نکاح دائمی مسرت کا ذریعہ بن سکتا ہے
کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے غلط تصورات کی اصلاح ضروری
رحمت النساء عبدالرزاق
ترجمہ: سلیم الہندیؔ (حیدرآباد)
نئی نسل میں شادی سے بیزاری کا رجحان!۔ پس پردہ عوامل پر ایک نظر
جب ہم شادی شدہ نوجوانوں سے ان کی شادی کے بارے میں پوچھتے ہیں تو ہمیں اس قسم کے جوابات سننے کو ملتے ہیں:
میں غیر شادی شدہ ہوں لیکن تنہا نہیں ہوں
’پہلے مجھے اپنا مستقبل سنوارلینے تو دو‘
’میں ابھی شادی کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا‘
’پہلے مجھے اپنی زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز تو ہونے دیجیے‘
’مجھے اپنی والدہ اور بڑی بہنوں کی طرح، زندگی کی کشمکش اور مصیبتوں سے دوچار نہیں ہونا ہے‘
’دراصل مجھے ایک مکمل اور مثالی رفیق حیات کی تلاش ہے‘ وغیرہ۔۔
کیا ہم شادی نہ کرنے کے ان بہانوں کو سن کر نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں؟
آئیے ان سوالات کے جواب تلاش کرتے ہوئے ہم یہ سوچیں گے کہ ان نوجوانوں پر ہمارا تبصرہ کرنا کس حد تک جائز ہوسکتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرنوجوان نسل شادی سے گریز کیوں کررہی ہے؟ کیوں وہ والدین یا سرپرستوں کی بات ماننے کو تیار نہیں؟ ظاہر بات ہے کہ ایسے لاپروا قسم کے نوجوانوں کی معاشرے کو بھی کوئی پروا نہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آج کے یہ نوجوان شادی کرنا کیوں نہیں چاہتے؟ اگر وہ مجبوراً راضی بھی ہوجاتے ہیں تو سرپرستوں اور والدین سے بے شمار نامعقول توقعات کیوں رکھتے ہیں؟ شاید انہیں یہ خوف ہوتا ہو کہ شادی کے بعد بحیثیت شوہر و بیوی، ایک دوسرے کے مطالبات و خواہشات کی تکمیل کر پائیں گے بھی یا نہیں۔ آئیے! ہم آج ایک ایک کرکے ان تمام عوامل اور اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جو اس قسم کے رد عمل کا باعث بنتے ہیں۔
آج کے مادہ پرست ماحول کا پس منظر:
آج زندگی کی دوڑ دھوپ میں گزر رہی ہماری عائلی زندگی کے ہر معاملے کو، سرمایہ دارانہ نظام کے زیراثر،نفع و نقصان کے پیمانے پر تولا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان نوجوانوں کے ذہنوں پر مادہ پرستی بری طرح حاوی ہے۔ دوستی، باہمی تعلقات اور ازدواجی زندگی کے معاملات میں، روپیے پیسے اور دولت کی اساس پر، انسانوں کی قدر و قیمت متعین کرنے کی ترغیب دی جانے لگی ہے۔ ایک دوسرے کو ہونے والے مادی فوائد کی بنیاد پر، رشتہ داری کی جارہی ہے۔ اسی معاشرے میں ہمارے والدین نے سماج کو جو کچھ دیا ہے، اسی کو نئے دلکش اور خوبصورت انداز میں بازاروں میں بیچا جارہا ہے مثلاً کھانے پینے کی اشیاء‘ پہننے اوڑھنے کے لباس اور سب سے بڑھ کر جنسی تعلقات میں جدّت بھی آج بازار میں موجود ہے اورلوگ جنسی خواہشات کی ناجائز طریقوں سے تکمیل کے ذریعہ سماجی رشتوں کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن یہ کوشش محبت کی بنیاد تو نہیں بن سکتی۔
آزاد خیالی:
لبرلزم (شخصی آزادی)‘ کمیونزم‘ انفرادیت پسندی اور اسی طرح کے خام نظریات‘ عام لوگوں کو یقین دلاتے ہیں اور یہ ان کا ماننا بھی ہے کہ تمام سماجی خاندانی رشتے‘ افراد کی شخصی آزادی میں آج سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر فرد کو اس کی شخصی آزادی اور نجی زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا پورا حق حاصل ہے اور وہ اس کے لیے آزاد ہیں۔ وہ اس بات کا پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ چونکہ انسان کو صرف ایک بار زندگی ملتی ہے تو ہر صورت میں کسی شخص کی زندگی پر صرف اسی شخص کا حق ہونا چاہیے ‘ سماج اور معاشرے کی عائد کردہ پابندیاں اور بندشیں کے شخصی حقوق کو چھین نہیں سکتیں بلکہ وہ معاشرتی اور خاندانی اقدار پر مبنی اصولوں سے ہٹ کر، جانوروں کی طرح زندگی گزارنے کو، فرد کا حق سمجھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر آج کل ایک نعرہ بہت عام ہوچکا ہے ’’میرا جسم میری مرضی‘ ایسا کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں، انہیں اپنے اس حق کے استعمال کے راستے میں شادی، خاندان اور بچے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی ، ان کے روشن مستقبل اور تعلیم کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ اس قسم کے رجحانات اور نظریات، سماج کے ان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنی راغب کرنے میں کامیاب بھی ہورہے ہیں جو کسی بھی کام کے جھٹ پٹ، فوراً اور قلیل وقت میں بہترین نتائج کے متمنی ہوتے ہیں، جس سے ان کو ذہنی تسکین پہنچتی ہو۔ عموماً اس مزاج کے نوجوان‘ محنت اور طویل وقت کے بعد حاصل ہونے والے پائیدار فوائد کا انتظار کرنا نہیں چاہتے اسی لیے انہیں پسند بھی نہیں کرتے۔
ہم جنس پرستوں کی محفلوں میں #LGBTQA پر دوران مباحث میں جو نظریات، عام خاندانی زندگی کے لیے خطرہ اور چیلنج ہیں وہی نظریات‘ سماج میں رہنے والے ان نوجوانوں کے نظریات کی ضمنی پیداوار ہیں۔
L=Lesbian G=Gay B=Bisexual T=Transgender Q=Queer of Questioning A=Asexual or Ally #=Pan Sexual-Genderqueer-Non binary
بھارت میں شادی بیاہ کے موقع پر رائج رسم و رواج:
بھارت میں شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو جہیز دینے کا رواج اور دیگر کئی جاہلانہ رسم ورواج نے جہاں شادیوں کو بہت مشکل بنا دیا ہے وہیں پر جسم فروشی اور فحاشی کو آسان بنادیا ہے۔ اسی وجہ سے نوجوان لڑکیوں اور غیر شادی شدہ خواتین کے ذہنوں میں شادی سے نفرت کا احساس تیزی سے پیدا ہورہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ طبقہ شادی بیاہ کے قانونی، مذہبی اور سماجی بنیادوں پر قائم، جائز کام کو اختیار کرنے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں بہت سی بن بیاہی لڑکیاں اپنے گھروں میں اپنی ماؤں کے ساتھ سسرالی رشتہ داروں کے ناشائستہ، ناروا اور ظالمانہ سلوک کو دیکھ کر بڑی ہوتی ہیں۔ گھر کے ایسے بدترین حالات، خود بخود ان لڑکیوں کی سماج کے خلاف منفی ذہن سازی کرتے رہتے ہیں۔ نتیجے میں ان لڑکیوں کے دلوں میں شادی کے خلا ف نفرت اور خوف پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔اسی کے پیش نظر وہ زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیتی ہیں۔
آج کل ہم یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ لڑکیاں جس قدر تعلیم یافتہ ہو رہی ہیں، اتنی ہی اپنے حقوق کے بارے میں باشعور ہورہی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے کسی ایثار ‘ قربانی یا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ازدواجی زندگی کو مصائب و مصیبتوں کے دلدل میں پھنسا کر جینا نہیں چاہتیں۔
آن لائین میریج بیورو
آن لائن میریج بیورویا شہروں میں شادی بیاہ اور رشتے کروانے والے دفاتر کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں لڑکیوں کے بہت کم پروفائلز، رجسٹر کیے گئے، خاص طور پر ریاست کیرالا میں جہاں لڑکیوں کا تعلیمی تناسب 2015 کے بعد سے بہت زیادہ اونچا ہوگیا ہے۔ اس کے برخلاف لڑکوں اور مردوں میں اس کا بالکل الٹا اثر دیکھا گیا۔ چنانچہ آج اس ریاست میں لڑکے اور غیر شادی شدہ مرد، مشترکہ خاندانی اور مذہبی رسومات کی پابندی چاہتے ہیں کیوں کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام کومحفوظ سمجھتے ہیں۔
سماج پر الکٹرانک اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات:
الکٹرانک اور سوشل میڈیا‘ دلہا دلہن اور ان کی خوشگوار ازدواجی زندگی کی نہایت غیر حقیقی اور مصنوعی تصویر پیش کرتا ہے۔ ان کے زیادہ تر اشتہارات میں دلہن کو بیش قیمتی لباس اور مہنگے زیورات سے لدی‘ میک اپ میں لت پت نہایت خوبصورت‘ دبلی پتلی اور دراز قد شخصیت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسی طرح دلہا کو بھی اسی طرح شاہانہ انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ میریج ہالس‘ ان کی سجاوٹ، ڈنر کے مہنگے مینو‘ اس طرح پیش کرتا ہے کہ ایک عام نوجوان، اس معیار کی شادی کے بارے میں خود اپنی شادی کرنے یا لڑکی کے غریب یا متوسط والدین، اس معیار کی شادی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان تمام رکاوٹوں اور پریشانیوں کے بعد جب شادی ہوجاتی ہے تو الکٹرانک اور سوشل میڈیا کسی خوشگوار ازدواجی زندگی کا مطلب سمجھاتا ہے کہ شادی کے بعد سب سے پہلے ہنی مون منانا نہایت ضروری ہے۔ اس کے لیے سفر کے اخراجات، ہوٹل کے مصارف، دیگر غیر ضروری اشیاء کی خریداری‘ قیمتی کاروں میں سیر و تفریح کے انتظام کے علاوہ وہ نئی دلہن کے بناو سنگھار کو شہزادی سنڈریلا کی شادی کے معیار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان تمام غیر حقیقی، غیر فطری ، نام نہاد رسومات، آپس کے مطالبات پر مبنی اخراجات کے باوجود نوجوان شادی کرلیتے ہیں لیکن سوچیے ان نوجوانوں کی شادی کے بارے میں، جن کی مالی استطاعت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ ان اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ جسمانی خوبصورتی اور دولت کے غیر حقیقی معیارات نے لڑکی اور لڑکے، دونوں کے لیے، شادی کو ناممکن بنا رکھا ہے۔ بالفاظ دیگر، متوسط اور غریب گھرانوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے شادی کرنا، ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، اس کے باوجود خاندانوں میں شادی ہوجانے کے بعد سسرال میں پیدا ہونے والے افراتفری کے ماحول کو ہماری فلموں اور ٹی وی سیریلوں نے مزید گھناونا بنادیا ہے جنہیں دیکھ دیکھ کر شادی کا ارادہ کرنے والے نوجوان، نفسیاتی طور پر پریشان کیے جارہے ہیں۔ ان سیریلوں میں شادی شدہ میاں بیوی کے غیر مردوں اور عورتوں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات کونہایت بے شرمی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں دلہن کو ایک ایسی مثالی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو گھر کے تمام افراد کے مختلف چھوٹے موٹے کام، نہ صرف صبر و سکون کے ساتھ اکیلی کرتی ہے بلکہ سسرال کے دیگر افراد کے مظالم کا سامنا خاموشی کے ساتھ کرتی ہے۔ بحیثیت مجموعی گھر کی بہو کو بلامعاوضہ کام کرنے والی ایک گھریلو ملازمہ سمجھا جاتا ہے جس کا کام گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ اس کی اپنی ضروریات، صحت اور آرام کے متعلق، اس گھر میں ان کی فکر کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سسرال میں بہو کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ سلوک، جب ان کی بن بیاہی پڑھی لکھی لڑکیاں دیکھتی ہیں تو کہتی ہیں کہ اگر میں خود اپنی کمائی کے بل بوتے پر بہتر زندگی گزار سکتی ہوں تو کسی کے ساتھ شادی کرکے مجھے کسی کے گھر میں بلا معاوضہ کام کرنے والے نوکرانی بن کر زندگی نہیں گزارنی ہے۔ اس پس منظر میں، کاروباری ذہن کے لوگ، فلموں اور ٹی وی سیریلس میں شادی کے بغیر استوار کیے جانے والے ناجائز جنسی تعلقات کو جائز دکھا کر نوجوانوں کو گمراہ کررہے ہیں اور شادی نہ کرنے کی وجہ سے یہ نوجوان شادی کے نام سے متنفر ہورہے ہیں۔
شادیوں کے تمام انتظامات پر تجارتی ادارے قابض ہیں:
آج کل شادیوں کے تمام تر انتظامات، گھر کے افراد کے بجائے، زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں، تجارتی ادارے (ایونٹ مینیجمنٹ) کر رہے ہیں ۔ ان اداروں کا ایک ہی نقطہ نظر ہوتا ہے کہ تقریب کو دلکش اور دلفریب بنایا جائے تاکہ فریق سے زیادہ سے زیادہ آمدنی ہو۔ اسے الیکڑانک میڈیا پر بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے خاندان بھی ان کی خدمات حاصل کریں۔ فریقین جتنا زیادہ خرچ کریں گے، ان اداروں کو اتنا ہی زیادہ نفع ہوگا ، یہی ان کا نصب العین ہے۔ ان تقریبات کی دلکشی سے سماج کے دیگر خاندان کے ذمہ دار افراد یقیناً متاثر ہوتے ہیں اور اسی قسم کے انتظامات کا مطالبہ ‘لڑکی والوں سے کرتے ہیں۔ فضول خرچی کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ بالآخر لڑکیوں کے والدین ان کے مطالبات کی تکمیل میں قرض میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر، شادی کرنے کے لائق نوجوان ، شادی کے اس قدر زیادہ اخراجات کا حساب کتاب کرتے ہیں اور خود ہی فیصلہ کرلیتے ہیں کہ انہیں شادی نہیں کرنی ہے۔ اس کے برخلاف بعض لڑکیوں کا خیال ہے کہ چونکہ شادی زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے، اس لیے شادی کا دن، یادگار دن ہونا چاہیے ورنہ انہیں شادی نہیں کرنی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اور وجوہات ہیں جن سے نوجوانوں کی شادی میں تاخیر ہورہی ہے۔
شادی کے بغیر‘ جنسی تعلقات کی قانونی حیثیت:
دنیا کے مختلف ممالک میں انسانوں کو زندہ درگور کرنے والی بعض منشیات فروخت کرنے کوجس طرح قانوناً جائزقراد دیا گیا ہے اسی طرح جسم فروشی‘ ہم جنس پرستی اور شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے نوجوانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ان کاموں میں نہ کوئی قباحت ہے نہ کوئی جرم۔ عوام یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس سے ان کی نوجوان نسل اور آئندہ آنے والی نسلیں تباہ ہورہی ہیں۔ ان قوانین کی وجہ سے خواتین کو انسان کی حیثیت سے سلوک کرنے کے بجائے انہیں بھی ایک قابل فروخت جنسی شے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یعنی یہ وہ جنس ہے جسے بہ آسانی خریدا اور بیچا جاسکتا ہے۔ اس خبیث پروپیگنڈے کے ذریعے ، خواتین کا استحصال عام بات بن گئی ہے ۔
تنہا زندگی گزارنے والوں کے ‘معاشرے اور افراد پر منفی اثرات:
سماجی اقدار پر مبنی ہمارے معاشرے میں تنہا زندگی گزارنے والوں کی کوئی خاندانی‘ سماجی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہوتی۔ سماج میں ایسے افراد کی وجہ سے بے حیائی فروغ پاتی ہے جس کے نتیجے میں امن و سکون کا فقدان ہے۔ جب کسی فرد کو تنہا رہنے کی ضرورت ہی نہ ہو اور اس کے باوجود وہ تنہا زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اپنی نفسانی‘ فطری اور دیگر انسانی خواہشات کی تکمیل غیر اخلاقی اور ناجائز طریقوں سے پوری کر رہا ہوتا ہے۔ آج بھی ہمارے سماج میں، شادی کے بغیر کسی عورت کا کسی غیر مرد سے یا کسی مرد کا کسی غیر عورت سے جنسی تعلقات قائم کرنا‘ اتنا آسان کام نہیں جتنا کہ اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ایسے افراد ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہونے کی وجہ سے‘ وہ اپنی جسمانی صحت یا کسی بیماری میں مبتلا ہونے کا اظہار نہیں کرتے اور نہ ایک دوسرے کو اس کا پتہ چل پاتا ہے۔ وقتی لذت کے نتیجے میں دونوں فریق امراض خبیثہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے دیگر افراد میں یہ بیماری تیزی سے خود بخود پھیلنے لگتی ہے۔ اسی وجہ سے عام طور پر عقل مند لوگ، عام سماجی زندگی کے دائرے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف افراد کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم رکھنے والے مرد و خواتین، سماجی اور جسمانی طور پر‘ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں‘ یہ اپنے ناجائز پارٹنر پر کسی قسم کا اعتبار نہیں کرتے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اجنبیوں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات، عارضی ہوتے ہیں۔ یہ تعلقات صرف اس وقت تک قائم رہتے ہیں، جب تک کہ ایک دوسرے کی شخصیت میں کشش باقی ہے‘ صحت مند ہیں اور روپیہ پیسہ خرچ کرنے کے لائق ہیں۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ جنسی لذت کا حقیقی حصول، دراصل عورت اور مرد کی اپنی ذہنی کیفیات سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوع انسان کی تخلیق ہی کچھ اس طرح سے ہوئی ہے کہ اس قماش کے مرد و خواتین میں جو غیر اخلاقی تعلقات میں مبتلا ہیں انہیں فطری طور پراپنے اس پوشیدہ جرم اور گناہ کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ طویل عرصے تک اجبنی عورتوں اور اجنبی عورتوں کے ساتھ ناجائزاور غیر اخلاقی زندگی گزارنے کے بعد وہ اپنے آپ کو سماج میں تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ تناو اور افسردگی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ باقی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہ دیگر غیر فطری طریقوں اور ذرائع کی تلاش کرنے لگتے ہیں، منشیات اور فحش لٹریچر اور فلموں کا سہارا لیتے ہیں۔ آخر کار جب ان ذرائع سے بھی کوئی اطمینان و سکون حاصل نہیں ہوتا ہے تو خودکشی کرکے مرجاتے ہیں۔ اس قماش کے افراد کا یہی انجام ہوتا ہے۔
تنہا رہنے والے نوجوان عموماً غیر متوازن سماجی زندگی گزارتے ہیں، اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرکے ہمیشہ سودی قرض میں مبتلا رہتے ہیں اور جب ان سے شادی کرنے کی بات کی جاتی ہے تویہ شادی میں ہونے والے ضروری اخراجات اور شادی کے بعد ان کے کندھوں پر آنے والی مالی ذمہ داریوں سے کتراتے ہیں اور شادی میں عمداً تاخیر کرنے لگتے ہیں۔ وہ کسی ضرورت مند رشتہ دار کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ (جاری)
***
***
جو لوگ خاندانی رشتوں کی پاسداری کرتے ہیں، عزیز و اقارب، دوست احباب، پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں، وہی لوگ نتیجہ خیز اور کامیاب کہلاتے ہیں۔ وہ تمام خدمات جو ایک منظم خاندان ہمیں فراہم کرتا ہے وہی سہولیات اور چیزیں آج بازار میں کھلے عام دستیاب ہیں۔ ترقی یافتہ کہلانے والے افراد کو بازار سے خریدی ہوئی چیزیں ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024