متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا نظام

امت مسلمہ کی بقاء اور ترقی کا راز اجتماعی زندگی کے فروغ میں مضمر

مجید الدین فاروقی

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف ضروریات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے وہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ انسان جب بچہ ہوتا ہے تو اپنی بقاء کے لیے مکمل طور پر دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے ضعف کی انتہاؤں پر ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی ابتداء اس کی ماں کے تعاون سے ہوتی ہے۔ یہ ماں ہی ہے جو اس کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اسے زندگی کی ابتدائی دوڑ میں شامل ہونے کی طاقت دیتی ہے۔ اسی طرح انسان کے ہر مرحلے پر اسے دوسرے انسانوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے جسم کی بھوک تبھی مٹ سکتی ہے جب کوئی کسان اناج اگاتا ہے اور ہماری بیماریوں کا علاج تب ممکن ہو پاتا ہے جب کوئی طبیب ان کا علاج کرتا ہے۔ یہ تمام پہلو اس بات کی غماز ہیں کہ انسان کی اجتماعی زندگی باہمی تعاون کی متقاضی ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت کر دی گئی ہے کہ وہ اجتماعیت میں رہنا پسند کرتا ہے، اور اسے نوع انسانی سے محبت اور انسیت ہوتی ہے۔ ہر دور اور ہر مقام پر انسانوں کی اجتماعیت ایک فطری حقیقت رہی ہے، اور یہ اجتماعیت ہی انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔
اسلام ایک فطری دین ہے جو انسان کی فطرت اور اس کی ضروریات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس بات کی واضح تشریح ملتی ہے کہ اجتماعیت انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس پر بھرپور توجہ دی گئی ہے۔ اسلام کے مطابق فرد کی اصلاح اور اس کی آخرت کی کامیابی کا مقصد صرف انفرادی ترقی نہیں بلکہ اجتماعی تعاون اور ذمہ داری ہے۔ آخرت کی کامیابی کے لیے انسان کو اپنی اجتماعیت کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کی شرط یہ رکھی ہے کہ انسان اپنے والدین، اہل و عیال، دوست احباب، پڑوسیوں اور سماج کے حقوق ادا کرے۔ اس طرح اجتماعیت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کا تعلق انسان کی آخرت کی فلاح سے ہے۔ اس حقیقت کو قرآن و حدیث میں بار بار بیان کیا گیا ہے:
1- اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
"میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کا ساتھ دینے، امیر کے احکام کو سننے اور اس کی اطاعت کرنے، ہجرت کرنے اور جہاد فی سبیل اللہ کرنے۔” (ترمذی)
2- "جو شخص ‘الجماعت’ سے بالشت بھر بھی الگ رہا، اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا۔” (ترمذی)
3- "جس نے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔” (مسلم)
4. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اللہ کو تو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں، گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔” (سورہ صف۔4)
اسلام مسلمانوں کو ایک متحد، منظم، اور نظم و ضبط سے جڑے ہوئے معاشرے کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان دنیا میں بے مقصد، بے ہنگم اور انتشار کا شکار نہ ہوں، بلکہ ان کی اجتماعیت قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک مقصد کی طرف مجتمع ہو۔ اس اجتماعیت کا مقصد، انسان کی فلاح اور دنیا میں عدل کا قیام ہے۔
اجتماعی زندگی کی اہمیت اور اسلام میں اس کا مقام
اسلام میں عبادات بھی اجتماعیت کی روح سے مزین ہیں۔ سب سے اہم عبادت نماز ہے جو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے اور نظم و ضبط کی مشق کرواتی ہے۔ نماز کی قبولیت اس بات پر موقوف ہے کہ وہ اجتماعیت کے ساتھ ادا کی جائے۔ اسی طرح روزہ، زکوٰۃ اور حج بھی اجتماعیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔
• نماز: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ایک مسلمان کی اجتماعی زندگی کی پہلی تصویر پیش کرتا ہے۔
• روزہ: رمضان میں مسلمان ایک مہینے تک اجتماعی طور پر روزہ رکھتے ہیں جو اتحاد اور تکافل کی علامت ہے۔
• زکوۃ: اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت اس بات کی غماز ہے کہ یہ ایک اجتماعی عمل ہے، جس میں مال دار افراد اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔
• حج: حج کی عبادت بھی عالمی اجتماعیت کی مثال ہے، جہاں مسلمان مختلف قوموں، رنگوں اور زبانوں سے بالا تر ہو کر ایک ہی مرکز پر جمع ہوتے ہیں، اور اپنے امیر کی اقتداء میں عبادت کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں اسلامی اجتماعیت کی ضرورت
موجودہ دور میں امت مسلمہ مختلف ملکوں، مسلکوں، اور فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر قوم اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلم امت کی عالمی اجتماعیت کا تصور ماند پڑ گیا ہے۔ یہ تقسیم اور انتشار امت مسلمہ کے لیے سنگین مسائل پیدا کرتا ہے۔ جب مسلمان کسی بھی خطے میں ظلم کا شکار ہوتے ہیں تو مختلف ممالک میں بٹی ہوئی امت اس ظلم پر آواز بلند کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
اس پس منظر میں مسلمانوں کو دوبارہ ایک عالمی اور متحد اجتماعیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں اور دنیا میں عدل کا قیام کر سکیں۔
اجتماعیت کے فوائد
اجتماعی زندگی انسان کو انفرادی طور پر بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اجتماعیت میں فرد کو اپنے اعمال کی اصلاح کا موقع ملتا ہے اور وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اس کے برخلاف، انفرادی زندگی انسان کو خود غرض بناتی ہے اور وہ اپنے مفادات کو اجتماعی مفادات پر مقدم رکھتا ہے۔
اجتماعیت کے لوازمات
1- مسلمانوں کی کسی بھی اجتماعیت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نزدیک مقصد صرف اسلام کی دعوت، معروف کا قیام اور منکر کا ازالہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کی سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی بھی مقصود نظر رہے۔ ان ترقیوں کا حتمی مقصد بھی اسلام کی سربلندی ہونا چاہیے۔ کیونکہ امت مسلمہ چاہے کتنی ہی ترقیوں کے منازل طے کر لے، سیاسی میدان میں چاہے کتنی ہی قوت حاصل کر لے یا اقتدار تک بھی کیوں نہ پہنچ جائے یا معاشی طور پر مستحکم ہو جائے، لیکن اگر وہ دین اسلام کی تعلیمات سے غافل رہے اور اپنے مقصدِ وجود کو بھلا بیٹھے تو اس میں اور دنیا کی دیگر ترقی یافتہ قوموں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ جماعتوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے پیش نظر اعلیٰ مقاصد رکھتے ہوں اور ان کے حصول کے لیے واضح لائحہ عمل کے حامل ہوں۔ مقاصد کے تئیں تذبذب، شکوک و شبہات، مقاصد کی پستی، لائحہ عمل میں کوتاہی اور مقصد سے انحراف کسی بھی اجتماعیت کی تنزلی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی جماعتیں باصلاحیت اعلیٰ کردار کے حامل اور مخلص افراد کو اپنی طرف راغب کرنے کی کشش کھو بیٹھتی ہیں۔
2- اجتماعیت دینی اصولوں پر قائم ہونی چاہیے۔ اسلامی جمہوری اقدار ان کے نظم میں جاری و ساری رہنی چاہئیں۔ شخصی اغراض اجتماعیت کو اغوا نہ کرنے پائیں۔ بدنظمی اور انتشار سے یہ خود کو پاک رکھیں۔ وابستگان میں تعلقات کی سرد مہری، نیت کی خرابیاں، شخصیت پرستی کی خباثتیں، بدنظمی اور انتشار وہ کمزوریاں ہیں جو کسی پہاڑ جیسی اجتماعیت کو بھی بھوسے میں بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ سمع و اطاعت کی روح کو اجتماعیت میں پروان چڑھایا جائے۔ مؤثر، بامقصد اور بغرضِ اصلاح تنقید کی فضا کو پروان چڑھایا جائے۔ افراد میں شورائیت کے مزاج کی نشوونما ہونی چاہیے۔ شورائیت وہ قدر ہے جو افراد کو دل و دماغ کے ساتھ اجتماعیت سے جڑنے کے محرکات فراہم کرتی ہے۔ نبی ﷺ کی زندگی شورائیت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ آپ اللہ کے نبی تھے لیکن دین کے کاموں میں اپنے اصحاب سے ہمیشہ مشورہ کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایسا موقع بھی آیا جب آپ کی رائے کے بالمقابل آپ کے اصحاب کی رائے کو مقدم رکھا گیا۔ جہاں افراد کی آراء کو اہمیت نہ دی جاتی ہو، وہاں اجتماعیت پر جبر اور مطلق العنانیت کا غلبہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے اشخاص کی وابستگی صرف رسمی حد تک رہ جاتی ہے۔
ہندوستان میں امت مسلمہ مختلف مکاتبِ فکر میں منقسم ہے۔ مسلمانوں کی اصلاح اور دعوت و تبلیغ کے لیے یہاں مختلف جماعتیں عمل کے میدان میں کارفرما ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے مفادات کے لیے کوشاں ہیں اور سیاست کے گلیاروں میں مسلمانوں کی آواز کو اٹھاتی رہتی ہیں۔ دورِ حاضر کی شدید ضرورت ہے کہ ان تمام دعوتی، اصلاحی اور سیاسی کوششوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جائے۔ باہمی تعاون کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ فراخ دلی کے ساتھ جماعتوں کے ان اقدامات کو تسلیم کیا جائے اور ان کے احسن پہلوؤں کو دادِ تحسین سے نوازا جائے۔ جہاں نقائص نظر آئیں، وہاں خلوصِ نیت کے ساتھ اصلاح کی تگ و دو کی جائے۔ ہمارے مخاطبین ہندوستان کے ایک سو چالیس کروڑ عوام ہیں۔ ہمارے پیش نظر زندگی کے اصلاح طلب مختلف میدان ہیں، مثلاً ہم وطن بھائیوں تک اسلام کی دعوت، مسلمانوں کی دینی تربیت، نظامِ تعلیم، معیشت، معاشرت، قانون، عدالت، سیاست وغیرہ کی اصلاح۔ عمل کے یہ مختلف میدان جماعتوں کے مابین باہمی تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ تعاون اسی وقت ممکن ہے جب باہمی ہمدردی اور رواداری کے رویے کو فروغ دیا جائے۔ فروعی اختلافات کو پس پشت رکھ کر اصولوں کی بنیاد پر اتحاد کیا جائے۔ جماعتوں کے درمیان باہمی کشاکش اور فروعی مسائل پر جنگ و جدال کا رویہ افراد کو ان جماعتوں سے منحرف رکھنے کا باعث بن رہا ہے اور لوگ انفرادیت پسندی کو ہی تفریق کے اس فتنے سے محفوظ رہنے کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔
دورِ حاضر کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ امت انتشار اور بکھراؤ کا شکار ہے۔ امت کے افراد کو منظم، بامقصد اور صالح جماعتوں کی لڑی میں پرویا جائے۔ مسلمانوں کو ایک بامقصد گروہ بنایا جائے۔ ان جماعتوں کو دین اسلام کی روح سے زندگی مہیا کی جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اٹل قانون یہ ہے کہ انقلابات ہمیشہ اجتماعیت ہی کے ذریعے سے آیا کرتے ہیں۔ بے ہنگم بھیڑ کسی بھی صالح تبدیلی کا سبب نہیں بنتی۔ قوموں کی حیات اجتماعیت سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایک نازک ٹہنی کو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے لیکن اگر بے شمار ٹہنیوں کو منظم کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں توڑ نہیں سکتی۔
متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا نظام
منتشر ہوتو مرو، شور مچاتے کیوں ہو
***

 

***

 دورِ حاضر کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ امت انتشار اور بکھراؤ کا شکار ہے۔ امت کے افراد کو منظم، بامقصد اور صالح جماعتوں کی لڑی میں پرویا جائے۔ مسلمانوں کو ایک بامقصد گروہ بنایا جائے۔ ان جماعتوں کو دین اسلام کی روح سے زندگی مہیا کی جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اٹل قانون یہ ہے کہ انقلابات ہمیشہ اجتماعیت ہی کے ذریعے سے آیا کرتے ہیں۔ بے ہنگم بھیڑ کسی بھی صالح تبدیلی کا سبب نہیں بنتی۔ قوموں کی حیات اجتماعیت سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایک نازک ٹہنی کو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے لیکن اگر بے شمار ٹہنیوں کو منظم کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں توڑ نہیں سکتی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024