ایران کے کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ ہنوز جاری
ایران کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہروں میں حکومت مخالف نعرے لگائے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ زیر حراست طلبہ کو رہا کیا جائے اور نئی نظر بندیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
نئی دہلی: ایران کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہروں میں حکومت مخالف نعرے لگائے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ زیر حراست طلبہ کو رہا کیاجائے اور نئی نظر بندیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
خیال رہے کہ مہسا امینی کی حراست میں ہلاکت کے بعد ایران کے کئی شہروں میں شروع ہونے والے مظاہرے ایک ماہ سےجاری ہیں۔
اسلامک انسٹی ٹیوشنز سٹوڈنٹس یونین کے ٹیلی گرام پیج پر شائع ہونے والی تصاویر کے مطابق علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے طلباء نے حکومتی ترجمان کے یونیورسٹی کے دورے کے دوران احتجاج کیا۔طلباء نے دعویٰ کیا کہ جب یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے سامنے خصوصی دستے اور منی بسیں موجود تھیں، رضاکار ملیشیا فورس بیسک کے دستوں اور یونیورسٹی طلباءکے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی تصاویر میں مازندران یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے بھی مظاہرہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔مظاہرین نعرے لگا رہے تھے”ہمیں ملٹری یونیورسٹی نہیں چاہیے”اور جب ہم سچ بولتے ہیں تو ہم پر حملےکیے جاتے ہیں۔”
تیرہ ستمبر کو دارالحکومت تہران میں 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس کے دستوں نے حراست میں لیے جانے کے بعد 16 ستمبر کو ہسپتال منتقل کردیا گیا جس پر وہ ہسپتال ہی میں انتقال کر گئیں جس پر عوام غم و غصے میں گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے۔
مظاہرے، جو 17 ستمبر کو ایمینی کے آبائی شہر ساکز میں جنازے کے بعد شروع ہوئے، کئی شہروں میں پھیل گئے۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے 24 ستمبر کو اعلان کیا کہ مظاہروں میں سیکورٹی فورسز سمیت 41 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ایرانی انسانی حقوق کی سرگرم ایجنسی (HRANA)نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 17 ستمبر سے 14 اکتوبر کے درمیان 233 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 32 بچے اور 26 سیکیورٹی گارڈز شامل ہیں۔
انسانی حقوق گروپ کے مطابق اب تک سکیورٹی فورسز نے تقریبا چھ ہزار مظاہرین کو حراست میں لیا ہے۔ جبکہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایک ماہ کے دوران ایران کے 112 شہروں اور قصبات میں احتجاج پھیل چکا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس مسلسل پھیلتے ہوئے احتجاج نے اب سیاسی احتجاج کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مظاہرین ایرانی حکومت ہی نہیں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف بھی نعرے لگاتے ہیں اور ایرانی حکمرانوں کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔