قومی اقلیتی کمیشن نے کاس گنج میں الطاف نامی نوجوان کی حراست میں موت پر حکومت سے رپورٹ طلب کی
نئی دہلی، نومبر 13: اتر پردیش کے کاس گنج ضلع میں ایک 21 سالہ مسلمان شخص کی حراست میں موت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) نے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اور چیف سکریٹری سے 15 دن کے اندر کارروائی رپورٹ طلب کی ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ نوجوان الطاف نے دوران حراست خودکشی کی، جب کہ اس کے اہل خانہ نے پولیس کی جانب سے تشدد کا الزام لگایا ہے۔
دریں اثنا پولیس سپرنٹنڈنٹ روہن بوترے نے لاپرواہی کے الزام میں کاس گنج اسٹیشن ہاؤس آفیسر، دو سب انسپکٹر، ایک ہیڈ آفیسر اور ایک کانسٹیبل سمیت کل پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق این سی ایم کے چیئرپرسن اقبال سنگھ لال پورا نے کہا ’’ہم نے چیف سکریٹری کے ساتھ ساتھ ڈی جی پی دونوں سے رپورٹ طلب کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ 15 دنوں کے اندر حراست میں ہونے والی موت پر جواب دیں۔‘‘
معلوم ہو کہ پولیس مبینہ طور پر نوجوان الطاف کو ایک خاتون کے ساتھ بھاگنے کے الزام میں پیر 8 نومبر کو پوچھ گچھ کے لیے صدر تھانے لے گئی۔
الطاف کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ اسے پولیس نے لاک اپ میں پھانسی دی جب کہ پولیس نے اسے خودکشی کا معاملہ قرار دیا ہے۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ روہن بوترے نے اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ ’’الطاف ولد چاند میاں کو لڑکی کے ساتھ بھاگنے کے الزام میں لایا گیا، جب پولیس اس سے پوچھ گچھ کر رہی تھی تو اس نے پولیس اہلکار کو باتھ روم جانے کو کہا، پولیس اہلکار نے اسے لاک اپ کے اندر موجود باتھ روم میں بھیج دیا۔ اور تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر نہ آیا تو ایک کارکن چیک کرنے گیا، اس نے اپنی جیکٹ کے ناڑے کو پائپ سے باندھ کر گلے میں باندھ لیا تھا۔‘‘
تاہم اس واقعے کے ارد گرد کے متنازعہ حالات پر کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
مثال کے طور پر جس پائپ سے پولیس کا دعویٰ ہے کہ الطاف نامی ایک پانچ فٹ قد کے آدمی نے اپنی جیکٹ کے ناڑے کا استعمال کرتے ہوئے خود کو باندھا تھا، وہ صرف 2 فٹ لمبا ہے۔
مزید یہ کہ پائپ مبینہ طور پر دیوار سے اتر گیا تھا اور مبینہ طور پر اسے دوبارہ اپنی اصل پوزیشن پر لگایا گیا تھا۔
ادھر الطاف کی والدہ فاطمہ کا موقف ہے کہ ان کے بیٹے کو پولیس نے ہی مارا ہے۔
حراست میں ہونے والی موت کو اپوزیشن کی طرف سے بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نےہندی میں ایک ٹویٹ کرتےہوئے پوچھا تھا ’’کیا اتر پردیش میں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے؟‘‘