پاکستان میں گذشتہ چار سالوں میں 42 صحافیوں کو قتل کیا گیا
نئی دہلی، جنوری 22: پاکستانی حکومت کی طرف سے جمعے کے روز شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چار سالوں میں پاکستان میں 42 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
ڈان کی خبر کے مطابق پاکستان کے پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے جمعہ کو سینیٹ کو بتایا کہ ان اموات میں ایسے واقعات شامل ہیں جہاں صحافیوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا، دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیا گیا یا جن کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
اخبار کے مطابق ہلاک ہونے والے 42 صحافیوں میں سے 15 کا تعلق پنجاب، 11 کا سندھ، 13 کا خیبر پختونخوا اور تین کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ ملک کی حزب اختلاف کی جماعت جماعت اسلامی نے کہا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں صحافیوں کو تحفظ دینے میں کس طرح ناکام رہی ہیں۔
بین الاقوامی غیر منافع بخش تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق 2012 سے اب تک ہر سال اوسطاً پانچ پاکستانی صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تنظیم کی جانب سے مرتب کیے گئے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے گذشتہ سال 180 ممالک میں پاکستان کو 157 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’2012-22 کے عرصے میں قتل کیے گئے 53 صحافیوں میں سے صرف دو کے قاتلوں کو عدالتوں نے سزا سنائی گئی ہے۔‘‘
بھارت میں صحافت کی آزادی
معلوم ہو کہ بھارت بھی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 150 ویں نمبر پر تھا۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ’’صحافیوں کے خلاف تشدد، سیاسی طور پر متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کے ارتکاز‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں پریس کی آزادی بحران کا شکار ہے۔
دسمبر میں صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے بھی بھارت میں سات صحافیوں کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمیٹی نے جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے استعمال پر توجہ مرکوز کی تھی، جس کے تحت صحافیوں آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل کو عدالتوں سے الگ الگ مقدمات میں ضمانت ملنے کے باوجود جیل میں رکھا گیا ہے۔
جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ افراد کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھ سکیں تاکہ انھیں کسی بھی ایسے طریقے سے کام کرنے سے روکا جا سکے جو ’’ریاست کی سلامتی یا امن عامہ کی بحالی‘‘ کے لیے نقصان دہ ہو۔