عتیق احمد کے قتل کے معاملے میں پولیس کا کوئی قصور نہیں، اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا
نئی دہلی، اکتوبر 1: اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اپریل میں گینگسٹر سے سیاستدان بنے عتیق احمد کے قتل میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔
عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو 15 اپریل کو تین افراد نے خود کو صحافی ظاہر کرتے ہوئے نہایت قریب سے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب پولیس اہلکار انھیں میڈیکل چیک اپ کے لیے لے جا رہے تھے۔ دونوں بھائی قتل کے ایک مقدمے میں زیر حراست تھے۔
اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے جواب میں داخل کردہ اسٹیٹس رپورٹ میں یہ بات کہی ہے۔ 11 اگست کو عدالت نے ریاست سے کہا تھا کہ وہ اتر پردیش پولس کی طرف سے گولی مار کر مارے جانے کے سات واقعات میں تحقیقات یا مقدمے کی حالت کے بارے میں تازہ ترین معلومات پر حلف نامہ داخل کرے۔
سپریم کورٹ نے ریاست کو یہ بھی بتانے کی ہدایت کی تھی کہ اس نے اس معاملے پر عدالت اور کمیشنوں کی سفارشات اور ہدایات کی کس حد تک تعمیل کی ہے۔
جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس اروند کمار پر مشتمل بنچ دو درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔
ایڈوکیٹ وشال تیواری کی طرف سے دائر کی گئی پہلی درخواست میں 2020 میں گینگسٹر وکاس دوبے اور اس کے گینگ ممبران کی موت کے ساتھ ساتھ عتیق احمد اور اشرف احمد، عتیق احمد کے بیٹے اسد اور معاون محمد غلام کی ہلاکت پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
دوسری درخواست عتیق احمد کی بہن عائشہ نوری کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں اپنے بھائیوں کے قتل کی عدالتی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اتر پردیش حکومت نے ریاستی پولیس کے خلاف الزامات کو مسترد کردیا۔
حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ احمد برادران کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر آف پولیس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اس کی نگرانی پریاگ راج زون کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی سربراہی میں تین رکنی نگران ٹیم کر رہی تھی۔ ریاست نے کہا کہ مزید برآں، الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس دلیپ بابا صاحب بھونسلے کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔
ریاست نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کو تعزیرات ہند اور اسلحہ اور فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 1932 کے مختلف دفعات کے تحت چارج شیٹ کیا گیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ جانچ ’’کچھ دوسرے نکات پر ثبوت جمع کرنے کے لئے جزوی طور پر جاری ہے۔‘‘
ریاستی حکومت نے کہا کہ ’’[پولیس] ان واقعات کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے جس میں عتیق احمد اور اشرف کا قتل بھی شامل ہے۔ پولیس پر لگائے گئے الزامات سراسر غلط اور بلاجواز ہیں۔‘‘
11 اگست کو عدالت نے سوال کیا تھا کہ عتیق احمد کو کئی پولیس اہلکاروں کی حفاظت کے باوجود کیسے قتل کر دیا گیا؟