نبی کریمﷺ کی زندگی کا سیاسی پہلو

سیاست، تدبر اور ریاست حضورؐ کی سیرت کا اہم حصہ

جاویدہ بیگم ورنگلی

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مسلمان پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی ذات گرامی سے بے انتہا محبت رکھتے ہیں۔ آپؐ کی عزت و عظمت کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ آپؐ جیسی عظیم ہمہ گیر شخصیت کو صرف پند و نصائح وعظ و تلقین صلح عبادات فقر و فاقہ دنیا اور سامان دنیا سے بالکل پرہیز کرنے والی ہستی سمجھتے آرہے ہیں ۔ اس لیے ہمارا مطالعہ اور آپؐ کے اخلاق تک ہی محدود رہتا ہے۔ بڑے پر سوز انداز میں آپؐ کی عبادت کا ذکر کیا کرتے ہیں کہ آپؐ پوری رات اللہ کے سامنے کھڑے رہتے کہ آپؐ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا۔ آپؐ کے گھر میں مہینوں چولہا نہیں سلگتا تھا۔ آپؐ کی زندگی کوسیاست سے اس طرح الگ کرکے رکھ دیا گیا ہے گویا کہ آپؐکا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا ہو جبکہ حضورؐ کی سیرت مبارکہ کا بڑا اور اہم حصہ یہ ہے کہ آپؐ نے باطل قوتوں کو سرنگوں کیا۔ قلیل سی مدت میں دس لاکھ مربع میل کے رقبے پر کم سے کم جانی نقصانات کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ ابتدا ہی سے ایک حکومت کا قیام آپؐ کے پیش نظر رہا۔ ایک وقت آپؐنے قریش کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ اس کلمے کو قبول کرو جس کو میں پیش کررہا ہوں تو عرب و عجم تمہارا ہوگا۔ یہ عرب و عجم کے اقتدار کا چرچا اتنا ہوگیا تھا کہ اس کو طنزیہ طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ غریب مسلمانوں کی طرف اشارہ کرکے کہا جاتا تھا کہ یہ ہیں عرب و عجم کے سردار و حکمراں۔
سیاست، تدبر اور ریاست حضورؐ کی سیرت کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہی حصہ انسانی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی حصے کو آپؐ کی زندگی سے الگ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ آپؐ کی سیاست کا روشن ثبوت وہ معاہدہ ہے جو آپؐ نے یہود اور اوس وخزرج اور دوسرے قبائل کے ساتھ کیا تھا۔ ایک اجنبی شخص کا ایک بالکل نئے ماحول میں اجنبی لوگوں میں جاکر متضاد عناصر کو ایک سیاسی وحدت بنادینا کوئی آسان کام نہیں ہے جبکہ مذہبی اختلافات موجود ہوں۔ یہ معاہدہ جس کی نوعیت در حقیقت ایک باقاعدہ تحریری دستور کی ہے اس کو بجا طور پر دنیا کا پہلا دستور کہا جاسکتا ہے۔ اس دستوری معاہدہ سے باضابطہ طور پر اسلامی ریاست یااسلامی نظام حیات کی تاسیس واقع ہوئی۔ یہ دستور جو 52نکات پر مشتمل ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔ سیاسی قانونی اور عدالتی اختیارات آپؐ کے ہاتھ میں ہوں گے اور دفاعی لحاظ سے بھی مرکزی فیصلہ کن اختیار حضورؐکو حاصل ہوگا۔ اگر کوئی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہوجائے جس میں فساد کا خوف ہوتو اس میں خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کو قطعی سمجھا جائے گا ۔ اس معاہدے پر مدینہ کے سب گروہوں کے دستخط ہوئے آپؐنے کوشش کی کہ آس پاس کے قبائل کے بھی اس پر دستخط ہوں چنانچہ چند دیگر قبائل نے بھی دستخط کرکے اس مدنی قوت کی پناہ حاصل کرلی۔ دفاعی لحاظ سے مدینہ اس کے نواح کی آبادی کے لیے ایک قوت بن گیا۔
ہجرت کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری کا تھا اس کو اس طرح حل کیا کہ ایک ایک مہاجر کا ایک ایک انصاری کے ساتھ برادرانہ رشتہ قائم کیا۔ مدینہ کے داخلی نظم کو مستحکم کرنے کے بعد آپ ؐنے گردو نواح کے قبائل کی طرف توجہ دی۔ آپؐنے بہ نفس نفیس ان قبائل کے پاس جاکر معاہدات کیے۔ ان معاہدات نے دعوت اسلامی کے راستے کھول دیے اور تحریک کے علمبردار حامی پیدا ہوئے۔
حلیفانہ تعلقات قائم کرنا آپؐ کی سرگرمیوں کا اہم ترین شعبہ تھا۔ مدینہ پہنچنے کے چھ ماہ بعد آپؐنے اسلامی ریاست کا نشان ایک پرچم بھی تیار کیا جو سب سے پہلے عبداللہ بن حارث کو عطا کیا گیا تاکہ اس کو دشمنوں کے مقابلے میں بلند کریں۔ اور طلایہ گردی کا نظم قائم کیا ،خبر رسانی کا موثر انتظام کیا۔ اس کام کو آپ نے افواہوں اور چلتی پھرتی سنی سنائی باتوں پر نہیں چھوڑا بلکہ آپؐ نے اس کا موثر اہتمام کیا۔ آپؐ نہ صرف دشمنوں کی خبروں سے خود آگاہ رہتے تھے بلکہ دشمن کو بے خبر رکھنے کا بھی بہت اعلیٰ موثر انتظام فرماتے تھے۔ جب جنگ خندق کے موقع پر قریش جو بڑی تعداد میں حملہ آور ہوئے تھے اسی زمانے میں حضورؐ عرب کے شمالی حصے دومة الجندل کی طرف گئے ہوئے تھے۔ آپؐکے سراغ رسانوں نے آپؐ کو قریش کے ارادوں سے آگاہ کیا تو آپؐ آدھے راستے سے ہی واپس تشریف لے آئے اور قریش کے لشکر پہنچنے سے پہلے ہی جنگ خندق کی تیاریاں مکمل کرلیں۔ یہ آپؐکی نظام سراغ رسانی کا بہت اعلیٰ نمونہ ہے۔ دوسری طرف اپنی نقل و حرکت سے دشمن کو بے خبر رکھنے میں بھی آپؐ کو کمال حاصل تھا۔ جب آپؐ نے فتح مکہ کا پروگرام بنایا تو کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ آپؐ کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں مکہ جانے کا عام راستہ بھی اختیار نہیں کیا۔ آپؐ مکہ پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ مکہ والوں کو خبر تک نہ ہوئی۔ تین سو میل کا راستہ طے کرکے اسلامی فوج اچانک ان کے سر پر پہنچ گئی۔ جب فوج خیمہ زن ہوئی آپؐکی ہدایت کے مطابق ہر سپاہی نے الگ الگ آگ جلائی پوری وادی روشن ہوگئی تب ان کو پتہ چلا ساتھ ساتھ ان کو یہ احساس بھی ہوا کہ بہت بڑا لشکر ان پر حملہ کرنے آیا ہوا ہے۔
قیصر روم کی تیاریوں اور اس کے حملے کی خبر ملی تو آپؐفوراً ہی تیاری کرکے تبوک کے مقام پر پہنچ گئے۔ ہرقل اسلامی لشکر کی اتنی سرعت رفتار اور مقابلے کی تیاری و جرات کردار دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ چنانچہ اس نے مصلحت اس میں سمجھی کہ مقابلہ کرنے کے بجائے طرح دے جائے۔
دشمنوں کے حرکت میں آنے سے پہلے ان کا استقبال یہ حکمت عملی بہت نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ یہ آپؐ کی سیاسی حکمت عملی ، زبردست قوت فیصلہ و جرات و دانش مندی کا ثبوت ہے۔ آپؐ نے اپنے بہت سے دشمنوں کا استقبال ہمیشہ بروقت اقدام بروقت فیصلہ فوری کارروائی سے کردیا۔ جنگی کارروائیوں میں آپؐکی بے مثال شجاعت ناقابل شکست اور غیر متزلزل یقین محکم کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ جنگ احد اس کی عمدہ مثال ہے۔ جنگ احد میں دشمن کو واضح غلبہ ہوا تھا۔ اپنے سالار فوج محمد ﷺ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ صحابہ کرام زخمی اور پریشانی کا شکار تھے۔ اس وقت اسلامی فوج میں بے سرو سامانی جس درجے کی تھی اس حالت میں فاتح دشمن پتہ نہیں کس وجہ سے لڑائی کو انتہا تک پہنچائے بغیر مکہ لوٹ گیا تھا اس فاتح دشمن کا تعاقب کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونا کہ دشمن لوٹ کر نہ آئے اس کو شجاعت سے بڑھ کر سیاسی حکمت عملی، دانش مندانہ اقدام کہا جاسکتا ہے۔ آپؐنے زخموں سے نڈھال ہوکر بھی ہمت نہیں ہاری بلکہ ایک فاتح کی طرح فاتح دشمن کا تعاقب کیا۔ یہ ایک ایسی جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ ہے جس کے بعد دشمن کے لیے ممکن نہیں رہ گیا تھا کہ پلٹ کر دوبارہ حملہ کرے۔ آپؐکے اس دانشمندانہ اقدام سے آس پاس کے قبائل پر بھی مسلمانوں کا رعب طاری ہوا کہ مسلمان پوری قوت و بہادری کے ساتھ اپنے دشمن کا سرکچل سکتے ہیں۔
حضورؐکی جنگی حکمت عملی میں دشمن کی نقل و حرکت اس کی سرگرمیوں‘ تیاریوں، ارادوں سے بروقت آگاہی ان کے حلیفوں اور معاہدوں پر کڑی نظر رکھنا بدرجہ اولی شامل تھا۔ اس طرح حضورؐنے اندرونی دشمنوں کا ہمیشہ بروقت نوٹس لیا۔ جس معاہد قبیلے نے معاہدہ شکنی کی اس کو اس کی سزا دی۔ یہودیوں کی سازشوں سے باخبر ہوکر ان کی غداری کی پوری سزا دی مدینہ کوان کے فتنے سے محفوظ کیا۔
آپؐ ہمیشہ جنگ کے موقع پر بڑی حکمت عملی اختیار کرتے تھے۔ جنگ بدر کے موقع پر آپؐپہلے پہنچ کر ایک اونچی جگہ پر جہاں پانی تھا قیام فرمایا اور دشمن ڈھلوان میں اپنی جگہ پر پڑاو ڈالنے پر مجبور ہوا۔ اتفاق سے بارش ہوئی ، بارش کا پانی مسلمانوں کے پہلے سے بنائے ہوئے حوض میں جمع ہوگیا اور قریش کی فوج کی طرف پانی بہنے سے ریت دلدلی ہوگئی جس سے فوج کے نقل و حرکت میں دشواری ہوگئی۔ جنگ احد کے موقع پر آپؐنے پشت پر پہاڑ کو رکھا جو حضورؐکے دائیں بائیں پشت پر تھا اور کفار کو سامنے رکھا پھر جہاں سے کفار کے کسی دستے کے چکر کاٹ کر آنے کا خطرہ تھا وہاں تیر اندازوں کا ایک دستہ اس ہدایت کے ساتھ متعین کیا کہ وہ کسی حال میں اپنی جگہ نہ چھوڑے ۔ اس حکمت کے نتیجے میں وہ پہلے ہی ہلہ میں شکست کھاکر بھاگنے لگے اور اگر تیر انداز اپنی پوزیشن چھوڑ کر دشمن کے دستے کے لیے راستہ نہ بنادیتے تو قریش شکست کھاچکے تھے۔ آپؐکی لشکر آرائی کی حکمت گہری سوچ بچار موقع و محل کے مطابق ہوا کرتی تھی جس سے دشمن کو خود بخود کمزور پوزیشن اختیار کرنی پڑتی اور وہ بے بس ہوجاتا تھا۔ جنگ احزاب کے وقت جبکہ لشکر جرار کا حملہ تھا اس کوخندق سے روکا جو خندق پار کرنے کی کوشش کرتا ان کو تیروں سے روکا جاتا جس کے نتیجہ میں کوئی خندق کو پار نہیں کرسکا۔ فتح مکہ کے موقع پر بڑی راز داری برتی اور اس تیز رفتاری سے مکہ پہنچے کہ دشمن کچھ کرہی نہ سکا۔
آپؐکے مدنی دور کو مکمل سیاسی دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مدنی دور میں کل 82جنگی کارروائیاں ہوئیں ان میں 27جنگی مہمات میں آپؐخود شریک ہوئے باقی جنگی مہمات کسی نہ کسی کمانڈر کی سرکردگی میں روانہ کی گئیں۔ گویا اندازاً ہر ماہ آپؐکو کوئی نہ کوئی جنگی مہم درپیش رہتی تھی۔ مدنی دور ہر لمحہ چوکنا رہنے دشمن کا مقابلہ کرنے ہر وقت کمر کس کر رہنے سر ہتھیلی پر رکھ کر دشمنان اسلام کے خلاف مستعد وسرگرم رہنے کا عہد تھا اور مسلمانوں کے پاس مادی سر و سامان ہمیشہ اپنے دشمنوں سے کم ہی رہا۔ وہ آنحضورؐکی اخلاقی طاقت ، سیاسی حکمت عملی اور نصرت الٰہی ہی تھی جس کی بدولت آپؐنے دشمنوں کو زیر کیا۔
آپؐبعید ترین مستقبل کا پیشگی تصور رکھتے تھے۔ آپؐ کے سامنے ہر بات صاف اور واضح تھی کہ کس راستے سے گزر کر کدھر جانا ہے۔ آپؐ راستوں سے اندھا دھند نہیں گزرتے تھے حالات اور واقعات کی ایک ایک لہر پر آپؐکی نظر رہتی تھی۔ ہر واقعہ کو آپؐ نے قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھ دیکھا۔ معاشرہ کے جملہ عناصر پر توجہ دی۔ اپنی قوت اور طاقت کو حریفوں کی قوت اور طاقت کے مقابلے میں ملحوظ رکھا۔ اقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار کیا۔ جب موزوں وقت آگیا تو جرات کے ساتھ قدم اٹھایا ۔ مخالفین کے پروپگینڈے کا مقابلہ کرکے اس کے اثرات کو توڑا ۔ دشمن کے شعرا اور خطیبوں کے جواب میں اپنے شعرا اور خطیبوں کو کھڑا کیا۔ اصولوں کی پابندی کے وقت کی مصلحتوں کو سمجھا۔ ہر موقع پر حکیمانہ حکمت عملی اختیار کی۔ قدم بڑھانے کا موقع آیا تو قدم بڑھایا۔ قدم بڑھانا مناسب نہ سمجھا تو قدم روک لیا۔
صلح حدیبیہ میں آپؐ کی سیاسی بصیرت انتہائی کمال پر نظر آئی۔ درجہ اول کے دشمن برسر جنگ طاقت کو جن کے نزدیک آپؐکے ساتھیوں کا کوئی مقام و مرتبہ تھا نہ کوئی اہمیت تھی۔ آپؐ اور آپؐکے ساتھیوں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی توہین آمیز ہوتا تھا۔ ان دشمنوں کو مصالحت پر آمادہ کرنا معمولی بات نہیں تھی مصالحت کرنے یامعاہدہ کرنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مقابل کی اہمیت کو تسلیم کرنا گویا ان کو اپنے برابر کا درجہ دینا ہے۔ اس صلح نے وہ راستہ بنادیا جس پر چل کر اسلامی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ مکہ میں آپؐ کا داخلہ فاتحانہ شان سے ممکن ہوا۔ اس لیے قرآن نے اس معاہدہ کو فتح مبین کہا ہے۔
یہ آپؐ کی سیاسی حکمت عملی تھی کہ آپؐ چھوٹے دشمنوں کے بعد بڑے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا تدریجی سلسلہ جاری رکھا۔ ایک وقت میں دو محاذ جنگ نہیں کھولے۔
یہ آپؐکی سیاسی حکمت عملی تھی کہ اسلام کی قوت قلیل اور وسائل محدود ہونے اور بہت سے دشمنوں کا نشانہ بننے کے باوجود اپنے سارے دشمنوں کو باری باری شکست دے کر اپنے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے جبکہ ہر جنگ میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں سے کم رہی ہے۔ یہ آپؐکی سیاسی حکمت عملی کا اعجاز ہے کہ عرب جیسے ملک میں جو اپنی پوری تاریخ میں لڑائی جھگڑوں کا اکھاڑا بنا ہوا تھا وحدت و مرکزیت سے آشنا نہیں تھا، ان کو اس طرح جوڑا کہ پوری قوم بنیان مرصوص بن گئی۔
آپؐ کی قیادت کا خاص پہلو یہ ہے کہ اپنی زندگی میں انسانوں کی ایک بے نظیر ایسی جماعت تیار کی جس نے آپؐکے وفات کے بعد قلیل مدت میں آپؐکے لائے ہوئے پیغام کو تین براعظموں تک پہنچادیا۔ آپؐ قیادت کے اعلیٰ ترین صفات رکھتے تھے۔ انسانوں سے معاملہ ان کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر کیا کرتے تھے۔ آپؐایک عملی قائد تھے۔ آپؐ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ آپؐکے سیاست کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو دین سے الگ نہیں کیا۔ سیاست کو دین میں ایسا شامل کیا جیسا عبادات شامل ہیں کیونکہ سیاست کے بغیر حکومت الہیہ کا قیام ممکن ہی نہیں جس طرح آپؐ کی زندگی قرآن کی عملی تفسیر ہے اسی طرح آپؐ کی قائم کردہ حکومت بھی ایک نمونہ ہے جس کو اسلام کے اصولوں کے بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور ایسی حکومت کا قیام جو انسانوں کے درمیان برسوں سے پیدا شدہ اونچ نیچ کو ختم کرکے اولاد آدم کو ایک خاندانی برادرانہ سطح پر لائے۔ نسل کا غرور قبیلے کا زعم زبان کی برتری رنگ کی سفیدی کے غرور ختم کرکے ایک اللہ کا بندہ بنانا۔ ان کو اخلاق حمیدہ کا پیکر بنانا۔ انسان کے ظاہر ہی کو نہیں اس کے باطن کو بدلے اس کے معمولات ،دلچسپیوں ،مصروفیتوں کو اور اس کے ذوق و شوق کو بدلے ، معاشی معاشرتی اخلاقی زندگی میں ایک انقلاب عظیم برپا کرے کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ کام صرف دعاوں سے بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے سے ہونے والا نہیں تھا۔ یہ کام ماہر سیاست داں ہی انجام دے سکتا تھا۔ آپؐمیں وہ ساری خوبیاں موجود تھیں جو ایک ماہر سیاست داں میں ہوتی ہیں جس طرح کسی اور پہلو میں کوئی آپؐ کا ہمسر نہیں ہوسکتا اس طرح قائدانہ بصیرت اعلیٰ درجے کے سیاسی شعور میں بھی کوئی آپؐکا ہمسر نہیں ہوسکتا۔ جس طرح زندگی کے ہر معاملے میں آپؐ کا اسوہ نمونہ ہے اس طرح سیاسی امور میں بھی آپؐ کا اسوہ نمونہ ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022