!نفرت انگیز بیان بازیوں کو ہوا دینا ذرائع ابلاغ کے لیے نیا فیشن

تفتیشی صحافت کرنے والے میڈیا اداروں سے صحافت کی لاج باقی ہے

شہاب فضل، لکھنؤ

بعض ملکی اور بین الاقوامی صحافتی ادارے نفرت کے سوداگر تو بعض محبت کے علم بردار
دو پاکستانی شہریوں نے ایک بھارتی شخص کی دبئی میں حفاظت کی ۔اخبار کے توسط سے گمشدہ شوہر کو بیوی سے ملوایا
ذرائع ابلاغ نے حالات حاضرہ کی خبروں، تجزیے اور امور و مسائل کو کب کہاں کتنا اور کیسے پیش کرنا ہے اسے اپنے ایجنڈے کے مطابق طے کررکھا ہے ۔ معروف تجزیہ نگار یوگیندر یادو نے ’پنجاب کیسری‘ میں18 ستمبر کو شائع شدہ اپنے کالم بعنوان ’’ صرف منی پور ہی نہیں جل رہا‘‘ میں لکھا ہے : ’’۔۔۔۔۔۔دیکھیے، یہ منی پور کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ کوئی ممبئی تو ہے نہیں، جہاں کار حادثہ بھی خبر بن جائے۔ اب یہ میتی اور کوکی والا کیا جھگڑا ہے؟ اگر کوئی ہندو مسلمان والا مسالہ ہو تو بتائیے کہ اس کی خبر چلائیں۔ اور اوپر سے حکومت بھی بی جے پی کی۔ اگر اپوزیشن کی حکومت میں جنگل راج کی خبر ہوتی تو چل بھی جاتی۔ کچھ ایسی خبریں لائیے جس میں کچھ رس ہو، ہمارے ریڈرس کے لیے دلچسپی ہو۔ چلیے میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ سنسنی خیز خبر سناؤں آپ کو! ۔۔۔۔۔۔ ۔ریاست کی سلامتی ، امن و قانون کی ذمہ داری مرکز کے مقرر کردہ سیکورٹی ایڈوائزر کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ سوچیے، اگر اپوزیشن پارٹی کی حکومت ہوتی تو کیا خبر بنتی؟ کیا قومی سلامتی کے تئیں مرکزی وزیر داخلہ کے غفلت کی خبر بن سکتی ہے؟ ‘‘۔ ان جملوں میں ہماری میڈیا کی سوچی سمجھی بے خبری پر طنز بہت واضح اور براہ راست ہے۔
نفرت پر مبنی جرائم اور مرکزی دھارے کے ٹی وی چینلز کا رویہ
حقائق کی تفتیش کرکے سچ اور جھوٹ کا انکشاف کرنے والی ویب سائٹ ’’آلٹ نیوز‘‘ نے 17 ستمبر کو میڈیا کوریج کا ایک تجزیہ شائع کیا ہے۔ اگست کے آخری ہفتہ میں مسلمانوں سے نفرت کے باعث جنم لینے والے دو مجرمانہ واقعات پیش آئے۔ ہریانہ میں پچیس برس کے صابر ملک کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا اور مہاراشٹر میں ایک ٹرین میں عمر رسیدہ حاجی اشرف پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔سوشل میڈیا، پرنٹ و ڈیجیٹل میڈیا اور چنندہ یوٹیوب چینلوں پر ان دونوں واقعات پر وسیع پیمانے پر لکھا اور بولا گیا۔ تاہم آلٹ نیوز کے مطابق بہت سے مرکزی دھارے کے ٹی وی نیوز چینلز جو کہ فرقہ وارانہ مسائل پر مسلسل ڈبیٹ کرتے رہتے ہیں، یا تو انہوں نے اپنے پرائم ٹائم میں ان دونوں واقعات کو مکمل طور سے نظر انداز کردیا یا مختصراً ذکر کیا اور انہیں اہمیت نہیں دی۔
ریپبلک ٹی وی (ریپبلک ورلڈ، ریپبلک بھارت) نے ان واقعات کو نظرانداز کیا اور ان کے بجائے 1984 کے سکھ مخالف فسادات اور کولکاتا کے آر جی کار ریپ مرڈر کو اولیت دی، جب کہ این ڈی ٹی وی، آج تک ، ٹائمز ناؤ، ٹائمز ناؤ نوبھارت، اے بی پی نیوز نے ان دونوں خبروں کا ذکر تو کیا مگر پرائم ٹائم شو میں ان کے اسٹار اینکرز نے ان کا ذکر تک نہیں کیا۔
اس کے برعکس انڈیا ٹوڈ ے اور زی نیوز نے ان پر پرائم ٹائم ڈبیٹ کا اہتمام کیا اور تمام پہلوؤں سے تجزیہ بھی کیا۔ انڈیا ٹوڈے (انگریزی) چینل پر راج دیپ سردیسائی نے دونوں واقعات پر تفصیلی گفتگو کی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو ان جرائم کے لیے ذمہ دار ٹھیرایا۔ زی نیوز (ہندی) پر اینکر اننت تیاگی نے اپنے شو ’’تال ٹھونک کے۔۔‘‘ میں صابر ملک کی لنچنگ کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور جان لے لی گئی مگر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ حملہ آوروں کا یہ کہہ کر بچاؤ کررہے ہیں کہ’’ یہ (گائے کا گوشت) لوگوں کے جذبات سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔۔۔۔ گاؤں میں ایسی چیزیں ہوجاتی ہیں۔۔ یہ (لنچنگ) نہیں ہونا چاہیے تھا ، مگر انہیں کون روک سکتا ہے‘‘؟ دوسری طرف انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے دونوں واقعات کو صفحہ اوّل پر جگہ دی۔
نیوز ایجنسی پر فرضی خبر پھیلانے کا الزام
ملٹی میڈیا نیوز ایجنسی اے این آئی پر حال ہی میں کچھ فرضی خبریں پھیلانے کے الزامات لگے ہیں جس کی ایک تازہ مثال کچھ یوں سامنے آئی کہ گنیش چترتھی مذہبی تیوہار پر کرناٹک میں گنپتی کی مورتی ضبط کرنے کی جھوٹی خبر پر اس نیوز ایجنسی نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا بیان لیا اور اسے ایکس پر نشر و شائع کیا۔ کانگریس کی حکومت میں پولیس کے ذریعہ مورتی کی ضبطی اور اس کی توہین کا الزام 14 ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ہریانہ کے شہر کروکشیتر میں ایک انتخابی ریلی کے دوران اور 17 ستمبر کو بھوبنیشور میں دہرایا۔اسی کے ساتھ بی جے پی کے متعدد لیڈر، وزراء، بی جے پی آئی ٹی سیل اور آن لائن ٹرولز نے اسے جگہ جگہ پھیلایا۔بنگلورو ساؤتھ سے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے 13 ستمبر کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کرکے لکھا کہ پولیس کی گاڑی میں گنیش جی کی مورتی کی تصویر خوف ناک ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کانگریس ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کرنے پر آمادہ ہے۔
سوشل میڈیا پر دائیں بازو کے مختلف اکاؤنٹس سے ایسی ویڈیو اور تصاویر شیئر کی گئیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بنگلورو پولیس نے گنیش کی مورتی کو ضبط کرکے اس کی توہین کی ہے۔
حقیقت یہ تھی کہ بنگلورو میں ٹاؤن ہال کے قریب ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین گنیش کی مورتی لے کر آئے تھے۔ یہاں نافذ العمل ضابطوں کے مطابق شہر کے فریڈم پارک پر ہی مظاہروں کی اجازت ہے۔ ٹاؤن ہال کے قریب مظاہروں کی اجازت نہیں ہے، چنانچہ پولیس نے آکر بھیڑ کو روکا ، لوگوں کو حراست میں لیا اور ایک پولیس جوان نے مورتی کو مظاہرین سے لے کر خالی پولیس وین میں رکھ دیا تاکہ اس کی توہین نہ ہو۔ میڈیا کے فوٹوگرافر جب اس کی تصویر اتارنے لگے تو پولیس کو معاملہ کی نزاکت کا احساس ہوا اور اس نے مورتی کو فوراً ہی ایک جیپ میں رکھا اور پانی میں لے جا کر وِسرجن کر دیا۔
حقیقت کی وضاحت کرنے کے بجائے اے این آئی نے ایک جھوٹی بات پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کا بیان لیا اور ایک غلط اطلاع کو مزید لوگوں تک پہنچایا، چنانچہ ایک افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر طوفان آ گیا۔ آلٹ نیوز نے سب سے پہلے اس جھوٹ کو بے نقاب کیا اور حقیقتِ واقعہ سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ بعد میں آج تک نیوز چینل نے بھی فیکٹ چیک کرکے اس کی تصدیق کی کہ پولیس نے گنپتی کی مورتی کو حراست میں نہیں لیا بلکہ اسے حفاظت سے لے جا کر پانی میں وِسرجن کر دیا۔
آر ٹی آئی کے جواب میں نقص کا انکشاف
انگریزی اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس نے 14 ستمبر کو ایک اہم رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ کے شہر اتر کاشی میں بڑا ہاٹ علاقہ میں ایک مسجد کو گرانے کے مطالبہ کو انتظامیہ کی ایک غلطی نے طول دیا۔ دراصل ہوا یہ کہ اگست میں ایک ہندو تنظیم کے کارکن کی ایک آرٹی آئی کے جواب میں، ڈسٹرکٹ پبلک انفارمیشن آفیسر نے کہا کہ ’مسجد کے نام پر فری ہولڈ یا لیز پر زمین ہونے کا کوئی ریکارڈ دفتر میں نہیں پایا گیا‘۔ اس کے بعد شدت پسندوں کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا اور مسجد کو ہٹانے کے مطالبات نے شدت اختیار کرلی۔
اخبار نے اترکاشی کے ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر مہربان سنگھ بشٹ کا بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ’’مسجد کی زمین کا رجسٹریشن اور داخل خارج کا ریکارڈ موجود ہے۔ 2005 میں اپنے ایک حکم میں بھٹواری کے تحصیل دار نے بھی اسی زمین پر مسجد کی موجودگی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا‘‘۔ علاقہ کے ایک باشندے اشتیاق احمد نے بتایا کہ بڑ ا ہاٹ مسجد اترپردیش مسلم وقف ایکٹ کے تحت 20 مئی 1987 کو درج کی گئی تھی اور وہ سنی وقف بورڈ میں درج ہے ۔مسجد اور اس کی زمین پوری طرح قانونی ہے ، وہ کسی بھی طرح سے غیر قانونی نہیں ہے۔
انگریزی اخبار دی پرنٹ نے 14 ستمبر کو مانک شرما کا ایک مضمون شائع کیا جس کی سرخی ہے ’’پُرامن شملہ ایک واہمہ ہے۔ مسجد کے احتجاج نے ہم جیسے مکینوں کو وہاں سے باہر کردیا ہے‘‘۔ سرخی ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہماچل پردیش میں شدت پسندوں اور امن وسکون کے دشمن عناصر نے ریاست میں نفرت کی آگ سلگا کر امن پسند شہریوں کا سکون غارت کردیا ہے۔
اترپردیش میں دو صحافیوں پر ایف آئی آر درج
دریں اثناء، اترپردیش کی لکھنؤ پولیس نے صحافی ابھیشیک اپادھیائے اور ممتا ترپاٹھی کے خلاف20 ستمبر کو ایف آئی آر درج کی ہے۔ دونوں صحافیوں کے خلاف اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی شبیہ بگاڑنے اور سماج میں نفرت پھیلانے کو لے کر ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ دراصل ابھیشیک نے ریاست میں اہم عہدوں پر براجمان ٹھاکر افسروں کی فہرست ایکس پر پوسٹ کی تھی ، جسے ممتا ترپاٹھی نے بھی شیئر کیا تھا۔ خیال رہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت پر ٹھاکر افسروں پر ’خاص مہربانی کرنے‘ کے الزامات لگتے رہے ہیں، جسے سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے بھی اٹھایا ہے۔
اخبار کی مدد سے دبئی میں بھارتی خاتون کو گمشدہ شوہر مل گئے
ایک صحافی کے لیے اس سے زیادہ اطمینان بخش بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی کسی خبر سے امن قائم ہوجائے یا دو بچھڑے ہوئے لوگ مل جائیں۔ دبئی کے اخبار خلیج ٹائمز میں ایک گجراتی خاتون کے گمشدہ شوہر کے سلسلہ میں 19 ستمبر کو خبر کی اشاعت کے دس گھنٹوں کے اندر ہی ان کے شوہر مل گئے جو تین سال سے لاپتہ تھے ۔ 21 ستمبر کو خلیج ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں مقیم گجراتی خاتون کومل نے متعدد شکایات درج کروائیں، بھارتی سفارت خانے اور قونصلیٹ سے رابطہ کیا، وزارت خارجہ کو خط لکھوایا، لیکن اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ خبر شائع ہونے کے بعد وہ وائرل ہوگئی اور دس گھنٹے کے اندر ان کے شوہر سنجے موتی لال پرمار انہیں مل گئے۔ اس واقعہ کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ بھارتی شہری کو دو پاکستانی بھائیوں نے اپنے معمولی وسائل کے باوجود اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا، وہ اپنا پتہ نہیں بتا پا رہے تھے۔ انہوں نے بھارتی شہری کے لیے علیحدہ کچن کا بھی انتظام کیا تاکہ وہ سبزی پکاکر کھاسکیں۔
خبر وائرل ہونے پر پاکستانی بھائیوں نے خلیج ٹائمز کے دفتر سے رابطہ کیا اور سنجے موتی لال پرمار کے بارے میں بتایا، جس کے بعد خلیج ٹائمز کے صحافی نے دونوں میاں بیوی کو ملوایا۔ شاید یہ قصہ گجرات میں مسلمانوں کے خلاف تعصبات کو کم کرنے میں کچھ مددگار ثابت ہو۔
الجزیرہ کی تفتیشی صحافت
قطری نیوز چینل الجزیرہ نے تفتیشی صحافت میں نمایاں مقام بنایا ہے ۔الجزیرہ نے اپنے یوٹیوب چینل پر 18 ستمبر کو 25 منٹ کی ایک ویڈیو اپلوڈ کی ہے جس میں بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے ایک وزیر سیف الزماں چودھری کے اربوں ڈالر کے اثاثوں سے پردہ اٹھایا گیاہے۔ اس تفتیش کے مطابق شیخ حسینہ کے بے حد قریبی مسٹر چودھری نے لندن، دبئی اور نیویارک میں کئی لگژری جائیدادیں خریدیں، لیکن بنگلہ دیش کے ٹیکس حکام سے انہیں پوشیدہ رکھا۔ویڈیو میں مسٹر چودھری ’مہمانوں‘ کو لندن کے اپنے عالی شان مکان کی سیر کراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے لگژری اثاثہ جات کا پتہ لگنے کے بعد بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے سابق وزیر کے بینک اکاؤنٹ منجمد کردیے ہیں اور ان کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کی جانچ شروع کی ہے ۔
میڈیا کا دوغلاپن اور اسرائیل میں احتجاج
میڈیا رپورٹس کے مطابق لبنان میں ہزاروں پیجرس (وائرلیس ڈیوائس) میں دھماکہ خیز مواد پہنچانے میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ تھا۔ پیجرس کے دھماکوں سے پھٹنے کے باعث 35سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اس رپورٹ کے بعد معروف مصری-امریکی طنزیہ نگار،کامیڈین اور ٹیلی ویژن میزبان باسم یوسف نے 18 ستمبر کو ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا: ’’ایک ملک کی سنک، روزمرہ کے ڈیوائسز جیسے کہ ان کے فون ، ان کے بچوں کے ٹیبلیٹ ، یہاں تک کہ ان کے سیکورٹی ڈیوائس بھی ٹائم بم میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ تم جیت گئے اسرائیل۔ کوئی ایک سیاست داں یا دیر رات کا کوئی شو اس پر بات نہیں کررہا ہے؟ اس میں کچھ بھی نیوز کے لائق نہیں؟ ۔۔پورا ملک سچ مچ یرغمال ہو گیا ہے، پوری دنیا یرغمال بن گئی ہے‘‘۔
دوسری جانب یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا کے ایک حلقہ نے اسرائیل میں میڈیا کے منظرنامہ پر غیرملکی ٹکنالوجی کمپنیوں کے غلبہ پر ریگولیٹرز اور وزارت اطلاعات سے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اظہار رائے کی آزادی اور مقامی مواد کی بقا کو خطرہ ہے۔ ایک امریکی عدالت نے حال ہی میں کہاہے کہ آن لائن سرچ میں گوگل کی اجارہ داری ہے، جس کے بہانے اسرائیل کے چنندہ آن لائن میڈیا اداروں، ریڈیو اسٹیشنوں اور کمرشیل ٹی وی چینلوں نے حکام کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ غیرملکی ٹکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی بازار پر قبضہ کررہی ہیں، جس سے اسرائیلی میڈیا انڈسٹری کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا۔
وزارت اور حکام کے نام اپنے تحریری احتجاج میں میڈیا اداروں نے کہا کہ اسرائیلی مواد ثقافتی اور لسانی پہلوؤں سے منفرد ہے۔ غیرملکی ٹکنالوجی کمپنیوں کے برعکس اسرائیلی میڈیا مقامی ضوابط، رازداری قوانین اور صحافتی اخلاقیات کے تابع ہے اور اسرائیل کے میڈیا انفراسٹرکچر کا تحفظ اسرائیل-حماس جنگ جیسے بحران کے وقت اور بھی ضروری ہے۔ان میڈیا اداروں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ غیرملکی پلیٹ فارموں پر اسرائیل کو نشانہ بنانے والا مواد شائع کیا جارہا ہے ، جب کہ اسرائیل کی حمایت والا مواد الگورتھم کے ذریعہ دبایا اور ہٹایا جارہا ہے۔
فرضی اسٹوریز پر صحافیوں کا استعفیٰ
لندن کے ہفت روزہ اخبار ’’جیوش کرونیکل‘‘ کے تین کالم نگاروں نے اس بات پر اخبار سے قطع تعلق کا اعلان کردیا کہ اخبار نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر مبینہ طور پر فرضی اسٹوریاں شائع کیں ۔بی بی سی کی 15 ستمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق جیوش کرونیکل کے ایک فری لانس صحافی ایلن پیری نے کئی متنازعہ مضامین لکھے جن میں اس نے فرضی دعوے کیے۔ مثال کے طور پر ایک مضمون میں پیری نے دعویٰ کیا کہ ایک دستاویز سے اسے پتہ چلا کہ حماس رہنما یحیٰ سنور خود کو اور کچھ یہودی یرغمالوں کو چوری چھپے غزہ سے باہر نکال کر غزہ-مصر سرحد پر فلیڈلفی کوریڈور کے راستے ایران لے جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں ۔
یہ دعویٰ اسرائیلی حکومت کے بیانیہ کے عین مطابق ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ان الزامات سے مماثلت رکھتا ہے جس کی بنیاد پر وہ فلیڈلفی کورویڈور میں اسرائیلی فوج کی موجودگی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا نے پیری کے مضمون کے بعد اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی مضامین شائع کیے اور اسے نیتن یاہو کے بیٹے نے بھی شیئر کیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی فوج نے پیری کے مبینہ دستاویز سے واقفیت ہونے سے انکار کیا ہے۔
جیوش کرونیکل سے احتجاجاً استعفیٰ دینے والے تین صحافیوں میں سے ایک فریڈ لینڈ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’’ جیوش کرونیکل اکثر و بیشتر ایک جانب دار اور نظریاتی آلہ کار کے طور پر کام کرنے والا اخبار نظر آتا ہے۔ اس کے فیصلے صحافتی اصولوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں‘‘۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024