فساد سے داغ دار مظفرنگر سے ہندو۔ مسلم اتحاد کا پیغام

کسان مہا پنچایت نے نفرت کا ایجنڈا مسترد کردیا۔ فرقہ واریت کو بے اثر کرنے کی کوششیں امید افزا

افروز عالم ساحل

تاریخ 27 اگست 2013… مظفر نگر کا کوال گاؤں… یہاں ایک بائیک اور سائیکل کی ٹکر ہوتی ہے۔ بحث وتکرار اس حد تک بڑھتی ہے کہ ہاتھا پائی کی نوبت آجاتی ہے۔ دو نوجوانوں گورو اور سچن کی جانب سے شاہنواز کو چاقو مار دیا جاتا ہے۔ زخمی شاہنواز کچھ ہی دیر میں دم توڑ دیتا ہے جس کے بعد بھیڑ کے ذریعے ان دونوں نوجوانوں کو وہیں پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے۔

مبینہ طور پر اس واقعے کے بعد یہاں 7 ستمبر 2013 کو ایک پنچایت ہوئی اور پھر مظفرنگر میں جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بائیک-سائیکل کی ٹکر کو ایسا رنگ دیا گیا کہ پورا ضلع بے گناہوں کے خون سے سرخ ہو گیا۔ 68 لوگ مارے گئے۔ 50 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے اور ہزاروں لوگ امدادی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

اس واقعہ کے آٹھ سال بعد ایک بار پھر اسی مظفرنگر میں کسانوں کی ایک مہاپنچایت ہوتی ہے۔ اسٹیج سے ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور جاٹ-مسلم اتحاد کی بات ہونے لگتی ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مظفرنگر مہاپنچایت میں اسٹیج سے لگایا گیا نعرہ صرف دکھانے کے لیے تو نہیں تھا؟ چنانچہ راقم الحروف نے اس سلسلے میں مظفرنگر کے کئی صحافیوں اور سماجی کارکنوں سے بات چیت کی۔

مظفرنگر کے صحافی آس محمد کیف کا کہنا ہے کہ آج سے آٹھ سال قبل اسی کسان یونین کی پنچایت کے بعد یہاں فساد بھڑک اٹھا تھا، لیکن آج آٹھ سال بعد اسی کسان یونین نے مہاپنچایت کے لوگوں کے دلوں میں جو تھوڑی بہت نفرت رہ گئی تھی اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ در اصل یہ مہاپنچایت آٹھ سال پرانے داغ کو دھونے کے لیے ہی منعقد ہوئی تھی۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہاں حالات اب بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کسان تحریک نے جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود فرقہ پرست طاقتیں کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ مہاپنچایت سے ایک دن پہلے للن ٹاپ کا ایک رپورٹر اپنی اسٹوری شوٹ کر رہا تھا کہ ایک لڑکا مُلا کہہ کر چلایا۔ تبھی جاٹ نوجوان اس کو پکڑ کر الگ لے گئے اور تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس طرح مخاطب نہ کرے۔

نیوز لانڈری سے منسلک صحافی اودھیش کمار ان دنوں کسان تحریک اور خاص طور پر مظفر نگر کے کسانوں کی رپورٹنگ کر رہے ہیں، ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ اس مہاپنچایت سے قبل ایک کسان پنچایت میں مَیں نے نریش ٹکیٹ سے مظفرنگر فساد سے متعلق سوالات پوچھے تھے تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ اس وقت ہم سے غلطیاں ہوئی تھیں۔ بی جے پی لیڈروں کے چکر میں آکر ہم سے اس طرح کی حرکتیں ہو گئیں۔ وہ ہماری سب سے بڑی بھول تھی۔ اب آگے کی لڑائی ہم مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔

کیا ایسی کوشش مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو رہی ہے، آپ نے اس پر کچھ محسوس کیا؟ اس پر وہ کہتے ہیں، جی بالکل! میں نے مظفر نگر کے کئی ان مسلمان کسانوں سے بھی بات چیت کی جن کا فساد میں کافی نقصان ہوا تھا۔ ان کا بھی کہنا تھا کہ پہلے ہم کسان ہیں اور ماضی کی تمام باتیں بھول کر ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ ہیں۔

اودھیش کمار بتاتے ہیں کہ میں اپنی رپورٹنگ کے دوران مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ نفرتوں کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔ دونوں طبقوں میں جو دوریاں بڑھی تھیں اس کو پاٹنے کی کوشش دونوں طرف سے لگاتار ہو رہی ہیں۔ اس مہاپنچایت میں مسلمانوں نے باہر سے آئے کسانوں کی دل کھول کر خدمت کی۔ کھانے پینے سے لے کر ان کو گھروں اور مسجدوں میں ٹھہرانے تک کا انتظام کیا۔ اور اب ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ نعرہ کے بعد طے ہو گیا ہے کہ کم از کم کسان مسئلے پر آگے کی لڑائی میں دونوں طبقے ایک ساتھ رہیں گے۔

سماجی تنظیم ایکشن ایڈ کے کارکن قمر انتخاب کہتے ہیں، میں گزشتہ تین سال سے دیکھ رہا ہوں کہ آپسی اتحاد کے لیے بہت ساری کوششیں ہوئی ہیں۔ چودھری اجیت کی کوشش کافی اہم تھی۔ اب کسان یونین کی اس مہاپنچایت نے ایک اچھا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لوگ اب فساد کو بھول چکے ہیں۔ تھوڑی بہت دل میں جو خلش تھی وہ بھی اس کسان تحریک کی وجہ سے ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس تحریک میں شروع سے ہی دونوں طبقوں کے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ قمر انتخاب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے فارغ التحصیل اور مظفرنگر کے رہنے والے ہیں۔

متھرا سے تعلق رکھنے والے ہوتیلال شرما گزشتہ ۴۴ سالوں سے مظفرنگر میں رہ رہے ہیں۔ پہلے یہاں وکالت کی، پھر جوینائل مجسٹریٹ بنے اور گاندھی ونوبہ کے خیالات پر کام کر رہے ہیں۔ فی الحال ’آچاریہ کل‘ نامی تنظیم سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ یہاں دو طبقوں کے درمیان اگر دوریاں بڑھی ہیں تو اس میں قصور سماج کا نہیں ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ یہاں کا سماج پہلے بھی مل جل کر رہ رہا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ آگے بھی مل جل کر ہی رہنا چاہتا ہے۔ مظفرنگر کی زمین پر اچھا سوچنے والے لوگ بھی کم نہیں ہیں۔ ہم اب اس مٹی کی ہم آہنگی کو بگڑنے نہیں دیں گے۔

ایڈووکیٹ اکرم اختر کہتے ہیں کہ مظفرنگر فساد ایک بری یاد تھی اور بری یادوں کو لوگ ویسے بھی یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ لیکن یہ کہنا کہ یہاں پوری طرح سے اتحاد قائم ہو گیا ہے، صحیح نہیں ہو گا۔ ابھی کسان تحریک کے بہانے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے کئی سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ جتنا منچوں یا سوشل میڈیا پر جو نظر آرہا ہے وہ بہت حد تک گراؤنڈ پر نہیں پایا جاتا۔ ابھی بھی چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جاٹ اور مسلمان کچھ حد تک قریب ہوئے ہیں۔

پہلی بار 1857 میں لگا تھا یہ نعرہ

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کا نعرہ پہلی بار 1857 میں لگا تھا۔ اس سال جب میجر ہیوسٹن نے منگل پانڈے کے خلاف فیصلہ سنایا اور فوراً ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا تب اس حکم کے خلاف وہاں موجود فوجیوں نے ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس کے بعد جوش میں آکر منگل پانڈے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں بندوق لے کر ہیوسٹن پر جھپٹے اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد ان کا نشانہ لیفٹیننٹ ہنری بنے۔ اس طرح اس وقت ایک ساتھ دو انگریز افسروں کی جان گئی۔ منگل پانڈے گرفتار کر لیے گئے۔ اس کے بعد 1857 میں ہونے والے غدر سے پوری دنیا بخوبی واقف ہے۔ تب ہر جگہ ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے ساتھ ساتھ لگائے گئے۔ اس طرح سے 1857 کی یہ آزادی کی پہلی جنگ بنی۔

اس کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ یہ نعرہ 1987 میں غلام محمد جولا نے دیا۔ غلام محمد ابھی باحیات ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں بتایا کہ 1987 میں شاملی میں تحریک چلی تھی اس میں دو لڑکے شہید ہوئے تھے۔ ایک کا نام جئے پال اور دوسرے کا نام اکمل تھا۔ ہم ان دونوں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر مظاہرہ کر رہے تھے۔ اسی مظاہرہ کے دوران میں نے ’ہر ہر مہادیو‘ کا نعرہ لگایا، ساتھ چودھری صاحب (مہندر سنگھ ٹکیٹ) نے ’اللہ اکبر‘ کی صدا بلند کی۔ انہی غلام محمد جولا نے راکیش ٹکیٹ سے پہلے 17 اگست کو مظفر نگر کے سیسولی میں منعقدہ پنچایت میں پھر سے یہ نعرہ بلند کیا جس کا ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا ہے۔

غلام محمد جولا مہندر سنگھ ٹکیٹ کے خاص دوست رہ چکے ہیں۔ تقریباً 27 سال بھارتیہ کسان یونین میں ساتھ ساتھ رہے۔ 2011 میں مہندر سنگھ ٹکیٹ چل بسے لیکن غلام محمد جولا بھارتیہ کسان یونین کے ساتھ وابستہ رہے۔ 2013 کے فساد کے بعد ان کے رشتے میں دراڑ آئی اور دوریاں بڑھ گئیں اور غلام محمد جولا نے الگ ہو کر اپنی تنظیم ’بھارتیہ کسان مزدور منچ‘ قائم کر لی۔ اب غلام محمد جولا دوبارہ بھارتیہ کسان یونین کے ہر منچ پر نظر آنے لگے ہیں اور یہ نعرہ بھی پھر سے زندہ ہوگیا ہے۔

راکیش ٹکیٹ نے مظفرنگر مہاپنچایت کے منچ سے یہ اعلان کیا کہ ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے پہلے بھی لگتے تھے اور آگے بھی لگتے رہیں گے۔ یہاں اب فساد نہیں ہوگا۔ یہ توڑنے کا کام کرتے ہیں، ہم جوڑنے کا کام کریں گے۔

مظفرنگر میں ماحول بگاڑنے کی مسلسل کوششیں

مظفرنگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ماحول کو بگاڑنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ابھی تک فرقہ پرست طاقتیں اس میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ تازہ معاملہ 10 ستمبر کا ہے۔ ضلع شاملی کے قصبہ بنات میں 24 سال کے سمیر کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ علاج کے لیے مظفر نگر لے جانے کے دوران راستے میں ہی سمیر کی موت واقع ہو گئی۔ اس واردات کے بعد علاقے میں تناؤ ہے لیکن یہاں کے مقامی لوگوں نے اس معاملے کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ مقتول کے چچا عادل نے خود سامنے آکر بتایا کہ حملہ آوروں نے پرانی رنجش کے سبب اس واردات کو انجام دیا ہے۔ ملزم نوجوان غنڈہ گردی کرتے ہیں، جن میں سے دو حال ہی میں جیل سے باہر آئے ہیں۔ پولیس نے مقتول کے چچا کی تحریر پر 8 لوگوں کے خلاف قتل کا کیس درج کرلیا ہے۔

12 ستمبر کو بھی یہاں ایک بار پھر سے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ الزام ہے کہ مظفرنگر کے قصبہ کھٹولی میں بی جے پی کے ضلع پنچایت کے ایک رکن کو دوسرے طبقے کے لوگوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ اس الزام کے بعد ایک بار پھر یہاں بی جے پی کارکنوں نے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی لیڈروں نے پولیس سے ملزمین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

مہاپنچایت کے دن یعنی 6 ستمبر کو مظفرنگر کے جولا گاؤں میں ایک مندر کے سامنے گوشت پھینک کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی، بھاری تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ بی جے پی کے کئی لیڈر بھی وہاں پہنچ گئے، لیکن یہاں کے مقامی لوگوں کی سوجھ بوجھ سے ماحول بگڑنے سے بچ گیا۔

دراصل گوشٹ پھینک کر بھاگتے ہوئے ایک شخص کو بھیڑ نے پکڑ لیا۔ اس طرح سے ایک بڑی سازش ناکام ہو گئی۔ اس معاملے میں پولیس نے چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے، ان کے نام راکیش، کوسوم، راجیش اور انارکلی ہیں۔ یہ چاروں ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ بی جے پی کے حامی ہیں۔

ماحول خراب کرنے کی کوشش میں یہاں کے اخبارات بھی برابر کے شریک ہیں۔ مظفر نگر فساد کی آٹھویں برسی کے موقع پر اخبارات نے فساد کی یادوں کو پھر سے تازہ کرنے کی کوشش کی۔

 

***

 اس مہاپنچایت میں مسلمانوں نے باہر سے آئے کسانوں کی دل کھول کر خدمت کی۔ کھانے پینے سے لے کر ان کو گھروں اور مسجدوں میں ٹھہرانے تک کا انتظام کیا۔یکجہتی کے نعروں سے یہ طے ہوگیا کہ کم از کم کسان مسئلے پر آگے کی لڑائی میں دونوں طبقے ایک ساتھ رہیں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021