انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ انسانیت کی خدمت ہمارا اولین فرض ہے اور ہم اس فرض کو بحسن و خوبی آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ دلوں کو پلٹنے پر اللہ پوری طرح کمال رکھتا ہے، وہ عرب کے بدوؤں کو اور وحشی تاتاریوں کو کعبے کا پاسبان بنا سکتا ہے اور آج بھی اس پر پوری طرح قادر ہے، اس کی قدرت کو کبھی زوال نہیں ہے۔ بس ہمیں اتنا کرنا ہے کہ اس کے مسکین، بھوک و پیاس سے سسکتے بندوں کے چہروں پر مسکان سجانا ہے بغیر کسی نام و نمود اور شہرت کی خواہش کے صرف اس کی رضا کی خاطر، اگر ہم اس کار خیر کے ساتھ مکمل جڑ گئے تو یقین رکھیے بروز آخرت ہمیں جو انعام ملے گا وہ تو حق ہے لیکن اس فانی دنیا میں بھی قدم قدم پر اللہ کی مدد ہمیں میسر رہے گی۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین
***

 

***

 آج وطن عزیز میں بھوک اور فاقہ کشی ایک وبائی بیماری کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی سے جوجھنے والے 116 ممالک کی فہرست میں بھارت 101 ویں مقام پر ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی لگ بھگ پندرہ سے پچیس فیصد آبادی غذائی قلت کی شکار ہے۔ ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم فوراً اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے حل کے لیے راستے تلاش کریں۔ اپنے مسائل کو اللہ کے حوالے کر کے اس کے بندے جس مسئلہ کا شکار ہیں انہیں اس کرب اور آفت سے چھٹکارا دلانے کی سبیل ڈھونڈیں تو امید ہے اللہ ہمارے مسائل غیب سے حل کرادے گا۔بلا تفریق مذہب وملت اپنی عبادت گاہیں اپنے مدرسے اور خانقاہوں کے در ہر ایک کے لیے وا کر کے وہاں بھوکوں کے لیے لنگر چلا کر اور پیاسوں کے لیے ٹھنڈا پانی مہیا کراکر انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ انسانیت کی خدمت ہمارا اولین فرض ہے اور ہم اس فرض کو بحسن و خوبی آج بھی ادا کر رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022